نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام الزاھد داود الطائی رحمہ اللہ : اعتراض : غیر مقلدین یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ، جناب امام داود الطائی رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کو ترک کر دیا تھا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تنقید کی۔


۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام الزاھد داود الطائی رحمہ اللہ :


اعتراض : غیر مقلدین یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ، جناب امام داود الطائی رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کو ترک کر دیا تھا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تنقید کی۔ 

تمہید : 

سب سے پہلے غیر مقلدین نام نہاد فرقہ اہلحدیث کا اقتباس ، محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ 


"بعضوں نے تو صرف مجلس چھوڑنے پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ امام صاحب کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ مثال کے طور پر امام داؤد الطائی رحمہ اللہ شروع میں تو امام صاحب کی صحبت میں رہے‘ لیکن جلد ہی ان پر زہد و ورع کا غلبہ ہوا تو انہوں نے امام صاحب کی مجلس چھوڑ دی۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ أخبرنا الحسن بن أبی طالب أخبرنا علی بن عمرو الحریری أن علی بن محمد بن کاس النخعی حدثھم قال حدثنا أحمد بن أبی أحمد الختلی حدثنا محمد بن اسحاق البکائی حدثنا الولید ابن عقبۃ الشیبانی قال لم یکن فی حلقۃ أبی حنیفۃ أرفع صوتا من داؤد الطائی ثم إنہ تزھد واعتزلھم وأقبل علی العبادۃ۔ ‘‘[1]

’’ہمیں حسن بن أبی طالب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں علی بن عمرو حریری نے خبر دی کہ علی بن محمدبن کاس نخعی نے انہیں بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أحمد بن أبی أحمد ختلی نے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن اسحاق بکائی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ولید بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا: امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں داؤد طائی رحمہ اللہ سے زیادہ اونچی آواز والا کوئی شخص نہ تھا۔ پھر اس پر زہد طاری ہوگیا تو اس نے امام صاحب اور آپ کے شاگردوں کی مجلس کو چھوڑ دیا اور عبادت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گیا۔ 


خطیب بغدادی رحمہ اللہ ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :

’’أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق أخبر جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی حدثنا محمد بن عبد اللّٰہ ابن سلیمان الحضرمی حدثنا عبد اللّٰہ بن أحمد بن شبویہ قال سمعت علی بن المدینی یقول سمعت ابن عیینۃ یقول کان داؤد الطائی ممن علم وفقہ قال وکان یختلف إلی أبی حنیفۃ حتی نفد فی ذلک الکلام قال فأخذ حصاۃ فحذف بھا انسانا فقال لہ یا أبا سلیمان طال لسانک وطالت یدک؟ قال فاختلف بعد ذلک سنۃ لا یسأل ولا یجیب فلما علم أنہ یصبر عمد إلی کتبہ فغرقھا فی الفرات ثم أقبل علی العبادۃ وتخلی۔ "


ہمیں محمد بن أحمد بن رزق نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں جعفر بن محمد بن نصیر خلدی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن أحمد بن شبویہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ میں نے علی بن مدینی رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابن عیینہ رحمہ اللہ سے سنا‘ وہ فرما رہے تھے: داؤد طائی رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے علم و فقاہت حاصل کی اور وہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے تو امام داؤد طائی رحمہ اللہ (غصے سے)کچھ کنکریاں لے کر کسی انسان پر پھینک دیتے۔ ایک دفعہ امام صاحب نے داؤد طائی رحمہ اللہ کو کہا: تمہاری زبان کے ساتھ ساتھ تمہارے ہاتھ بھی لمبے ہو گئے ہیں ؟راوی کہتے ہیں : اس کے بعد بھی وہ ایک سال تک اختلاف کرتے رہے لیکن اس طرح کہ نہ توکوئی سوال کرتے تھے اور نہ ہی کسی مسئلے کا جواب دیتے تھے۔ پس جب امام صاحب کو معلوم ہو گیاکہ وہ صبر بھی کر سکتے ہیں تو وہ ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے جو انہوں نے امام صاحب سے لکھی تھیں اور انہیں دریائے فرات میں پھینک دیا۔ ‘‘


( عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 274 ، 275 )


غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب : 


غیر مقلدین نے یہاں کمال مہارت کے ساتھ 6 خیانتیں کیں ہیں۔ 


خیانت نمبر 1 :


روایت کے الفاظ یہ ہیں 

《وكان يختلف إلى أبي حنيفة 》، جب 《أختلف》کا لفظ 《إلى》کے ساتھ آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے "آمد و رفت یعنی آتے جاتے رہنا " ، اس کا معنی "بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنا" بالکل غلط ہے اور "بڑھ چڑھ " یہ ترجمہ تو روایت کے کسی لفظ کا ہے ہی نہیں ۔ 

 لغت عرب سے ہمارے دعوی کی مثال دیکھیں

■ فكانت أمه ‌تختلف ‌إليه وترضعه حتى فطمته وعَقِل

( موسوعة التفسير المأثور 8/ 435)


ترجمہ : کہ ان (حضرت ابراہیم علیہ السلام)کی والدہ ، غار میں ان کے پاس آتی جاتی تھی ، ان کو دودھ پلاتی تھیں ۔۔ الخ 


اب اگر غیر مقلدین کی خیانت کی طرح ، ترجمہ یوں کیا جائے کہ " بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنا " ،  تو مذکورہ بالا عبارت ایسے بن جائے گی 

کہ ان کی والدہ غار میں ان سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتی تھیں اور دودھ پلاتی تھیں ۔۔الخ 


یہاں ترجمہ بالکل غلط ہے ، اور عبارت میں کوئی ربط نہیں ہے ، دودھ پیتے بچے سے کون سی ماں اختلاف کرتی ہے ؟؟؟ وہ بھی بڑھ چڑھ کر اختلاف ۔ 


 لہذا غیر مقلدین نے جان بوجھ کر یا انجانے میں ، روایت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ بالکل غلط کیا ہے ، غلط ترجمہ سے معانی میں ہیر پھیر کی ہے ، تا کہ عوام کو یہ بتایا جا سکے کہ ، امام صاحب کے شاگردوں کا رویہ ، امام ابو حنیفہ سے اچھا نہ تھا (غیر مقلدین ، تعصب کے ماری قوم عجیب فسادی قوم ہے ، جہاں علمی اختلاف ہو ، جیسے امام صاحب اور صاحبین کا جن مسائل میں اختلاف ہے ، اس کو علمی اختلاف کے بجائے میدان کارزار بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور جہاں اختلاف کا نام و نشان ہی نہیں ، اس روایت کا معنی بدل کر اختلاف بنا دیتے ہیں ، اللہ ایسی مفسد قوم سے اہل السنت والجماعت کو محفوظ رکھے آمین) ۔

  

صحیح ترجمہ کے ساتھ عبارت : 

《وكان يختلف إلى أبي حنيفة حتى نفذ في ذلك الكلام》


امام داود طائی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ، حتی کہ امام صاحب کے کلام یعنی فقہ و رائے یا مذہب میں راسخ ہو گئے (ظاہر ہے جب آمد و رفت زیادہ ہو گی ، تبھی وہ تلمذ کریں گیں اور فقہ سیکھ کر ماہر بنیں گے ، معلوم ہوا ، جب ترجمہ صحیح کیا گیا تو ، داود طائی رحمہ اللہ فقہ حنفی کے ماہر ثابت ہوئے ) ۔ 


خیانت نمبر 2 : 

《 حتى نفذ في ذلك الكلام 》


غیر مقلدین نے ترجمہ کیا ہے کہ 

" یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے " ۔ یہ بالکل غلط ترجمہ ہے کیونکہ نفذ کی ضمیر امام ابو حنیفہ کی طرف قطعا نہیں لوٹ سکتی ۔


جبکہ صحیح ترجمہ وہی ہے جو ہم بے بیان کیا ہے  "حتی کہ وہ اس کلام یعنی فقہ میں ماہر ہو گئے" 


خیانت نمبر 3 : 


امام داود طائی رحمہ اللہ نے کسی کو کنکری ماری تھی ۔ یہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ کنکری کس کو اور کیوں داود طائی رحمہ اللہ نے ماری ، چونکہ امام ابو حنیفہ استاد تھے اور استاد ادب سکھاتا ہے لہذا امام صاحب نے فریضہ معلمی کے تحت شاگرد کو ڈانٹا ۔ لیکن غیر مقلدین کے ترجمہ ہوں  کیا ہے کہ 


"داود طائی امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے تو امام داؤد طائی رحمہ اللہ (غصے سے)کچھ کنکریاں لے کر کسی انسان پر پھینک دیتے"۔


جب کہ ، داود طائی رحمہ اللہ کے کنکری مارنے کی وجہ تو روایت میں ہے ہی نہیں ۔ دوسری بات اگر داود طائی کو غیر مقلدین کے بقول بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنے کی عادت تھی تو ، کسی فیصلہ پر وہ علمی گفتگو کرتے ، کنکریاں کیوں مارنے لگ گئے ، وہ بھی کسی تیسرے شخص کو ؟

معلوم ہوا ، غیر مقلدین کا بناوٹی ترجمہ ، عقلی طور پر بھی درست نہیں۔ 


ہم یہ کہتے ہیں کہ جب امام داود طائی رحمہ اللہ نے کسی کو کنکری ماری تو ، امام ابو حنیفہ نے بطور استاد ان کو ڈانٹا (جو کہ استاد کا حق ہے ، شاگردوں کو ادب سکھانا)

اور شاگرد جناب داود طائی رحمہ اللہ نے اس ڈانٹ کو دل پر لیا ، اور یہاں سے وہ زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی طرف مائل ہوئے کہ اب اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔

یہاں امام داود طائی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس فقہ کو بھی ترک نہیں کیا (کہ کہیں یہ بھی نفس کا ایک حربہ نہ ہو) بلکہ ایک سال تک برابر شریک ہوتے رہے اور اپنے نفس کی تربیت کرتے رہے کہ وہ علم کی مجلس میں آتے لیکن پہلے کی طرح نہ اونچی آواز میں کلام کرتے ، نہ کسی کو کنکری ماری ، نہ سوال کرتے تھے نہ ہی جواب دیتے تھے 


خیانت نمبر 4 : 


غیر مقلدین نے لکھا ہیکہ وہ ایک سال تک اختلاف تو کرتے رہے لیکن نہ سوال نہ ہی جواب  کرتے تھے (غیر مقلدین ہر حال میں یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ کسی طرح ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو آپس مین دشمن قرار دیا جائے )


 ہم یہ کہتے ہیں کہ اے غیر مقلد عقل کے دشمن فرقہ ، جب وہ ایک سال تک سوال و جواب ہی نہ کرتے تھے تو اختلاف کیسے کرتے تھے ؟ 


نکتہ : امام داود طائی رحمہ اللہ ، جب ایک سال تک نفس کی تربیت کر گئے تو انہوں نے اب باقاعدہ زہد کو اختیار کیا اور خود اپنی کتب ، دریائے فرات میں بہا دیں ۔ ہمارے نزدیک یہ اس وجہ سے تھا کہ داود طائی رحمہ اللہ یکسو ہو کر صرف زہد کو اختیار کرنا چاہتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ مفسر ، محدث یا فقیہ بنیں ، بلکہ وہ صرف صوفی و زاہد بننا چاہتے تھے۔ 


خیانت نمبر 5 :

غیر مقلدین یہ دعوی کرتے ہیں انہوں نے امام صاحب پر تنقید کی اور فقہ حنفی کو ترک کر دیا ۔ 


ہمارا جواب یہ ہیکہ اول تو ، غیر مقلدین نے خیانت کرتے ہوئے روایت کا پورا مکمل ترجمہ نہیں کیا ، روایت کے آخری حصہ میں امام زائدہ ، داود طائی رحمہ اللہ پے پاس آئے اور ان سے 《الم غلبت الروم》کی تفسیر کروانی چاہے کیونکہ داود طائی رحمہ اللہ اس کی بہت اچھی تفسیر کیا کرتے تھے ۔ لیکن زہد اختیار کرنے کے بعد داود طائی رحمہ اللہ نے دو مرتبہ اس آیت کی تفسیر کرنے سے بھی منع کیا اور فرمایا کہ ، میں نے اب تفسیر کرنا چھوڑ دی ہے ۔ یعنی عبادت کے اندر اتنی مشغولیت اختیار کر لی تھی کہ تفسیر بھی نہیں کرتے تھے۔  


ایک اور روایت ملاحظہ ہو 


حَدثنَا القَاضِي أَبُو عبد الله الضَّبِّيّ قَالَ أنبأ أَبُو الْعَبَّاس احْمَد بن مُحَمَّد الْهَمدَانِي قَالَ ثَنَا يحيى بن زَكَرِيَّا بن شَيبَان قَالَ ثَنَا عبد الله بن ماهان قَالَ سَمِعت حَفْص بن غياث يَقُول كَانَ دَاوُد الطَّائِي يجالسنا عِنْد أبي حنيفَة حَتَّى برع فِي الرَّأْي ثمَّ رفض ذَلِك ورفض الحَدِيث وَكَانَ قد أَكثر مِنْهُ وَلزِمَ الْعِبَادَة والتوحش من النَّاس


أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/‏١٢١ — الصيمري ، قطع نظر اس روایت کی اسنادی حیثیت کیا ہے ، چونکہ یہ روایت تاریخ بغداد کی صحیح روایت کو ہی تقویت دے رہی ہے جسے خود غیر مقلدین نے پیش کیا ہے ، لہذا ہم اسے پیش کر رہے ہیں  )


یہاں اس روایت میں  امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ داود طائی رحمہ اللہ نے نہ صرف فقہ چھوڑی بلکہ حدیث بھی چھوڑ دی ۔ 


اب ہم غیر مقلدین سے سوال کرتے ہیں کہ اگر تمارے مطابق داود طائی نے فقہ حنفی کو نفرت سے ترک کر دیا تھا اور کتب فقہ فرات میں پھینک دی تھیں  تو اسی روایت میں تفسیر قرآن کا جواب دینے سے بھی داود طائی کا منع کرنا مذکور ہے (جس کا ترجمہ جان بوجھ کر غیر مقلدین نے نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ داود طائی کو تارک فقہ حنفی باور کروایا جائے) ، تو تفسیر قرآن کے منع کرنے پر غیر مقلدین کیا جواب دیں گے ، اسی طرح حدیث کے حفظ کو ترک کرنے پر غیر مقلدین کیا جواب دے گیں ؟ 


خلاصہ کلام :


1۔ معلوم ہوا کہ نہ تو امام داود طائی امام ابو حنیفہ سے ناراض تھے ، نہ فقہ حنفی کے تارک بلکہ

انہوں نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرح زہد کو اختیاد کیا تھا ، جیسے شیعہ روافض اعتراض کرتے ہیں کہ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین و صحابہ کو ترک کیا تھا اور صحابہ اور بالخصوص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک منفی پراپوگینڈا کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح روافض کے چھوٹے بھائی فرقہ اہلحدیث کہتے ہیں کہ داود طائی نے امام صاحب اور فقہ حنفی کو ترک کر دیا تھا ، حالانکہ داود طائی رحمہ اللہ بھی حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرح زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے ۔


 چونکہ غیر مقلد اہلحدیثوں نے شیعہ روافض کی طرح اعتراض کیا ہے ، ہم کہتے ہیں

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا


2۔ داود طائی رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کو ترک نہیں کیا ، نہ ہی وہ قرآن پاک کی تفسیر کے تارک ہوئے ، بلکہ اب وہ عبادت میں اس طرح مشغول ہوئے کہ قرآن پڑھا کرتے ، اس پر عمل پیرا ہوتے ، قرآن و حدیث سے جو مسائل امام صاحب نے اخذ کئے ، ان پر عمل کیا ، ہاں جس چیز کو ترک کیا ، وہ یہ تھا کہ نا تو وہ قرآن کی تفسیر کا درس دیتے ، نہ حدیث نہ ہی فقہ ، بلکہ وہ صرف اور صرف ان سب پر عمل پیرا تھے ، وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں فقہ یا تفسیر یا حدیث کی مجلس میں درس دوں ، بلکہ عبادت ، نماز ، تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ۔ 


یہی تفصیل قارئیں امام داود طائی رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی کتاب " داود بن نصیر الطائی الفقیہ الزاھد : مولفہ دکتور عصام محمد الحاج علی " میں پڑھ سکتے ہیں





نکتہ :  غیر مقلدین کی کتاب  "عصر حاضر میں اجتہاد ۔۔۔" میں تاریخ بغداد کے حوالے سے چند اور روایات بھی ذکر کیں ہیں ، جن کا مدلل مفصل جواب قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود " تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات " نمبر وار سلسلہ میں پڑھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...