نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔


اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔

 01:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبيد الله الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشافعي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو توبة الربيع بن نافع، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله ابن المبارك، قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله 

(تاريخ بغداد)

جو ابو حنیفہ کی کتاب الحیل کوپڑھ لے تو وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرسکتا ہے۔

جواب : 

تحریر : رئیس صاحب 

النعمان سوشل میڈیا سروسز

کتاب الحیل ہرگز امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب نہیں ہے ، نہ ہی امام صاحب کے لائق شاگردوں کی۔

تمہید :

امام ابو حنیفہؒ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیا۔ اور دلیل کے طور پر امام عبداللہ ابن مبارکؒ کا وہ قول نقل کیا جاتا ہے جسے امام خطیب بغدادیؒ نے نقل کیا ہے۔ آج اس پوسٹ میں ان شاء اللہ اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا کتاب الحیل امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ہے؟ کیا واقعی انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے؟ اور اس کتاب کی سند کیا ہے؟ کیا یہ کتاب ثابت ہے؟

أخبرنا محمد بن عبد الله الحنائي، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع، حدثنا عبد الله بن المبارك. قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله.

خطیب بغدادیؒ نے امام ابن مبارکؒ کے حوالے سے نقل کیا کہ امام ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہؒ نے (ان کی طرف منسوب) کتاب الحیل میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیا ہے (تاریخِ بغداد ۱۵/۵۵۵)۔

جواب:

▪︎1) سب سے پہلی بات کتاب الحیل امام ابو حنیفہؒ کی کتاب نہیں ہے اور نہ ہی ان سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ان شاء اللہ۔

▪︎2) امام ابن مبارکؒ کے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کتاب لکھی ہے۔

▪︎3) یہ ممکن ہے کہ امام ابن مبارکؒ نے بطور تعجب یا افسوس کے یہ بات کہی ہو کہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب اس کتاب کو جو شخص پڑھے گا، وہ سمجھے گا کہ امام ابو حنیفہؒ نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔

▪︎4) اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کے انتقال کے بعد کا ہے۔ کیونکہ امام ابن مبارکؒ سے یہ قول نقل کرنے والے حضرت ابو طوبہ ربیع بن نافعؒ ہیں اور وہ ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہیں(سیر اعلام النبلاء ۱۰/۶۵۳) 

اگر ربیع بن نافعؒ نے ۲۰ سال کی عمر میں یہ قول امام ابن مبارکؒ سے سنا تو اس کا مطلب یہ ۱۷۰ ہجری کا واقعہ ہے، یعنی امام ابو حنیفہؒ کے انتقال کے ۲۰ سال بعد کا۔ اور اگر یہ امام ابو حنیفہؒ کی زندگی کا واقعہ ہوتا تو امام ابن مبارکؒ خود اس کتاب کی تصدیق ان سے کرتے کہ کیا آپ نے ایسی کتاب لکھی ہے؟ لیکن تاریخ کی کتابوں میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔

▪︎5) اگر یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ہوتی تو ان کے مخالفین اس موقع کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور اس کتاب کی وجہ سے ان پر ملامت کرتے، لیکن کتابوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا، اس کا مطلب یہ کتاب ثابت ہی نہیں۔

▪︎6) سب سے اہم بات امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو روایت نہیں کیا، خاص طور پر امام ابو یوسفؒ، امام زفرؒ اور امام محمد بن حسنؒ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ 

بلکہ امام محمد بن حسنؒ سے اس کتاب کی تردید موجود ہے۔ جیسا کہ امام ذہبیؒ نے اپنی کتاب مناقب ابی حنیفہؒ و صاحبیہ ابی یوسفؒ و محمد بن حسنؒ میں (امام طحاویؒ کی کتاب سے) صحیح سند کے ساتھ امام محمد بن حسنؒ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: یہ کتاب یعنی کتاب الحیل ہماری کتابوں میں سے نہیں ہے، اس میں کسی باہر والے (اجنبی شخص) نے باتیں نقل کر دی ہیں

الطَّحَاوِيُّ، سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِي عِمْرَانَ، يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَمَاعَةَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: «هَذَا الْكِتَابُ يَعْنِي كِتَابَ الْحِيَلِ لَيْسَ مِنْ كُتُبِنَا، إِنَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا»، 

 (مناقب ابی حنیفہؒ ۸۵)۔

☆ یہاں یہ غور کرنے کی بات ہے کہ امام محمد بن حسنؒ نے یہ نہیں کہا کہ کتاب الحیل میری کتاب نہیں، بلکہ کہا کہ یہ ہماری کتاب نہیں، یعنی امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ ان کے دیگر شاگردوں کی طرف سے بھی اس کی نفی کر دی۔ نیز امام ابن ابی عمران کا یہ دعویٰ کہ یہ کتاب اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے لکھی یہ بات بھی محل نظر ہے کیونکہ یہ کتاب ان سے بھی  ثابت نہیں۔

▪︎7) امام عبد القادر قرشی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو سلیمان جوزجانی رحمہ اللہ (امام محمد رحمہ اللہ کے خاص شاگرد)کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ لوگ امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کہتے ہیں۔ کتاب الحیل ان کی کتاب نہیں ہے، یہ کسی ورّاق (نقل کرنے والے) نے نقل کی ہے۔ 

(الجوہر المضیئہ 3/576)

▪︎8) بہت ممکن ہے کہ کسی باطل فرقے والے نے یہ کتاب لکھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کی طرف اس کی نسبت کر دی ہو، کیونکہ جب لوگوں کے جھوٹ سے حضور ﷺ کی ذات محفوظ نہیں (لوگ جھوٹی احادیث بیان کرکے اس کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کر دیتے ہیں) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس سے کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔

▪︎9) یہ کتاب آج موجود نہیں، لیکن فقہ حنفی الحمدللہ موجود ہے۔ کوئی ہے جو دلائل کی روشنی میں ثابت کرے کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کفر ہے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت کرے کہ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے؟

▪︎10) اب آتے ہیں اس کی سند کی طرف جو کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے۔ 

محمد بن بشر، أبو عبد الله الرقى:

حدث عن خلف بن بيان كتاب الحيل في الفقه لأبي حنيفة، رواه عنه أبو الطيب مُحَمَّد بْن الحسين بْن حميد بْن الربيع الكوفي، وذكر أنه سمعه منه في سنة ثمان وخمسين ومائتين بسر من رأى.

کتاب الحیل کو خلف بن بیان سے روایت کرتا ہے محمد بن بشر ابو عبداللہ الرقی ۔ اور یہ دونوں ہی مجہول الحال ہیں۔ لیجیے جس کتاب کو بنیاد بنا کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ مجہولوں سے مروی ہے۔

 (تاریخ بغداد 440/2)

اس کے علاوہ ابو طیب محمد بن حسین بن حمید (جن پر خود کلام ہے) نے یہ کتاب 258 ہجری میں محمد بن بشر سے سنی، اب اگر محمد بن بشر نے یہ کتاب 50 سال پہلے بھی خلف بن بیان سے سنی(یعنی 208 ہجری) اور خلف بن بیان نے 50 سال پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اسے روایت کیا(یعنی 158 ہجری)، تو اس کا مطلب کیا ان کے انتقال کے بعد یہ کتاب روایت کی گئی؟ (امام ابو حنیفہ متوفی رحمہ اللہ 150ھ)


اب آتے ہیں دیگر اقوال کی طرف۔

حدثني الأزهري، أخبرنا محمد بن العباس قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق المدائني، حدثنا أحمد بن موسى الحزامي، حدثنا هدبة - وهو ابن عبد الوهاب - حدثنا أبو إسحاق الطالقاني قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: من كان عنده كتاب حيل أبي حنيفة يستعمله - أو يفتي به - فقد بطل حجه، وبانت منه امرأته. فقال مولى ابن المبارك: يا أبا عبد الرحمن ما أدري وضع كتاب الحيل إلا شيطان. فقال ابن المبارك: الذي وضع كتاب الحيل أشر من الشيطان.


 - أخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق، حدثنا عمر بن محمد الجوهري، حدثنا أبو بكر الأثرم قال: حدثني زكريا بن سهل المروزي قال: سمعت الطالقاني أبا إسحاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: من كان كتاب الحيل في بيته يفتي به، أو يعمل بما فيه، فهو كافر بانت امرأته، وبطل حجه. قال: فقيل له: إن في هذا الكتاب إذا أرادت المرأة أن تختلع من زوجها ارتدت عن الإسلام حتى تبين، ثم تراجع الإسلام، فقال عبد الله من وضع هذا فهو كافر بانت منه امرأته، وبطل حجه. فقال له خاقان المؤذن: ما وضعه إلا إبليس. قال الذي وضعه عندي أبلس من إبليس.

 امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے ان کے شاگرد نے پوچھا کہ یہ کتاب کس نے وضع کی؟ تو امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس نے یہ کتاب الحیل وضع کی (یعنی لکھی) وہ شیطان سے زیادہ شریر ہے، اور دوسرے قول میں ہے کہ وہ کافر ہے۔ (تاریخ بغداد 556/15)

جواب: پہلی سند میں احمد بن موسی مجہول ہیں، جبکہ دوسری سند میں عمر بن محمد الجوھری ضعیف ہیں جیسے کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے تاریخ الاسلام (391/7) میں نقل کیا ہے۔ لیکن بفرض محال اسے ثابت مانیں تو اب یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کتاب واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہوتی تو پوچھنے والا یہ بچگانہ سوال کیوں کرتا کہ یہ کس کی کتاب ہے؟ کیونکہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ تو پہلے ہی اس کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف کر چکے ہوتے اور اگر امام ابن مبارک رحمہ اللہ بھی اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مانتے تو وہ جواب میں کہتے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ہے، لیکن انہوں نے یہ جواب نہ دے کر فرمایا کہ یہ کتاب (کسی) شیطان کی کتاب ہے جو کافر ہے… اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلی: کسی کتاب کا کسی امام کی طرف منسوب ہونا اور اس کتاب کا اس امام سے ثابت ہونا یا اس کتاب کو اس امام کا تسلیم کرنا یہ دو الگ باتیں ہیں۔

دوسری: خود امام ابن مبارک رحمہ اللہ بھی اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب نہیں مانتے 

تھے… (نہیں تو جواب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام لیتے)

اس کے علاوہ یہاں ایک بات اور غور کرنے لائق ہے کہ اس قول کو نقل کرنے والے ابو اسحاق طالقانی رحمہ اللہ ہیں جن کا انتقال 215 ہجری میں ہوا ہے ( تاریخ الاسلام 264/5) ۔ اب اگر ابو اسحاق طلقانی رحمہ اللہ کی 70 سال عمر مانیں تو اس کا مطلب وہ 145 ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہوں گے اور اگر انہوں نے 20-25 سال کی عمر میں یہ قول سنا ہوگا تو یہ 170 ہجری کی بات معلوم ہوتی ہے جیسا کہ اوپر کے قول میں بھی 170 ہجری ہی آ رہا تھا، تو یہ بات دلیل ہے اس بات کی کہ اس کتاب کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا، ان کے انتقال کے 20 سال بعد کسی نے لکھ کر ان کی طرف منسوب کر دی، اس لیے اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب کہنا غلط ہے۔

أخبرني محمد بن علي المقرئ، أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ النيسابوري قال: سمعت أبا جعفر محمد بن صالح يقول: سمعت يحيى بن منصور الهروي يقول: سمعت أحمد بن سعيد الدارمي يقول: سمعت النضر بن شميل يقول: في كتاب الحيل كذا كذا مسألة كلها كفر.


ج: اس کے علاوہ  خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے حضرت نضر بن شمیل رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کتاب الحیل کے مسائل کو کفر کہا۔

 (تاریخ بغداد 556/15)

جواب: پہلی بات اس سند میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے استاد محمد بن علی المقری مجہول ہیں۔ اور دوسری بات یہاں یہ بھی ذکر نہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ہے۔

لیکن اگر بفرض اس قول کو ثابت مانیں اور اس سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کتاب الحیل ہی ہے تو یہاں غور کرنے لائق یہ بات ہے کہ حضرت نضر بن شمیل رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کرنے والے احمد بن سعید الدارمی رحمہ اللہ ہیں جو 180 ہجری کے بعد پیدا ہوئے ہیں  (سیر اعلام النبلاء 233/12)۔

اگر یہ مانیں تو اگر انہوں نے یہ قول 20 سال میں سنا تب روایت 200 ہجری میں کی گئی یعنی یہ کتاب ،  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے 50 سال بعد منظر عام پر آئی۔

غیر مقلدوں کیلئے شیخ ابن تیمیہ کا حوالہ : 

" اور یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حیلے جو متفقہ طور پر حرام ہیں یا کفریہ ہیں ان کی نسبت ائمہ مسلمین میں سے کسی کی جانب کی جائے اور جو کوئی کسی امام کی جانب ان حیلوں کی نسبت کرتا ہے تو وہ اس سلسلے میں خطاوار ہے فقہاء کے اصول سے جاہل ہے  ۔۔۔۔۔۔ ۔علاوہ ازیں اس میں بعض ائمہ کی جانب تکفیر یا تفسیق کی نسبت ہوتی ہےاور یہ جائز نہیں ہے

(فتاوی الکبری 6/85 ، الدلیل علی بطلان التحلیل ص 170 )

اعلام الموقعین 3/233 میں شیخ ابن قیم کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔

لہذا درج بالا تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ ، مذکورہ کتاب الحیل امام ابو حنیفہ یا حنفی آئمہ میں سے کسی کی بھی کتاب نہیں ہے۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں۔

▪︎ تبشیر الناس فی شرح قال بعض الناس ، مولفہ قاضی باقی باللہ زاہد صاحب مدرس جامعہ اشرفیہ لاہور

▪︎ الأصل لمحمد بن الحسن - ت بوينوكالن مقدمة/‏٦٣ — محمد بن الحسن الشيباني (ت ١٨٩)

▪︎كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون ١/‏٦٩٥ 

▪︎الأبواب والتراجم لصحيح البخاري ٦/‏٦١٨ 

▪︎هدية العارفين ١/‏٤٩ — إسماعيل باشا (ت ١٣٣٩)

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 میں دیکھ سکتے ہیں۔

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)


یہی جوابات رومن اردو میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں ................................................................................................................................Kya کتاب الحیل Imam Abu Hanifa r.a ki Kitab hai ?

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...