نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 92: کہ محمد بن عبد الوهاب نے کہا کہ ابو حنیفہ کی مجلس لغو اور بے وقار ہوتی تھی اور سفیان ثوری کی مجلس میں وقار، سکون اور علم ہوتا تھا تو میں نے اسی کو اختیار کر لیا۔


 اعتراض نمبر 92: 
کہ محمد بن عبد الوهاب نے کہا کہ ابو حنیفہ کی مجلس لغو اور بے وقار ہوتی تھی اور سفیان ثوری کی مجلس میں وقار، سکون اور علم ہوتا تھا تو میں نے اسی کو اختیار کر لیا۔


أخبرني أبو نصر أحمد بن الحسين القاضي - بالدينور - أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن إسحاق السني الحافظ قال: حدثني عبد الله بن محمد بن جعفر، حدثنا هارون بن إسحاق سمعت محمد بن عبد الوهاب القناد يقول: حضرت مجلس أبي حنيفة، فرأيت مجلس لغو، ولا وقار فيه، وحضرت مجلي سفيان الثوري، فكان الوقار والسكينة والعلم فيه، فلزمته.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ القناد تو ان لوگوں میں سے ہے جو مسانید میں ابو حنیفہ سے بکثرت روایت کرنے والے ہیں[1]۔ اور خطیب کی روایت کے جھوٹا ہونا پر یہی دلیل کافی ہے۔ 

اور عبد اللہ بن محمد بن جعفر وہ نہیں ہے جو الشیخ بن حیان کا باپ ہے اس لیے کہ اس نے ھارون بن اسحاق الحمدانی کو نہیں پایا جس کی وفات 258ھ میں ہوئی۔ 

بلکہ یہ عبد اللہ بن محمد القاضی القزوینی ہے جو کہ کذاب مشہور ہے جس نے امام شافعی کی جانب منسوب کر کے دو سو کے قریب ایسی حدیثیں وضع کیں جن میں سے کسی کو امام شافعی نے بالکل بیان نہیں کیا[2]۔

 لیکن خطیب پرہیز نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے طریق سے ابو حنیفہ کے مطاعن کی روایات کرتا جاتا ہے جیسا کہ وہ اس کی روایت سے امام شافعی کے مناقب میں روایت لینے سے نہیں ڈرتا اور بے شک اسی طرح کیا ہے اس نے احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقی کے بارہ میں جس کو اس نے خود تاریخ ص 69.61 ج 2 اور ص 247 میں جھوٹا قرار دیا ہے۔ 

اور اگر یہ کھلے امور نہ ہوتے تو ایسے تیر نہ برستے جو سیدھے خطیب کی گردن تک پہنچ رہے ہیں تا کہ اس کو قتل کرنے کے مقام تک پہنچا دیں۔

اور خطیب نے اس کے بعد محمد بن عبد الله الحضرمی کے طریق سے ثوری سے حکایت کی ہے کہ بے شک وہ ابو حنیفہ کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے روکتے تھے[3]۔ اور ثوری کا اس کی مجلس سے روکنے کا ابوحنیفہ پر کیا اثر پڑتا ہے؟ 

یہ فرض کر کے کہ ابن رزق کو ضبط ہے اور یہ فرض کر کے کہ بے شک محمد بن ابی شیبہ کا مطین الحضرمی کے بارہ میں طعن درست نہیں ہے اور اس قسم کا روکنا تو ہم عصر لوگوں کے درمیان بکثرت پایا جاتا ہے[4]۔ اور یہی حال اس خبر کا ہے جو اس کے بعد ہے۔ 

اور رہی تیسری سند[5] تو اس میں الہیتی[6] ہے جس کے بارہ میں خطیب خود کہتا ہے کہ اس کے اصول کمزور تھے اور وہ بکثرت غلطیاں کرتا تھا اور وہ غفلت کا

شکار تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علم حدیث سے بالکل کورا تھا۔ ( تاریخ ص 475 ج 5) اور اس کا راوی النجاد تو ایسا راوی ہے جو ایسی باتوں کو بھی روایت کرتا تھا جن کا اس کو سماع نہیں ہوتا تھا۔ 

جس کی صراحت الدارقطنی نے کی ہے جیسا کہ خطیب کی تاریخ میں 191 ج 4 میں ہے۔

 بے شک احمد بن سلیمان نے دوسرے کی کتاب سے ان چیزوں کو بیان کیا جو اس کے اصول کے مطابق نہ تھیں جو لعل و لعل کے ساتھ ہی ہیں۔ 

تو اس طریق کے ساتھ خطیب کی ثوری کے بارہ میں یہ روایت ساقط ہو جاتی ہے کہ بے شک وہ ابوحنیفہ کی رائے میں غور کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔

 اور کہا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ابو حنیفہ میرے سامنے آجاتے تو مجھ سے کوئی مسئلہ پوچھتے تو میں اس کا جواب تو دے دیتا تھا مگر اس بات کو اچھا نہ سمجھتا تھا اور میں نے اس سے کبھی کوئی چیز دریافت نہیں کی[7]۔ 

یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے حالانکہ علی بن مسہر سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ بے شک وہ ابوحنیفہ کی کتابیں ثوری کے پاس اس کے طلب کرنے پر لے کر جاتے تھے اور جب اس سے ابوحنیفہ نے اس کو منع کیا تو ثوری نے ابوحنیفہ کی مجلس میں اس حال میں حاضر ہونا شروع کر دیا کہ اپنا سر ڈھانپ رکھا ہوتا تھا۔ 

اور ابن ابی العوام اور ابو عبد الله الصیمری کی کتابوں میں ان

روایات کو بیان کیا گیا ہے جن کو یہاں نقل کرنے سے بحث طویل ہو جائے گی اور عنقریب ابوحنیفہ کے بارہ میں ثوری کی روایت المرتدہ والی حدیث میں آرہی ہے۔

 اور اس کے بعد والی خبر جس میں ہے کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابوحنیفہ علم اور سنت کے بغیر ہی امور میں بے سوچے سمجھے باتیں کیا کرتے تھے[8] تو اس کی سند میں محمد بن الحسین بن حمید الربیع ہے جو کذاب ابن کذاب ہے اور اس سند میں جو محمد بن عمر ہے وہ ابن ولید التیمی ہے اور مطبوعہ تمام نسخوں میں ولید کی جگہ دلیل لکھ دیا گیا ہے جو کہ تصحیف ہے اور اس کے بارہ میں ابن حبان نے کہا کہ کہ وہ امام مالک سے ایسی باتیں نقل کرتا تھا جو اس کی حدیث میں سے نہ ہوتی تھیں تو اس سے احتجاج جائز نہیں ہے۔

 اور ابو حاتم نے اس کے معاملہ کو مضطرب خیال کیا ہے اور ابن الجوزی نے اس کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے[9]۔ 

اور اس کے بعد والی خبر[10] جس میں ہے کہ سفیان کی مجلس میں لوگوں نے ابوحنیفہ کا تذکرہ کیا تو اس نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ نبطی جب عرب بن جائے تو اس کے شر سے پناہ مانگو۔

 تو اس کی سند میں تینوں ساتھی ابن رزق اور ابن سلم اور الابار ہیں۔ 

اور بے شک ان کے تذکرے پہلے ہو چکے ہیں اور سفیان بن وکیع نے اس روایت کو بگاڑ کر خوش منظر بنا دیا ہے[11] تو یہ روایت ایسی ہو گئی کہ اہل جرح کے ہاں اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے۔ 

اور ابوحنیفہ اصل فارسی النسب ہیں جو کہ بعد میں عرب بن گئے جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سریانی تھے تو عرب بن گئے تھے۔

 اور النبط تو وہ لوگ ہیں جو آرامی ہیں جو کہ عراق کے اصلی باشندے ہیں اور اسی لیے تو النبطی کا لفظ عراقی پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 

خواہ وہ ان کے نسب سے نہ ہو۔ جیسا کہ یہ بات انساب السمعانی سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

 تو یہ صحیح ہے کہ ابوحنیفہ کے بارہ میں کہا جائے کہ وہ نبطی تھے اس معنی میں کہ وہ عراقی تھے اور یہ ایسے ہی ہیں کہ ان لوگوں کو رومی کہا جائے جو ترک کے بلاد عثمانیہ سے ہوں۔ 

یہ اعتبار کر کے کہ بے شک یہ بلاد اس کے اصلی باشندوں کے ساتھ مشہور ہیں اور وہ روم ہے۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہر نبطی جو عرب بن جائے اس سے پناہ مانگنا تو نری جہالت ہے اور جاہلیت کی وجہ سے ہے[12]۔ 

اور ائمہ کے درمیان کتنے ہی الزعفرانی جیسے تھے جو امام شافعی سے کنارہ کش رہتے تھے۔ تو جیسے اس کی وجہ سے امام شافعی پر کوئی طعن نہیں تو اگر بالفرض ثابت بھی ہو جائے کہ سفیان ثوری ابوحنیفہ سے کنارہ کش ہو گئے تھے تو( اس کی وجہ سے ابوحنیفہ پر بھی کوئی طعن نہیں ہے)

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ تاريخ الإسلام - ت بشار ٥/‏٤٤٥ 

[2]۔ عبد الله بن محمد بن جعفر، أبو القاسم القزويني الفقيه الشافعي.

كَذَّاب يضع الحَدِيث

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله ٢/‏٣٧١ ، سؤالات الحاكم للدارقطني ١/‏١٢٠ )


[3]۔ أَخْبَرَنَا ابن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخلدي، حَدَّثَنَا مُحَمَّد ابْن عَبْد اللَّه بْن سُلَيْمَان الحضرمي، حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن الْحَسَن الترمذي قَالَ: سمعت الفريابي يقول: سمعت الثوري ينهى عن مجالسة أبي حنيفة وأصحاب الرأي.

[4]۔ یہاں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا تعصب واضح نظر آ رہا ہے ، کیا سفیان ثوری رحمہ اللہ خود اہل الرائے میں سے نہ تھے ، غیر مقلدین سے سوال ہیکہ وہی رفع الیدین ابو حنیفہ ترک کریں تو ناقابل قبول ، وہی رفع الیدین سفیان ثوری رحمہ اللہ ترک کریں تو وہ قابل قبول ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ اہل الرائے بھی نہ ہیں ؟ ، حقیقت یہ ہیکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس کوئی بھی دلیل نہ تھی کہ کیوں اہل الرائے کی مجالس میں شرکت نہ کی جائے ، فقہ حنفی اور فقہ ثوری جب %90 مماثلت رکھتا تھا تو ، کیا وجہ تھی سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ، امام صاحب سے تعصب کی ؟ وہ وجہ صرف معاصرانہ چشمک تھی اور کچھ نہیں۔


 مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75 میں دیکھ سکتے ہیں۔


[5]۔ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّد بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أبان التغلبي الهيتي ، حدّثنا أحمد بن سلمان النجاد ، حدّثنا أحمد بن محمّد بن شاهين، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن سهل قَالَ: سمعت مُحَمَّد بْن يوسف الفريابي يقول: كان سفيان ينهى عن النظر في رأي أبي حنيفة. قال: وسمعت مُحَمَّد بن يوسف- وسئل هل روى سفيان الثوري عن أبي حنيفة شيئا؟ - قال: معاذ الله، سمعت سفيان الثوري يقول: ربما استقبلني أَبُو حنيفة يسألني عن مسألة، فأجيبه وأنا كاره، وما سألته عن شيء قط.

[6]۔ أبو بكر محمد بن عبد الله بن أبَان بن قُدَيس بن صَفْوَان التَّغْلِبِي الهِيتِي المعروف بابن أبي عَبَاية

. ذكره الخطيب في تاريخه وقال: كانت أصوله سقيمة كثيرة الخطأ 

(تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٣/‏٩٥ ) 

[7]۔ اس کی تفصیل کیلئے دیکھیں حاشیہ نمبر 9۔ 

[8]۔ أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر مُحَمَّد بن عُمَر الداودي، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبيد الله بن أَحْمَد بن يَعْقُوب المقرئ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن حميد بن الربيع، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن عُمَر بن وليد، قال: سمعت مُحَمَّد بن عبيد الطنافسي، يقول: سمعت سفيان وذكر عنده أَبُو حنيفة، فقال: يتعسف الأمور بغير علم ولا سنة

[9]۔ راوی محمد بن عبيد بن أبي أمية الطنافسي اگر چہ ثقہ ہیں لیکن امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ 

كان محمد يخطئ ولا يرجع عن خطأه، وكان يظهر السنة 

[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 8/ 10]

وہ غلطیاں کرنے تھے اور اس سے باز نہ آتے ۔ جبکہ محمد بن عمر بن ولید اگر یہ مُحَمَّد بن عُمَر بن الوليد بن لاحق التَّيْمِيّ كوفي ہے تو ضعیف ہے اور آئمہ نے اس پر جروحات کیں ہیں 

مُحَمَّد بن عمر بن الْوَلِيد شيخ يروي عَن مَالِك مَا لَيْسَ من حَدِيثه لَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ وَلَا الرِّوَايَة عَنْهُ إِلَّا عَنهُ الِاعْتِبَار للخواص 

(المجروحين لابن حبان ت زايد ٢/‏٢٩٢)

مُحَمَّد بن عمر بن الْوَلِيد قَالَ ابْن حبَان يروي عَن عَليّ مَا لَيْسَ من حَدِيثه وَلَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ

(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ٣/‏٨٨ )

اگر یہ معلمی یمانی کا تعین کردہ محمد بن عمر بن وليد الكندي الكوفي ہے تو وہ ثقہ ہیں ، لیکن معلمی یمانی نے بھی کوئی دلیل نہ دی ، نہ ہی الکندی کوفی کے اساتذہ میں اس سند کے رواة ہیں ، اور معلمی کا جو یہ دعوی ہیکہ الکندی بھی کوفی ہے ، اور محمد بن حسین بھی کوفی ہے اور الطنافسی بھی کوفی ہے تو عرض ہیکہ ہمارا تعین کردہ راوی مُحَمَّد بن عُمَر بن الوليد بن لاحق التَّيْمِيّ بھی تو كوفي ہی ہے ، اور اگر محمد بن عمر لاحق تیمی طنافسی متوفی 204 ھ کو پا سکتا ہے تو یہ کوئی بعید نہیں کہ اس سے محمد بن حسین بن حمید الربیع (پیدائش 240 ھ) روایت کر لے ، کیونکہ لہذا معلمی یمانی کا تعین کردی راوی بھی کوئی حتمی نہیں ہے صرف اندازہ ہے۔ 

بالفرض اگر یہ سند صحیح بھی ہے تب بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا ، کیونکہ وہی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس قدر تعصب رکھتے تھے کہ فرماتے تھے مین حق بات پر بھی ابو حنیفہ کی موافقت کو پسند نہیں کرتا ، یہی سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ سے استفادہ بھی کرتے نظر آتے ہیں ، 


قال ونا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد بن فراس قال نا موسى ابن هارون قال نا يحيى بن عبد الحميد الحماني عن علي بن مسهر قال كنت عند سفيان الثوري فسأله رجل عن رجل توضأ بماء قد توضأ به غيره فقال نعم هو طاهر فقلت له ان أبا حنيفة يقول لا يتوضأ به فقال لي لم قال ذلك قلت يقول إنه ماء مستعمل ثم كنت عنده بعد ذلك بأيام فجاءه رجل فسأله عن الوضوء بماء قد استعمله غيره فقال لا يتوضأ به لأنه ماء مستعمل فرجع فيه إلى قول أبى حنيفة

 علی بن مسہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا کہ ایک شخص ایسے پانی سے وضو کر سکتا ہے جس کو پہلے کسی شخص نے استعمال کر لیا ہو ؟ 

 تو جواب میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک ہے پانی پاک ہے ۔

 علی بن مسھر کہتے ہیں میں نے امام سفیان ثوری سے کہا کہ امام ابو حنیفہ تو کہتے ہیں ایسے پانی سے وضو نہیں ہوگا 

تو امام سفیان نے مجھ سے دریافت کیا کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ؟ 

تو میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں ایسا پانی ماء مستعمل ہے 

پھر کچھ دن بعد میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے ایسے ہی پانی سے وضو کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو امام سفیان نے فرمایا : ایسے پانی سے وضو نہیں کیا جائے گا کہ یہ ماء مستعمل ہے۔ 

تو علی بن مسہر رحمہ اللہ کہتے ہیں امام سفیان نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کے قول کی طرف رجوع کر لیا 

( الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٦)

1۔ إبراهيم بن أحمد بن فراس العبقسي المكي أبو إسحاق 

 ثقة صدوق

(تاريخ الإسلام (٧/ ٧٧٩، ٧٩٨). وانظر: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم (٢). )

2۔ موسى ابن هارون ابن عبد الله الحمال : ثقة حافظ كبير 

(تقريب التهذيب ١/‏٥٥٤ )

3۔ يحيى بن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن ميمون بن عبد الرحمن أبو زكريا

ثقة

( سير أعلام النبلاء - 10/527)

4۔ علي بن مسهر بن علي بن عمير بن عاصم بن عبيد بن مسهر

فقيها محدثا ثقة 

[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (3/ 459)]

یہاں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، فقہ ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں لہذا یہ روایت کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ بالکل بھی نہ کرتے تھے اور ابو حنیفہ ان سے استفادہ کرتے تھے اور وہ فرماتے تھے کہ ابو حنیفہ سنت اور علم کے بغیر کلام کرتے تھے ، معتبر نہیں ہے ، بلکہ اس کے برعکس ، سفیان رحمہ اللہ کا استفادہ کرنا ثابت ہے جو اس بات کی دلیل ہیکہ امام صاحب صحیح علم رکھتے تھے تب ہی تو سفیان خود ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور فقہ سفیان ثوری فقہ حنفی کے بہت قریب تھا ۔





[10]۔أَخْبَرَنَا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدّثنا الأبار، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ: سمعت أبي يقول: ذكروا أبا حنيفة في مجلس سفيان فقال: كان يقال عوذوا بالله من شر النبطي إذا استعرب.

[11]۔ سفيان بن وكيع بن الجراح بن مليح بن عدي 

الجرح والتعديل : 

محمد بن إسماعيل البخاري :

يتكلمون فيه لأشياء لقنوه


أبو دواد السجستاني :

ترك الحديث عنه


أحمد بن شعيب النسائي :

ليس بثقة، ومرة: ليس بشيء، وقال مرة لإسحاق بن إبراهيم: لا تحدث عن سفيان بن وكيع

الذهبي :

ضعيف

أبو أحمد بن عدي الجرجاني :

يتكلمون فيه لأشياء لقنوه، إنما بلاؤه أنه كان يتلقن ما لقن، ويقال: كان له وراق يلقنه من حديث موقوف يرفعه، وحديث مرسل فيوصله أو يبدل في الإسناد قوما بدل قوم

أبو حاتم الرازي :

لين

أبو زرعة الرازي :

لا يشتغل به، كان يتهم بالكذب، ومن رواية بكر بن مقبل قال: ثلاثة ليست لهم محاباة عندنا فذكره منهم

الدارقطني :

لين تكلموا فيه

مصنفوا تحرير تقريب التهذيب :

ضعيف






[12]۔ عرب عجم کے لوگ برابر ہیں اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے۔ مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 4 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...