اعتراض نمبر 96 :
کہ حماد نے کہا کہ ابوحنیفہ کا علم تو میری داڑھی کے خضاب سے بھی زیادہ حادث ہے۔
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا أحمد بن عبد الله العكي - أبو عبد الرحمن وسمعت منه بمرو - قال: حدثنا مصعب بن خارجة بن مصعب سمعت حمادا يقول - في مسجد الجامع - وما علم أبي حنيفة؟ علمه أحدث من خضاب لحيتي هذه.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں تینوں ساتھی ابن رزق اور ابن سلم اور الابار اور ان کے ساتھ احمد بن عبد الله الفریانانی المروزی ہے جس کے بارہ میں ابو نعیم نے کہا کہ یہ حدیثیں گھڑنے میں مشہور ہے۔ اور نسائی نے کہا کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور ابن عدی نے کہا کہ وہ الفضیل اور ابن المبارک وغیرہ سے منکر روایات کرتا تھا۔ اور دار قطنی نے کہا کہ وہ متروک الحدیث ہے۔
اور ابن حبان نے کہا کہ وہ ثقہ راویوں سے ایسی احادیث بیان کرتا تھا جو ان سے نہ ہوتی تھیں۔
اور ثبت راویوں سے ایسی روایات کرتا تھا جو انہوں نے بیان نہ کی ہوتی تھیں۔ اور ابن السمعانی نے کہا کہ وہ ثقہ راویوں سے ایسی احادیث بیان کرتا تھا جو ان کی احادیث نہ ہوتی تھیں۔ اور محمد بن علی الحافظ اس کے بارہ میں اچھی رائے نہ رکھتا تھا[1]۔
اور وضاع (روایات گھڑنے والے) پر الابار جیسے جیب کترے کے سوا کون اعتماد کر سکتا ہے جس کو لکھنے کی مزدوری ملتی تھی۔
اور تینوں مطبوعہ نسخوں میں العتکی کی جگہ العکی لکھا ہوا ہے مگر صحیح العتکی ہے جیسا کہ ابن السمعانی کی کتاب انساب میں ہے۔
اور خارجہ بن مصعب خود تو معروف ہے لیکن اس کا بیٹا مصعب مجهول الصفت ہے جیسا کہ ابو حاتم نے کہا ہے[2]۔
اور اس سند میں حماد جو ہے وہ حماد ابن سلمہ ہے۔
اگر یہ واقعہ درست مان لیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے اپنے آپ پر آزمائش کا ذکر کیا حالانکہ اس پر لازم تھا کہ وہ لوگوں کے بارہ میں کلام کرنے سے اپنے آپ کو باز رکھے۔ اور دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں پایا جاتا جو یہ دعوی کرتا ہو کہ ابو حنیفہ کا علم قدیم ہے۔ اور اس کے علم کے حادث ہونے میں تو کسی کو کلام ہی نہیں۔
رہی بات اس کے اس کا حماد ابن سلمہ کی داڑھی کے خضاب سے بھی زیادہ حادث ہونے کی جس کی وفات اس (ابو حنیفہ) سے تقریباً سترہ سال بعد ہے تو اس روایت کا تصور صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ حماد جوانی میں ہی خضاب لگانے والا ہو۔
لیکن آدمی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے منہ سے کیا نکلتا ہے۔
(اور اگلی روایت میں جو یہ ہے کہ سفیان بن سعید اور شریک بن عبد اللہ اور الحسن بن صالح نے کہا کہ ہم نے ابو حنیفہ کو اس طرح پایا کہ وہ فقہ میں ذرا بھی معروف نہ تھے، ہم تو اس کو صرف مناظروں میں پہچانتے ہیں)[3]
تو ابو حنیفہ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے جبکہ کئی لوگوں نے اس کو اس وقت پایا جبکہ وہ فقہ میں مشہور ہونے سے پہلے مناظروں میں مشہور تھے۔
اور وہ خبر[4] جو امام شافعی کی طرف منسوب کی گئی ہے کہ بے شک ابو حنیفہ جب مناظرہ کرتے تھے تو اپنی آواز بلند کرتے تھے تو اس روایت کی سند صحیح نہیں ہے۔
پس اگر امام شافعی تک سند کو صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی اعتبار نہیں اس لیے کہ امام شافعی اور ابو حنیفہ کے درمیان سند مذکور نہیں ہے۔ اور شوافع حضرات تو منقطع خبر کو دلیل نہیں مانتے۔
اور بہرحال وہ روایت[5] جو ابن المبارک سے کی گئی ہے کہ بے شک ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہ مجتہد تھے یعنی بہت زیادہ عبادت گزار تھے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ایسا کرنا اس کی عادت نہ تھی۔ وہ تو صبح سے ظہر تک اور ظہر سے عصر تک اور عصر سے مغرب تک اور مغرب سے عشاء تک گفتگو میں چست و چالاک رہتے تھے تو وہ مجتہد کیسے ہو سکتے تھے؟ اور وہ عبارت ابو قدامہ کی یوں ہے کہ میں نے سلمہ بن سلیمان سے سنا اس نے کہا کہ ایک آدمی نے ابن المبارک سے کہا تو اس کی سند میں انقطاع ہے اور راوی مجہول ہے۔ اس لیے کہ اس نے وضاحت نہیں کی کہ بے شک اس نے آدمی کو کہتے ہوئے خود سنا کہ وہ قصہ کے وقت حاضر تھا جیسا کہ اس نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ وہ آدمی کون تھا؟
پس اللہ کی ذات پاک ہے کہ ابو حنیفہ کا مخالف بھی اس کے بارہ میں یہ تو اعتراف کر رہا ہے کہ بے شک وہ صبح سے عشاء تک سارا وقت فقہ اور علم سکھانے میں گزارتے تھے۔
مگر وہ اس کے باوجود اس کی کثرت عبادت کا اعتراف نہیں کرتا اور فرائض ادا کرنے کے بعد لوگوں کو ان کے دین کی فقہ سکھانے سے زیادہ پسندیدہ عبادت اللہ تعالی کے ہاں اور کون سی ہو سکتی ہے؟
اور اگر ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب نہ ہوتے تو فقہ کا پھل اس انداز کا نہ پکتا اور ہو سکتا ہے کہ راوی نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے اس میں تغیر و تبدل کر دیا ہو۔
اور ابن المبارک کا قول بہت احتمال رکھتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ مدح ہو مگر الفاظ ایسے ہیں جو کہ مذمت کے مشابہ ہیں اور خاص کر اس ذکر کے بعد جس کو خطیب نے اس باب میں مسعر بن کدام سے نقل کیا ہے۔
جہاں اس نے ص 355 میں محمد بن احمد بن رزق - القاضی ابو نصر اور دوسری سند الحسن بن ابی بکر۔ القاضی ابو نصر احمد بن نصر بن محمد بن اشكاب البخاری محمد بن خلف بن رجاء محمد بن سلمہ۔ ابن ابی معاذ مسعر بن کدام کی سند نقل کر کے کہا کہ مسعر بن کدام نے کہا کہ میں ابو حنیفہ کے پاس اس کی مسجد میں آیا تو میں نے اس کو دیکھا کہ اس نے صبح کی نماز پڑھی پھر وہ لوگوں کو علم سکھانے بیٹھ گئے یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھی، پھر وہ عصر تک بیٹھے۔ پس جب عصر کی نماز پڑھ لی تو مغرب تک بیٹھے پھر جب مغرب کی نماز پڑھ لی تو عشاء کی نماز پڑھنے تک بیٹھے تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص اس مصروفیت میں کب عبادت کے لیے فارغ ہوتا ہو گا؟ آج رات ضرور بضرور اس کی نگرانی کروں گا۔
اس نے کہا کہ پھر میں نے اس کی نگرانی کی تو تو جب لوگوں کی آمد و رفت تھم گئی تو وہ مسجد کی طرف نکلے تو نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی پھر اپنے گھر گئے اور کپڑے بدل کر مسجد کی طرف آگئے اور صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کے لیے ظہر تک بیٹھے رہے۔
پھر آخر تک روایت بیان کی۔ الخ اس کی حالت دن اور رات میں اسی طرح تھی۔
اور اگر وہ فرائض کی ادائیگی کے بعد صرف لوگوں کو فقہ کی تعلیم ہی دیتے رہتے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے تو اللہ تعالی کی یہی اطاعت اور عبادت اس کے لیے کافی ہوتی تو کیا شان ہے جبکہ وہ عبادت میں رات کو بھی گزارنے والے تھے جیسا کہ آپ نے معلوم کر لیا[6]۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ دعوی کرنے والا یہ دعوی کر رہا ہے اور ابو حنیفہ کے بارہ میں کہہ رہا ہے کہ انہوں نے عطاء کو چھوڑ دیا تھا اور ابو العطوف کی جانب متوجہ ہو گئے تھے[7] حالانکہ ابو حنیفہ کی احادیث میں جو سترہ مسانید لکھی ہوئی ہیں ان میں سے ہر مسند میں اس کی عطاء سے ہی روایات بکثرت ہیں۔
اور بہر حال ابو العطوف جراح بن منھال الجزری، تو اس کی وفات ابوحنیفہ کی وفات سے تقریبا اٹھارہ سال بعد ہے اور اس سے تو ابو حنیفہ کی روایات بہت ہی کم ہیں۔ اور جب تک اس پر غفلت طاری نہ ہوئی تھی اس سے پہلے پہلے اس سے روایت لینے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔
اور امام احمد نے اس کے بارہ میں صرف غفلت کا ذکر کیا ہے اور ابن معین نے کہا کہ وہ لیس بشٸ ہے اور وہ یہ الفاظ بکثرت اس راوی کے بارہ میں کہتے تھے جس کی حدیثیں کم ہوں۔
اور جس آدمی کا خیال یہ ہے کہ ابو حنیفہ میں اتنا علم نہیں تھا کہ وہ غفلت والے یا تہمت والے آدمی اور اس کے غیر کے درمیان فرق کر سکیں حالانکہ اس کو اس کے ساتھ محبت بھی حاصل تھی تو بے شک اس شخص نے باطل خیال کیا۔ اور ابو حنیفہ تو عطاء بن ابی رباح سے بکثرت روایت کرتے تھے بلکہ حماد ابن ابی سلیمان کے بعد اس کے شیوخ میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے ابو حنیفہ کی روایات عطاء سے زیادہ ہوں۔
اور بہر حال ابو العطوف، تو اس سے اس کی روایات ساری کی ساری صرف پانچ کے قریب روایات ہیں۔
ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی روایت اور روزے کی حالت میں سینگی لگوانے والی اور نہیٰ عن بیع و شرط والی روایت اور آزاد مسلمان اور کتابی کی دیت برابر ہونے والی روایت اور مہینہ کے انتیس دن یا تیس دن کا ہونے والی روایت اور یہ ایسی روایات ہیں کہ اس کے علاوہ بھی کئی حضرات سے کئی طریقوں سے موجود ہیں۔ (روایت کی حالت تو یہ ہے )مگر اس کے باوجود اس کو گھڑنے والا اور بیان کرنے والے بیان کرتے جا رہے ہیں اور یہی ہوتا ہے کھلا جھوٹ اور ابن المبارک دونوں روایتوں سے بری ہیں۔
وہ تو ابو حنیفہ کے بارہ میں یوں کہتے تھے کہ بے شک وہ افقه الناس تمام لوگوں سے زیادہ فقیہ و اعبدهم اور ان میں زیادہ عبادت گزار واورعہم اور ان میں زیادہ پرہیزگار تھے جیسا کہ خود خطیب نے ص 359.355.342 میں پہلے بیان کیا ہے[8]۔
اور بھول جانا تو خطیب کی عادت ہے۔
اور پہلے ابن عون سے گزر چکا ہے کہ بے شک ابو حنیفہ رات کو زندہ رکھنے والے اور عبادت گزار تھے۔
بلکہ ان کا عبادت میں انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا ہونا تو لوگوں میں ضرب المثل ہے۔ تفصیل کے لیے ابن عبدالبر کی الانتقاء دیکھیں۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
![]() |
[1]۔ أَحْمَدُ بْنُ عَبد اللَّهِ بْنِ حَكِيمٍ أَبُو عَبد الرَّحْمَنِ الْفِرْيَانَانِيُّ الْمَرْوَزِيُّ ( أحمد بن عبد الله أبو عبد الرحمن العتكي)
يُحَدِّثُ بِالْمَنَاكِيرِ
(الكامل في ضعفاء الرجال ١/٢٨١)
وَأَحْمَدُ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ.
( تذكرة الحفاظ لابن القيسراني =أطراف أحاديث كتاب المجروحين لابن حبان ١/٣١٤)
وَقَالَ أَبُو نعيم الْحَافِظ كَانَ وضاعا مَشْهُورا بِالْوَضْعِ
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ١/٧٨ ، الكشف الحثيث ١/٤٧ )
أحمد بن عبد الله بن حكيم أبو عبد الرحمن الفرياناني المروزي.
قال ابن عَدِي: يحدث عن الفضيل بن عياض، وَابن المبارك، وَغيرهما بالمناكير.
وقال النَّسَائي: ليس بثقة.
وقال أبو نعيم الحافظ: مشهور بالوضع.
وقال الدارقطني: متروك الحديث.
(لسان الميزان ت أبي غدة ١/٤٩٦)
وكان ممن يروى عن الثقات ما ليس من أحاديثهم، وكان محمد بن على الحافظ سيء الرأى فيه، وسئل أحمد بن سيار عنه فقال: لا سبيل إليه.
(الأنساب للسمعاني ١٠/٢٠٩)
غیر مقلد معلمی یمانی نے اس من گھڑت راوی کا مکمل دفاع کرنے کی عجیب کوشش کی ہے ، جس پر سلفی محشی صاحب کو معلمی یمانی صاحب پر آگ بگولہ ہو کر لکھنا پڑا۔
قلت: ولذلك كان زوار قبره يدورون حوله، وهذه وتنبيه لا يرضاها الإسلام. والله المستعان
کہ ایسی بت پرستی کو اسلام پسند نہیں کرتا۔
معلمی یمانی الانساب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ابو عبدالرحمن کی قبر فریان میں موجود ہے جہاں لوگ زیارت کرتے ہیں اور اس قبر کا طواف کرتے ہیں۔
آگے معلمی یمانی اس راوی کا دفاع کرتے ہوتے لکھتے ہیں
وهذا يدل أن الرجل كان له شهرة وصيت في تلك الجهات
( التنکیل 1/220)
"اس سے پتہ چلتا ہیکہ وہاں اس علاقے میں اس کا اچھا نام تھا ، شہرت اچھی تھی"
قارئین کرام ، سب سے پہلے تو آپ نے اس راوی پر جروحات دیکھ لیں ہوں گیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ایک روایت میں یہی راوی آیا ، تو غیر مقلدوں کو اس راوی کا دفاع کرنا پڑا ، اس راوی کی کوئی توثیق نہ تھی ، لہذا غیر مقلدوں کے جرح و تعدیل کے امام نے یہ انوکھی توثیق سوچی کہ اس کہ قبر کا طواف کیا جاتا تھا ، لہذا وہ اچھی شہرت والا ہو گا ۔۔۔ یعنی غیر مقلدین امام صاحب کے بغض میں اس قدر گر چکے ہیں کہ قبر پرستی سے استدلال کرنے لگے ہیں ۔ ویسے تو یہ فرقہ ، احناف پر طعن تشنیع کرتے ہیں لیکن جب بات اپنے مطلب کی ہو (یعنی ابو حنیفہ پر بلا وجہ اعتراض کرنا ہو) ، من گھڑت روایات بیان کرنے والے ، کذاب راوی کی قبر کا طواف بھی ان متعصب متشدد لوگوں کیلئے دلیل بن جاتا ہے۔
[2]۔مصعب بن خارجة.
مجهول. انتهى.
وقال ابن حبان في الثقات: مصعب بن خارجة بن مصعب من أهل سرخس يروي عن حماد بن زيد وأبيه روى عنه أهل بلده، مات سنة إحدى، أو اثنتين ومئتين وكان على قضاء سرخس.
(لسان الميزان ت أبي غدة ٨/٧٤)
مصعب بن خارجة.
مجهول.
(ميزان الاعتدال ٤/١١٩)
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٣٠٩ )
وأما ولده مصعب بن خارجة فقال الحافظ الذهبي في «الميزان»: مجهول.
(الشفاعة ١/١٧٧ — مقبل بن هادي الوادعي)
[3]۔ أخبرنا أبو بكر أحمد بن علي بن عبد الله الزجاجي الطبري، حدثنا أبو يعلى عبد الله بن مسلم الدباس، حدثنا الحسين بن إسماعيل، حدثنا أحمد بن محمد ابن يحيى بن سعيد، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان بن سعيد وشريك بن عبد الله والحسن بن صالح. قالوا: أدركنا أبا حنيفة وما يعرف بشئ من الفقه، ما نعرفه إلا بالخصومات.
یہ کوئی اعتراض نہیں بنتا ، امام صاحب اوائل عمری میں فرقہ باطلہ کے ساتھ مناظرے کیا کرتے تھے جیسا کہ ان کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے ،اور بعد میں آپ نے فقہ حنفی تدوین کروائی ۔ جو لوگ امام صاحب پر اعتراض کرتے ہیں ، ان کی زندگی میں ہی امام صاحب کی فقہ نہ صرف کوفہ بلکہ آفاق میں پھیلی ہے جیسا کہ صحیح سند سے ثابت ہے۔
امام سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں کہ دو چیزوں کے بارے میں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قراءت اور دوسرے ابو حنیفہ ؒ کے اجتہادات ۔
(تاریخ بغداد ج:۱۵ ص:۴۷۵،شیخ بشار عواد معروف اسکی سند کو صحیح کہتے ہیں )
جبکہ معترضین کی فقہ ، یا تو پھیلی ہی نہیں ، یا چند سالوں میں ہی ختم ہو گئی ، اور امام صاحب کی فقہ، فقہ حنفی سینکڑوں سالوں سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ رائج ہے اور یہ مقبولیت خاص اللہ تعالی کی عنایت ہے الحمد اللہ۔
اللہ حاسدین و غیر مقلدین کے حسد و شر سے احناف کی حفاظت فرمائے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ
[4]۔ أخبرني الحسن بن أبي طالب، حدثنا عبد الله بن عثمان بن محمد بن بيان الصفار، حدثنا علي بن محمد الفقيه المصري، حدثنا عصام بن الفضل الرازي قال: سمعت المزني يقول: سمعت الشافعي يقول: ناظر أبو حنيفة رجلا فكان يرفع صوته في مناظرته إياه. فوقف عليه رجل فقال الرجل لأبي حنيفة: أخطأت، فقال أبو حنيفة للرجل: تعرف المسألة ما هي؟ قال: لا قال فكيف تعرف أني أخطأت؟ قال: أعرفك إذا كان لك الحجة ترفق بصاحبك، وإذا كانت عليك تشغب وتجلب.
1۔ سند میں عصام بن الفضل الرازي ، کا ترجمہ نہ ہمیں مل سکا نہ ہی کتاب کے محقق ، غیر مقلدین کے پسندیدہ محقق دکتور بشار عواد کو۔
2۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مناظرے دیکھے ہی نہیں ، وہ تو ، تب پیدا بھی نہ ہوئے تھے ، لہذا یہ سند منقطع ہے۔
[5]۔ أخبرنا البرقاني، أخبرنا أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني - إملاء - حدثنا أبو العباس السراج قال: سمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان قال: قال رجل لابن المبارك: كان أبو حنيفة مجتهدا، قال: ما كان بخليق لذاك، كان يصبح نشيطا في الخوض إلى الظهر، ومن الظهر إلى العصر، ومن العصر إلى المغرب، ومن المغرب إلى العشاء، فمتى كان مجتهدا؟.
اس سند میں برقانی کا شیخ أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني مجہول ہے۔ لہذا سند ضعیف ہے ۔
[6]۔ صحیح روایات سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
▪︎أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق قال: سمعت أبا نصر وأبا الحسن بن أبي بكر، أخبرنا أبو نصر أحمد بن نصر بن محمد بن أشكاب البخاري قال: سمعت أبا إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان يقول: سمعت علي بن سلمة يقول: سمعت سفيان بن عيينة يقول: رحم الله أبا حنيفة كان من المصلين - أعني أنه كان كثير الصلاة -.
علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ ابوحنیفہ ؒ پر رحم کرے وہ کثرت سے نماز پڑھنے والے تھے ۔علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ اس سےمراد یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے
( تاریخ بغداد ت بشار 15/482 ، خبر صحیح )
▪︎أخبرنا إبراهيم بن مخلد المعدل، حدثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم الحكيمي، حدثنا مقاتل بن صالح أبو علي المطرز قال: سمعت يحيى بن أيوب الزاهد يقول: كان أبو حنيفة لا ينام الليل.
یحیی بن ایوب الزاہد فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رات کو سوتے نہ تھے (جیسا کہ دیگر روایات میں صراحت ہیکہ عبادت کی وجہ سے رات کو سوتے نہ تھے)
(تاریخ بغداد ت بشار 15/483 اسنادہ حسن)
▪︎ أخبرنا أبو نعيم الحافظ، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن فارس - فيما أذن لي أن أرويه عنه - قال: حدثنا هارون بن سليمان، حدثنا علي بن المديني قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: كان أبو حنيفة له مروءة، وله صلاة في أول زمانه. قال سفيان: اشترى أبي مملوكا فأعتقه، وكان له صلاة من الليل في داره، فكان الناس ينتابونه فيها يصلون معه من الليل، فكان أبو حنيفة فيمن يجيء يصلي.
امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ شروع سے ہی نمازی تھے۔ آگے فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے آزاد کردہ غلام کے ساتھ رات میں آ کر نماز پڑھتے ، جو خود بھی نماز پڑھتا تھا اور دوسروں لوگ بھی نماز پڑھتے تھے۔
(تاریخ بغداد ت بشار 15/483 اسنادہ جید رجالہ ثقات)
▪︎أخبرني عبد الباقي بن عبد الكريم، أخبرنا عبد الرحمن بن عمر، حدثنا محمد بن أحمد بن يعقوب، حدثنا جدي قال: حدثني محمد بن بكر قال: سمعت أبا عاصم النبيل يقول: كان أبو حنيفة يسمى الوتد لكثرة صلاته.
امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام ضحاک بن مخلد ابو عاصم النبیل اپنے استاد محترم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو ان کی کثرت نماز (طول قیام ) کی وجہ سے کیل کہا جاتا تھا۔
(تاریخ بغداد ت بشار 15/484 اسنادہ صحیح )
یعنی کیل کو جب گاڑھ دیا جائے تو وہ ایک ہی جگہ مضبوطی سے قائم رہتی ہے ، کوئی حرکت نہیں کرتی، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کثرت سے نماز میں طویل قیام فرماتے تھے ، کوئی ادھر ادھر حرکت نہ فرماتے جس سے خشوع و خضوع میں کمی واقع ہو ، تو دیکھنے والے نے کیل سے تشبیہ دی کہ کس قدر مضبوطی سے قیام میں کھڑے رہتے ہیں ، اور نماز میں قراءت میں مصروف رہتے ہیں ، چونکہ طول قیام نماز میں سب سے زیادہ افضل ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے
افضل الصلاة طول القنوت
" قیام کا لمبا ہونا بہترین نماز ہے۔"
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 1768)
▪︎أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا علي بن حفص البزاز قال: سمعت حفص بن عبد الرحمن يقول سمعت مسعر بن كدام يقول: دخلت ذات ليلة المسجد فرأيت رجلا يصلي فاستحليت قراءته فقرأ سبعا، فقلت يركع، ثم قرأ الثلث، ثم قرأ النصف، فلم يزل يقرأ القرآن حتى ختمه كله في ركعة، فنظرت فإذا هو أبو حنيفة.
حفص بن عبد الرحمن فرماتے ہیں میں نے مسعر بن کدام کو کہتے سنا کہ میں ایک رات مسجد میں داخل ہوا میں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، مجھے اس کی قراءت بہت اچھی لگی ، اس نے قرآن کی ایک منزل تلاوت کی، میرا خیال تھا کہ وہ اب رکوع کرے گا ، پر اس نے تہائی قرآن پڑھا ، پھر نصف ، وہ قرآن پڑھتا ہی رہا حتی کہ اس نے ایک رکعت میں پورا قرآن مکمل کر لیا ۔ اب جو میں نے دیکھا تو وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تھے ۔
(تاریخ بغداد ت بشار 15/488 اسنادہ حسن )
[7]۔ وسمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أبو حنيفة عالما؟ قال: لا، ما كان بخليق لذاك،
ترك عطاء وأقبل على أبي العطوف.
تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎ ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89
[8]۔ تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں