نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں یتیم یا مسکین تھے


 اعتراض : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں یتیم یا مسکین تھے 

02:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا:

ابو حنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔ 

حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث 

(الجرح والتعديل لا ابن أبي حاتم )

جواب : 

تمہید :

تحریر : رئیس صاحب 

النعمان سوشل میڈیا سروسز

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو حدیث میں یتیم کہا ہے۔ جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا (تاریخ بغداد 574/15) اور جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے نقل کیا (المجرحین 411/2)۔

أَخْبَرَنَا ابن دوما، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن سلم، قَالَ: حَدَّثَنَا الأبَّار، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن خشرم، عن عَليّ بن إِسْحَاق التِّرْمِذِي، قَالَ: قَالَ ابن المبارك: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.

أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: قرئ عَلَى عُمَر بن بِشْرَان، وَأَنَا أسمع: حدثكم عَليّ بن الحُسَيْن بن حبان، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن أَحْمَد بن شَبُّويَه، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَهْب، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْد الله، هُوَ ابن المبارك، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.

(تاریخ بغداد ت بشار 574/15)

سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ  يَتِيمًا فِي الْحَدِيثِ»

(مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر ١/‏٢٩٦)

وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بن مَحْمُود النَّسَائِيّ يَقُول سَمِعت عَليّ بن خشرم يَقُول سَمِعت عَلِيَّ بْنَ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعت بن الْمُبَارَكِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ فِي الْحَدِيثِ يَتِيمًا

(المجروحين لابن حبان ت زايد ٣/‏٧١ )

گویا کچھ لوگوں نے اس سے یہ مطلب نکالا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو حدیث میں یتیم اور ضعیف مانتے تھے۔ 

حالانکہ "یتیم فی الحدیث" کوئی جرح کا کلمہ نہیں اور اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف بھی مراد نہیں، کیونکہ یہ الفاظ کسی راوی کو ضعیف کہنے کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔ رہا یہ کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ تو جیسی عقیدت اور محبت امام ابن مبارک رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ہے، اس کے مدنظر یہ تعریف کا ہی کلمہ محسوس ہوتا ہے ، جیسا کہ ابن مبارک سے تعریفی اقوال ہم نقل کریں گے اخیر میں۔

کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی محدث کے نزدیک اس کا کوئی شیخ یا دوسرا کوئی محدث بہت ہی اونچے درجے کا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو دوسروں کے لیے عام طور پر استعمال نہیں کرتا، جیسے کوئی کہے کہ میں نے ان کی مثل کسی کو نہیں دیکھا، انہوں نے اپنی آنکھ سے اپنے مثل کسی کو نہیں دیکھا، انہوں نے اپنے بعد اپنے جیسا کوئی نہیں چھوڑا وغیرہ۔

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ "یتیم فی الحدیث" سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث میں مہارت مراد ہے، کیونکہ عربی لغت میں یتیم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کوئی ثانی (مثل) نہ ہو، جیسے "در یتیمہ" کہا جاتا ہے، جیسا کہ امام اسماعیل بن حماد الجوهری رحمہ اللہ اور امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے نقل کیا 

《وكل شيء فَردٍ بغير نظير فهو يتيم كالدرة اليتيمة》

(الصحاح الجوهری 2064، لسان العرب 464/12)۔

اس کے علاوہ امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے ہی نقل کیا کہ یتیم ریت کے اکیلے ذرے کو کہتے ہیں، عرب کے ہاں ہر منفرد اور اکیلی چیز کو یتیم کہتے ہیں (لسان العرب 464/12)۔

ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ عربوں میں یتیم اکیلے اور یکتا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب مطلب یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مثل حدیث میں کوئی دوسرا نہیں تھا، اور اس مراد کی طرف امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا صحیح سند سے وہ قول بھی اشارہ کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول صحابی رضی اللہ عنہ کے اثر (قول) کی طرح ہے (جب کوئی حدیث موجود نہ ہو)

 [فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ ]۔

اس کے علاوہ ایک معتبر سند سے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ 

"یہ نہ کہو کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے، بلکہ یہ کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر ہے" 

(مناقب موفق 307)۔

اس کے علاوہ حضرت علی بن اسحاق رحمہ اللہ نے ہی "يتیماً في الحديث" کے الفاظ نقل کیے ہیں اور انہوں نے ہی "في الحديث يقيم" کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے حدیث میں مضبوط 

 ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا علي بن خشرم ثنا علي بن إسحاق قال: سمعت ابن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يقيم

(الکامل ابن عدی 237/8)۔




ان اقوال کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ "يتیماً في الحديث" سے مراد حدیث میں یکتا اور بےنظیر مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں ضعیف ہوتے تو امام ابن مبارک رحمہ اللہ ان کے اقوال کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔

رہی بات کہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے "مسکينا في الحديث" کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں، 

حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث

تو عرض ہے کہ اس کی سند حسن ہے، جبکہ "يتیماً في الحديث" نقل کرنے والی سند صحیح ہے، اور اس معاملے میں ترجیح صحیح سندوں کو دی جائے گی کیونکہ وہ ثقہ راویوں کے واسطے سے منقول ہیں۔ اور اصل الفاظ 《 یتیما في الحديث》 کے ہیں جیسے کہ امام علی بن اسحاق رحمہ اللہ، امام محمد بن مزاحم رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جیسے ثقہ کی جماعت نے نقل کیے اور یہ ممکن ہے کہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی سند کے راوی نے یتیما في الحديث کو جرح سمجھا ہو اور پھر روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے یتیما کی جگہ مسکینا الفاظ بیان کر دیا ہو... کیونکہ راویوں میں جو احتیاط اور ضبط احادیث رسول ﷺ بیان کرنے میں پایا جاتا ہے، وہ ضبط دیگر اقوال نقل کرنے میں نہیں پایا جاتا...

لیکن اگر پھر بھی کوئی شخص اس بات کو نہ مانے تو ہم کہیں گے کہ لغت میں مسکین کے معنی الخاضع کے بھی آتے ہیں یعنی تابع دار (تابعدار)، فرمانبردار... جیسا کہ امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے لسان العرب 216/13 میں نقل کیا ہے۔

اب مسکينا في الحديث کے معنی ہوں گے حدیث کی تابع داری، حدیث میں عاجزی کرنے والے...

لیکن اگر پھر بھی کوئی نہیں مانے تو ہم کہیں گے کہ بہت سے بہت يتيما في الحديث سے یہ مراد ہو گا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث کی زیادہ اسناد کو جمع کرنے والے نہیں تھے... یعنی جس طرح محدثین ایک حدیث کی کئی کئی اسناد جمع کرتے ہیں، اس طرح کا اہتمام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نہیں کیا... لیکن اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ ایک فقیہ کا کام حدیث کی اسناد جمع کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ اس حدیث کے متن سے مسائل کا استخراج اور ان کا حل نکالنا اصل مقصد ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مرتبہ سے کون انکار کر سکتا ہے... آپ مجتہد محدث امام ہیں... لیکن اس کے باوجود قلیل الحدیث (حدیث کم بیان کرنے والے) ہیں، جیسا کہ ثقہ امام ابو قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں...

أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم قال سمعت أبا زكريا يحيى بن محمد العنبري يقول سمعت إبراهيم بن أبى طالب يقول سألت أبا قدامة عن الشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق وأبى عبيد فقال اما افهم فالشافعى الا انه قليل الحديث واما اورعهم فاحمد بن حنبل واما احفظهم فاسحاق واما أعلمهم بلغات العرب فأبو عبيد

 (تاریخ بغداد 400/14)۔

جیسا کہ خود امام شافعی رحمہ اللہ کا قول بھی ہے جسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے نقل کیا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے مناظرے کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے ان سے فرمایا کہ جس طرح تمہیں احادیث (کی اسناد) یاد ہیں، اگر مجھے یاد ہوتیں تو میں تمام اہل دنیا پر غالب آ جاتا

لو كنت أحفظ كما تحفظ لغلبت أهل الدنيا

 (مناقب شافعی 153/2)۔

اب اگر یہاں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ احادیث کی اسناد کو کثرت سے یاد کرنے والے نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی فقہ کو اللہ نے کیا مقبولیت بخشی، وہ کسی سے چھپی نہیں ہے...

اس کے علاوہ امام ابراہیم بن سعید الجوهری رحمہ اللہ کا قول بھی نقل کرنا بہتر محسوس ہوتا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ حدیث جو میرے پاس 100 اسناد سے نہ ہو تو میں اس حدیث میں خود کو یتیم خیال کرتا ہوں

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بن عبد الله الكاتب، أخبرنا إبراهيم بن محمّد ابن يحيى المزكيّ، حدّثنا محمّد بن عبد الرّحمن الدغولي، حدّثنا عبد الله بن جعفر ابن خاقان الْمَرْوَزِيُّ السلمي قَالَ: سألت إِبْرَاهِيم بْن سَعِيد الجوهري عَن حَدِيث لأبي بكر الصديق فقال لجاريته: أخرجي إليّ الجزء الثالث وَالعشرين من مسند أَبِي بكر. فقلت له: لا يصح لأبي بكر خمسون حَدِيثا، من أين ثلاثة وعشرون جزءا؟

فَقَالَ: كل حَدِيث لم يكن عندي من مائة وجه فأَنَا فِيهِ يتيم .

 (تاریخ بغداد 618/8)۔


اس لیے اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ایک حدیث کی مختلف اسناد کو جمع کرنے والے نہیں تھے تو یہ کوئی عیب یا تضعیف کی بات نہیں... کیونکہ فقیہ کا کام مسائل کا استخراج ہے، نہ کہ اسناد کو جمع کرنا... جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث کی معرفت اور اس میں تفقہ پیدا کرنا مجھے صرف اسے یاد کر لینے سے زیادہ محبوب ہے 

 أحمد بن حنبل: معرفة الحديث والفقه فيه أحب إلى من حفظه (منہاج السنہ 428/7)۔

اور جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا، وہ فرماتے ہیں کہ اشرف ترین علم احادیث کے متون (متن) میں تفقہ پیدا کرنا اور احوال الرواة میں معرفت حاصل کرنا ہے  

 وقال علي ابن المديني: أشرف العلم الفقه في متون الأحاديث، ومعرفة أحوال الرواة.

(منہاج السنہ 428/7)۔

اس لیے اگر يتيما في الحديث سے مراد احادیث کی اسناد کو کثرت سے جمع نہ کرنا مراد ہو تو بھی اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف نہیں ہوتی، کیونکہ یتیم فی الحدیث ایک تو جرح کا کلمہ نہیں، دوسرے اسناد کا کم ہونا کوئی اشکال کی بات بھی نہیں۔

تو معلوم ہوا کہ يتيما في الحديث کوئی جرح نہیں... اور اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف بھی مراد نہیں۔

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 124 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...