نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 106 : کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے


 اعتراض نمبر 106 : 
کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے


أَخْبَرَنَا أَبُو نعيم الحافظ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّد عبد الله بن مُحَمَّد بن جعفر بن حيان، قَالَ: حَدَّثَنَا سلم بن عصام، قَالَ: حَدَّثَنَا رسته، عن موسى بن المساور، قال: سمعت جبر وهو عصام بن يزيد الأصبهاني، يقول: سمعت سفيان الثوري، يقول: أَبُو حنيفة ضال مضل.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ اس خبر کے راوی خطیب اور ثوری کے علاوہ باقی سب اصبہانی ہیں ابو نعیم اپنے تعصب کے ساتھ ساتھ متکلم فیہ ہے اور اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور اسی طرح اس کے شیخ کو ابو احمد العسال نے ضعیف کہا ہے جو اس کا ہم شہر تھا۔

 اور سالم بن عصام تو غریب روایات والا ہے۔ اور رستہ اصبہانی کی ولادت 188ھ ہے اور اس کے بھتیجے کی روایت کے مطابق اس کی ولادت ابن مھدی کی وفات سے صرف دس سال پہلے ہے۔ 

اور یہ بعید ہے کہ اس کا بھتیجا اس کی سن ولادت سے ناواقف ہو اور اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ بے شک اس نے ابن مھدی سے تیسں ہزار احادیث روایت کی ہیں تو اتنی کثرت سے احادیث لینا دس سال کی عمر کے بچہ سے تصور نہیں کیا جا سکتا اور صحاح ستہ والوں میں صرف ابن ماجہ نے اس سے روایت کی ہے[1]۔

 ابو موسیٰ المدینی نے کہا کہ اس کے بارہ میں ابو مسعود نے کلام کیا ہے جو کہ الحافظ البارع احمد بن الفرات الرازی ہے۔

 اس نے ری والوں کو خط لکھا اور ان کو اس سے روایت کرنے سے منع کیا۔

 نیز وہ اپنی حدیث میں بکثرت غریب حدیث لاتا ہے۔

 اور ابو محمد بن حیان نے کہا کہ اس کی غریب احادیث زیادہ ہیں۔ 

اور موسیٰ بن المساور ابو الهيثم الضبي الحلیہ کے راویوں میں سے ہے اور مجہول الحال ہے اور میں نے کوئی آدمی نہیں دیکھا جس نے اس کی توثیق کی ہو۔ اور جبر کا تلفظ جیم اور باء مشدد کے فتحہ کے ساتھ ہے۔

 اور اگر فرض کر لیا جائے کہ سفیان ثوری نے ابوحنیفہ کو ضال (گمراہ) شمار کیا ہے تو اس کی کوئی وضاحت نہیں کہ اس نے کسی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ اگر ایمان کی کسی بات میں کہا ہے تو ایمان سے متعلق عقائد تو ان کے خالص ہدایت ہیں جیسا کہ پہلے اس کی تحقیق ہو چکی ہے۔ 

اور اگر اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے ہے تو ہمیں معلوم نہیں کہ ان دونوں کے درمیان کسی اعتقادی مسئلے میں اختلاف ہوا ہو۔ 

اور ایسا جملہ تو اعتقادی مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے ہی کہا جا سکتا ہے۔

 اور پہلے خطیب نے خود ص 341 میں ثوری سے ابوحنیفہ کی تعریف پر مشتمل روایت بیان کی ہے اور ابن عبد البر نے الانتقاء ص 127 میں کئی روایات نقل کی ہیں جن میں ثوری نے ابوحنیفہ کی تعریف کی ہے۔

 اور یہاں سند کا جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

 اور اگر ہم فرض کر لیں کہ ایمان کا معاملہ ثوری پر مخفی تھا تو اس نے ابو حنیفہ کو اس وجہ سے ضال و مضل شمار کیا ہے تو ابوحنیفہ پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟[2] 

 اور اس کے بعد والی روایت[3] میں عبد اللہ بن ادریس کا قول کہ ابو حنیفہ ضال اور مضل ہے اور ابو یوسف فاسقوں میں سے ایک فاسق ہے تو اس کی سند میں الداعر ایوب بن اسحاق السافری ہے جس کے بارہ میں ابن یونس نے کلام کیا ہے اور اس کی سند میں رجاء ابن السندی بھی ہے اور غیبت میں اس کی زبان کھلی رہتی تھی۔ اور صحاح ستہ والوں نے اس سے اعراض کیا ہے۔ اور عبد الغنی المقدسی کو مغالطہ ہوا ہے جو اس نے کہا کہ بخاری نے اس سے روایت لی ہے جیسا کہ المزی وغیرہ نے کہا ہے ۔ اللہ تعالی عبد اللہ بن ادریس الاودی کو معاف فرمائے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق معمولی وجہ سے لوگوں کو گمراہ کہ دیتا تھا۔ 

اور اس کے بعد والی خبر[4] میں ایوب بن اسحاق بن السافری بھی ہے۔

اور ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس نے ایوب الواسطی پر جھوٹ ہی باندھا ہے کیونکہ اس نے یزید بن ہارون کی جانب یہ بات منسوب کی ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کے ساتھیوں سے زیادہ عیسائیوں کے ساتھ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ 

حالانکہ صحیح سند کے ساتھ تو یزید بن ھارون سے ابوحنیفہ کی شان میں انتہائی تعریف ثابت ہے جیسا کہ خود خطیب نے ص 342 میں روایت نقل کی ہے۔

 اور یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ ابن عبدالبر نے الحکم بن المنذر - یوسف بن احمد محمد بن علی السمنائی۔ احمد بن حماد القاسم بن عبادہ - محمد بن علی۔ یزید بن ہارون کی سند نقل کر کے کہا کہ یزید بن ہارون نے کہا کہ مجھ سے خالد بن عبد الله اللطحان الواسطی نے کہا کہ تو ابوحنیفہ کی کلام دیکھا کرتا کہ تجھے فقہ حاصل ہو جائے کیونکہ تجھے ضرورت ہے۔ 

یا کہا کہ تو اس کی طرف محتاج ہے۔ 

اور خالد الواسطی نے اس سے بہت سی احادیث روایت کی ہیں۔ 

پس اے مخاطب ذرا سمجھ سے کام لے کہ کیا کوئی شخص اپنے شیخ کی نصیحت کو ان لوگوں کے حق میں قبول کر سکتا ہے جن کو وہ نصاری کی طرح سمجھتا ہو۔ اللہ کی قسم یہ تو خالص بہتان ہے۔

 اور بے شک ابن ابی العوام نے جعفر بن محمد ابن اعین یعقوب بن شیبہ یعقوب بن احمد الحسن بن علی۔ یزید بن ھارون کی سند نقل کر کے کہا کہ یزید بن ہارون نے کہا جبکہ اس سے کسی آدمی نے پوچھا کہ اے ابو خالد تو سب سے زیادہ فقیہ کس کو سمجھتا ہے؟ تو اس نے کہا ابوحنیفہ کو۔ اور ابوحنیفہ تو ان کے اکابر کا یقینا استاد ہے۔ 

اور میری خواہش ہے کہ میرے پاس اس کے مسائل میں سے ایک لاکھ مسائل ہوتے اور اس نے کہا کہ میں نے اس کے ساتھ یہ مجلس موت سے صرف ایک ہفتہ پہلے کی ہے۔ الخ۔

 اور ابن ابی العوام نے اسی طرح ابراہیم بن احمد بن سهل القاسم بن غسان ابراہیم بن عبد اللہ الہروی کی سند نقل کر کے کہا کہ عبد اللہ نے کہا کہ میں نے یزید بن ہارون کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک ہزار فقہاء کو پایا اور ان میں سے اکثر سے لکھا تو میں نے ان میں سب سے زیادہ فقیہ سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ پرہیزگار پانچ آدمیوں کو پایا۔

 ان میں پہلا نمبر ابوحنیفہ کا ہے

الخ۔ پس اللہ کی پناہ کہ یزید بن ہارون نے اپنی زبان سے وہ بات کہی ہو جس کو خطیب نے اس کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔ 

اور یہ صرف ابن سافری کی شرارت ہی ہو سکتی ہے۔ 

اور اللہ تعالیٰ ہی اس سے حساب لے گا اور ان لوگوں سے بھی جنہوں نے اس کی روایت کو موضوع ہونے کی نشاندہی کیے بغیر روایت کیا ہے۔ 

حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خبر

جھوٹی ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ 

[1]۔ مصنفوا تحرير تقريب التهذيب : ثقة، قيل كان عنده عن ابن مهدي ثلاثون ألف حديث، فمن الطبيعي أن يغرب على غيره


[2]۔ (أخبار أصبهان ٢/‏١٠٤ ، طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 2/110 ) سے خطیب نے یہ روایت نقل کی ہے ، سند کا حال یہ ہیکہ ▪︎عصام بن يزيد بن عَجْلان ۔

ابن حبان نے الثقات ٨/‏٥٢٠ (اور محدث ابن قطلوبغا نے الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة ٧/‏١٢٦ ) میں ان کو ذکر کیا ہے اور ساتھ لکھا ہیکہ یہ دوسرے رواہ کی مخالفت بھی کرتے تھے

عِصَامِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَجْلَانَ مَوْلَى مُرَّةَ الطيب، من أهل الكوفة، سكن أصبهان، ولقب عصام جبر، يروي عن الثوري ومالك بن مغلول، روى عنه ابنه محمد بن عصام، يتفرد ويخالف، وكان صدوقًا، حديثه عند الأصبهانيين.

جبکہ باقی کتب میں عصام پر جرح و تعدیل میں سے کچھ بھی ذکر نہیں کیا گیا ۔

(الجرح والتعدیل ابن أبي حاتم ٧/‏٢٦، «تاريخ أصبهان» ٢/‏١٣٨ ، طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها ٢/‏١١٠ ، لسان الميزان ٤/‏١٦٨ )

▪︎سلم بن عصام ابو امیہ الثقفی اور رستہ یعنی عبدالرحمن بن عمر الزھری ثقہ صدوق ہیں لیکن محدثین نے تصریح کی ہے کہ ان سے کثرت کے ساتھ غریب احادیث بھی نقل کی جاتی ہیں لہذا یہاں یہ معتبر نہیں ہیں ۔

سَلَّمُ بْنُ عِصَامِ بْنِ سَلْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ أَبُو أُمَيَّةَ الثَّقَفِيُّ تُوُفِّيَ فِي رَجَبٍ سَنَةَ ثَمَانٍ وَثَلَاثِمِائَةَ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، صَاحِبُ كِتَابٍ، كَثِيرُ الْحَدِيثِ وَالْغَرَائِبِ

(تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان ١/‏٣٩٦)

قال أبو الشَّيْخ في «طَبَقَاته»: «كان شيخًا صدوقًا صاحب كتاب، وكتبنا عنه أحاديث غرائب». 

وقال أبو نُعَيْم في «تارِيْخه»: «صاحب كتاب كَثِيْر الحديث والغرائب».

وقال الذَّهَبِي في «تارِيْخه»: «محدث أَصْبَهان، له غرائب».

عَبْدُ الرَّحْمَنِ رُسْتَه عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عُمَرَ الزُّهْرِيُّ

وَقَالَ أَبُو الشَّيْخِ: غَرَائِبُ حَدِيْثِ رُسْتَه تَكْثُرُ.

في الكاشف ثقة، وفي التقريب لقبه رُسْتَه ثقة له غرائب وتصانيف؛ وفي الميزان ثقة ينفرد ويغرب؛ التهذيب ٦/ ٢٣٤.

خلاصہ کلام : سند میں 3 رواہ ایسے ہیں جن کی کچھ توثیق کی گئی ہے لیکن محدثین نے یہ صراحت بھی ساتھ ہی کی ہے کہ یہ بہت زیادہ غریب روایات بیان کرتے تھے ، یا یہ دوسرے رواہ کی مخالفت کیا کرتے تھے ، اس لئے یہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف وہ معتبر نہیں ہیں ، بالفرض اگر یہ سند صحیح بھی ہوتی تب بھی امام صاحب پر اعتراض نہیں ہو سکتا جس کی تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں ، "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود 

▪︎امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 18


[3]. أخبرنا إبراهيم بن محمد بن سليمان المؤدب الأصبهاني، أخبرنا أبو بكر المقرئ، حدثنا سلامة بن محمود القيسي، حدثنا أيوب بن إسحاق بن سافري، حدثنا رجاء السندي قال: قال عبد الله بن إدريس: أما أبو حنيفة فضال مضل، وأما أبو يوسف ففاسق من الفساق. 


اول: اس سند میں سلامة بن محمود القيسي کی توثیق ہمیں کسی محدث سے نہیں ملی ۔ ہاں الضعفاء للعقیلی کی سند درست ہے سوائے یہ کہ امام عقیلی کا احناف کے خلاف تعصب مشہور ہے۔

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ السِّنْدِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِدْرِيسَ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ ضَالًّا مُضِلًّا، وَأَبُو يُوسُفَ فَاسِقًا مِنَ الْفَاسِقِينَ 

(الضعفاء للعقیلی 4/441 ، تاریخ بغداد ت بشار 16/377)


دوم : فرقہ اہلحدیث کے ہاں بے نمازی کافر ہے ، چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں

حوالہ نمبر 1 :

 فرقہ غیر مقلد کے عبدالقادر عارف حصاری ، (ایک فتوی جو کہ دسمبر 1978 کو غیر مقلدین کے محدث میگزین میں شائع ہوا ) لکھتے ہیں

" میری تحقیق میں حق اور صواب یہ ہے کہ بےنماز کافر و مشرک خارج از اسلام ہے اور دائمی جہنمی ہے نہ اس کا نکاح کسی موحد مسلمان سے جائز ہے او رنہ اس کا جنازہ پڑھنا جائز ہے او رنہ اسلامی برتاؤ سلام وغیرہ جائز ہے اور نہ بے نماز ، نمازی اور نہ نمازی، بے نماز کا وارث ہے او رنہ بے نماز کافر کی اولاد نابالغہ کا جنازہ کرنا جائز ہے اور اس پر وہی تمام احکام نافذ ہیں جو کفار کے بارہ میں کتاب وسنت میں وارد ہیں۔ "

حوالہ نمبر 2: 

"دلائل کی رُو سے صحیح بات یہی ہے، کہ بے نماز کافر ہے "

(فتاویٰ اہل حدیث ۲۹/۲تا۵۷ روپڑی ، فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:872

محدث فتویٰ )

حوالہ نمبر 3:

غیر مقلدین کی ویب سائٹ توحید ڈاٹ کام پر سعودی سلفی شیخ بن باز کا مترجم فتوی شائع کیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ فتوی اردو ترجمہ کر کے غیر مقلدوں نے پھیلایا ہے اس لئے اس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ فتوی میں ہے۔

" شرعاً مکلف اور شری احکام سے آگاہ ہونے کے باوجود ایک شخص تارک نماز ہو کر مرا ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔ اسے غسل دیا جائے نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے"


جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ضال مضل کہنے والے عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ جمعہ کی نماز کے تارک تھے اور وہ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے ۔

وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَنَّامِ بْنِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثِ النَّخَعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ إِدْرِيسَ يَقُولُ: مَا أَنَا وَحَيٌّ وَابْنُ حَيٍّ لَا نَرَى جُمُعَةً، وَلَا جَمَاعَةً، وَلَا جِهَادًا.

ابو سعید اشج کہتے ہیں میں نے ابن ادریس کو یہ کہتے ہوئے سنا: "جب میں زندہ ہوں اور ابن حَیّ بھی زندہ ہے، تو ہم نہ جمعہ کے قائل ہیں، نہ جماعت کہ قائل ہیں، اور نہ جہاد کے" 

(الضعفاء الكبير للعقيلي ١/‏٢٢٩ ، اسنادہ صحیح)

اب غیر مقلد محدث عبداللہ بن ادریس کوفی رحمہ اللہ پر کچھ حکم لگائیں گے ؟ یا جرح و اعتراض کے تمام نشتر صرف ابو حنیفہ ہی کے حصے میں ہیں ؟  

ہم اہل السنہ والجماعہ احناف تو تاویل کر کے ان آئمہ پر طعن نہیں کریں گیں کیونکہ ہم اسلاف کے با ادب ہیں (جیسا کہ فرقہ غیر مقلد اہلحدیث بھی اقرار کرتے ہیں کہ احناف با ادب ہیں جبکہ غیر مقلد اہلحدیث اکابر کے خلاف تلوار لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔ دیکھیں غیر مقلد مورخ محمد اسحاق بھٹی کی کتاب نقوش عظمت رفتگاں ص 353)، لیکن کیا غیر مقلد بھی اس معاملے میں تاویل کریں گے ؟ (یہ حضرات تاویل کے سخت مخالف ہیں)۔


سوم : ابن ادریس رحمہ اللہ ، کوفہ کے باسی تھے لیکن اہل مدینہ کے مسلک پر تھے ، اور اہل کوفہ کی حد درجہ مخالفت کرتے تھے ، ملاحظہ ہو۔

قال يعقوب بن شيبة : كان يخالف الكوفيين 

ابن ادریس اہل کوفہ کی مخالفت کرتے تھے 

(سیر اعلام النبلاء 9/44)

اہل کوفہ سے مخالفت ایسی تھی کہ امام قاری حمزہ کوفی رحمہ اللہ(جو قراء سبعہ میں سے ایک ہیں اور غیر مقلدین بھی ان کی قراءت کو متواتر قراءت مانتے ہیں ) کی قراءت پر قرآن پڑھنے والے کو سنت سے خارج سمجھتے تھے ۔

ثم قال ابن إدريس : ما أستجيز أن أقول لمن يقرأ لحمزة : إنه صاحب سنة .

قلت : اشتهر تحذير ابن إدريس من ذلك ، والله يغفر له ، وقد تلقى المسلمون حروفه بالقبول ، وأجمعوا اليوم عليها .

مفہوم : ابن ادریس نے کہا: میرے لیے جائز نہیں کہ میں حمزہ کی قراءت پر قرآن پڑھنے والے سے کہوں کہ وہ صاحب سنت ہے (یعنی ابن ادریس رحمہ اللہ کے ہاں وہ بدعتی ہے) ۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس پر کہتے ہیں جس کا حاصل یہ ہیکہ اللہ ابن ادریس کی اس غلط بات سے اللہ در گزر فرمائیں کہ حمزہ کہ قراءت پر امت جمع ہے اور مسلمانوں نے اس قراءت کو قبول کیا ہے ۔

(سیر 9/47)

یہاں سے ابن ادریس رحمہ اللہ کا آئمہ کوفہ کے بارے میں تعصب واضح ہو جاتا ہے ، غیر مقلدین کو چاہیے اب امام حمزہ کی قراءت کا بھی انکار کر دیں کیونکہ ابن ادریس کی جرح ابو حنیفہ اور ایو یوسف رحمھم اللہ کے خلاف ان لوگوں کو قبول ہے ، تو اصولا ابن ادریس کی جرح امام حمزہ پر بھی قبول کریں ، اور قرآن کی ایک متواتر قراءت کا انکار کریں ، فقہ سے تو پہلے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، فرقہ اہلحدیث اب قرآن کا بھی منکر ہو جائے ، ورنہ تسلیم کرے کہ ابن ادریس کی جروحات مردود ہیں ۔

[4]۔ وقال أيوب بن شاذ بن يحيى الواسطي صاحب يزيد بن هارون قال: سمعت يزيد بن هارون يقول: ما رأيت قوما أشبه بالنصارى من أصحاب أبي حنيفة.

اول تو سند میں سلامة بن محمود القيسي کی توثیق ہمیں کسی محدث سے نہیں ملی ۔ لہذا یہ سند ہی مشکوک ٹہرتی ہے۔

دوم : امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ سے صحیح سند سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف ثابت ہے ۔ 

 قال الإمام يزيد بن هارون الواسطي: أدركت الناس فما رأيت أحداً أعقل ولا أفضل ولا أورع من أبي حنيفة.

امام یزید بن ہارون ؒ کہتے ہیں کہ میں نے (کئی) لوگوں کو دیکھا (جن میں امام مالک ، امام احمد بن حنبل ، ابن ابی شیبہ ، امام شعبہ ، امام حماد بن سلمہ ، حماد بن زید ، امام سفیان ثوری ، سلمان بن طرخان، سلیمان التیمی ، علی بن مدینی رحمھم اللہ اور دیگر کبار اہل علم شامل ہیں ) ، مگر میں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے زیادہ عقلمند، متقن اور افضل کسی کو نہیں دیکھا 

( تاريخ بغداد ت بشار 15/498 ، اسنادہ حسن)

وضاحت :

اس روایت میں امام یزید بن ہارون ؒ ’’ افعل ‘‘کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو کہ امام صاحب کے اعلیٰ درجہ(یعنی ثقہ کے درجہ سے بھی اعلیٰ درجہ)کی توثیق پر دلالت کرتا ہے۔

 (مجلہ الاجماع : شمارہ نمبر ۴:ص ۶۵)


مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود 

☆ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، سلسلہ نمبر 21 "امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) صدوق اور متقن ہیں" میں دیکھ سکتے ہیں۔

جب صحیح سند سے تعریف ثابت ہے تو لہذا اعتراض والی روایت معتبر نہیں ہے۔

سوم : بالفرض اگر کسی طرح صحیح سند سے اعتراض ثابت بھی ہو جائے ، تب بھی یہ غیر مفسر ہے کہ کس طرح اصحاب ابی حنیفہ عیسائیوں کے مشابہ ہیں ؟ یہ تفصیل روایت میں موجود نہیں ہے ، نہ ہی اپنے موقف پر کوئی دلیل ہے ، تو وہ موقف جرح و تعدیل میں مردود ہے۔ 

امام صاحب رحمہ اللہ کے اصحاب ، امام صاحب کی فقہ پر ہیں ، اگر اصحاب ابی حنیفہ نے کوئی فقہی اختلاف کیا بھی ہے تو ، وہ مجتہد تھے ، اور اس بارے میں تفصیل احناف کی فقہی کتب میں موجود ہے۔ جب کہ عقیدے میں احناف کی ترجمانی (بلکہ اہل السنہ والجماعہ کی ترجمانی) ، عقیدہ طحاویہ میں اصحاب ابی حنیفہ نے کی ہے ، جو کہ پوری دنیا کے مسلمان ، عقائد میں اس کتاب کو مسلم مانتے ہیں۔

 لہذا بتایا جائے کہ وہ کونسا مسئلہ یا عقیدہ ہے جو اصحاب ابی حنیفہ کا نصاری جیسا ہے تا کہ جرح میں وزن پیدا ہو ، اور اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ تو بہت اعلی درجے کے ہیں ، ابو حنیفہ اور اس کے لائق اصحاب کے مذہب پر چلنے والے سلطانوں کو ہی دیکھ لیا جائے کہ کتنوں نے نصاری کے خلاف جہاد کر کے ، کتنی ہی زمیں پر تثلیث توڑ کر توحید کا پرچم لہرایا ہے۔ 

حنفی سلطان محمد فاتح رحمہ اللہ نے قسطنطنیہ فتح کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو پایا ( بعض غیر مقلدوں نے اہل السنہ سے جل سڑ کر ان احادیث کو بھی ضعیف یا موضوع کہا ہے ، جس بارے میں کافی و شافی جواب کیلئے شیخ وائل حنبلی حفظہ اللہ تعالی کا یہ رسالہ دیکھیں ، رسالہ ہمارے ٹیلیگرام مکتبہ میں موجود ہے ، لنک ویب سائٹ پر ہے۔ 

أحاديثُ مُنْتَخَبَةٌ فِي فَتحِ القُسطنطينية لقراءتها في ذكرى تحقق البشارة النبوية ) اور پوری عیسائی رومی سلطنت اکھاڑ پھینکی اور اسلام کو پھیلایا (یہ صرف ایک مثال ہے) تو کیا اصحاب ابی حنیفہ ، نصاری کے مشابہ ہیں ؟؟؟ 

انصاف ہم قارئیں پر چھوڑتے ہیں۔

امام قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ پر امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی جرح : 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: قُلْتُ لِيَزِيدَ بْنِ هَارُونَ: مَا تَقُولُ فِي أَبِي يُوسُفَ؟ قَالَ: لَا يَحِلُّ الرِّوَايَةُ عَنْهُ، إِنَّهُ كَانَ يُعْطَى أَمْوَالَ الْيَتَامَى مُضَارَبَةً وَيَجْعَلُ الرِّبْحَ لِنَفْسِهِ.

امام یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ ابو یوسف سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ، یہ یتیموں کے مال بطورِ مضاربت (تجارت میں) لگاتا اور اس کا نفع اپنے لئے رکھتا تھا۔​

(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/‏٤٣٨ ، تاريخ بغداد ت بشار ١٦/‏٣٧٢ )

جواب :

امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی یہ جرح ، اصول جرح و تعدیل سے مردود ہے۔ 

نمبر 1: امام ابو یوسف قاضی تھے اور بطور قاضی وہ یتیم کے مال کو مضاربت کے ذریعے بڑھانے کی خاطر اگر تجارت میں لگا دیتے تھے تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ لیکن امام یزید بن ہارون کا یہ فرمانا کہ تجارت سے جو منافع ہوتا تھا ، وہ نفع قاضی ابو یوسف صرف اپنے پاس رکھتے تھے ، یہ بات یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے کہاں سے اخذ کی ؟ کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ کیا کوئی دلیل یا حوالہ موجود ہیکہ فلاں یتیم کا اتنا مال کھایا گیا ؟ اگر یزید بن ہارون کو معلوم تھا تو انہوں نے خلیفہ وقت سے شکایت کیوں نہیں کی ؟ 

نمبر 2: یزید بن ہارون رحمہ اللہ چونکہ معاصر ہیں قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے اور معاصرت میں اکثر ضرورت سے سخت کلمات ایک دوسرے کے خلاف نکل جاتے ہیں ( مثلا ایک چیز اگر ایک فقیہ یا محدث کے نزدیک حرام ہو اور دوسرا اسے حلال سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو محدثین بعض اوقات اس عمل پر اپنے حکم کی بنا پر ہی اس شخص کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص نبیذ پیتا ہے جو دوسرے محدث کے نزدیک حرام ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے ، حالانکہ نبیذ کے بارے میں اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ دو رائے پائی جاتی ہیں ، یہ ایک مثال تھی ایسی اور مثالیں امام ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم وفضلہ کے اس باب میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں علماء میں آپسی چشمک کا بیان ہے) لہذا یہاں بھی ممکن ہیکہ یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے معاصرت میں یہ الزام لگایا ہو (ویسے ہی جیسے غیر مقلد کہتے ہیں کہ امام مالک نے معاصرت کی وجہ سے امام محمد بن اسحاق بن یسار کو دجال کہا)۔


نمبر 3: یہ جرح مردود ہے ، کیونکہ باقی آئمہ نے جرح (ابو یوسف سے روایت جائز نہیں) کی طرف التفات نہیں کیا ، بلکہ جلیل القدر آئمہ نے ان سے روایات لیں ہیں (جیسے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ ۔ مزید تفصیل کیلئے " تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا محدثانہ مقام " از مولانا ظہور الحسینی صاحب کا مطالعہ کریں)


4۔ امام قاضی ابو یوسف نے کسی کا نا حق مال نہیں کھایا ۔ آپ سے حسن سند سے منقول ہے


أَخْبَرَنِي الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيّ بْن عمرو، أن عَلِيّ بْن مُحَمَّد النخعي حدثهم، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن إِسْحَاق الزُّهْرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بشر بْن الوليد الكندي، قَالَ: سمعتُ أَبَا يوسف، يَقُولُ فِي مرضه الَّذِي مات فِيهِ: 

 اللَّهُمَّ إنك تعلم أني لم آكل درهمًا حرامًا قط


مفہوم : بشر بن ولید کندی نے کہا: میں نے ابو یوسف کو ان کی بیماری میں سنا جس میں ان کا انتقال ہوا، وہ کہہ رہے تھے:  

 اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی ایک درہم بھی حرام کا نہیں کھایا۔

(تاريخ بغداد ت بشار ١٦/‏٣٨٥ اسنادہ حسن ، سند کے تمام رواة ثقہ صدوق ہیں ، بشر بن ولید کندی رحمہ اللہ صدوق ہیں ، امام ذہبی فرماتے ہیں الإمام العلامة المحدث (سیر 10/674) ، امام دارقطنی اور ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے 

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله ١/‏١٥٢ ، الثقات ٨/‏١٤٨) ، خطیب اور ابن جوزی نے ان کی تعریف نقل کی ہے كان جميل المذهب حسن الطريقة (تاريخ بغداد/ ٧: ٨١ ترجمة ٣٥١٨)۔ جہاں تک جرح کا تعلق ہے تو

امام ابو داود سے پوچھا گیا کہ کیا بشر ثقہ ہیں؟ تو انہوں نے کہا نہیں ۔ اب یہ نہیں مبہم ہے ، اگر ثقہ نہیں ہیں تو کیا صدوق حسن الحدیث ہیں ؟ یا غیر ثقہ یعنی ضعیف ہیں ؟ چونکہ امام ابو داود رحمہ اللہ کا جواب مبہم ہے لہذا یہ اعتراض بھی باطل ہوا ،

 جبکہ صالح بن محمد جزرہ رحمہ اللہ سے جو منقول ہیں اول تو ہمارے علم کے مطابق ان دونوں سندوں کا پہلا راوی ہی مجہول ہے ، لہذا وہ سند ہی ضعیف ہے لیکن اگر بالفرض کہیں صحیح سند سے یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تو اول تو انہوں نے خود صدوق کہا ہے ، اور بعد کی جو ہلکی جرح ہے وہ اہل الرائے ہونے کے سبب سے ہے ، جو وقعت نہیں رکھتی ۔

 امام برقانی کا قول خطیب نے نقل نہیں کہا ، بالفرض اگر یہ قول مان بھی لیں تو کہتے ہیں کہ بشر صحیح کی شرط کے مطابق نہیں ہیں ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہیکہ وہ صحیح کی شرط پر نہیں البتہ حسن یا صدوق درجہ کے ہیں ۔

 امام محدث سلیمانی کا منکر الحدیث کہنا بھی ہمیں یہ قول ان کی اپنی کسی کتاب میں نہیں ملا ، دوسرا یہ کہ کسی بھی محدث کی بشر بن ولید پر سخت جرح نہیں ہے ، لہذا منکر الحدیث سے یہاں مراد اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت ہو گا جیسے امام احمد کبھی کبھی ایسے راوی کو منکر الحدیث کہتے ہیں جو ثقہ تو ہوتا ہے لیکن کہیں روایت میں منفرد ہوتا ہے ، بالفرض منکر الحدیث کو جرح مان بھی لیں تو جمہور کی توثیق کے مقابلے میں وقعت نہیں رکھتی ۔ 

معلوم ہوا بشر بن ولید رحمہ اللہ پر کوئی بھی مفسر مضبوط جرح نہیں ہے ، بلکہ کئی آئمہ نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔ )











خلاصہ کلام : امام ابو یوسف پر یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی جرح باطل ہے۔



تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...