نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 95: کہ ابو عاصم نے کہا کہ ابو حنیفہ کی فقہ سے توبہ کرنی چاہیے۔


 اعتراض نمبر 95:

 کہ ابو عاصم نے کہا کہ ابو حنیفہ کی فقہ سے توبہ کرنی چاہیے۔


أخبرنا البرقاني، حدثني محمد بن أحمد بن محمد الأدمي، حدثنا محمد بن علي الإيادي وقال زكريا: سمعت محمد بن الوليد البسري قال: كنت قد تحفظت قول أبي حنيفة، فبينا أنا يوما عند أبي عاصم، فدرست عليه شيئا من مسائل أبي حنيفة، فقال ما أحسن حفظك، ولكن ما دعاك أن تحفظ شيئا تحتاج أن تتوب إلى الله منه


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں الادمی[1] اور زکریا الساجی ہیں[2] اور پہلے خطیب نے ہی

ص 342 میں خود ابو عاصم سے عمدہ سند کے ساتھ ایسا واقعہ نقل کیا ہے جو اس کے منافی

ہے[3]۔ اور ابو عاصم النبیل تو بصرہ میں امام زفر کے اصحاب میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو ابو حنیفہ کی فقہ کو بہت ہی زیادہ پسند کرتے تھے مگر کذاب لوگ (جھوٹی روایات کر کے) اسی طرح اپنے آپ کو رسوا کرتے ہیں

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ 

[1]۔ مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن جعفر بْن مُحَمَّد بْن عَبْد الملك، أَبُو الْحَسَن الأدمي

لم يكن هذا صدوقا في الحديث كان يسمع لنفسه في كتب لم يسمعها.

(تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١/‏٣٦٦ ، ميزان الاعتدال ٣/‏٤٥٧ )


[2]۔ امام زکریا ساجی احناف سے بہت زیادہ متعصب تھے۔

•امام ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ الساجی، احناف سے چڑ رکھتے تھے یعنی احناف سے بغض رکھتے تھے

( الانتقاء ت ابو غدہ ص 287)

• وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ: مُخْتَلَفٌ فِيهِ فِي الْحَدِيثِ، وَثَّقَهُ قَوْمٌ وَضَعَّفَهُ آخَرُونَ

ابو الحسن بن القطان نے کہا کہ حدیث میں اگر یہ آجائے تو اس کے بارہ میں اختلاف کیا گیا ہے۔ ایک جماعت نے اس کی توثیق کی ہے اور دوسروں نے اس کو ضعیف کہا ہے۔

(ميزان الاعتدال ٢/‏٧٩ )

 • مِنْ عِنْدِهِ فَإِنَّهُ غَيْرُ مَأْمُونٍ 

امام ابو بکر الجصاص فرماتے ہیں کہ الساجی مامون نہیں ہے

( أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي ١/‏١٤٠ )


[3]۔ أَخْبَرَنِي عبد الباقي بن عبد الكريم المؤدب، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الرَّحْمَن بن عُمَر الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب بن شيبة، قَالَ: حَدَّثَنَا جدي، قَالَ: حَدَّثَنِي يَعْقُوب بن أَحْمَد، قال: سمعت الحسن بن علي، قال: سمعت يزيد بن هارون، وسأله إنسان، فقال: يا أبا خالد، من أفقه من رأيت؟ قال: أَبُو حنيفة.

قال الحسن، ولقد قلت لأبي عاصم، يعني: النبيل: أَبُو حنيفة أفقه أو سفيان؟ قال: عبد أبي حنيفة أفقه من سفيان


حسن بن علی کہتے ہیں: میں نے یزید بن ہارون کو سنا، جب ان سے ایک شخص نے پوچھا:

 " اے ابو خالد، آپ نے کس کو سب سے زیادہ فقیہ پایا ؟ " انہوں نے کہا: " ابو حنیفہ ۔" 

حسن نے کہا، اور میں نے ابو عاصم  النبيل ضحاک بن مخلد (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد) سے پوچھا : " کیا ابو حنیفہ زیادہ فقیہ ہیں یا سفیان ؟ "

 انہوں نے کہا : " عبد ابو حنیفہ (یعنی امام ابو حنیفہ کے اصحاب بھی) سفیان سے زیادہ فقیہ ہیں ۔ (یعنی جب اصحاب ابی حنیفہ ہی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے زیادہ فقیہ ہیں تو خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کیا مرتبہ ہو گا ، اندازہ لگا لیں)"

(تاریخ بغداد ت بشار 15/468 ، غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی کے پسندیدہ محقق دکتور بشار عواد کہتے ہیں "اسنادہ حسن" اس کی سند حسن درجہ کی ہے )

ایک اور صحیح روایت ملاحظہ ہو۔ 

أخبرني عبد الباقي بن عبد الكريم، أخبرنا عبد الرحمن بن عمر، حدثنا محمد بن أحمد بن يعقوب، حدثنا جدي قال: حدثني محمد بن بكر قال: سمعت أبا عاصم النبيل يقول: كان أبو حنيفة يسمى الوتد لكثرة صلاته.

امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام ضحاک بن مخلد ابو عاصم النبیل اپنے استاد محترم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو ان کی کثرت نماز (طول قیام ) کی وجہ سے کیل کہا جاتا تھا۔

(تاریخ بغداد ت بشار 15/484 اسنادہ صحیح )

 یعنی کیل کو جب گاڑھ دیا جائے تو وہ ایک ہی جگہ مضبوطی سے قائم رہتی ہے ، کوئی حرکت نہیں کرتی، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کثرت سے نماز میں طویل قیام فرماتے تھے ، کوئی ادھر ادھر حرکت نہ فرماتے جس سے خشوع و خضوع میں کمی واقع ہو ، تو دیکھنے والے نے کیل سے تشبیہ دی کہ کس قدر  مضبوطی سے قیام میں کھڑے رہتے ہیں ، اور نماز میں قراءت میں مصروف رہتے ہیں ، چونکہ طول قیام نماز میں سب سے زیادہ افضل ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے

افضل الصلاة طول القنوت " قیام کا لمبا ہونا بہترین نماز ہے۔"

(صحیح مسلم حدیث نمبر: 1768) 



ایک اور روایت ملاحظہ ہو۔ 

أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد القَاضِي قَالَ أنبأ أَبُو بكر الدَّامغَانِي قَالَ أنبأ الطَّحَاوِيّ قَالَ سَمِعت أَبَا خازم يَقُول سَمِعت عبد الرَّحْمَن بن نائل القَاضِي يَقُول كنت أسأَل هلالا وَأَبا عَاصِم عَن مسَائِل مُحَمَّد بن الْحسن من الْجَامِع الْكَبِير فَكَانَ أَبُو عَاصِم أحفظ لَهَا من هِلَال قَالَ وَكَانَا يقعدان فِي جَامع الْبَصْرَة إِلَى سَارِيَة وَاحِدَة  وَلزِمَ أَبُو عَاصِم زفر بن الْهُذيْل بعد أبي حنيفَة وَعَلِيهِ تفقه وَهُوَ الَّذِي لقبه ب النَّبِيل


عبدالرحمن بن نائل کہتے ہیں  کہ میں ہلال اور ابو عاصم سے امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی کتاب" الجامع الکبیر " کے مسائل پوچھتا تھا ، تو ابو عاصم ، ہلال سے زیادہ حافظ تھے..  آگے کہتے ہیں کہ امام ابو عاصم نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد امام زفر بن ہذیل رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کی اور ان سے فقہ سیکھی ، اور انہیں "النبیل" کا لقب دیا گیا۔"

 أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/‏١٥٩ ) 

سند میں کچھ کلام ہے مگر تاریخ بغداد ت بشار 15/468 اسنادہ حسن سے اور کتب تراجم احناف رحمھم اللہ سے اس کی تائید ہوتی ہے جو روایت کے ضعف کے زائل کو کافی ہے)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...