اعتراض نمبر101: ایک شاعر مساور نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کی تو ایک نامعلوم شاعر نے مساور کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابوحنیفہ نے کئی حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا تھا۔
اعتراض نمبر 101:
ایک شاعر مساور نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کی تو ایک نامعلوم شاعر نے مساور کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابوحنیفہ نے کئی حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا تھا۔
أخبرني عبد الله بن يحيى السكري، حدثنا محمد بن عبد الله الشافعي، حدثنا منصور بن محمد الزاهد، حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا سفيان بن عيينة قال: قال مساور الوراق:
إذا ما أهل رأي حاورونا * بآبدة من الفتوى طريفه أتيناهم بمقياس صحيح * صليب من طراز أبي حنيفة إذا سمع الفقيه بها وعاها * وأثبتها بحبر في صحيفة فأجابه بعضهم بقوله:
إذا ذو الرأي خاصم عن قياس * وجاء ببدعة هنة سخيفه أتيناه بقول الله فيها * وآيات محبرة شريفه فكم من فرج محصنة عفيف * أحل حرامها بأبي حنيفة؟
فكان أبو حنيفة إذا رأى مساورا الوراق أوسع له، وقال: هاهنا، هاهنا.
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا أبو صالح هدبة بن عبد الوهاب المروزي، قال: قدم علينا شقيق البلخي، فجعل يطري أبا حنيفة، فقيل له: لا تطر أبا حنيفة بمرو، فإنهم لا يحتملونك. قال شقيق: أليس قد قال مساور الوراق:
إذا ما الناس يوما قايسونا * بآبدة من الفتوى طريفه أتيناهم بمقياس تليد * طريف من طراز أبي حنيفة
فقالوا له: أما سمعت ما أجابوه؟ قال: أجل:
إذا ذو الرأي خاصم في قياس * وجاء ببدعة هنة سخيفه أتيناه بقول الله فيها * وآثار مبرزة شريفه فكم من فرج محصنة عفيف * أحل حرامها بأبي حنيفة؟
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس خبر کی سند میں ہدیہ بن عبد الوهاب ہے اور ہدیہ یاء کے ساتھ ہے باء کے ساتھ نہیں ہے جیسا کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں لکھ دیا گیا ہے۔
اور اس خبر میں زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ ایک مجہول شاعر نے فقیہ الملت کی توہین کی ہے تو اس کی خدمت گوئی کی کیا قیمت ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ اوندھے منہ آگ میں گرے۔
اور اگر مذمت کرنے والا اپنے چہرہ سے نقاب ہٹا کر اپنی پہچان کراتا اور جس مسئلہ کو وہ پسند نہیں کرتا تھا اس کی صراحت کرتا اور جس مسئلہ میں وہ حرام کو حلال کرنا شمار کر رہا ہے اس کی صراحت کرتا تو اس کے بارہ میں بات کہنے اور اس کے اعتراض کا جواب دینے کا امکان تھا۔
تو جب تک کہنے والا مجهول ہے اور وہ مسئلہ بھی نا معلوم ہے تو ہم کیا بات کریں۔
اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ جہالت کا پردہ اس کی عقل سے ہٹے تا کہ کوئی مجھول دوبارہ کسی مجهول مسئلہ کی وجہ سے مسلمانوں کے ائمہ میں سے کسی امام کے بارہ میں تنقید کے درپے نہ ہو اور باب النکاح میں محارم کی تو صراحت موجود ہے اور ابوحنیفہ مصاہرت اور رضاعت کی وجہ سے حرمت کے بارے میں باقی ائمہ سے زیادہ سخت نظریہ رکھتے ہیں (ان کے نزدیک تو کسی عورت کی شرمگاہ کو نظر شہوت سے دیکھنے سے ہی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے)
تو ان کا مذہب نکاح کے باب میں باقی مذاہب سے زیادہ احتیاط والا ہے اور اس میں کسی ادنی شک کی بھی گنجائش نہیں ہے لیکن شاعر ہر وادی میں حیران و سرگردان ہی پھرتا ہے [1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ یہ روایت مختلف کتب میں موجود ہے ، ملاحظہ ہو۔
حدّثني مهيار قال: حدّثني هدبة بن عبد الوهاب عن شقيق البلخيّ أنه أطرى يوما أبا حنيفة بمرو فقال له عليّ بن إسحاق: لا تطره بمرو فإنهم لا يحتملون ذلك؛ فقال شقيق: قد مدحه مساور الشاعر فقال: [وافر]
إذا ما الناس يوما قايسونا ... بآبدة من الفتيا ظريفه
أتيناهم بمقياس صحيح ... تلاد من طراز أبي حنيفه
إذا سمع الفقيه بها وعاها ... وأثبتها بحبر في صحيفه
فقال له: قد أجابه بعض أصحابنا: [وافر]
إذا ذو الرّأي خاصم في قياس ... وجاء ببدعة هنة سخيفه
أتيناهم بقول الله فيها ... وآثار مبرّزة شريفه
فكم من فرج محصنة عفيف ... أحلّ حرامه بأبي حنيفه
أقال أبو حنيفة بنت صلب ... تكون من الزّنا عرسا صحيحه
( عيون الأخبار لابن قتیبہ 2/165 ، المعارف ١/٤٩٥ ، الوافي بالوفيات ٢٧/٩٤ ، تهذيب الكمال في أسماء الرجال ٢٩/٤٤٠ ، أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/٩١ ، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ١/١٢٦ ،
الفوائد المنتقاة الحسان للخلعي (الخلعيات) رواية السعدي ١/٤٥٧ ، الكامل في ضعفاء الرجال ٨/٢٣٨ )
لیکن یہ روایات یہاں ادھوری ہیں ، مکمل روایت کچھ یوں ہیں جس سے مکمل تفصیل سمجھ آ جاتی ہے۔
أخبرنا عبد الوارث ، ثنا قاسم ، ثنا أحمد بن زهير قال : أنا سليمان بن أبي شيخ ، قال : قال مساور الوراق :
كنا من الدين قبل اليوم في سعة حتى ابتلينا بأصحاب المقاييس قاموا من السوق إذ قلت مكاسبهم
فاستعملوا الرأي عند الفقر والبوس أما العريب فقوم لا عطاء لهم
وفي الموالي علامات المفاليس
فلقيه أبو حنيفة فقال : هجوتنا نحن نرضيك فبعث إليه بدراهم فقال
إذا ما أهل مصر بادهونا بآبدة من الفتيا لطيفه
أتيناهم بمقياس صحيح صليب من طراز أبي حنيفه
إذا سمع الفقيه به وعاه وأثبته بحبر في صحيفه
قال أبو عمر : " اتصلت هذه الأبيات ببعض أهل الحديث والنظر من أهل ذلك الزمان فقال :
إذا ذو الرأي خاصم عن قياس وجاء ببدعة منه سخيفه
أتيناهم بقول الله فيها وآثار مصححة شريفه
فكم من فرج محصنة عفيفة أحل حرامها بأبي حنيفة
(جامع بيان العلم وفضله ص 895 اسنادہ صحیح )
تقریبا اسی سے ملتی جلتی روایات امام ابن حبان نے بھی نقل کی ہے ، جس سے کچھ مزید تفصیل ملتی ہے
حدثني إبراهيم بن أبي أميه بطرسوس حَدَّثَنَا حامد بْن يَحْيَى البلخي حَدَّثَنَا سُفْيَان قَالَ لما قعد أبو حنيفة قَالَ للناس مساور الوراق ... كنا من الدين قبل اليوم في سعة ... حتى بلينا بأصحاب المقاييس
قوم إذا اجتمعوا صاحوا كأنهم ... ثعالب ضبحت بين النواويس ...
قال فبلغ ذلك أبا حنيفة فبعث إليه بمال فقال مساور حين قبض المال ... إذا مَا الناس يوما قايسونا ... بآبدة من الفتيا طريفه
أتيناهم بمقياس صحيح ... مصيب من طراز أَبِي حنيفه
إذا سمع الفقيه بها وعاها ... وأثبتها بحبر في صحيفه ...
( روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ١/٢٤٣ )
خلاصہ روایات :
واقعہ یہ ہیکہ ایک شاعر مساور نے چند اشعار کہے جن میں اہل الرائے کی مذمت تھی ، خاص کر اس میں ایک شعر کا مفہوم یہ تھا کہ اہل الرائے کو تجارت میں نقصان ہوا تو غربت کی وجہ سے انہوں نے قیاس کا سہارا لیا ۔ اب یہ شعر خاص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے خلاف کہا گیا تھا کیونکہ امام صاحب ریشم کا کاروبار کرتے تھے ایک مالدار تاجر تھے ۔ چونکہ یہ شعر بنیادی طور پر مذمتی تھے اس لئے مبالغہ سے کام لیتے ہوا طنز کیا گیا۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ان اشعار کی خبر ہوئی تو ان کو رنج ہوا ، امام صاحب کو اللہ جل شانہ نے خاص فہم و فراست بخشی تھی ، وہ حالات کو سمجھنے میں خاص کمال رکھتے تھے ، پس انہوں نے شاعر مساور کو کچھ درہم بھیجے ☆ (اس کی وجہ یہ تھی کہ مساور نے کہا تھا اہل الرائے مفلس اور غریب ہو گئے تو امام صاحب نے رقم بھیج کر اس بات کی نفی کی ) مساور کو اپنے اشعار پر شرمندگی ہوئی تو انہوں نے امام صاحب کے حسن سلوک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہ صرف امام صاحب کی تعریف کی بلکہ امام صاحب کا مذہب بھی قبول کیا ۔
مساور الوراق الكوفيُّ الشاعر.
* قال يعقوب بن سُفيان: حدثنا أبو بكر الحميديُّ. قال: قال سُفيان: كان مساور، يعني الوراق، رجلًا صالحًا لا بأس به، إلا أنه كان له رأي في أبي حنيفة، وكان يقول الشعر. فقال فيه هذه الأبيات، وليته لم يقلها، أو قال سُفيان: لو لم يقلها كان خيرًا له:
إذا ما الناس يومًا قايسونا ... بمعضلة من الفتيا ظريفة
رميناهم بمقياس صليب ... مصيب من طراز أبي حنيفة
قال سُفيان: وكان مساور يتزهد، وكان في لباسه شيء. «المعرفة والتاريخ» ٢/ ٦٨٦.
( الجامع في الجرح والتعديل ٣/١١٦ )
جب مساور رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کی تو ایک نامعلوم گمنام مجہول شاعر نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف نا زیبا شعر کہے۔
جواب :
1۔ اول تو تمام روایات مین طعن کرنے والا ہی گمنام ہے۔ معلوم ہی نہیں اس کی دینی حیثیت کیا تھی ، لہذا اس کا امام صاحب پر طعن کرنا ردی کی ٹوکری میں ہے۔
2۔ گمنام مجہول شاعر نے دلیل میں کوئی مسئلہ پیش نہیں کیا کہ کیسے امام صاحب نے حلال کو حرام کیا یا حرام کو حلال ؟ بس امام صاحب کی تعریف سن کر ، نامعلوم شاعر نے خود سے اندھا دھند کچھ شعر پڑھے ، اور تاریخ کے صفحوں سے مٹ گیا۔ اگر وہ کچھ دلیل دیتا تو احناف اس کا جواب دیتے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
تحفتہ الالمعی ج 3 ص 513 تا 530۔
3۔ کسی پر شعر کسنے سے اس کی عدالت اور ثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔
اوپر ذکر کی گئی روایات سے معلوم ہوتا ہیکہ یہ شعر کسی نا معلوم شاعر نے کہے تھے جبکہ صرف المجروحین لابن حبان کی ایک روایت سے یہ شبہ ہوتا ہیکہ کہ یہ شعر ہدیہ بن عبد الوہاب المروزی نے کہے تھے ۔
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ بِطَرَسُوسَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ لَمَّا قَعَدَ أَبُو حَنِيفَةَ قَالَ مُسَاوِرٌ الْوَرَّاقُ كُنَّا مِنَ الدِّينِ قَبْلَ الْيَوْمِ فِي سِعَةْ حَتَّى بليا بِأَصْحَابِ الْمَقَايِيسِ قَوْمٌ إِذَا اجْتَمَعُوا صَاحُوا كَأَنَّهُمْ ثَعَالِبُ صَبِحَتْ بَيْنَ النَّوَارِيسِ سَمِعْتُ الْفَضْلَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَاهَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ هُدْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ يَقُولُ إِذَا ذُو الرَّأْيِ خَاصَمَ مِنْ قِيَاسٍ وَجَاءَ بِبِدْعَةٍ هَنَةٍ سَخِيفَةْ أتيناهم يَقُول اللَّهِ فِيهَا وَآثَارِ نُبُوءَةٍ شَرِيفَةْ فَكَمْ مِنْ فَرْجِ مُحْصَنَةٍ عَفِيفٍ أحل حرامها بِأبي حنيفَة
( المجروحين لابن حبان ت زايد ٣/٧٢ )
نکتہ :
سب سے پہلے تو سند میں غلطی ہوئی ہے ، محمد بن یحیی البلخی غلط ہے اور اصلی راوی حامد بن یحیی البلخی ہیں جیسا کہ امام ابن حبان ہی کی دوسری تصنیف (روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ١/٢٤٣ ) میں مذکور ہے۔
نکتہ : مساور رحمہ اللہ کو جوابی شعر ہدیہ بن عبدالوہاب کی طرف سے جو اس روایت میں مذکور ہیں ، وہ ان کے اپنے نہیں ہیں ، کیونکہ تاریخ بغداد میں اور عیون الاخبار میں اور دیگر کتب میں
اسی روایت کی تفصیل میں وہ خود شقیق بلخی رحمہ اللہ کو جواب میں یہ اشعار نقل کرتے ہیں۔ خود سے نہیں بولتے۔ چونکہ یہاں سند میں بھی غلطی ہوئی ہے ، عین ممکن ہیکہ یہاں متن میں یہ اشعار ہدیہ بن عبدالوہاب کی طرف منسوب ہو گئے ہوں ۔ حالانکہ باقی تمام روایات میں وہ یہ اشعار نقل کرتے ہیں کہ فلاں نے مساور کو یہ جواب دیا تھا۔
ہدیہ بن عبدالوہاب اگر چہ ثقہ ہیں لیکن ان پر خطا اور وہم کی جرح کے۔ خود ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ یہ کبھی کبھار غلطی کرتے تھے۔
هَدِيَّة بن عبد الْوَهَّاب أَبُو صَالح الْمروزِي يروي عَن الْفضل بن مُوسَى الشَّيْبَانِيّ روى عَنهُ يَعْقُوب بن سُفْيَان والعراقيون رُبمَا أَخطَأ
( الثقات لابن حبان ٩/٢٤٦ )
امام ابن حجر رحمہ اللہ بھی آپ کو صدوق کہا ہے اور لکھا ہیکہ وہم ہوتا تھا۔
(تقريب التهذيب رقم 7270 )
ایسا بھی ممکن ہیکہ یہی غلطی یا وہم اس روایت میں بھی ہے کیونکہ باقی جگہ ہدیہ بن عبدالوہاب خود شعر نہیں کہتے بلکہ ایک مجہول شاعر کے شعر کو نقل کرتے ہیں ۔
بالفرض اگر کسی مضبوط دلیل سے ثابت ہو جائے کہ یہ اشعار ہدیہ نے کہے تھے ، تب بھی اس سے امام صاحب کی عدالت پر حرف نہیں آتا کیونکہ اول تو ان اشعار میں جرح کے مخصوص الفاظ نہیں ، دوم کوئی دلیل بھی نہیں دی کہ کیسے امام صاحب نے حرام کو حلال کیا۔ لہذا یہ غیر مفسر قسم کا اعتراض مردود ہو جاتا ہے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اس مجہول شاعر کی شاعری سے امام صاحب کا خوب دفاع کیا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں۔
قَالَ أَبُو عُمَرَ ﵀: هَذَا تَحَامُلٌ وَجَهْلٌ وَاغْتِيَابٌ وَأَذًي لِلْعُلَمَاءِ؛ لِأَنَّهُ إِذَا كَانَ لَهُ فِي النَّازِلَةِ كِتَابٌ مَنْصُوصٌ وَأَثَرٌ ثَابِتٌ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ بِغَيْرِ ذَلِكَ فَيُخَالِفُ النَّصَ وَالنَّصُّ مَالَا يَحْتَمِلُهُ التَّأْوِيلُ وَمَا احْتَمِلَهُ التَّأْوِيلُ عَلَى الْأُصُولِ وَاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ كَانَ صَاحِبُهُ مَعْذُورًا
مفہوم : (یعنی مجہول شاعر کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف نازیبا اشعار ) تعصب، جہالت، غیبت، اور علماء کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اگر کسی مسئلے میں اس کے پاس ایک واضح نص موجود ہو اور ایک ثابت شدہ اثر ہو، تو کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے خلاف کوئی اور بات کہے اور نص کی مخالفت کرے۔
اور نص وہ ہے جو کسی بھی تاویل کی گنجائش نہ رکھے۔
اور جو نص تاویل کی گنجائش رکھتی ہو، اصولوں اور عربی زبان کے مطابق، تو اس کے قائل کو معذور سمجھا جائے گا۔
( جامع بيان العلم وفضله ٢/٨٩٥ )
☆روایت میں یہ ذکر ہیکہ امام صاحب نے مساور رحمہ اللہ کو کچھ درہم دیئے۔ ہو سکتا ہیکہ امام صاحب سے حسد اور بغض رکھنے والے یہ اپنے غلط ذہن کی وجہ سے یہ اعتراض کریں کہ امام صاحب نے رشوت دی۔
جواب : محدث ابن حبان رحمہ اللہ خو امام صاحب سے انتہائی متعصب ہیں ،لیکن اس کے
باوجود انہوں نے اس روایت کو اس باب میں درج کیا ہے۔
ذكر الزجر عَن ترك قبول الهدايا من الإخوان
بھائیوں سے تحفہ قبول نہ کرنے میں ملامت کا بیان
( روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ص 242 )
دوسرے الفاظ میں یہ کہ تحفہ قبول کرنا چاہیے۔ اور اسی عنوان کے تحت انہوں نے یہ واقعہ نقل کیا ہیکہ امام صاحب نے مساور رحمہ اللہ کو حسن سلوک کے ساتھ تحفہ میں کچھ رقم دی۔
یہ بھی یاد رہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک مالدار تاجر تھے اور وہ اپنے شاگردوں کے اخراجات خود برداشت کرتت تھے جیسا کہ آپ امام صاحب کی سوانح اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی گئ کتب میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔ یہی حسن سلوک تھا جس وجہ سے مساور رحمہ اللہ نے حنفی مذہب قبول کیا
(المعرفة والتاريخ ٢/ ٦٨٦)
حاصل کلام :
جامع بيان العلم وفضله ص 895 میں مکمل روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ مساور ؒ کی تعریف سے ،جل سڑ کر ، ایک مجہول شاعر نے کچھ نا زیبا شعر ،فقیہ ملت ابو حنیفہ ؒ پر کہے۔اول تو شاعر مجہول ہے گمنام ہے دوم: بغیر کسی دلیل کے صرف ان اشعار سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عدالت ، فقاہت ، ثقاہت مجروح نہیں ہوتی ، نا معلوم شاعر نے کوئی متعین مسئلہ نہیں بتایا ، کوئی دلیل نہیں دی کہ کیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حرام کو حلال کیا ، سو اعتراض بھی معترض کی طرح مجہول ہے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ایسے شعروں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا زبردست دفاع کیا ہے اور نازیبا اشعار کو جہالت اور تعصب سے تعبیر کیا ہے۔
(جامع بیان العلم 896)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں