امام کے پیچھے قراءت
کرنے کی ممانعت ۔(قسط ۴)
(رسول اللہﷺ کے
کلام مبارک سے)
-
مولانا نذیر الدین قاسمی
دلیل نمبر ۸ :
امام
اہل السنۃ،امام ابو عبد اللہ ،احمد بن
محمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
أسود بن عامر، أخبرنا حسن بن صالح، عن أبي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله
عليه وسلم قال: من كان له إمام، فقراءته له قراءة۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ جس
کا نماز میں کوئی امام ہو،تو امام کی
قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔(مسند احمد : ج۲۳: ص ۱۲)
سند کے روات کی تفصیل :
(۱) امام ابو عبد اللہ ،احمد بن محمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)
مشہور ثقہ،حجت، حافظ الحدیث اور امام اہل السنۃ ہیں۔
(۲) اسود
بن عامر ؒ(م۲۰۸ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۰۳)
(۳) حسن
بن صالحؒ(م۱۶۹ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ،عابد،فقیہ ہیں۔(تقریب : رقم
۱۲۵۰)
(۴) محمد
بن مسلم،ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۰ھ) بھی
صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(الکاشف : رقم ۵۱۴۹)
(۶) حضرت
جابر ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم
ہوا کہ اس کے روات ثقہ اور سند صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۹ :
ثقہ،ثبت،حافظ
،محدث ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹ھ)
فرماتے ہیں کہ
(قال
المزی : ورواه
أبو نعيم) عن الحسن بن صالح، عن أبي الزبير، عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم
، قال : كل من كان له إمام ، فقراءته له قراءة۔(تحفۃ الاشراف للمزی : ج۲ :ص ۲۹۱)
روات کی تحقیق :
(۱) امام ابو
نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹ھ) مشہور ثقہ،ثبت،
امام اور حافظ الحدیث۔(تقریب :، سیر)
(۲) حسن
بن صالحؒ(م۱۶۹ھ)
(۳) محمد
بن مسلم،ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۴) حضرت
جابر ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس کے بھی روات ثقہ ہیں۔
دلیل نمبر ۱۰ :
امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۳۵ھ) کہتے ہیں
کہ
حدثنا مالك بن إسماعيل ، عن حسن بن صالح ، عن أبي الزبير ، عن جابر ،
عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : كل من كان له إمام ، فقراءته له قراءة۔
حضرت
جابرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ نے فرمایا کہ: جس کا نماز میں کوئی امام ہو،تو امام کی قراءت ہی
مقتدی کی قراءت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث ۳۸۲۳،والفظ لہ،مسند احمد بن حنبل: ج۲۳: ص ۱۲، تحفۃ الاشراف للمزی :
ج۲: ص ۲۹۱)
روات کی تحقیق :
(۱) امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۳۵ھ) مشہور
ثقہ،امام اور حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب)
(۲) مالک بن
اسماعیل الکوفیؒ(م۲۱۷ھ) صحیحین کے راوی اورثقہ،ثبت،حجت،متقن، حافظ الحدیث،
إمام من الأئمة ہیں۔(تقریب
: رقم ۶۴۲۴،تہذیب التہذیب،الکاشف)
(۳) حسن
بن صالحؒ(م۱۶۹ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ،عابد،فقیہ ہیں۔(تقریب : رقم
۱۲۵۰)
(۴) محمد
بن مسلم،ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۰ھ) بھی
صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(الکاشف : رقم ۵۱۴۹)[1]
(۶) حضرت
جابر ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم
ہوا کہ اس کے روات ثقہ اور سند صحیح ہے۔
اور یہی وجہ
ہے کہ امام شمس الدین ابن قدامہؒ(م۶۸۲ھ) اور حافظ،امام ابن ترکمانیؒ(م۷۵۰ھ)،امام عینیؒ (م۸۵۵ھ) وغیرہ نے کہا کہ یہ
روایت صحیح اور متصل ہے۔(الشرح الکبیر
لابن قدامہ : ج۲: ص ۱۱،الجور النقی : ج۲: ص ۱۵۹،نخب الافکار للعینی : ج۴: ص
۱۰۴)[2]
دلیل نمبر ۱۱ :
ثقہ،ثبت،امام اور حافظ الحدیث ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامۃ الطحاویؒ (م۳۲۱ھ)
فرماتے ہیں کہ
حدثنا
أبو أمية، قال: ثنا إسحاق بن منصور السلولي، قال: ثنا الحسن بن صالح، عن جابر،
وليث، عن أبي الزبير، عن جابر، رضي الله عنه , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
قال: من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة۔
آپ ﷺ نے فرمایا : کہ جس کا نماز میں کوئی امام ہو،تو امام کی قراءت ہی
مقتدی کی قراءت ہے۔
(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۱۷)
روات کی تحقیق :
(۱) امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامۃ الطحاویؒ (م۳۲۱ھ)
مشہور ثقہ،ثبت،امام اور حافظ الحدیث ہیں۔
(کتاب الثقات
للقاسم)
(۲) ابو
امیۃ،محمد بن ابراہیم بن مسلمؒ(م۲۷۲ھ) سنن کے نسائی کے راوی اور صدوق ،حسن
الحدیث ہیں۔
(تقریب : رقم
۵۷۰۰)
(۳) اسحاق بن منصور
السلولیؒ(م۲۰۳ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب :
رقم ۳۸۵)، اور ان کے متابع ، صحیحین
کے راوی یحیی بن ابی بکیرؒ(م۲۰۹ھ) موجود ہیں۔(سنن الدراقطنی :ج۲: ص
۱۲۲)
(۴) حسن
بن صالح ؒ (م۱۶۹ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۵) جابر الجعفیؒ(م۱۱۷ھ) ضعیف ہیں۔(تقریب : ۸۷۸)، لیکن انکے متابع لیث بن ابی سلیمؒ (م۱۴۸ھ) موجود ہیں، جو
کہ متابعت کی صورت میں صدوق ہیں،جس کا اقرار اثری صاحب بھی کرچکے ہیں ۔( الاجماع : ش۳: ص ۷۱)
(۶) محمد
بن مسلم،ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۷) حضرت
جابر ؓ صحابی رسول ﷺ ہیں۔
لہذا اس سند
کے تمام روات ثقہ ہیں۔البتہ جابرالجعفیؒ(م۱۳۲ھ) ضعیف ہے اور لیث بن ابی سلیمؒ(م۱۴۸ھ) متابعات میں صدوق ہیں۔واللہ اعلم،
دلیل نمبر ۱۲ :
امام
ابو نعیم اصبہانیؒ(م۴۳۰ھ) کہتے
ہیں کہ
حدثنا محمد بن علي بن حبيش، ثنا علي بن
جعفر بن محمد بن حبيب التمار، ثنا علي بن إشكاب، ثنا إسحاق الأزرق، عن أبي حنيفة،
عن أبي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له إمام،
فقراءة الإمام له قراءة» كذا في أصل أبي الزبير، عن جابر۔
آپ ﷺنے فرمایا : کہ جس کا
نماز میں کوئی امام ہو،تو امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔
(مسند
ابی حنیفۃ لابی نعیم : ص۳۲)
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) احمد بن
عبداللہ،ابو نعیم اصبہانیؒ(م۴۳۰ھ) مشہور ثقہ، حافظ الحدیث ہیں۔( الثقات
للقاسم : ج۱ : ص ۳۶۵)
(۲) محمد بن
علی بن حبیش،ابو الحسینؒ (م۳۵۹ھ) بھی ثقہ ،ثبت راوی ہیں۔(الدلیل المغنی
: ص۴۲۶)
(۳) علی بن جعفر
بن محمد بن حبیب التمار سے مراد علی بن جعفر بن محمد،ابو الحسن الجرجانیؒ
ہے۔واللہ اعلم
ابن
عدیؒ(م۳۶۵ھ) کے نزدیک وہ ثقہ یا صدوق ہیں۔(تاریخ جرجان للسہمی:
ص۳۱۳،الکامل لابن عدی : ج۱:ص۷۹)
(۴) علی
بن اشکابؒ(م۲۶۱ھ) بھی ثقہ راوی ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۶: ص ۳۹۶)
(۵) اسحاق
الازرقؒ(م۱۹۵ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۶) امام ابو
حنیفہ نعمان بن ثابتؒ(م۱۵۰ھ) مشہور بےمثال ثقہ،حافظ الحدیث،فقیہ،ثبت اور حدیث کے شہنشاہ
ہیں۔(دیکھئے ص : ۱۶)
(۷) محمد
بن مسلم،ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۸) حضرت
جابر ؓ صحابی رسول ﷺہیں۔
معلوم
ہوا کہ اس کے تمام روات صدوق یا ثقہ ہیں اور
سند حسن ہے۔واللہ اعلم[3]
دلیل
نمبر ۱۳ :
ثقہ،ثبت
،حافظ الحدیث،امام عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱ھ) نے کہا :
’’عن
الثوري، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبد الله بن شداد بن الهاد الليثي قال: صلى
النبي صلى الله عليه وسلم الظهر أو العصر، فجعل رجل يقرأ خلف النبي صلى الله عليه
وسلم، ورجل ينهاه، فلما صلى قال: يا رسول الله، كنت أقرأ وكان هذا ينهاني، فقال له
رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له إمام فإن قراءة الإمام له قراءة‘‘۔
عبد اللہ بن شدادؓ کہتے
ہیں کہ رسول ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز
پڑھائی ، تو ایک صحابی ؓ نے حضور
ﷺ کے پیچھے قراءت کی، تو ایک اور صحابیؓ نے
ان کو نماز میں (اشارے سے) روکا۔ جب
آپ ﷺ نے نماز مکمل فرمالی،تو ان قراءت
کرنے والے صحابی ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ، میں نے آپ کے پیچھے قراءت کی اور یہ
مجھے قراءت کرنے سے منع کرہے تھے۔تو حضور
ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جس کا نماز میں
کوئی امام ہو،تو امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔(مصنف
عبد الرزاق : حدیث نمبر ۲۷۹۷)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱ھ) مشہور ثقہ،امام اور ثبت ،حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب
،تہذیب التہذیب)
(۲) امام
سفیان ثوری ؒ (م۱۶۱ھ) بھی مشہور
ثقہ، امام،حافظ الحدیث اور حجت،عابد،فقیہ ہیں۔(تقریب :رقم ۲۴۴۵)
(۳) ابو
الحسن،موسی بن ابی عائشہ ؒ صحیحین کے راوی اور ثقہ،عابد ہیں۔(تقریب : رقم ۶۹۸۰)
(۴) ابو الولید،عبد اللہ بن شداد بن الہادؓ (م۸۳ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ
ہیں۔(تقریب : رقم ۳۳۸۲)
نوٹ :
عبد اللہ
بن شداد ؓکے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲ھ)،حافظ
ابن عبد البرؒ (م۴۶۳ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ) ،حافظ ابن
الاثیرالجزری ؒ(م۶۳۰ھ) وغیرہ کہتے
ہیں کہ وہ حضور ﷺ کے دور میں پیدا ہوچکے تھے۔(الاستیعاب لابن عبد البر :
ج۳:ص۹۲۶، الاصابہ لابن حجر : ج۵: ص ۱۱،سیر
: ج۳: ص ۴۸۸،اسد الغابہ : ج۳:ص ۲۷۶،طبع بیروت)اورصحابہؓ عام طور سے
اپنے بچوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں لےجایا
کرتے تھے۔ (الاصابۃ لابن حجر : ج۱: ص ۱۵۶)، اس لئے ان کے صحابی ہونے کا احتمال ہے۔
یہی وجہ
ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے کہا : ’’ وهو من صغار الصحابة ‘‘ ابن شداد ؓ (م۸۳ھ)
صغار الصحابة میں سے ہیں۔(فتح
الباری : ج۳: ص ۹)، یہی بات،مجتہد محمد
عزالدین الصنعانی ؒ (م۱۱۸۲ھ)، شیخ محمد خضر الشنقیطی ؒ (م۱۳۵۴ھ)
نے بھی کہی ہے۔ (التحبیر
للصنعانی: ج۱: ص ۵۸۹،كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي: ج۱۱: ص ۱۸)
مگر
چونکہ بعض کے نزدیک ان کا سماع حضور ﷺ سے ثابت نہیں ،شاید اس لئے بعض ائمہ نے ان کو تابعی قرار دیا ہے۔
لیکن دوسرے
ثقہ،ثبت ،حافظ الحدیث ،امام ابوبکر ابن ابی خیثمہ ؒ (م۲۷۹ھ) نے کہا
کہ ابن شداد ؒ نے حضور ﷺ سے روایت کیا ہے۔(التاریخ الکبیر :السفر الثانی : ج۱:
ص ۲۹۵)
حافظ
ابن عساکر ؒ (م۵۷۶ھ) نے ان کے ترجمہ میں کہا : ’’وله صحبة ‘‘ کہ انہوں نے
حضور ﷺ کی صحبت پائی
ہے۔ (تاریخ ابن عساکر : ج۲۹ : ص ۱۴۰)
نوٹ :
ابن
شداد ؓ (م۸۳ھ) کا حضور ﷺ سے روایت لینے کا احتمال ہے۔کیونکہ ان کی والدہ
سلمی بنت عمیس ؓ اپنے بہن اسماء بنت عمیس
ؓ کے ساتھ قدیم زمانے میں ہی اسلام لاچکی تھیں۔(الطبقات
لابن سعد : ج۸: ص ۲۲۳)، عزوہ احد میں
حضرت حمز ہ بن عبد المطلب ؓ (م۳ھ) کی شہادت کے بعد، انہوں نے حضرت
شداد بن الہاد ؓ سے نکاح کیا، جن سے عبد اللہ اور عبدالرحمٰن پیدا ہوئے۔ (انساب الاشراف للبلاذری : ج۱۱:
ص ۹۶، الطبقات لابن سعدغیرہ)،
اور
غزوہ احد شوال،۳ ھجری
میں واقع ہوتا تھا۔(تاریخ الاسلام للذہبی : ج۱: ص ۱۰۳)، اور حمزہ ؓ کی
شہادت کے بعد ، سلمی بنت عمیس ؓ نے شداد
بن الہاد ؓ سے نکاح کیا، جیسا کہ گزرچکا،
اس لحاظ سے حضرت عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ)
کے پیدائش ۴ یا
۵ ھجری کے درمیان ہوسکتی ہے۔
ان باتوں
پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے وقت عبد اللہ بن شداد ؓ
(م۸۳ھ) کی عمر ’’۵سال‘‘ ہوئی
ہوگی۔
یعنی وہ سن تمیز
کی عمر کے ہوچکے تھے۔اور سن تمیز
کی عمر ’’۵‘‘سال ہے۔(احسن الکلام : ج۱: ص ۳۲۷)،[4] اس وجہ سے
ان کی روایت کا وہی حکم ہوگا ، جو
مراسیل صحابہ کا حکم ہے، یعنی عبد اللہ بن الزبیر ؓ (م۷۳) وغیرہ کی طرح
، عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ) کی مرسل
روایت بھی حجت ہوگی۔(الاصابۃ : ج۱: ص ۱۵۵)[5]
نیز عبد اللہ بن شداد ؓ نے عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،
کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ (م۱۲ھ)سے
بھی روایت نقل کی ہے۔[6] اوران
کی خلافت کے احوال بھی ذکر کئے ہیں۔[7]
یہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضورﷺ کے
وفات کے وقت سن تمیز کی عمر کے تھے،کیونکہ حضور ﷺ کی وفات کے فوراً بعد ہی حضرت صدیق اکبر ؓ(م۱۲ھ) خلیفۃ
المسلمین بنے تھے۔واللہ اعلم
خلاصہ یہ کہ دلائل،تحقیق اور
تاریخ کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ)
صغار الصحابة میں سے ہیں
اورسن تمیز میں ہونے کی وجہ سے ان کی
روایت کا حکم ،مراسل صحابہ کا حکم ہے، یعنی ان کی مرسل روایت بھی حجت ہے۔[8]
معلوم
ہوا کہ اس کے روات ثقہ
او ر سند صحیح ہے۔البتہ یہ روایت
اس سند کے ساتھ، ابو الولید،عبد اللہ بن
شداد بن الہادؓ صحابی کی مرسل ہے۔اور صحابی کی مراسیل حجت ہوتی ہیں۔[9]
ایک وضاحت :
یہ روایت
اپنے متن کے ساتھ سری نمازوں میں بھی امام
کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ہونے پر واضح
طور پر دلالت کرتی ہے۔یعنی اب مقتدی کو الگ سے قراءت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نوٹ :
چونکہ
عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ) متابع
موجود ہیں۔لہذا حضرت ابو زبیر المکیؒ(م۱۲۶ھ) پر تدلیس کا الزام بھی مردود ہے۔[10]
[1] نوٹ :
اگرچہ ان
روایات میں ابو زبیر المکی ؒ(م۱۲۰ھ) کا ’’عنعنہ‘‘ موجود ہے۔لیکن اس روایت میں ان پر
تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔کیونکہ ان کے متابع میں ثقہ راوی عبد اللہ بن شداد
ؒ(م۸۱ھ) موجود ہیں، جس کی تفصیل اگلے شمارے میں آئے گی۔
نیز ابو
زبیر المکیؒ ،حضرت جابر ؓ سے روایت کرنے میں ’’مکثر‘‘ ہیں۔اس لحاظ سے بھی
’’ابو زبیر عن جابر‘‘ کی سند پر اعتراض صحیح نہیں ہے۔(مجلہ الاجماع :ش۳:
ص ۱۸۲،میزان الاعتدال : ج۲: ص ۲۲۴،ترجمہ الاعمش)
مزید امام ابو نعیم الاصبہانی ؒ(م۴۳۰ھ) نے صراحت بھی کی ہےکہ
یہ روایت اسی طرح
ابی زبیر عن جابر کے اصل نسخہ میں
موجود ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ص : ۷)
لہذا
اس روایت میں ان پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
[2] اثری
صاحب کے اعتراض کا جواب :
ثقہ،ثبت،حجت،متقن،امام
حافظ الحدیث مالک بن اسماعیلؒ(م۲۱۷ھ) کے علاوہ، صحیحین کے راوی اور ،ثقہ،ثبت، امام ،حافظ اسود
بن عامر شاذانؒ (م۲۰۸ھ)،اور ثقہ،ثبت،حافظ ،محدث ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹ھ) وغیرہ دونوں نے بھی اس روایت کو ’’حسن بن صالح عن
ابی زبیر‘‘ کی سند سے نقل کیا
ہے۔(ان سب کی تفصیل گزرچکی)
لہذا ’’ من کان لہ امام۔۔۔ ‘‘ کی روایت حسن
بن صالح نے حضرت ابو زبیر المکیؒ (م۱۲۰ھ) سے بھی
روایت کی،اور ان کے دوسرے شاگردوں
مثلاً جابر الجعفی،لیث بن ابی
سلیمؒ وغیرہ سے بھی روایت کی ہے۔
اور امام ابو حنیفہ ،نعمان بن ثابت کوفی ؒ (م۱۵۰ھ) نے بھی یہ روایت ابو
زبیر المکیؒ (م۱۲۰ھ) سے بیان کی
ہے۔(دیکھئے ص:۵)
یہی وجہ ہے کہ خود
اثری صاحب بھی کہتے ہیں کہ مالک بن اسماعیل ؒ،ابو نعیمؒ،اسود بن عامرؒ
وغیرہ کبھی حسن بن صالح اور ابو زبیر کے درمیان جابر الجعفی کا واسطہ ذکر کرتے ہے،اور کبھی نہیں کرتے، اور
لیکن آگے کہتے ہیں کہ اس صورت میں یہ
روایت مضطرب و معلول ہوگی۔ (توضیح الکلام : ص ۹۱۱)،
میں کہتا ہوں کہ
اثری صاحب یہ کہنا کہ یہ روایت معلول اور
مضطرب ہوگی،مردود ہے۔کیونکہ جب دلائل
سے،بلکہ خود اثری صاحب مانتے ہیں کہ ثقہ اور ثبت روات مالک بن اسماعیل ؒ،ابو نعیمؒ،اسود بن عامرؒ
وغیرہ کبھی حسن بن صالح اور ابو زبیر کے درمیان جابر الجعفی کا واسطہ ذکر نہیں کرتے اور کبھی کرتے ہیں۔
تو یہاں پر تطبیق
کی صورت یہ ہوگی کہ حسن بن صالحؒ(م۱۶۹ھ)
نے یہ روایت حضرت ابو زبیر المکیؒ
(م۱۲۰ھ) سے بھی سنی اور ان کے
دونوں شاگرد جابر الجعفی،لیث بن ابی سلیمؒ وغیرہ سے بھی،
جیسا کہ حافظ ابن ترکمانیؒ(م۷۵۰ھ) ،محدث عینی ؒ(م۸۵۵ھ)
نےکہا ہے۔(الجوھر النقی : ج۲: ص ۱۶۰، نخب الافکار للعینی : ج۴: ص ۱۰۵)
لہذا
جب تطبیق ممکن ہے،تو اضطراب کا دعوی باطل
و مردود ہے۔
[3] اس روایت کی
سند کو
امام دارقطنیؒ(م۳۸۵ھ) نے وہم
قرار دیا ہے،لیکن ان کا یہ کہنا غیر صحیح ہے۔کیونکہ حافظ ابو نعیمؒ(م۴۳۰ھ)
نے بالجزم کہا کہ ’’ كذا
في أصل أبي الزبير، عن جابر ‘‘،جیسا کہ
گزرچکا۔لہذا کتاب کی روایت ہی زیادہ راجح
ہے۔واللہ اعلم
[4] اعتراض
:
اثری صاحب کہتے
ہیں کہ اس کا انکار نہیں کہ بسا اوقات
پانچ سال سے پہلے بھی بچہ سن تمیز کو پہنچ جاتا ہے۔بلکہ سوال یہ ہے کہ حضرت عبد
اللہؓ بن شداد بھی اس عمر میں تھے کہ جس میں بچہ سن تمیز کو پہنچ جاتا ہے ؟ اس کا
ثبوت درکار ہے۔(توضیح الکلام : ص۸۶۹)
الجواب :
اس
کا ثبوت یہ ہے کہ عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ) کے والد،شداد ؓ اور ان کی والدہ سلمی بنت عمیسؓ کا نکاح
حضرت حمز ہ بن عبد المطلب ؓ (م۳ھ) کی شہادت کے بعد
ہوا، اس لحاظ سے
حضور
ﷺ کی وفات کے وقت، عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ) کا سن
تمیز میں ہونا ، کوئی بعید بات نہیں ، جیسا کہ تفصیل گزرچکی،نیزعبد اللہ بن شداد ؓ
(م۸۳ھ) نے ابو بکر صدیق ؓ (م۱۲ھ) سے بھی روایت لی
اور ان کی خلافت کے احوال بھی بیان
کئے ہیں،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔اس لحاظ سے بھی ان کا نبی ﷺ کےزمانے میں سن تمیز میں ہونا راجح معلوم ہوتا ہے۔واللہ اعلم
[5] مراسیل صحابہ کیوں
حجت ہیں، اس کی وجہ ائمہ محدثین نے یہ بیان کی ہے کہ صحابی ؓ غالب
احتمال میں صحابی ؓ سے ہی روایت لیتے ہیں،
اور تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں ،اس لحاظ سے ان
کی مراسیل صحت کے منافی نہیں۔(فتح المغیث،وغیرہ)،بالکل اسی طرح
ہمارے علم کے مطابق، حدیث کی کتابوں میں عبد اللہ بن شداد ؓ(م۸۳ھ) کی تمام
روایات میں ان کے شیوخ صحابہ ؓ ہی
ہیں۔شاہد یہی وجہ ہے کہ ائمہ محدثین نے ان
کے شیوخ میں کوئی ایک بھی تابعی ذکر نہیں کیا۔دیکھئے تہذیب الکمال،تاریخ
بغداد،تاریخ ابن عساکر،سیر ،تاریخ الاسلام وغیرہ۔لہذا یہ قرینہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ان کی روایت کا
مراسیل صحابہ کے زمرے میں ہونا ہی
راجح ہے۔واللہ اعلم
[6] حافظ جعفر بن محمد
الفریابیؒ(م۳۰۱ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان بن عيينة, عن عمرو بن دينار، عمن أخبره, عن عبد الله
بن شداد, قال: قال أبو بكر الصديق رضي الله عنه: إن الله عز وجل خلق الخلق, فجعلهم
نصفين, فقال لهؤلاء: ادخلوا الجنة هنيئا, وقال لهؤلاء: ادخلوا النار ولا أبالي
اس
روایت میں ’’ عمن أخبره ‘‘سے غالباً مراد محمد بن کعب القرظی ؒ(م۱۲۰ھ)
ہیں،کیونکہ وہ عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ) کے شاگرد ہیں اور عمر بن دینار
المکیؒ (م۱۲۶ھ) کے استاذ ہیں۔(تہذیب الکمال:ج۲۶: ص ۳۴۱-۳۴۲)، لہذا
یہ سند صحیح ہے، اور یاد رہے کہ کسی امام سے منقول نہیں کہ عبد اللہ بن شداد ؓ
نے کسی صحابی ؓ یا تابعی سے کوئی روایت ارسال کی ہو۔فیما اعلم۔
اور امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) نے کہا
کہ ان کا سماع اسماء بنت عمیس ؓ سے ثابت نہیں ہے۔لیکن ان کا
رد حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲ھ)، شیخ الابانی ؒ (م۱۴۲۰ھ)و غیرہ
کرچکے ہیں۔ (فتح الباری : ج۹: ص ۴۸۷، سلسلۃ الصحیحۃ : ج۷: ص ۶۸۴،
حدیث نمبر ۳۲۲۶)،نیز مزی ؒ(م۷۴۲ھ)،ابن عساکر ؒ(م۵۷۱ھ)
وغیرہ نے صراحت بھی کی ہے کہ انہوں نے ان
سے روایت لی ہے۔(تہذیب الکمال ،تاریخ
دمشق)، لہذا امام بیہقی ؒ(م۴۵۸ھ) کا قول غیر صحیح ہے۔
شیخ الالبانی ؒ نے یہ بھی کہا : ’’ لم يُرم بتدليس ‘‘
ان پر تدلیس کی تہمت نہیں ہے۔(ایضاً)،
لہذاان کی ابو بکر صدیق ؓ سے مروی یہ روایت بھی متصل ہے۔واللہ اعلم
[7] (مصنف
عبد الرزاق : حدیث نمبر ۱۶۲۳۷)
[8] واضح رہے کہ حافظ
ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲ھ) وغیرہ
کے نزدیک عبد اللہ بن شداد ؓ (م۸۳ھ)
صحابی ہونے کے باوجود ،سن تمیز میں نہ
ہونے کی وجہ سے ان کی روایت کا حکم ، مراسیل صحابہ کا حکم نہیں ہے۔لیکن
تحقیق و تاریخ کی روشنی میں حضور ﷺ کی وفات کے وقت ان کا سن تمیز میں نے کا قوی احتمال ہے، نیز
انہوں نے ابو بکر صدیقؓ اور ان کے خلافت
وغیرہ کے احوال بھی بیان کئے ہیں، جیسا کہ تفصیل گزرچکی، لہذا یہ بھی اس بات دلیل
ہے کہ وہ حضور ﷺ کی وفات کے وقت تمیز کی
عمر کے تھے۔الغرض ان کی روایت کا حکم، مراسیل صحابہ کا ہوگا۔ واللہ اعلم
[9] تنبیہ
:
بقول بعض ائمہ اگرعبد
اللہ بن شداد ؓ(م۸۳ھ) کو تابعی تسلیم کرلیا جائے،تو بھی ان کے
تائید میں ’’عن ابی الزبیر عن جابر‘‘ کی روایت موجود ہے۔لہذا یہ روایت مرسل معتضد ہونے کی وجہ سے حجت ہوگی۔
اعتراض :
لیکن اثری صاحب
کہتے ہیں کہ امام شافعی ؒ اور امام بیہقی
ؒ ہی کے حوالہ سے گزرچکا ہے کہ کبار
تابعین کی مراسیل ان کے نزدیک مطلقا حجت نہیں، بلکہ اس کے لئے بھی اعتضاد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ وہ کسی
مرفوع صحیح روایت کے مخالف نہ ہو۔
(توضیح الکلام : ص ۸۶۹)
الجواب :
یہاں
مرسل، صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو، سے امام
بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کی مراد یہ ہے
کہ ثقہ
مرسِل اپنی روایت میں اوثق راوی
کی روایت کے الفاظ کی مخالفت
نہ کرتا ہو۔جس کی تفصیل مجلہ الاجماع : ش۱۲: ص ۱۸پرموجود ہے۔
لہذا
اثری صاحب کا اعتراض مردود ہے۔
نوٹ :
اثری
صاحب نے اپنے تائید میں امام بیہقی ؒ کا
ایک اور حوالہ ذکر کیا ہے کہ امام صاحب ؒ نے
ایک حدیث کے بارے میں کہا کہ اس حدیث
کے راوی ثقہ ہیں، مگر حمیدؒ نےصحابی کا نام نہیں لیا۔ تو وہ معنی ًمرسل کے
ہے۔ اگر صحیح موصول روایات اس کے
خلاف نہ ہوتیں، تو یہ مرسل جید ہوتی۔
اگے
اثری صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہوتی
ہے کہ تابعی کبیر کی مرسل کی مقبولیت میں ان کے نزدیک اعتضاد اور متصل کی عدم
مخالفت شرط ہے۔(توضیح اکلام : ص ۸۷۰)
الجواب :
السنن الکبری
للبیہقی کی مکمل عبارت پیش خدمت ہیں :
قال البیہقی أخبرنا
أبو الحسن بن عبدان، أنا أحمد بن عبيد، أنا زياد بن الخليل، ثنا مسدد، ثنا أبو
عوانة، عن داود بن عبد الله الأودي، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري، قال: لقيت
رجلا صحب النبي صلى الله عليه وسلم كما صحبه أبا هريرة أربع سنين، قال: نهى
رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يمتشط أحدنا كل يوم، أو يبول في مغتسله، أو تغتسل
المرأة بفضل الرجل، أو يغتسل الرجل بفضل المرأة، وليغترفا جميعا " أخبرنا أبو
علي الروذباري، أنا أبو بكر بن داسة، ثنا أبو داود، ثنا أحمد بن يونس، ثنا زهير،
عن داود بن عبد الله فذكره بنحوه إلا أنه لم يقل: وليغترفا جميعا. وهذا الحديث
رواته ثقات إلا أن حميدا لم يسم الصحابي الذي حدثه فهو بمعنى المرسل إلا أنه مرسل
جيد لولا مخالفته الأحاديث الثابتة الموصولة قبله، وداود بن عبد الله الأودي لم
يحتج به الشيخان البخاري، ومسلم رحمهما الله تعالى۔(السنن
الکبری للبیہقی:ج۱:ص۲۹۴)
قال البیہقی فی معرفة
السنن والآثار وأما حديث داود بن عبد الله الأودي، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري،
عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم في النهي
عن اغتسال المرأة بفضل الرجل واغتسال الرجل بفضل المرأة، فإنه منقطع وداود بن عبد
الله ينفرد به، ولم يحتج به صاحبا الصحيح، والأحاديث التي ذكرناها في الرخصة أصح.
فالمصير إليها أولى. وبالله التوفيق۔( معرفة السنن والآثار:ج۱:ص۴۹۷-۴۹۸)
روایت پر غور
فرمائیے ! امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) نے جس روایت کو مرسل و منقطع کہا ہے۔اس میں
تابعی حمیدبن عبد الرحمٰن الحمیری نے
صراحت کی ہےکہ ’’
لقيت رجلا صحب النبي صلى الله عليه وسلم كما صحبه أبا هريرة أربع سنين ‘‘۔
اور معرفۃ السنن
والآثار میں الفاظ ہیں کہ ’’ حميد بن عبد
الرحمن الحميري، عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه
وسلم ‘‘۔
کیا یہ الفاظ اثری
صاحب کے نزدیک اس روایت کے منقطع و مرسل ہونے پر دلالت کرتے ہیں؟؟
نیز بحث کیا ’’مرسل معتضد ‘‘ پر ہورہی ہے یا ’’اذا
قال التابعی حدثنی رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،اکان
ذالک الحدیث متصلا او منقطعا ‘‘ پر
ہورہی ہے ؟؟؟
اس تفصیل کو
دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) نے اس روایت کو منقطع قرار دیکر رد کیا ہے۔لہذا مذکورہ بحث یعنی مرسل معتضد کے مسئلہ پر امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ)
کا یہ کلام صریح نہیں ہے۔ واللہ اعلم
نیز اگر اثری صاحب
کا اصرار ہے کہ امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) کے نزدیک یہ شرط ہے کہ مرسل معتضد اس
صورت میں حجت نہیں،جب کہ صحیح متصل روایت موجود ہے۔تو جواب میں عرض ہے کہ یہ امام
صاحبؒ (م۴۵۸ھ) کا تفرد ہے۔
جس طرح ان کا
تابعی کے قول ’’ حدثنی رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ‘‘ کی
روایت کو منقطع کہنا تفرد ہے۔کیونکہ امام نوویؒ(م۶۷۶ھ) کا قول گزرچکا کہ
وہ صحیح متصل روایت کے مقابلے میں بھی
مرسل معتضد کو حجت مانتے ہیں۔(دیکھئے
مجلہ الاجماع : شمارہ ۱۲)
- حافظ
ابن الملقن ؒ(م۸۰۷ھ) کہتے ہیں کہ ’’ يتبين بذلك صحة المرسل أي وأنهما صحيحان
لو عارضهما صحيح من طريق رجحناها عليه إذا تعذر الجمع وفي هذا رد على من زعم
أن الاعتماد حينئذ يقع على المسند دون
المرسل
‘‘۔(المقنع
لابن المقلن: ص ۱۳۵)
- حافظ
سخاویؒ(م۹۰۲ھ) کہتے ہیں کہ ’’وما
قيل إذا جاء من وجه آخر مسند مقبول، من أن العمل حينئذ يكون بالمسند لا بالمرسل
فلا فائدة فيه، فليس بجيد، إذ بالمسند يتبين صحة المرسل، ويكون فى الحكم حديثان
صحيحان، بحيث لو عارضهما حديث من طريق واحدة رجحا عليه، وعمل بهما ‘‘۔(الغاية في شرح الهداية في علم الرواية:ص۱۶۶)
- نیز
حافظ ابو عبد اللہ الزرکشیؒ(م۷۹۴ھ)،امام ابو عبد اللہ ،محمد بن ابراھیم بن
سعد اللہ الکنانی الحمویؒ(م۷۳۳ھ)، حافظ ابن الوزیرالیمنیؒ(م۸۴۰ھ)،محدث
ابو الحفص البلقینی
ؒ(م۸۰۵ھ)
وغیرہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔(النکت للزرکشی:
ج۱:ص۴۸۹، المنھل الروی
للحموی :
ص ۴۳،تنقيح الأنظار مع توضیح الافکار:ج۱:ص۲۶۳-۲۶۴،محاسن
الاصطلاح:ص۲۱۰)
نیز امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ)نے
ایک صحیح متصل روایت کے مقابلے مرسل
معتضد کو حجت مانا ہے۔چنانچہ ایک
صحیح،متصل روایت میں ہے کہ’’نهى رسول الله
صلى الله عليه وسلم عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة ‘‘ نبی ﷺ
نے ایک حیوان کو دوسری حیوان کےبدلے میں
ادھار بیع کرنے سے منع کیا ہے۔(مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۱۴۱۳۳، سنن
نسائی : حدیث نمبر ۴۶۲۰)،
لیکن امام شافعی ؒ
(م۲۰۴ھ)نے سعید ابن مسیب ؒ
کی مرسل روایت ’’نهي عن بيع
اللحم بالحيوان‘‘سے استدلال کرکے، گوشت کو جانور کے بدلے میں مطلقاً بیع کرنے سے (یعنی نقد بیع کرنے
سے بھی) منع کردیا ہے۔(مرقاۃ : ج۵: ص ۱۹۲۳)،
اور امام بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ)نے بھی امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ)کی تائید کی
ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مجلہ الاجماع : ش۱۲:ص۷۔
لہذا
یہ کہنا کہ مرسل معتضد اس وقت حجت ہوگی،
جب کہ وہ کسی صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو، غیر صحیح اور باطل ومردود ہے۔
خلاصہ یہ کہ ابن
شداد ؓ (م۸۳ھ) کو بقول ائمہ کے،تابعین بھی مان لیں، تو بھی ان کی روایت مرسل معتضد ہونے کی وجہ سے حجت ہوگی۔و اللہ
اعلم
[10] اعتراض
:
اثری
صاحب کہتے ہیں کہ رہی یہ بات کہ عبد اللہ
ؓ بن شداد وغیرہ نے ابو الزبیر ؒ کی متابعت کی ہے، تو صحیح بات یہ ہے کہ عبد اللہؓ
بن شداد سے یہ روایت مرسل ہے، متصل نہیں۔
جیسا کہ تقریباً ۲ درجن محدثین کی تصریحات گزرچکی ہیں۔ لہذا عبد اللہ ؓ کو ابو
الزبیر ؒ کا متابع قرار دینا صحیح نہیں کیوں کہ عبد اللہ ؓ عن جابر ؓ کے واسطہ سے تمام احادیث ضعیف ہیں۔(توضیح الکلام :ص
۸۹۴)
الجواب :
ہم
ثابت کرچکے ہیں کہ حضور ﷺ کی وفات کے وقت، سن تمیز میں ہوں نے کی وجہ سے، عبد اللہ بن شداد ؓ کی مرسل روایت، مرسل
صحابی کے حکم میں ہے۔لہذا ان کی روایت کو مرسل کہہ کر رد کرنا غیر صحیح ہے۔لہذا ابن شداد ؓ (م۸۳ھ) ابو زبیر المکی ؒ (م۱۲۶ھ)
کے قوی متابع ہیں۔اور ابوزبیر المکیؒ(م۱۲۶ھ) پر تدلیس کا الزام باطل و
مردود ہے۔
نیز’’ من
كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة ‘‘ کی روایت ، عبد اللہ بن شدادؓ
عن جابر ؓ کی طریق سے بھی ثابت ہے، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔لہذا عبد اللہ بن شدادؓ عن جابر ؓ کی روایت کو مرسل
کہنا بھی مردود ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں