نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلدین کا قیاسی دین , حج کے مسائل


  غیر مقلدین کا قیاسی دین

حج کے مسائل

 کانٹے دار درختوں اورکانٹے دار گھاس کے کاٹنے کوموذی جانور کے جوازِ قتل پرقیاس

شیخ ابو عبد اللہ خالد بن عبد الناصر لکھتے ہیں:

            ’’ علمائے کرام نے موذی حیوان ( کے جوازِ قتل ) پر قیاس کرتے ہوئے کانٹے دار درختوں اور کانٹے دار گھاس کے کاٹنے کو جائزقرار دیا ہے ۔ ‘‘

 ( حاجی کے شب روزصفحہ۳۷مکتبہ اسلامیہ ، اشاعتِ سوم ۲۰۰۷ء )

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اس مقام پر مذکورہ قیاسی مسئلہ کو قبول کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ قیاس اگر کتاب و سنت و اجماع اور آثار سلف صالحین کے خلاف نہ ہو توجائز ہے۔ ‘‘

(حاشیہ: حاجی کے شب روزصفحہ۳۷مکتبہ اسلامیہ ، اشاعتِ سوم ۲۰۰۷ء )

حالتِ احرام میں انجکشن لگوانے کو پچھنے لگانے پر قیا س

مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ بوقت ضرورت شدید حالتِ احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے ، اس پر انجکش لگوانے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ روزہ نہ ہو۔ ‘‘

(شرح بخاری اردو: ۷؍ ۲۸۷،مکتبہ قدوسیہ لاہور )

حج بدل کا قیاسی مسئلہ

مولانا عبد الرحیم غیرمقلد (فیروز وٹواں ،شیخوپورہ ) لکھتے ہیں:

            ’’ معلوم ہوا اور یقینی طور پر معلوم ہوا کہ حج بدل وہ شخص بھی کر سکتا ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو، اور غیر مستطیع ،غریب، مفلس،تنگ دست ہے ۔‘‘

( فتاویٰ علمائے حدیث : ۸؍۷۶، مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور )

            عبدالرحیم صاحب کے اس فتویٰ کو ’’ قیاسی فتویٰ ‘‘ کہا گیا ہے چنانچہ شیخ محمد یونس غیرمقلد ( مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب دہلی ) لکھتے ہیں:

            ’’ جو لو گ کہتے ہیں کہ غریب آدمی کے لئے ضروری نہیں ہے کہ حج بدل کرنے سے پہلے اپنا حج کیاہو، ان کا قول بے دلیل ہے ، صرف قیاس پر مبنی ہے ۔ ‘‘

( فتاویٰ علمائے حدیث : ۸؍۵۸، مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور )

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد نے اس قیاس کو غلط قیاس کا نام دیا چنانچہ انہوں نے لکھا:

            ’’ لیکن اس کا مدار اس پر ہے کہ آیت کریمہ من استطاع الیہ سبیلا میں تخصیص پیدا کی جائے کیوں کہ استطاعت کی دو صورتیں ہیں (۱) یہ کہ خود دوسرے ذریعے سے رکھے۔پھر دوسرا ، دوسرے کے ذریعہ سے رکھنے کی دوصورتیں ہیں۔ایک یہ کہ دوسرا شرط کرے کہ تیرا حج میرا ہوگا، ایک یہ کہ شرط نہ کرے۔یہ کل تین صورتیں ہیں۔ان میں سے صرف اخیر کی صورت میں آپ کہتے ہیں کہ اپنا حج بدل کئے بغیر حج بدل کر سکتا ہے لیکن اگر آپ کی طرح قیاس کریں تو تینوں صورتوں میں اپنا حج کئے بغیر حج بدل درست ہونا چاہیے ...غرض قیاس سے یہ ساری صورتیں جائز معلوم ہوتی ہیں مگر نہ آپ قائل ہیں، نہ اور قائل ہیں۔اس لئے معلوم ہوا کہ حج کے بارے میں یہ قیاس صحیح نہیں ۔‘‘

( فتاویٰ علمائے حدیث : ۸؍۷۱،۷۲، مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور )

 خرید وفروخت کے مسائل

سور وغیرہ حرام جانوروں کی ہڈی کو ہاتھی کے دانتوں پرقیاس

 کسی نے سوال کیا:

            ’’ مردار کی ہڈی کی تجارت جائز ہے یا ناجائز ؟مردار کی ہڈی سے یہ مراد ہے کہ ہر ایک حلال و حرام جانور مردہ کی ہڈی جیسے کتا سور وغیرہ کی ہڈی بھی مل کر رہتی ہے اس کی تجارت کا کیا حکم ہے ؟‘‘

مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلدنے اس کا یوں جواب دیا:

            ’’ ماکول اللحم مذبوح کی ہڈی کے جواز پر کلام نہیں ، اور غیرماکول اللحم کے استعمال و فروخت کو ہاتھی دانت پر قیاس کرکے جواز پر استدلال ہو سکتا ہے ... استعمال اور فروخت کا حکم ایک ہے ۔‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۵۷، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

ماکول اللحم وہ جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، مذبوح کا معنی ذبح شدہ۔

یہ فتویٰ ’’ فتاویٰ علمائے حدیث: ۱۴؍۲۰۴ ‘‘ پہ بھی منقول ہے ۔

 چھ سودی اشیاء پر دیگر چیزوں کو قیاس

علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے سود پر بحث کرتے ہوئے لکھا :

            ’’ آں حضرت ؐ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہیے ویسے کھول کر سود کا بیان نہیں کیا۔ چھ چیزوں کا بیان کر دیا کہ ان میں سود ہے سونا، چاندی، گیہوں، نمک، کھجور، جَو۔اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں لیکن مجتہدوں نے اپنے اپنے قیاس کے موافق اور چھ چیزوں میں بھی سود قرار دیا۔ ‘‘

( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۲۳۶، مہتاب کمپنی لاہور )

 مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ بعض نے انہی چھ چیزوں میں کمی بیشی کو حرام قرار دیا ہے اور بعض نے دوسری چیزوں کو بھی انہی پر قیاس کیا ہے ۔ اس حدیث کا آخری فقرہ ثانی کی تائید کرتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ علت مشترکہ تول ہے،غذائیت نہیں ۔ ‘‘

( مشکوۃ مترجم :۲؍۶۹۳)

 ہرکھائی جانے والی چیز کو غلہ جات پر قیاس

شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ہر مال کا ایک وصف عام ہوتا ہے ، اس اعتبار سے اسے جنس کہا جاتا ہے اور ایک وصف خاص ہوتا ہے ،جسے صنف (قسم) سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے غلہ جات ہیں۔یہ اپنے وصف عام (کہ ان کوکھایا جاتا ہے )کے اعتبار سے ایک جنس ہیں ۔یعنی کھانے والی جنس لیکن وصف خاص کے اعتبار سے غلہ جات کی کئی صنفیں( قسمیں) ہیں جیسے چاول ،جَو ، گندم ، مکئی، جوار وغیرہ۔یہ سب وصف عام کے اعتبار سے ایک جنس ہیں ،جنس مطعومات ۔ لیکن اپنے اپنے خاص اوصاف کے اعتبار سے یہ الگ الگ قسمیں ہیں، چاول ایک قسم ہے، گندم ایک قسم، جَو ایک، مکئی ایک،منقی ایک، نمک ایک وغیرہ۔ ہر کھانے والی چیز کو اس پر قیاس کرکے اس میں شامل کیا جا سکتا ہے چاہے وہ ماپ کر فروخت ہوتی ہویا تول کر۔ ‘‘

 (شرح ریاض : ۲؍ ۴۶۶، دار السلام لاہور )

کرنسی کو سونے چاندی پر قیاس

شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ایک مال کی قسم وہ ہے جسے ثَمَن کہا جاتا ہے جیسے سونا چاند ی ہے اور اسی پر آ ج کل قیاس کیا جا سکتا ہے سکے، کرنسی نوٹ،چیک اور کمپنیوں کے شیئرز (حصے) وغیرہ کو۔ حدیث میں ان دونوں جنسوں کی بابت احکام وارد ہیں۔ حدیث میں جن چھ چیزوں کاذِکر ہے وہ ان دونوں جنسوں کو حاوی ہیں، سونا،چاندی،گندم ، جَو، کھجور اور نمک۔بعض ائمہ نے سودی معاملات کو صرف ان چھ چیزوں تک محدود رکھا ہے،باقی دیگر چیزوں میں وہ کمی بیشی کو سود قرار نہیں دیتے۔جب کہ اکثر ائمہ و فقہاء نے قیاس کرکے دوسری چیزوں کو بھی ان میں شامل کیا ہے مثلاً جو کھانے والی چیزیں ہیں چاہے ماپی جانے والی ہوں یا وزنی ۔ یا جن میں سونے چاندی کی طرح ثمنیت پائی جاتی ہے ۔‘‘

(شرح ریاض : ۲؍ ۴۶۶، دار السلام لاہور )

 ایک اضطرار کو دوسرے پر قیاس

مولانا ثناء اللہ غیر مقلد لکھتے ہیں:

’’میں حرمت ربا کا منکر نہیں ہوا ۔ صرف ایک اضطرارپر دوسرے اضطرار کوقیاس کیا ہے۔‘‘

( مظالم روپڑی صفحہ۳۳ ، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

قیاس سے سود کاجواز

 مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ سود کی حرمت قرآن وحدیث میں مشاہد کی جائے اوراس کے متعلق جو وعید اور تشدد وارد ہے دیکھا جائے تو مومن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب مجتہد امرتسری محض قیاس سے لوگوں کو ضرورت کے وقت جائز ہونے کا فتوی دے رہے ہیں۔ ‘‘

( مظالم روپڑی صفحہ ۳۲، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

مولانا محمد حسین بٹالوی کا قیاسی فتویٰ ،گروی زمین سے نفع اُٹھانا

حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اگر گروی شدہ چیز زمین کی صورت میں ہے جیسا کہ صورتِ مسؤلہ میں ہے تو اس کے متعلق ہمارے برصغیر کے علماء میں اختلاف ہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کی ذِکر کردہ حدیث پرقیاس کرتے ہوئے گروی شدہ زمین سے فائدہ اُٹھانے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جیساکہ فتاویٰ ثنائیہ میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔(۴۰۹؍۱)فتاویٰ ثنائیہ میں ہی مولانا شرف الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مفصل جواب دیا ہے کہ دعویٰ عام کے لئے دلیل بھی عام ہی درکار ہوتی ہے۔ پھر یہاں عام یا غیر مخصوص کومنصوص مخصوص پر قیاس کیا گیا ہے اور یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورد ِ نص پر منحصر رہتا ہے ،کیوں کہ اصل اموال میں حرمت قطعی ہے، اس لئے جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس اس مورد نص پر منحصر رہتا ہے ،کیوں کہ اصل اموال میں حرمت قطعی ہے، اس لئے جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے اس کی حلت ثابت نہ ہوگی خصوصا جو حکم خلاف قیاس ہو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ،فتاویٰ ثنائیہ میں یہ بحث طویل اور لائق مطالعہ ہے ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۱؍۲۵۵)

مرہونہ زمین کومرہونہ گائے پرقیاس

کسی نے سوال کیا:

            ’’ ایک شخص نے دوسرے شخص کے پاس سو روپیہ کے عوض اپنی زمین گروی رکھی ،اس شرط پر کہ تین برس کے بعد ہم روپیہ دے کر زمین واپس کرلیں گے اور اس مدت میں جو کچھ پیداواری کا منافع ہو، وہ اپنے مصرف میں لاوے ، اور مال گذاری بھی ادا کرتا رہے ۔ ‘‘

 مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلداس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ بعض علماء اس صورت کو گائے والی صورت (لبن الدر یشرب بنفقتہ ) پر قیاس کرتے ہیں ، کہتے ہیں : زمین کالگان مرتہن کے ذمے مثل گائے کی خوراک کے برابر ہے ، بعض اس سے منکر ہیں۔ اختلاف سے نکلنے کے لیے مالک کو بھی کرایہ زمین کے طور پر کچھ دے دیا کرے خواہ تھوڑا ہو ، تو جائز ہے ۔ ‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۴۳۱، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

یہی سوال و جواب (فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۴۳۱، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )میں بھی درج ہے ۔

امرتسری صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’ صورت مرقومہ رہن اراضی بعض علماء کے نزدیک جائز ہے ، ان میں سے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم بھی ہیں ، در اصل قیاس ہے اس حدیث پر جس میں ذکر ہے کہ جو شخص گھوڑا یا گائے رہن رکھے وہ نفع کے بدلے میں دودھ اور سواری کا فائدہ لے سکتا ہے ۔ ‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۴۳۱، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

 مولانا محمد دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صحیح حدیث میں ہے کہ دودھ والے جانوروں کا دودھ اور سواری دینے والے جانوروں کی سواری کا فائدہ جس کے پاس وہ جانور گروی ہوں بوجہ اپنے نفقہ کے جو وہ اس پرکر رہا ہے نفع اُٹھا سکتا ہے ۔اس پر قیاس کرکے بعض علماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ جب زمین کے کل اخراجات اس کے ذمہ ہوں جو رہن رکھتا ہے اور روپیہ دیتا ہے تو اسے زمین کا نفع بھی جائز ہے ۔ غرض جب کہ وہ چیز محتاج نفقہ ہو اور جملہ نفقات کا ذمہ دار رہن رکھنے والا ہو تو اپنے اس نفقہ کے عوض اس چیز سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں بعض وقت اسے نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے ۔پس علمائے کرام اس نفع کو قرض رقم کا بدلہ نہیں جانتے بلکہ اس نفقہ کے عوض کا نفع مانتے ہیں لہذا مندرجہ بالا صحیح حدیث پر قیاس کرکے اس کی حلت کے قائل ہیں ۔ واللہ اعلم (مولانا ) محمد دہلوی (مرحوم ) بقلم خود ۔جواب صحیح ہے ۔ابو الوفاء ثناء اللہ کفاہ اللہ امرتسری ۔‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ : ۱؍۷۳۴، اسلامک پبلشنگ ہاؤس شیش محل روڈ لاہور )

مولانا احمد اللہ پرتاب گڈھی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اس حدیث میں بسبب نفقہ کے مرتہن کو اشیاء مرہونہ سے فائدہ اُٹھانا درست کہا گیا ہے۔ ان اشیائے مرہونہ کے ساتھ اور بھی بقیاس لاحق ہو سکتی ہے بعلت نفقہ اور کسب بھی مثل نفقہ ہے ۔اگر زمین رہن رکھ کر خود آباد کی، اپنے نفقہ و کسب میں جواز نکلتا ہے ،قال الشوکانی فی النیل فتکون الفوائد المنصوص علیھا فی الحدیث للمرتھن و یلحق غیرھا من الفوائد بھا بالقیاس لعدم الفارق ...‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۴۱۵،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی غیرمقلد نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ’’ اشیاء مرہونہ سے نفع اُٹھانا جائز ہے، سود نہیں ‘‘ ہے ۔ (حاشیہ: فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۷ ۱ ۴،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

مولانا خالد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ پس بقول امام ابن القیم و حضرت سید اسماعیل امیر یمانی وغیرہ علیہم الرحمۃ شے مرہونہ سے نفع اُٹھانا جائز ہے اورجب ان دو کا ثبوت بروایت صحیح ثابت ہے تو اور چیزوں کا بھی اسی پرقیاس کر لینا چاہیے ۔‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍، ۴۲۱،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

کسی نے سوال کیا:

            ’’ ایک شخص کے پاس پچاس بیگھا زمین ہے ،سامان کاشتکاری اس قدر موجود نہیں کہ سب آباد کرسکے ، اور کچھ مقروض بھی ہے ، یہ زمین مہاجن کے پاس کفول رکھ کر روپیہ لینا چاہتا ہے تو بغیر سود کے نہیں ملتا ہے۔ ایک مسلمان جس کے پاس زمین تو کم ہے مگر روپیہ کام سے فاضل موجود ہے، یہ مسلمان اس شرط روپیہ دینا چاہتا ہے کہ دس بیگھہ زمین ہم کو رہن دخلی دے دو، اس کی مال گزاری بھی ہم ادا کریں گے، اور زمین آباد کریں جس سے اُمید ہے کہ سینکڑوں من غلہ پیدا ہو اور نفع ہو اور ساتھ ہی یہ احتمال ہے کہ پیدا وار کم ہو ، مال گزاری اور آبادی میں جو خرچ ہوا ہے اس سے بھی کم پیدا ہو، اور نقصان ہو ، اس طرح روپیہ دے کر زمین رہن رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟‘‘

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلدنے اس سوال کا یوں جواب دیا:

            ’’صورتِ مرقومہ میں رہن اراضی بعض علماء کے نزدیک جائز ہے ،اُن میں مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم بھی ہیں ، دراصل قیاس ہے اس حدیث پر جس میں ذِکر ہے کہ جو شخص گھوڑا یا گائے رہن رکھے وہ نفع کے بدلے میں دودھ اور سواری کا فائدہ لے سکتا ہے ۔ ‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۴۰۹،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

            اس فتوی کو خود غیرمقلدین نے قیاس مع الفارق یعنی غلط قیاس کا نتیجہ کہا ہے۔ چنانچہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے اس فتوی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ دلیل مجوز عام کی عام نہیں ، خاص ہے ۔عام کو یا غیر مخصوص کو منصوص مخصوص پر قیاس کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورد نص پر منحصر رہتا ہے اس لئے وہ خلاف قیاس ہے اور بحکم باری تعالیٰ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ( الآیۃ پ ۲ ) وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام الحدیث متفق علیہ ( مشکوۃ ص ۲۳۳،ج ۲) اصول اموال میں حرمت ِ قطعی ہے ۔پس جب اصل اموال میں حرمت ہے تو جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے خصوصا جو حکم خلاف ِ قیاس ہو کسی مال کے قیاس سے حلت ثابت نہ ہوگی ...ویسے بھی یہ قیاس مع الفارق ہے ،ا س لئے کہ جانورمرہون بلا غذا ہلاک ہو جائے گا بخلاف زمین وغیرہ کے بلکہ زمین بلا جوتنے کے اور عمدہ ہو جائے گی ... لہذا اور اشیاء کا اس پر قیاس مع الفارق ہے جو باطل ہے ۔‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۴۱۰،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

شیخ عبد الرحمن غیرمقلد (مدرس مدرسہ حاجی علی جان مرحوم دہلی ) نے لکھا:

            ’’ چیز مرہون سے فائدہ لینا مرتہن کوجائز نہیں ،کیوں کہ یہ سود ہے اور مسلمان بھائی کامال حرام وجہ سے کھانا ہے ۔ ‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍، ۱۲ ۴،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

            مولانا عبدالوہاب آروی غیرمقلد نے ایک مضمون ’’ اشیائے مرہونہ سے نفع اُٹھانا جائز نہیں بلکہ سود ہے: لکھا۔ (حاشیہ: فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۷ ۱ ۴،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

 بیوع کا ایک اور قیاسی مسئلہ

 مولانا خالد غیرمقلد ( اندرون اتوارہ بھوپال )لکھتے ہیں:

            ’’ پس بقول امام ابن القیم و حضرت سید اسمعیل امیریمانی وغیرہ علیہم الرحمۃ شی مرہونہ سے نفع اُٹھانا جائز ہے اور جب ان دوکو ثبوت بروایت صحیح ثابت ہے تو اور چیزوں کا بھی اسی پر قیاس کر لینا چاہیے ۔ ‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍، ۴۲۱،اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

)جاری)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...