نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض : عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ عالم نہیں تھے

 اعتراض : ابو حنیفہ عالم نہیں تھا

05 :-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) سے انکے شاگرد نے پوچھا:

کیا ابو حنیفہ عالم تھا، ابن المبارک نےجواب دیا:

 سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق الثَّقَفِيّ يَقُول سَمِعت أَبَا قُدَامَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ لابْنِ الْمُبَارَكِ أَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ عَالِمًا قَالَ مَا كَانَ بِخَلِيقٍ لِذَاكَ تَرَكَ عَطَاءً وَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي الْعَطُوفِ

(المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين)

نہیں! وہ عالم ہوتا تو عطاء بن ابی رباع (ثقہ تابعی) کو چھوڑکر ابو العطوف(جرح بن منھال متروک الحدیث، منکر الحدیث اور شرابی) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔(وسند صحیح)

جواب :

سمعت محمد بن إسحاق الثقفي، يقول: سمعت أبا قدامة، يقول: سمعت سلمة بن سليمان، يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أبو حنيفة عالمًا؟ قال: ما كان بخليق لذاك، ترك عطاءً وأقبل على أبي العطوف.

( المجروحين لابن حبان ت حمدي ٥/‏٢٥٩ )

وسمعت أبا قدامة، يقول: سمعت سلمة بن سليمان، يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أَبُو حنيفة عالما؟ قال: لا، ما كان بخليق لذاك، ترك عطاء وأقبل على أبي العطوف.

(تاريخ بغداد ت بشار ١٥/‏٥٥٨ )

سلمة بن سليمان کہتے ہیں: ایک شخص نے ابن مبارک سے پوچھا کیا امام ابوحنیفه عالم تھے؟ تو ابن مبارک نے کہا: نہیں وہ عالم نہیں تھے۔ اگر وہ عالم ہوتے تو عطاء بن ابي رباح (تابعی) کو چھوڑ کر ابي العطوف (کذاب) کی طرف متوجہ ہوتے؟؟

جواب : 

● اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن متن صحیح نہیں ہے ، کیونکہ 

1۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کبھی بھی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کو مکمل یا جزوی طور پر ہرگز ترک نہیں فرمایا ، نہ ہی اس متروک راوی سے باقاعدہ  شاگردی اختیار کی ، جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ امام صاحب  امام عطاء رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگردوں میں سے تھے ، اور مکمل یا جزوی طور پر عطاء رحمہ اللہ کو ترک کرنا یہ دلیل سے خالی ہے ، امام صاحب تو واشگاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ، لہذا یہ دعوی کہ عطاء کو ترک کر دیا تھا، بے بنیاد ہے ، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر 88۔ 

2۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ عالم بلکہ فقیہوں کے فقیہ اور عالموں کے عالم مانتے تھے جو کہ صحیح سندوں سے ثابت ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں 

میں نے سب سے زیادہ فقاہت والا ابو حنیفہ کو دیکھا ہے ، میں نے ان جیسا فقیہ کوئی اور نہیں دیکھا(حالانکہ انہوں نے امام مالک ، سفیان ثوری ، عیینہ وغیرہ کو دیکھا ہوا تھا پھر بھی یہ کہنا کہ امام صاحب جیسا فقیہ کوئی نہیں دیکھا ، یہ انتہائی تعریفی اقوال ہیں ، جو جرح و تعدیل میں رائج ہیں)۔

 (تاریخ بغداد ت بشار 15/469 اسنادہ صحیح) 

 اس کے علاوہ بھی امام عبد اللہ بن  مبارک رحمہ اللہ ، امام صاحب کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے جیسا کہ ہم آخر میں روایات نقل کریں گے ، لہذا یہ بات کہ ابو حنیفہ عالم نہیں ہیں ، یہ بالکل مردود ہے۔

3۔ امام عطاء بن ابی رباح کی وفات 114ھ میں ہوئی ہے

 (تذکرہ الحفاظ 1/98 )

 جبکہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی پیدائش ہی 118ھ میں ہوئی ہے (سیر أعلام النبلاء 8/381 ) ، اور انہوں نے تحصیل علم 20 برس کی عمر سے شروع کیا یعنی 138ھ 

(سير أعلام النبلاء 8/ 379 ، 381) ، اس حساب سے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا  حضرت عطاء رحمہ اللہ کو ترک کرنے کی روایت ہی مشکوک معلوم ہوتی ہے کہ کیسے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنی پیدائش سے 4 سال قبل وقات پانے والے کے شاگرد کے بارے میں ایسا دعوی کر سکتے ہیں ؟ 

4۔ امام عطاء رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، کثرت سے روایات نقل کرتے ہیں جو کہ کتاب الآثار اور امام صاحب کی مسانید میں موجود ہیں جبکہ ابو العطوف سے گنتی کی روایتیں ہیں۔ تو اس لحاظ سے یہ دعوی کہ امام صاحب نے امام عطاء بن ابی رباح کو ترک کر دیا تھا ، یہ دعوی اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ خود حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ امام  ابو حنیفہ کے واسطہ سے عطاء بن ابی رباح سے روایت کر رہے ہیں (مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/‏١٣٦ ) تو اگر ترک کر دیا تھا تو  ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے خود اسی سند  سے روایت کیوں بیان کی ؟ 

5۔ ابو العطوف سے روایت کرنے سے امام صاحب کا عطاء بن ابی رباح کو ترک کرنا لازم نہیں آتا ، نہ ہی ان پر کوئی تنقیص بنتی ہے ، کیونکہ امام مالک ، شافعی رحمھم اللہ نے بھی متکلم فیہ اور مجروح رواة سے روایت لیں ہیں ، جب ان پر تنقیص نہیں ہے تو ابو حنیفہ پر کیوں ؟ 

 امام حاکم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تمام آئمہ کا زبردست دفاع کیا ہے ۔ امام حاکم لکھتے ہیں 

 وَهَذَا مَالِكُ بن أنس أَهْلِ الْحِجَازِ بِلَا مُدَافَعَةٍ رَوَى عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ الْبَصْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ تَكَلَّمُوا فِيهِمْ ثُمَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ وَهُوَ الْإِمَامُ لِأَهْلِ الْحِجَازِ بَعْدَ مَالِكٍ رَوَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبى يحى الْأَسْلَمِيِّ وَأَبِي دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو النَّخَعِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الْمَجْرُوحِينَ

وَهَذَا أَبُو حَنِيفَةَ إِمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ رَوَى عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ وَأَبِي الْعَطُوفِ الْجَرَّاحِ بْنِ الْمِنْهَالِ الْجَزَرِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الجروحين ثُمَّ بَعْدَهُ أَبُو يُوسُفَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقَاضِي وَأَبُو عَبْدِ الله محمد بن الحسن الشيبنى حدثا جَمِيعًا عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُحَرَّرِ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الْمَجْرُوحِينَ وَكَذَلِكَ مِنْ بَعْدِهِمَا أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ وَعَصْرًا بَعْدَ عَصْرٍ إِلَى عَصْرِنَا هَذَا لَمْ يَخْلُ حَدِيثُ إِمَامٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْفَرِيقَيْنِ عَنْ مَطْعُونٍ فِيهِ مِنَ الْمُحدثينَ وَلِلْأَئِمَّةِ  فِي ذَلِكَ غَرَضٌ ظَاهِرٌ وَهُوَ أَنْ يَعْرِفُوا الْحَدِيثَ مِنْ أَيْنَ مَخْرَجُهُ وَالْمُنْفَرِدُ به عدل أو مجروح

خلاصہ : 

امام مالک ، شافعی ، ابو حنیفہ رحمھم اللہ سب نے مجروح رواة سے روایات لیں ہیں ، اور ایسا کام ہر صدی میں ہوتا رہا ہے ہر دور کے علماء کرتے رہے ہیں ، غرض یہ تھی ان آئمہ کی کہ وہ جان سکیں منفرد روایات میں کونسا راوی عادل ہے کونسا مجروح ہے اور یہ حدیث آئی کہاں سے ہے۔ 

(المدخل إلى كتاب الإكليل ١/‏٣١)

قارئین کرام ، غیر مقلدین کا تعصب دیکھیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے معاملے میں وہ اتنا اچھلتے ہیں کہ امام صاحب نے مجروح راوی سے روایت لی ہے اور احناف پر طعن کرتے ہیں  کہ ابو حنیفہ حدیث میں کچھ نہ تھے تبھی مجروح رواہ سے روایات لیں ، جیسا کہ غیر مقلد ارشاد الحق اثری نے اپنی کتاب اعلاء السنن فی المیزان میں لکھا ہے ۔ 

امام صاحب کے شیوخ میں ایک نام ابو العطوف جراح بن منہال ہے۔ جسے امام نسائی، دولابی ابو حاتم،دارقطنی رحمۃ اللہ علیہم نے متروک ،امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء ابن المدینی نے لایکتب حدیثہ، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا ہے ۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہاں یہ بات بھی اشارۃ عرض کئے دیتا ہوں کہ علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جراح سے روایت لینے پر اپنے روایتی انداز میں دفاع کیا ہے شائقین اس کی حقیقت التنکیل  میں ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ علامہ کوثری کی تلبیسات کا پردہ چاک ہو جائے گا۔یہاں وہ تفصیل طویل کا باعث بنے گی 

(اعلاء السنن فی المیزان ،1/ ، 109 108) . 

 جبکہ باقی آئمہ جب مجروح رواہ کا دفاع بھی کرتے ہیں تو ، یہ منافق غیر مقلد نام نہاد اہکحدیث فرقہ  چپ ہو جاتے ہیں ، ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے ، زبانوں کو تالا لگ جاتا ہے ۔ 

المجروحین لابن حبان کی جس صحیح سند والی روایت کو لیکر غیر مقلدین نے امام صاحب پر جس طرح سے اعتراض کیا ، اسی کتاب میں امام شافعی رحمہ اللہ کے استاد کا حال بھی دیکھ لیں ۔ 

إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي 

مولى أسلم من أهل المدينة، واسم أبي يحيى سمعان، كان مالك وابن المبارك ينهيان عنه، وتركه يحيى القطان وابن مهدي، وكان الشافعي يروي عنه، وكان إبراهيم يرى القدر ويذهب إلى كلام جهم، ويكذب مع ذلك في الحديث.

( المجروحين لابن حبان ت حمدي ٢/‏١٠٢ )

امام شافعی رحمہ اللہ کے اس استاد پر کذاب ، رافضی ،  قدری ، متروک کی جروحات ہیں  ، کئی آئمہ نے ان کو ترک کیا ہے (جیسا کہ ارشاد الحق اثری نے جراح بن منہال کے بارے میں لکھا ، تقریبا وہی جروحات اسی راوی پر ہیں)

(التقريب ٢٤١، فقه الإسلام = شرح بلوغ المرام ٨/‏١٦٨ )

لیکن غیر مقلدین یہاں خاموش ہیں ۔ یہ دوہرا معیار کیوں ؟

دواری بات امام کوثری  نے جراح بن منہال سے روایت لینے پر دفاع کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کذاب استاد کا دفاع ضرور کیا ہے ۔ملاحظہ ہو۔

دکتور قلعہ جی لکھتے ہیں

قال ابن حبان: «وأما الشافعي فإنه كان يجالسه في حداثته، ويحفظ منه حفظ الصبي، والحفظ في الصغر كالنقش في الحجر، فلما دخل مصر في آخر عمره فأخذ يصنف الكتب المبسوطة احتاج إلى الأخبار ولم تكن معه كتبه فأكثر ما أودع الكتب من حفظه، فمن أجله ما روى عنه، وربما كنى عنه ولا يسميه. المجروحين»١: ١٠٧«.

وقال الذهبي في الميزان»١/ ٥٨«: قال الربيع: سمعت الشافعي يقول: كان قدريًّا، قال يحيى بن زكريا ابن حيويه، فقلت للربيع: فما حمل الشافعي على الرواية عنه؟ قال: كان يقول: لأن يخر من السماء أحب إليه من أن يكذب. وكان ثقة في الحديث.

وقال الربيع: كان الشافعي إذا قال: حدثنا من لا أتهم، يريد به إبراهيم بن أبي يحيى.

وقال ابن عدي:»ليس بمنكر الحديث، وقد حدث عنه الثوري، وابن جريج، والكبار«، عقب الذهبي بعد ذلك فقال:»الجرح مقدم«.

مفہوم :  امام شافعی نے ایک ایسے شخص (إِبراهيم بن أَبي يحيى الاسلمی) سے روایت کیوں لی جس کے بارے میں ان کے نزدیک کچھ کلام کیا گیا تھا تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ الشافعی نے اپنی جوانی میں اس شخص کے ساتھ وقت گزارا اور بچپن میں حاصل کردہ علم کے اثرات کی طرح یہ یادیں ان کے ذہن میں نقش ہوگئیں۔ جب الشافعی مصر میں آئے تو انہیں کتب کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے اپنی یادداشت سے بہت کچھ بیان کیا، جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ اس شخص کا نام لیے بغیر اس کا حوالہ دیتے تھے۔

امام ذهبی کے مطابق، الشافعی نے اس شخص کو ایک ایسے  راوی کے طور پر جانا جو کہ جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ربیع نے ذکر کیا کہ الشافعی کہتے تھے کہ "آسمان سے گرے جانے کو ترجیح دوں گا، بجائے اس کے کہ میں جھوٹ بولوں" ، اور وہ اس راوی کی صداقت پر یقین رکھتے تھے۔ ابن عدی نے بھی کہا کہ وہ حدیث میں ناپسندیدہ نہیں تھے، اور کئی بڑے حضرات نے ان سے روایت کی ہے۔ 

 امام ذهبی نے  ابن عدی کی اس بات پر  تعاقب کیا اور کہا کہ اس راوی پر "جرح" مقدم ہے(یعنی ابن عدی کا  صرف امام شافعی کی وجہ سے تاویل کر کہ اس راوی پر سے جروحات کو کم کرنا ، قابل قبول نہیں) 

(الثقات للعجلي ت قلعجي ١/‏٥٦ )

ذیل کے اقتباس میں بھی یہی بحث کی گئی ہے۔

وفيه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي كذاب. فقد كذبه بشر بن المفضل ويحيى بن سعيد وابن معين والنسائي وعلي بن المديني والدارقطني وابن حبان حتى قال فيه ابن معين:» كان فيه ثلاث خصال، كان كذابًا، وكان قدريًا، وكان رافضيًا إلا أن الإمام الشافعي كان يدافع عنه ويقول: لأن يخر من السماء أحب إليه من أن يكذب وكان ثقة في الحديث.

(تحية المسجد ١/‏٤٣ — محمد ضياء الرحمن الأعظمي ت ١٤٤١)

امام شافعی نے جو اس کذاب راوی کا دفاع کیا ہے ، یہاں غیر مقلدین کیوں کچھ نہیں کہتے ، کیا تنقید کیلئے صرف احناف اور ابو حنیفہ ہی باقی ہیں ، شوافع ، محدث ابن عدی اور امام شافعی پر تنقید غیر مقلد کیوں نہیں کرتے  ؟ 

اسی طرح امام احمد نے عامر بْن صالح الزبيري مديني سے روایت لی ہے  (الكامل في

 ضعفاء الرجال ٦/‏١٥٥ ) جبکہ اسی راوی کو حافظ ابن حجر نے متروک الحدیث کہا ہے  (التقریب ص٢٨٧ ) ، جبکہ  (المجروحين ٢/ ١٨٨) میں ابن حبان نے کہا کہ یہ موضوع روایت بیان کرتا ہے ، امام یحیی بن معین نے کہا کہ یہ کذاب ہے۔

(المجروحين لابن حبان ت حمدي ١٤/‏١٧٩)  امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ امام  احمد بن حنبل پاگل ہو گئے ہیں جو عامر بن صالح سے روایت کرتے ہیں ( الکامل  5 / 83 ) ۔ 

کیا غیر مقلدین اور خصوصا ارشاد الحق اثری امام احمد کے خلاف بھی وہی کچھ طعن کرے گیں جو امام صاحب اور احناف کے خلاف کیا ؟ امام احمد پر تنقید سے  سعودی عرب سے وظیفہ و روزی روٹی بند ہونے کا ڈر ہے ، کہ پھر کون غیر مقلدوں کی کتب کو عربی میں ترجمہ کروا کہ سعودیہ میں پھیلائے گا ، آئے دن ریال کہاں سے آئیں گے .

أخبرنا البرقاني، أخبرنا أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني - إملاء - حدثنا أبو العباس السراج قال: سمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان قال: قال رجل لابن المبارك: كان أبو حنيفة مجتهدا، قال: ما كان بخليق لذاك، كان يصبح نشيطا في الخوض إلى الظهر، ومن الظهر إلى العصر، ومن العصر إلى المغرب، ومن المغرب إلى العشاء، فمتى كان مجتهدا؟.


سند میں برقانی رحمہ اللہ کے شیخ مجہول ہیں لہذا سند ضعیف ہے ۔

(2) ۔ مذکورہ اعتراض کے بر عکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فقیہ

اور مجتہد مانتے تھے (تاریخ بغداد 15/469 سند : صحیح)


مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 96  میں دیکھ سکتے ہیں۔

ــــــــــــ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...