نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 104: کہ علی بن عثام نے کہا کہ ابو حنیفہ نہ دین میں حجت ہے اور نہ دنیا میں۔


 اعتراض نمبر 104: 
کہ علی بن عثام نے کہا کہ ابو حنیفہ نہ دین میں حجت ہے اور نہ دنیا میں۔


أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب، أخبرنا محمد بن نعيم الضبي قال:

سمعت محمد بن حامد البزاز يقول: سمعت الحسن بن منصور يقول: سمعت محمد بن عبد الوهاب يقول: قلت لعلي بن عثام: أبو حنيفة حجة؟ فقال: لا للدين ولا للدنيا.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ اللہ کے دین میں حجت تو اپنی شرطوں کے ساتھ کتاب اللہ اور سنت اور اجماع اور قیاس ہے۔ 

 اور دنیا میں حجت عادل گواہوں کی گواہی ہے اور مدعا علیہ کا اقرار ہے اور محدثین کی اصطلاح جو الحجہ ہے وہ تو نئی اصطلاح ہے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دور میں یہ اصطلاح نہ تھی) تو یہاں اس حکایت کو ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے اور اگر مراد یہ ہے کہ اس کی روایت سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی تو یہ جرح غیر مفسر ہے۔ (اور جرح غیر مفسر کا اعتبار نہیں ہوتا) علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ امام شافعی نے کتاب الام میں اس کی مروی حدیث سے دلیل پکڑی ہے اور وہ تو خطیب کے امام ہیں۔ 

اور وہ جس قدر ابوحنیفہ کی تعریف کرتے تھے وہ ابن عبدالبر کی کتاب الانتقاء سے ظاہر ہے۔ بلکہ اس کی ثقاہت اور امانت اور امامت تو متواترات میں سے ہے۔ 

تو اس کے بارہ میں طعن صرف کج رو آدمی ہی کر سکتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ 

پھر علی بن عثام تک سند میں محمد بن عبد الوہاب الفراء ہے اور وہ ہدایت کے معاملہ میں ابو یعلی الخلیلی کے نزدیک معلول ہے جیسا کہ من الامهات في ابا صوفيا في الرجال میں ہے۔ 

اور حاکم کا تعصب اور اختلاط مشہور ہے اور علی بن تمام مسلم کے راویوں میں سے ہے اور حاشیہ میں جس نے یہ کہا ہے کہ یہ مجہول ہے تو اس کو وہم ہوا ہے۔

 تفصیل کے لیے دیکھیں خلاصہ الخزرجی جو کہ رجال میں چھوٹی سی کتاب ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ مجهول نہیں ہے[1]۔ 


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ 


[1]۔ سند ضعیف ہے کیونکہ 

▪︎خطیب کا شیخ محمد بن أحمد بن يعقوب مجہول الحال ہے ۔ 

▪︎محمد بن حامد البزاز بھی مجہول ہیں ، 

(شعب الإيمان - ط الرشد ١٢/‏١٤٦ ،مختار أحمد الندوي صاحب الدار السلفية ببومباي - الهند )

اگر اس سے مراد یورپی غیر مقلد ناصر الدین البانی کے تعین کردہ محمَّد بن حامد بن محمَّد بن الحارث بن عبد الحميد أبو رجاء التَّمِيمِيّ البغدادي ہیں ، تو وہ بھی متکلم فیہ ہیں ، 

امام ابن الصيرفي أبي عمرو عثمان بن سعيد بن عثمان الأموي الداني سے ان کی توثیق نقل کرنے کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں یہ لائق اعتماد نہیں ہیں ۔ 

قال الذهبي: وما أرى هذا الشيخ ممن يعتمد عليه.

(ميزان الاعتدال ٣/‏٥٠٦ ، غاية النهاية في طبقات القراء ٢/‏١١٤ )

لیکن یہ تعین بھی البانی کا احتمال ہے ، یقینا یہی راوی ہے یا نہیں ، یہ معلوم نہیں۔

( سلسلة الأحاديث الضعيفة ١٣/٥٩٢ ، الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم ٢/‏٩٦٢ ،بلوغ الأماني في تراجم الرجال للیحیاوی ١/‏٦٤٧ )

 بہر صورت محمد بن حامد البزاز ثقہ نہیں ہے لہذا سند ضعیف ہے۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...