نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

14 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 14 : ( اعتاق یعنی غلامی سے آزادی کرنا مہر نہیں بن سکتا )


 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 14  :


أخبرنا أحمد بن عبيد الله بأنطاكية قال: حدثنا على بن حرب قال: حدثنا على ابن عاصم قال: قلت لأبي حنيفة: ما تقوله في رجل أعتق جارية وجعل عتقها صداقها؟ قال: لا يجوز قلت كيف أنا عندك؟ قال: ثقة قلت فعبد العزيز بن صهيب؟ قال، ثقة قلت: فحدثني عبد العزيز بن صهيب عن أنس بن مالك أن النبي عليه الصلاة والسلام أعتق صفية وجعل عتقها صداقها فقال أبو حنيفة: كنت أشتهي أن يكون تما بدريهمات..


محدث ابن حبان ، علی بن عاصم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا:

 ایک شخص نے ایک باندی کو آزاد کیا اور اس کی آزادی کو اس کا مہر قرار دیا، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

 امام ابو حنیفہ نے کہا: یہ جائز نہیں ہے۔

 میں نے پوچھا: اور میں آپ کے نزدیک کیا ہوں؟ 

انہوں نے کہا: تم ثقہ ہو، 

میں نے پوچھا تو عبد العزیز بن صہیب کے بارے میں کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: وہ بھی ثقہ ہیں، 

میں نے کہا: تو عبد العزیز بن صہیب نے مجھے انس بن مالک سے نقل کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت صفیہ  رضی اللہ عنہا کو (باندی سے) آزاد کیا اور اس کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔

 ابو حنیفہ نے کہا : میں چاہتا ہوں اس میں کچھ درہم ہوں ( اعتاق یعنی غلامی سے آزادی کرنا مہر نہیں بن سکتا )

(المجروحین  لابن حبان ت زاید 3/67  )


جواب  : یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ 

1۔ سند میں محدث ابن حبان کے استاد أحمد بن عبيد الله أبو الطيب الدارمي الأنطاكي مجہول الحال ہیں

( ري الظمآن بتراجم شيوخ ابن حبان 1/299 )

2۔ سند میں  علی بن عاصم متروک ہیں۔ 

محدثین کی ان پر جروحات ملاحظہ ہوں۔


أبو حفص عمر بن شاهين : يجب التوقف فيه

أبو زرعة الرازي : ضعفه، ومرة: إنه تكلم بكلام سوء

أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف، ومرة: متروك الحديث

الدارقطني : في سؤالات أبي عبد الرحمن السلمي، قال: كان يغلط ويثبت على غلطه

الذهبي : ضعفوه، ومرة: متكلم فيه

خالد الحذاء : كذاب فاحذروه

خلف بن سالم المخرمي : غلط في أحاديث

شعبة بن الحجاج : لا تكتبوا عنه

علي بن المديني : معروف في الحديث، وكان يغلط في الحديث، وروى أحاديث منكرة

عمرو بن علي الفلاس : فيه ضعف، وكان من أهل الصدق

محمد بن إسماعيل البخاري : ليس بالقوي عندهم، وقال مرة: يتكلمون فيه

يعقوب بن شيبة السدوسي : ضعيف متروك الحديث


راوی علی بن عاصم کے بارے میں محدث ابن حبان کی ذاتی رائے :


علي بن عاصم مولى قُرَيبة بنت محمد بن أبي بكر 

 وكان ممن يخطىء ويقيم على خطئه، فإذا تبين له لم يرجع، وكان شعبة يقول: أفادني علي بن عاصم عن خالد الحذاء أشياء، سألت خالدًا عنها فأنكرها، وكان أحمد بن حنبل رحمه الله سيء الرأي فيه.


محدث ابن حبان خود اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتا تھا اور اس پر ڈٹا رہتا  حتی کہ اس کو اس کی غلطیوں پر تنبیہ کی جاتی تو پھر بھی وہ غلطی تسلیم نہ کرتا ، بلکہ اسی غلطی پر قائم رہتا ۔

( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 2/89 )

اسی مقام پر محدث ابن حبان نے  لکھا کہ محدث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی رائے علی بن عاصم کے بارے میں بری تھی۔ 

جس راوی پر خود محدث ابن حبان نے جرح کی ہے (اور دیگر محدثین جنہوں نے علی بن عاصم کو متروک ، کذاب اور ضعیف کہا ہے )اسی راوی سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف جرح پیش کرنا محدث ابن حبان کے تعصب کا واضح ثبوت ہے ، کہ وہ تعصب میں کس قدر ڈوب چکے تھے۔

 اللہ محدث ابن حبان کی اس عظیم غلطی سے در گزر فرمائے ۔


علی بن عاصم کے بارے میں غیر مقلدین کی رائے ملاحظہ ہو۔

1.غیر مقلد زبیر علی زئی :

علي بن عاصم ضعيف 

انظر ضعيف سنن الترمذي : 1073 انوار الصحيفه، صفحه نمبر 115

2.غیر مقلد ناصر الدین البانی

علی بن عاصم : ضعیف

 (ضعيف، ابن ماجة 1602 ، الإرواء: 765)

3۔ غیر مقلد عبد الرحمٰن فریوائی

سند میں علی بن عاصم بہت غلطی کرتے تھے اور اپنی غلطی پر اصرار بھی کرتے تھے۔

  (  سنن ترمذي  ، مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1073  )


4 ، 5 ۔ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی و غیر مقلد معلمی یمانی  : 

اس کی سند میں ”علی بن عاصم بن صھیب“ ہے ۔

یہ سخت ضعیف راوی ہیں ، بلکہ کئی محدثین نے ان پر کذاب ہونے کی جرح کی ہے۔

 ✿ امام يزيد بن هارون رحمه الله (المتوفى206)نے کہا:

 ”ما زلنا نعرفه بالكذب“ 

 ”ہم اسے جھوٹ کے ساتھ ہی جانتے رہے“ [سؤالات البرذعي لأبي زرعة، ت الأزهري: ص: 133 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء :4/ 266 والخطیب فی تاریخ بغداد:11/ 456 من طریق عثمان بہ]

 ✿ خالد بن مهران الحذاء رحمه الله (المتوفى141)نے کہا:

 ”كذاب فاحذروه“ 

 ”یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 4/ 266 واسنادہ صحیح]

 ✿ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:

 ”وقال وهب بن بقية: سمعت يزيد بن زريع، قال: حدثنا علي، عن خالد ببضعة عشر حديثا، فسألنا خالدا عن حديث، فأنكره، ثم آخر فأنكره، ثم ثالث فأنكره، فأخبرناه، فقال: كذاب فاحذروه“ 

 ”بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن زریع کہتے کہ علی بن عاصم نے ہم سے درجنوں احادیث خالد الحذاء سے بیان کی ، پھر ہم نے خالدالحذاء سے ان میں سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک دوسری حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک تیسری حدیث کے بارے میں پوچھا اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ۔اس کے بعد ہم نے خالد الحذاء کو یہ بات بتلادی تو خالد الحذاء نے کہا: یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 290 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء 4/ 267 من طریق محمد بن المنهال الضريربہ، واسنادہ صحیح]

یہ واقعہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ علی بن عاصم نے جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اسی سبب کئی ایک محدثین نے انہیں کذاب کہا ہے۔

بعض محدثین نے ان کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی کتاب میں دوسرے لوگ ان کے نام سے جھوٹی احادیث لکھ دیتے تھے جسے یہ بیان کردیتے ۔

اگراسے تسلیم کرلین تو بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ان کی طرف سے جھوٹی احادیث بیان ہوئی ہیں لہٰذا ان کی احادیث کی شمار میں نہیں ہیں ۔

 ✿ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 ”علي بن عاصم لا يُعتدُّ بحديثه“ 

 ”علی بن عاصم کی حدیث کسی شمار میں نہیں ہے“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 16/ 44]

 ✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:

 ”أجمعوا على ضعفه يعني علي بن عاصم“ 

 ”محدثین کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے“ [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 4/ 376]

( کفایت اللہ سنابلی یزیدی کا مضمون : حدیث خلافت تیس (30)سال ،تحقیقی جائزہ )

لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض مردود ہے۔

نکتہ : 

اعتاق (غلامی سے آزادی) مہر بن سکتا ہے یا نہیں ، اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک رحمہ اللہ کا موقف یہ ہیکہ اعتاق مہر نہیں بن سکتا ۔ دلائل کیلئے دیکھیں  مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ کی ترمذی کی شرح تحفتہ الالمعی 3/541 ۔

 

نکتہ : محدث ابن حبان رحمہ اللہ نے متعصب رویہ رکھتے ہوئے اس مسئلہ کی وجہ سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نقل کیا ہے ، جبکہ اس مسئلہ پر امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں ، ایک بار پھر سے ہمارا سوال ہیکہ ، آخر اعتراضات صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کہ ذات پر کیوں ہوتے ہیں ؟ 


بہرحال مذکورہ بالا اعتراض کے حوالے سے مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں ،

 "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

▪︎(سلسلہ ) المجروحین لابن حبان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات ۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...