اعتراض نمبر 103 : کہ اسود بن سالم نے ابو عبید سے مرتے دم تک صرف اس لیے کلام کرنا چھوڑ دیا تھا کہ اس نے مسجد میں ابوحنیفہ کا تذکرہ کیا تھا
اعتراض نمبر 103 :
کہ اسود بن سالم نے ابو عبید سے مرتے دم تک صرف اس لیے کلام کرنا چھوڑ دیا تھا کہ اس نے مسجد میں ابوحنیفہ کا تذکرہ کیا تھا
أخبرني الحسن بن علي بن عبد الله المقرئ، حدثنا محمد بن بكران البزاز، حدثنا محمد بن مخلد، حدثنا محمد بن حفص - هو الدوري - قال: سمعت أبا عبيد يقول: كنت جالسا مع الأسود بن سالم في مسجد الجامع بالرصافة، فتذاكروا مسألة، فقلت: إن أبا حنيفة يقول: فيها كيت وكيت، فقال لي الأسود: تذكر أبا حنيفة في المسجد؟ فلم يكلمني حتى مات.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ الاسود بن سالم کا ابو عبید کے مقابلہ میں کیا مقام ہو سکتا ہے جو کہ ہر علم : میں امام تھا۔
اور الاسود بن سالم پرہیزگار اللہ کے مقبول بندوں میں سے تھا مگر اس کو علم میں وسعت نہ تھی۔
اور نہ ہی فقہ میں اس کی گہری نظر تھی۔
تو اس کے بارہ میں یہ گمان کرنا مشکل ہے کہ وہ مسجد میں اللہ کے ذکر کے بغیر کسی اور کام میں مشغول ہو۔
وہ یہ احساس کرنے والا نہ تھا کہ فقہ کا پڑھنا پڑھانا بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔
اور اس بارہ میں اس کی اپنی رائے تھی اور اہل علم کی اپنی رائے ہے۔
نیز وہ ایسا آدمی نہیں ہے کہ اس جیسی من گھڑت بات میں اس کے قول کو دلیل بنایا جا سکے۔
اور میں نہیں جان سکا کہ خطیب نے اس سے روایت کرنے کی تکلیف کیوں اٹھائی ہے حالانکہ اس کا حال اس کو معلوم ہے جیسا کہ خود خطیب نے ص 36 ج 7 میں الحسین بن علی الطناجیری محمد بن علی بن سويد المؤدب عثمان بن اسماعیل بن بکر السکری۔
حبش بن برد کی سند نقل کر کے کہا کہ جبش بن برد نے کہا
کہ اسود بن سالم صبح سے نصف النہار تک اپنا چہرہ دھوتا رہتا تھا تو اس سے پوچھا گیا کہ تیرا واقعہ کیسا ہے ؟
تو اس نے کہا کہ میں نے آج ایک بدعتی کو دیکھا ہے تو میں اس وقت سے اب تک اپنا چہرہ دھو رہا ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ ابھی تک صاف نہیں ہوا
[1]
الخ
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ یہ اسود بن سالم رحمہ اللہ کی اپنی مرضی تھی کہ انہوں نے ابو عبید سے قطع کلام کیا ، اس وجہ سے کہ انہوں نے فقہی مسئلے پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی قول پیش کیا۔ معلوم نہیں وہ اس قدر خائف کیوں تھے ؟ اگر ان کو فقہی اختلاف تھا ، تو دلیل سے جواب دیتے ، نہ کہ درج ذیل حدیث کی مخالفت کرتے۔
"عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل للمؤمن أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام»."
مفہوم : کسی کیلئے جائز نہیں ہے اپنے مؤمن بھائی سے قطع تعلق کرے تین دن سے زیادہ۔
(صحیح مسلم ، باب تحريم الهجر فوق ثلاث بلا عذر شرعي 4/1984ط: دار إحياء التراث العربي)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں