نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ثقات تو ثقات ،متکلم فیہ روات نے بھی امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کی حدیث میں توثیق کی ہے۔

 

ثقات تو ثقات ،متکلم فیہ روات نے بھی امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کی حدیث میں توثیق کی ہے۔

-مولانا نذیر الدین قاسمی

خارجۃ بن مصعب الضبعیؒ(م۱۶۸؁ھ) کی نظر میں امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کامقام :

صدوق،امام ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کہتے ہیں کہ

            حدثت عن ابی احمد الغسانی قال حدثنا ابراہیم بن رستم قال سمعت خارجۃ  یقول کان ابو حنیفۃ جہبذ الحدیث۔

الامام ،العالم ،المحدث-کما قال الذہبی فی سیر-خارجۃ بن مصعب الضبعیؒ(م۱۶۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن رستم ؒ کہتے ہیں کہ میں خارجہؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ ؒ حدیث شریف کے بڑے ماہر تھے۔(کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۲۰۸)

 

سند کی تحقیق :

(۱)       ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)       ابو احمدالغسانیؒ سنن اربع کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۷۳۶۲)

(۳)      ابراہیم بن رستم ؒ(م۲۱۱؁ھ) صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم:ج۲:ص۱۸۳)

(۴)      خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸؁ھ) حدیث میں ضعیف ہیں،لیکن حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے ان کو ’’الإمام، العالم، المحدث‘‘ کہا ہے۔(سیر :ج۷:ص۳۲۶)

نوٹ :

            اس روایت کو حافظ ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔لیکن روات کا مبہم ہونا،روایت کی تصحیح کے خلاف نہیں ہے۔کیونکہ دیگر حسن روایات سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔

متابع نمبر ۱:

چنانچہ حافظ ابو محمد الحارثیؒ(م۳۴۰؁ھ)  ہی کہتے ہیں کہ

حدثنا احمد بن علی بن سلمان وغیرہ قالا : سمعت  سعد بن معاذ ابا عصمۃ یقول : سمعت  ابراہیم بن رستم یقول قالوا لخارجۃ بن مصعب : تروی عن ابی حنیفۃ وقد لقیت من لقیت ؟ قال : و ما یمنعنی وہو قطب الرحی علیہ تدور الرحی۔

ابراہیم بن رستم ؒ کہتے ہیں کہ لوگوں نے خارجہ بن مصعبؒ سےکہا :آپ ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہو ، حالانکہ آپ نے بڑے بڑے علماء سے ملاقات کی ہے؟انہوں نے کہا : میں ایسا کیوں نہ کروں  ،  وہ تو مدار کار ہیں ، انہیں کے گرد (حدیث شریف کی ) چکی گھومتی ہے۔(کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۲۰۷)

سند کی تحقیق :

(۱)       ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)       احمد بن علی بن سلمان،ابو بکر الرازی پر امام دارقطنیؒ (م۳۸۵؁ھ)،’’متروک ،یضع الحدیث‘‘ کی جرح کی ہے، لیکن ان کے متابع میں حافظ حارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ) اور ایک راوی ذکر کیا ہے، جیسا کہ لفظ ’’حدثنا احمد بن علی بن سلمان وغیرہ قالا ‘‘سے معلوم ہورہا ہے۔لہذا اس روایت میں احمد بن علی بن سلمان،ابو بکر الرازی پر کلام فضول ہے۔واللہ اعلم

(۳)      سعد بن معاذ،ابو عصمۃ المروزیؒ کو حافظ اللالکائی(م۴۱۸؁ھ)نے فقہاء  البلخیین میں شمار کیا ہے۔(شرح اصول اعتقاد  :ج۲:ص۳۳۹)،حافظ ابو سعد السمعانی ؒ(م۵۶۲؁ھ) نے بھی ان کو ’’الفقیہ‘‘ قرار دیا ہے۔(الانساب للسمعانی : ج۱۳:ص۳۱۷)،لہذا یہ دینی شہرت ان کے صدوق ہونے کے لئے کافی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۱۴:ص۵۷) واللہ اعلم

            نیز ان سے ایک جماعت نے بھی روایت لی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۶:ص۸۹،الانساب للسمعانی)

(۴)      ابراہیم بن رستم ؒ(م۲۱۱؁ھ) اور

(۵)      خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸؁ھ) کا ذکر گزرچکا۔

متابع نمبر ۲:

حافظ ابو محمد الحارثیؒ(م۳۴۰؁ھ)  فرماتے  ہیں کہ

        حدثنا قیس بن ابی قیس قال : حدثنا محمد بن حرب قال سمعت ابراہیم بن رستم قال سمعت خارجۃ یقول لقیت الف عالم او اکثر لم یکن واحد منہم یشبہ ابا حنیفۃ فی البصر و العلم و العقل و نعم کد خدای العلم کان لامۃ محمد علیہ السلام۔

ابراہیم بن رستمؒ کہتے ہیں کہ میں نے خارجہؒ کو کہتے سنا کہ میں ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ علماء سے ملا ہوں ، ان میں سےایک بھی بصیرت ، علم اور عقل میں امام ابو حنیفہ کے مشابہ نہیں تھا اور وہ امت محمدیہ کے کیا ہی اچھے علم  والےتھے۔(کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۲۰۷)

سند کی تحقیق :

(۱)       ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)       قیس بن ابی قیس مسلم البخاریؒ سے ایک جماعت نے روایت لی ہے۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم : ج۱:ص ۲۳،ارشاد القاصی الدانی : ص ۴۷۴) اور حافظ ہیثمیؒ(م۸۰۷؁ھ)  کے نزدیک قیسؒ ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد : ج۱:ص۸)

            لہذا وہ کم از کم صدوق ہیں۔

(۳)      محمد بن حرب بن خربان،ابو  عبد اللہ الواسطیؒ(م۲۵۵؁ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۵۸۰۴)

(۴)      ابراہیم بن رستم ؒ(م۲۱۱؁ھ) اور

(۵)      خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸؁ھ) کا ذکر گزرچکا۔

معلوم ہواحافظ ابو محمدالحارثیؒ(م۳۴۰؁ھ) کی معلق روایت کی اصل موجود ہے۔

الغرض معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) ’’ جہبذ الحدیث‘‘ ہیں۔

 

 

 

ابان بن ابی عیاشؒ(م۱۴۰؁ھ)کے نظر میں امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کا مقام :

            صدوق،امام ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کہتے ہیں کہ

            اخبرنا احمد بن محمد قال حدثنا یوسف بن موسی قال : ابو التقی قال حدثنا عبد اللہ بن عبد الجبار قال حدثنا اسماعیل بن عیاش قال اتیت ابان بن ابی عیاش فسمعت منہ فقال اتیت ابا حنیفۃ قلت : لا قال ائتہ فاسمع منہ فانہ ثقۃ۔۔۔

          ابان بن ابی عیاشؒ(م۱۴۰؁ھ) کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ)سے سماع کرو،اس لئے کہ وہ ثقہ ہیں۔(کشف الاثار الشریفۃ للحارثی: [FOLIO]  نمبر ۱۳۹)

سند کی تحقیق :

(۱)       ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)       حافظ ابن عقدۃؒ(م۳۳۲؁ھ) پر تفصیلی کلام گزرچکا ،(مجلہ الاجماع : ش۱۴:ص۵۲،۵۵)اور چونکہ انہوں نے یہاں اس روایت میں  کوئی وجادات (نسخے)  کا ذکر نہیں کیا،لہذا امید ہے کہ وہ اس روایت میں صدوق ہونگے۔واللہ اعلم

(۳)      ابو یعقوب ،یوسف بن موسی المروزی القطان الصغیرؒ(م۲۹۶؁ھ) بھی صدوق ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۶: ص۱۰۶۸)

(۴)      ہشام بن عبد الملک بن عمران،ابو التقی الحمصیؒ(م۲۵۱؁ھ) ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۶:ص۲۲۵)

(۵)      عبد اللہ بن عبد الجبار الحمصیؒ(م۲۳۵؁ھ) سنن ابو داود کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۳۴۲۱)

(۶)       اسماعیل بن عیاشؒ(م۱۸۲؁ھ)،

(۷)      ابان بن ابی عیاش البصریؒ(م۱۴۰؁ھ)، اس روایت میں ضعیف ہیں۔

شریک بن عبد اللہ النخعیؒ(م۱۷۸؁ھ)کے نظر میں امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کا مقام :

       صدوق،امام ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کہتے ہیں کہ

            حدثنا محمد بن القاسم قال : حدثنا  محمد بن المہاجر قال : سمعت علی بن اسحاق السمرقندی قال : سمعت شریک بن عبد اللہ یثنی علی ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ۔

            علی بن اسحاق السمرقندیؒ فرماتے ہیں کہ  میں  نے قاضی شریک بن عبد اللہ النخعیؒ(م۱۷۸؁ھ)[1]   کو امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کی تعریف  کرتےہوئے سنا ہے۔(کشف الاثار : [FOLIO] نمبر ۲۴)

سند کی تحقیق :

(۱)       ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)       محمد بن القاسم سے مراد ثقہ راوی،محمد بن القاسم بن ہاشم ،ابو بکر السمسار ؒ(م۳۰۵؁ھ) ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷:ص ۳۰۵،تاریخ  بغداد : ج۴:ص۲۹۶،نیزد یکھئے کشف الآثار : [FOLIO] نمبر ۷)، واللہ اعلم

(۳)      محمد بن مہاجر سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔(مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۱:ص۴۶۳،۳۴۸، کشف الاثار : [FOLIO] نمبر ۲۴،۶۴)،لہذا وہ صدوق ہیں۔

(۴)      علی بن اسحاق السمرقندیؒ(م۲۳۷؁ھ) صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۴۶۸۸)

(۵)      شریک بن عبد اللہ النخعیؒ(م۱۷۸؁ھ)متکلم فیہ  راوی ہیں۔

       معلوم ہوا کہ ثقات تو ثقات ،متکلم فیہ روات نے بھی امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کی حدیث میں توثیق کی ہے۔



[1] قاضی شریکؒ(م۱۷۸؁ھ) چونکہ متکلم فیہ راوی ہے۔اس وجہ سے ان کو یہاں ذکر کیا گیا ہے۔واللہ اعلم

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...