اعتراض نمبر 88: کہ محمد بن حماد نے خواب میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کروں تو آپ نے فرمایا، نہیں نہیں نہیں۔ تو پھر پوچھا کہ کیا حدیث پر عمل کروں تو آپ نے فرمایا۔ ہاں ہاں ہاں۔ پھر آپ نے مجھے دعا سکھائی مگر میں بیدار ہونے پر وہ دعا بھول گیا۔
اعتراض نمبر 88: کہ محمد بن حماد نے خواب میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کروں تو آپ نے فرمایا، نہیں نہیں نہیں۔ تو پھر پوچھا کہ کیا حدیث پر عمل کروں تو آپ نے فرمایا۔ ہاں ہاں ہاں۔ پھر آپ نے مجھے دعا سکھائی مگر میں بیدار ہونے پر وہ دعا بھول گیا۔
أخبرنا البرقاني، أَخْبَرَنَا أَبُو بكر الحبابي الخوارزمي- بها- قال: سمعت أبا مُحَمَّد عبد الله بن أبي القاضي يقول: سمعت مُحَمَّد بن حماد يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيّ ﷺ فِي المنام، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي النظر في كلام أبي حنيفة وأصحابه، وأنظر فيها وأعمل عليها؟ قال: لا، لا، لا، ثلاث مرات. قلت: فما تقول في النظر في حديثك وحديث أصحابك، أنظر فيها وأعمل عليها؟ قال: نعم، نعم، نعم ثلاث مرات. ثم قلت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ، فعلمني دعاء وقاله لي ثلاث مرات، فلما استيقظت نسيته.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اب خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ابو حنیفہ کے مخالف اس میں بھی اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان تک پہنچا نہیں جا سکتا۔
اور اس خواب کا راوی عبد الله بن ابی القاضی ایسا ہے کہ ہم نے اس فن کے آدمیوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے اس کی توثیق کی ہو۔
اور امام بخاری نے الضعفاء میں اس سے روایت لی ہے اور بہر حال جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ امام بخاری نے اس سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے تو انہوں نے وہم کیا ہے کیونکہ وہ اس کی شرط کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے روایت لی ہے۔
اور محمد بن حماد جو کہ مقاتل بن سلیمان المروزی شیخ المجسمہ کے اصحاب میں سے ہے وہ مشہور وضاع ہے[1]۔ اور اس (زعفران سے رنگے ہوئے) رنگین خیال کے بطلان کی وضاحت میں صرف اتنا ہی کافی ہے۔
اور بہر حال سچے لوگوں کی سچی خوابیں تو ان کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ جو کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہے شک وہ الہام کے قبیل سے ہیں۔
تو دیکھنے والوں کے لیے صرف اپنی ذلت کی حد تک اس پر عمل کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم سے متصادم نہ ہو نیز یہ کہ اس نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کے مطابق دیکھا ہو جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کی ہے جو کہ شمائل ترمذی ص 9 میں ہے اور اس سچی خواب کے ذریعہ سے بھی مسائل علمیہ اور احکام شرعیہ میں دلیل پکڑنا صیح نہیں ہے[2]۔
اور اہل حق کے نزدیک الہام علم کے اسباب میں سے نہیں ہے۔
اور جو کتابیں ابوحنیفہ کے مناقب میں لکھی گئی ہیں ان میں سے کئی کتابوں میں اس خواب کے بر عکس خوابوں کا ذکر ہے۔ لیکن ہم یہاں ان کو نقل نہیں کرنا چاہتے اس لیے کہ یہ اہل علم کا طریق نہیں ہے۔
اور اللہ تعالی ہمیں راہ راست پر گامزن رکھے اور اہل سنت کے ائمہ میں سے کئی ایسے پائے جاتے ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کی خوابوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی خوابوں کو باطل خیال سمجھتے ہیں۔ اور عجیب بات ہے کہ بے شک مخالفین کے پاس جب کوئی دلیل نہ رہی تو وہ گالیوں اور طعن پر اتر آئے۔ پھر خوابوں کا سہارا لیا پھر اس میں جس کو وہ چاہتے ہیں دلیل بنا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے بعض نے نبی کریم ﷺ کو اس محفل میں بھی حاضر کر دیا جس میں خطیب نے اپنی تاریخ کو پڑھا۔ وہ تاریخ جو لوگوں کی خبروں سے متعلق کھلم کھلے جھوٹے واقعات کی وجہ سے اور ان موضوع احادیث کی وجہ سے غصہ دلانے والی ہے جن کو خطیب نے ان کے وضع ہونے کی وضاحت کیے بغیر ہی نقل کر دیا ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے اور اس کا دار و مدار صرف کمزور دینی اور چھپے ہوئے نفاق پر ہے جبکہ اس جیسی چیز سے صرف وہی آدمی دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے جس کی عقل میں فتور ہو یا اس کا ایمان کمزور ہو۔
ہم اللہ تعالی سے عافیت طلب کرتے ہیں
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ محمد بن حماد ، اگر مقاتل بن سلیمان کے شاگرد ہیں تو ان پر وضع کا الزام ہے (لسان المیزان ٦/ ٢١٦) اگر اس کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مجہول ہے ۔ لہذا یہ خواب بیان کرنے والا کون تھا ، کیسا تھا معلوم نہیں ، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا بیکار ہے۔
[2]۔ اچھے خواب اللہ کی طرف سے اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں پس جب کوئی اچھے خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اسے عزیز ہو اور جب برا خواب دیکھے تو اللہ کی اس کے شر سے پناہ مانگے اور شیطان کے شر سے اور تین مرتبہ تھوتھو کر دے اور اس کا کسی سے ذکر نہ کرے پس وہ اسے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا (بخاری 7044)۔
فرقہ اہلحدیث کے بدنام زمانہ متضاد شخصیت زبیر علی زئی لکھتے ہیں
"صحابۂ کرام کے بعد کسی اُمتی کا خواب حجت نہیں ہے "
(کتاب الاربعین لابن تیمیہ ص 114)
مزید یہ کہ خواب شرعی حجت نہیں ، خواب سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے جیسا کہ محدثین نے لکھا ہے
( فتح الباری 12 /388 ) اور خود غیر مقلدوں نے بھی لکھا ہے ۔
( فتاوی علمائے حدیث : باب الغسل والکفن 1/71 ، مقالات زبیر علی زئی 5/342 ، فتاوی ثنائیہ مدنیہ 1/881 )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں