اعتراض نمبر 80 : کہ سوار بن عبد اللہ سے کہا گیا کہ ابو حنیفہ کی کلام اور اس کے فیصلوں کو دیکھ لیا کر ، تو اس نے کہا کہ میں ایسے آدمی کا کلام کیوں دیکھوں ، جس کو اپنے دین میں نرمی نہیں دی گئی۔
اعتراض نمبر 80 :
کہ سوار بن عبد اللہ سے کہا گیا کہ ابو حنیفہ کی کلام اور اس کے فیصلوں کو دیکھ لیا کر ، تو اس نے کہا کہ میں ایسے آدمی کا کلام کیوں دیکھوں ، جس کو اپنے دین میں نرمی نہیں دی گئی۔
أخبرنا إبراهيم بن محمد بن سليمان الأصبهاني، أخبرنا أبو بكر بن المقرئ، حدثنا سلامة بن محمود القيسي - بعسقلان - حدثنا إبراهيم بن أبي سفيان، حدثنا الفريابي قال: سمعت سفيان يقول، قيل لسوار: لو نظرت في شئ من كلام أبي حنيفة وقضاياه؟ فقال: كيف أنظر في كلام رجل لم يؤت الرفق في دينه؟
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ سوار بن عبد الله القاضي العنبری البصری اہل کوفہ کے بارہ میں انتہائی متعصب اور زبان دراز تھا تو آپ اس کو چھوڑ دیں کیونکہ وہ ایسی باتیں بھی کہتا پھرتا تھا جن سے بعد میں توبہ کرتا تھا۔ جب اس کے سامنے درست بات واضح ہو جاتی تو اس کی طرف رجوع کر لیتا تھا[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ تاریخ بغداد کی اس سند میں راوی سلامہ بن محمود القیسی کی توثیق ہمیں کسی امام سے نہیں ملی ، لیکن اس روایت کی ایک اور سند بھی ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بْنِ عَبد الكريم، حَدَّثني أَحْمَد بْن آدم، حَدَّثَنا الفريابي عن سفيان، قَال: قِيل لسَوَّار بْن عَبد اللَّه القاضي لو نظرت في شيء من كلام أبي حنيفة وقضاياه قَالَ كيف أنظر في كلام رجل لم يؤت الرشد في دينه.
( الكامل في ضعفاء الرجال ٤/٥٢٩ )
لیکن اول تو دونوں سندوں میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے صراحت نہیں کی کہ انہوں نے خود یہ بات قاضی سوار بن عبداللہ العنبری البصری رحمہ اللہ سے سنی یا کسی اور کے واسطہ سے ، لہذا یہاں مجہول صیغہ سے بات کی گئی ہے ، لہذا یہ سند منقطع ہے ۔
دوم : بالفرض اگر سند صحیح بھی ہو ، تب بھی سوار بن عبداللہ کا یہ فرمانا کہ میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ و رائے کو کیوں دیکھوں ، سوار رحمہ اللہ کی یہ بات تاریخی طور پر غلط ثابت ہو چکی ہے۔
أخبرني إبراهيم بن مخلد المعدل، حدثنا القاضي أبو بكر أحمد بن كامل - إملاء - حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، حدثنا عبد الله بن الزبير الحميدي قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أبو حنيفة.
( تاریخ بغداد 13/346 )
کیونکہ خود سفیان بن عیینہ جو یہاں روایت کر رہے ہیں ان کا فرمانا ہیکہ دو چیزوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ شہر کوفہ سے باہر نہ جائیں گی ، مگر وہ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ گئیں۔ ایک حمزہ کی قرأت اور دوسری ابوحنیفہ کی فقہ ۔
لہذا سوار بن عبداللہ رحمہ اللہ کا اعتراض ہی باطل ہو گیا۔
سوم : بالفرض اگر فقہ حنفی دنیا میں نہ پھیلا ہوتا ، اس فرضی صورت حال میں ، سائل نے جب سوار بن عبداللہ رحمہ اللہ سے یہ کہا گیا کہ آپ ابو حنیفہ کی فقہ دیکھیں تو سوار رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ اس کا ایمان ٹھیک نہیں یا دین ٹھیک نہیں ، یہ بالکل متضاد جواب ہے ، کیونکہ فقہ و رائے کا تعلق فروعی مسائل سے ہے نہ کہ اعتقادی مسائل سے ، اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ خراب تھا تو قاضی سوار رحمہ اللہ بتاتے کہ کونسا عقیدہ خراب ہے ، لیکن سوار رحمہ اللہ نے بتایا ہی نہیں ، اگر فروعی مسائل میں غلط تھے تو کونسے مسائل میں غلط تھے ، وہ بھی بتایا ہی نہیں ، بالفرض اگر فروعی مسائل میں امام صاحب سوار رحمہ اللہ کے مخالف صف میں ہوتے تب بھی امام صاحب پر اعتراض بنتا ہی نہیں کیونکہ وہ اجر کے مستحق ہیں
(صحیح مسلم 4487 ، صحیح بخاری 7352 ، سنن ابو داود 3574)
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں