امام قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ پر امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی جرح : ابو یوسف سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ، یہ یتیموں کے مال بطورِ مضاربت (تجارت میں) لگاتا اور اس کا نفع اپنے لئے رکھتا تھا۔
امام قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ پر امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی جرح :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: قُلْتُ لِيَزِيدَ بْنِ هَارُونَ: مَا تَقُولُ فِي أَبِي يُوسُفَ؟ قَالَ: لَا يَحِلُّ الرِّوَايَةُ عَنْهُ، إِنَّهُ كَانَ يُعْطَى أَمْوَالَ الْيَتَامَى مُضَارَبَةً وَيَجْعَلُ الرِّبْحَ لِنَفْسِهِ.
امام یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ ابو یوسف سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ، یہ یتیموں کے مال بطورِ مضاربت (تجارت میں) لگاتا اور اس کا نفع اپنے لئے رکھتا تھا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٤٣٨ ، تاريخ بغداد ت بشار ١٦/٣٧٢ )
جواب :
امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی یہ جرح ، اصول جرح و تعدیل سے مردود ہے۔
نمبر 1: امام ابو یوسف قاضی تھے اور بطور قاضی وہ یتیم کے مال کو مضاربت کے ذریعے بڑھانے کی خاطر اگر تجارت میں لگا دیتے تھے تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ لیکن امام یزید بن ہارون کا یہ فرمانا کہ تجارت سے جو منافع ہوتا تھا ، وہ نفع قاضی ابو یوسف صرف اپنے پاس رکھتے تھے ، یہ بات یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے کہاں سے اخذ کی ؟ کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ کیا کوئی دلیل یا حوالہ موجود ہیکہ فلاں یتیم کا اتنا مال کھایا گیا ؟ اگر یزید بن ہارون کو معلوم تھا تو انہوں نے خلیفہ وقت سے شکایت کیوں نہیں کی ؟
نمبر 2: یزید بن ہارون رحمہ اللہ چونکہ معاصر ہیں قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے اور معاصرت میں اکثر ضرورت سے سخت کلمات ایک دوسرے کے خلاف نکل جاتے ہیں ( مثلا ایک چیز اگر ایک فقیہ یا محدث کے نزدیک حرام ہو اور دوسرا اسے حلال سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو محدثین بعض اوقات اس عمل پر اپنے حکم کی بنا پر ہی اس شخص کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص نبیذ پیتا ہے جو دوسرے محدث کے نزدیک حرام ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے ، حالانکہ نبیذ کے بارے میں اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ دو رائے پائی جاتی ہیں ، یہ ایک مثال تھی ایسی اور مثالیں امام ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم وفضلہ کے اس باب میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں علماء میں آپسی چشمک کا بیان ہے) لہذا یہاں بھی ممکن ہیکہ یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے معاصرت میں یہ الزام لگایا ہو (ویسے ہی جیسے غیر مقلد کہتے ہیں کہ امام مالک نے معاصرت کی وجہ سے امام محمد بن اسحاق بن یسار کو دجال کہا)۔
نمبر 3: یہ جرح مردود ہے ، کیونکہ باقی آئمہ نے جرح (ابو یوسف سے روایت جائز نہیں) کی طرف التفات نہیں کیا ، بلکہ جلیل القدر آئمہ نے ان سے روایات لیں ہیں (جیسے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ ۔ مزید تفصیل کیلئے " تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا محدثانہ مقام " از مولانا ظہور الحسینی صاحب کا مطالعہ کریں)
4۔ امام قاضی ابو یوسف نے کسی کا نا حق مال نہیں کھایا ۔ آپ سے حسن سند سے منقول ہے
أَخْبَرَنِي الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيّ بْن عمرو، أن عَلِيّ بْن مُحَمَّد النخعي حدثهم، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن إِسْحَاق الزُّهْرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بشر بْن الوليد الكندي، قَالَ: سمعتُ أَبَا يوسف، يَقُولُ فِي مرضه الَّذِي مات فِيهِ:
اللَّهُمَّ إنك تعلم أني لم آكل درهمًا حرامًا قط
مفہوم : بشر بن ولید کندی نے کہا: میں نے ابو یوسف کو ان کی بیماری میں سنا جس میں ان کا انتقال ہوا، وہ کہہ رہے تھے:
اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی ایک درہم بھی حرام کا نہیں کھایا۔
(تاريخ بغداد ت بشار ١٦/٣٨٥ اسنادہ حسن ، سند کے تمام رواة ثقہ صدوق ہیں ، بشر بن ولید کندی رحمہ اللہ صدوق ہیں ، امام ذہبی فرماتے ہیں الإمام العلامة المحدث (سیر 10/674) ، امام دارقطنی اور ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله ١/١٥٢ ، الثقات ٨/١٤٨) ، خطیب اور ابن جوزی نے ان کی تعریف نقل کی ہے كان جميل المذهب حسن الطريقة (تاريخ بغداد/ ٧: ٨١ ترجمة ٣٥١٨)۔ جہاں تک جرح کا تعلق ہے تو
امام ابو داود سے پوچھا گیا کہ کیا بشر ثقہ ہیں؟ تو انہوں نے کہا نہیں ۔ اب یہ نہیں مبہم ہے ، اگر ثقہ نہیں ہیں تو کیا صدوق حسن الحدیث ہیں ؟ یا غیر ثقہ یعنی ضعیف ہیں ؟ چونکہ امام ابو داود رحمہ اللہ کا جواب مبہم ہے لہذا یہ اعتراض بھی باطل ہوا ،
جبکہ صالح بن محمد جزرہ رحمہ اللہ سے جو منقول ہیں اول تو ہمارے علم کے مطابق ان دونوں سندوں کا پہلا راوی ہی مجہول ہے ، لہذا وہ سند ہی ضعیف ہے لیکن اگر بالفرض کہیں صحیح سند سے یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تو اول تو انہوں نے خود صدوق کہا ہے ، اور بعد کی جو ہلکی جرح ہے وہ اہل الرائے ہونے کے سبب سے ہے ، جو وقعت نہیں رکھتی ۔
امام برقانی کا قول خطیب نے نقل نہیں کہا ، بالفرض اگر یہ قول مان بھی لیں تو کہتے ہیں کہ بشر صحیح کی شرط کے مطابق نہیں ہیں ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہیکہ وہ صحیح کی شرط پر نہیں البتہ حسن یا صدوق درجہ کے ہیں ۔
امام محدث سلیمانی کا منکر الحدیث کہنا بھی ہمیں یہ قول ان کی اپنی کسی کتاب میں نہیں ملا ، دوسرا یہ کہ کسی بھی محدث کی بشر بن ولید پر سخت جرح نہیں ہے ، لہذا منکر الحدیث سے یہاں مراد اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت ہو گا جیسے امام احمد کبھی کبھی ایسے راوی کو منکر الحدیث کہتے ہیں جو ثقہ تو ہوتا ہے لیکن کہیں روایت میں منفرد ہوتا ہے ، بالفرض منکر الحدیث کو جرح مان بھی لیں تو جمہور کی توثیق کے مقابلے میں وقعت نہیں رکھتی ۔
معلوم ہوا بشر بن ولید رحمہ اللہ پر کوئی بھی مفسر مضبوط جرح نہیں ہے ، بلکہ کئی آئمہ نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔ )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں