امام ترمذی اور جہمیہ کی تفسیر و تاویل :
ایک مشہور حدیث قدسی ہے کہ
اللہ رب العالمین فرماتے ہیں کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک بالشت آگے قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ کے بقدر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں ۔ اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں "
جیسا کہ صحیحین اور اسی طرح سنن ترمذی حدیث نمبر 3603 ۔ ابواب الدعوات میں موجود ہے
امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی تفسیر و تاویل میں فرماتے ہیں :
"اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کرکے میری قربت حاصل کرنا چاہتاہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتاہوں۔ سعید بن جبیراس آیت: 'فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ' کے بارے میں فرماتے ہیں : 'اذکرونی' سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔"
لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کو جہمیہ کی تفسیر مانتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں :
ومنهم من يفسر قربهم بطاعتهم، ويفسر قربه بإثابته. وهذا تفسير جمهور الجهمية؛ فإنهم ليس عندهم قرب ولا تقريب أصلا.
(شرح حدیث النزول . 104)
یعنی : بعض حضرات اس کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ بندوں کا اللہ کے قریب ہونے سے مراد اس کی اطاعت کے ذریعے قریب ہونا ہے اور اللہ کا قریب ہونے کی تفسیر ان کو اجر و ثواب دینا ہے
اور یہی جمہور جہمیہ کی تفسیر ہے کیونکہ ان کے ہاں کوئی قرب و تقریب ہے ہی نہیں
اس کے علاؤہ ایک اور حدیث میں بھی امام ترمذی کی تفسیر نقل کرنے کے بعد اس کو علامہ ابن تیمیہ نے جہمیہ کے جنس کی تفسیر قرار دی ہوئی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں