نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح :

 

۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کچھ لوگ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرتے ہیں۔ آج کی پوسٹ میں ہم ان جرحوں کا جائزہ لیں گے... ان شاء اللہ۔

جرح نمبر 1:

أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، 

وقال ابن أبي حاتم: حدثني الربيع بن سليمان المرادي قال: سمعت الشافعي يقول: أبو حنيفة يضع أول المسألة خطأ ثم يقيس الكتاب كله عليها.

وقال أيضا: حدثنا أبي، حدثنا هارون بن سعيد الأيلي قال: سمعت الشافعي يقول: ما أعلم أحدا وضع الكتاب أدل على عوار قوله من أبي حنيفة.

 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں (امام) ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہلے غلط مسئلہ گھڑتے ہیں پھر ساری کتاب اسی پر قیاس کرتے ہیں (تاریخ بغداد ت بشار 567/15)۔

جواب 1: یہاں یہ واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کون مراد ہیں، کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک استاد کا نام بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے اور ایک شاگرد کا نام بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے۔ اس قول سے واضح نہیں ہوتا کہ یہاں کن ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات ہو رہی ہے۔ 

امام شافعی رحمہ اللہ کے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ :

 قال الشافعي أخبرني أبو حنيفة بن سماك بن الفضل الشهابي

( الرسالة - الإمام الشافعي - الصفحة ٤٥٠ )


الدولابي في الكنى والأسماء (ج ١ ص ١٥٩ و ١٦٠) قال:

«وأبو حنيفة بن سماك بن الفضل، روى عنه الشافعي». ثم قال: «حدثنا الربيع بن سليمان الشافعي قال: أنبأنا محمد بن إدريس الشافعي قال: حدثنا أبو حنيفة بن سماك بن الفضل الشهابي

 اور شاگرد ابو حنیفہ رحمہ اللہ :

333 - قحزم بن عبد الله بن قحزم، أبو حنيفة الأسواني الفقيه.

وقال ابن عبد البر : يروي عن الشافعي كثيرا من كتبه ، وكان مفتيا وأصله من القبط، كتب كثيرا من كتب الشافعي وصحبه ، وروى عنه عشرة أجزاء.

(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١١٥)

جواب 2: بالفرض مان لیں کہ یہاں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مراد امام نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہیں، تو کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجتہادی امر کی بات ہو رہی ہے کیونکہ غلطی عام طور پر اسی میں ہوتی ہے۔ لیکن اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کسی مسئلے میں غلطی ہوئی، تب بھی وہ قابل اعتراض نہیں بلکہ حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں مجتہد کو ایک اجر (ثواب) پھر بھی ملے گا۔

جواب 3: اگر یہ مانیں کہ یہ جرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہے، تو ہم کہیں گے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کر لیا تھا کیونکہ آپ سے صحیح سند سے منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں، جیسا کہ تاریخ بغداد 474/15 میں نقل کیا گیا ہے۔

أَخْبَرَنَا علي بن القاسم، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن إسحاق المادرائي، قَالَ: حَدَّثَنَا زكريا بن عَبْد الرَّحْمَن، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أَحْمَد، قال: قال هارون بن سعيد: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أحدا أفقه من أبي حنيفة

اور جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الام" میں جگہ جگہ (امام محمد رحمہ اللہ کے ساتھ) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لیے "رضی اللہ عنہ" استعمال کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں ان لوگوں کی کیا اہمیت تھی۔

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَأَخْبَرَنِي أَبُو يُوسُفَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ .....

 قال أخبرني محمد بن الحسن أن أبا حنيفة رضي الله تعالى عنه 

(الام 6/226)

جواب 4: تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنے آخری وقت تک (اور ان سے روایت کرنے والے ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بھی اپنے آخری وقت تک، پھر ان سے روایت کرنے والے راوی بھی اپنے آخری وقت تک) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے تھے۔ جو دلیل ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی باتوں کا جو مطلب مخالفین نے سمجھا ہے وہ درست نہیں۔


١٦٣٠٩ - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ﵁ أَنَّهُ قَالَ: عَقْلُ الْمَرْأَةِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ عَقْلِ الرَّجُلِ فِي النَّفْسِ، وَفِيمَا دُونَهَا

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/‏١٦٧ )


١٥٩٢٨ - وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، أنبأ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، 

( السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/‏٥٩ ) 


١٦٠٧٤ - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، أنبأ مُحَمَّدٌ، هُوَ ابْنُ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ،

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/‏١٠٥ )


جواب 5: امام شافعی رحمہ اللہ سے باسند حسن منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا (ان سے علم حاصل نہیں کرے گا) اسے فقہ میں مہارت حاصل نہیں ہوگی... 

حَدثنَا الْعَبَّاس بن أَحْمد قَالَ ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا الْحسن بن قُتَيْبَة قَالَ ثَنَا خرملة بن يحيى قَالَ سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول من لم ينظر فِي كتب أبي حنيفَة لم يتبحر فِي الْفِقْه

(اخبار ابو حنیفہ رحمہ اللہ 87)۔

ان اقوال سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی کتابوں کی کیا اہمیت تھی۔

اب دیکھا جائے تو جہاں جہاں امام شافعی رحمہ اللہ کی (امام) ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح ہے، اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ معلوم نہیں کہ یہاں کون سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں... ہو سکتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے استاد یا اپنے شاگرد میں سے کسی کے بارے میں یہ بات کہی ہو اور نقل کرنے والوں نے اسے امام نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں سمجھ لیا ہو۔ ہم ایسا کیوں کہہ رہے ہیں اس پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں..

پہلی وجہ : 

 تو یہ ہے کہ قول میں واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کون مراد ہیں۔ یہاں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد یا شاگرد بھی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ پہلی بات دونوں میں سے کسی کی بھی کسی محدث نے صریح توثیق نہیں کی۔

 دوسری بات یہ کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (قحزم بن عبداللہ) نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کئی کتابیں نقل کی ہیں جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ الاسلام" 591/6 میں نقل کیا ہے۔ ممکن ہے کہ قحزم سے کتاب نقل کرنے یا کوئی مسئلہ بیان کرنے، یا کسی مسئلے کا استدلال کرنے میں غلطی ہوئی ہو جس کی طرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہو۔ کیونکہ قحزم مفتی تھے اور ظاہر ہے ان کے سامنے ایسے مسائل آتے ہوں گے جن میں قیاس کی ضرورت ہو اور ان سے قیاس کرنے میں غلطی ہو جاتی ہو۔

دوسری وجہ:

 یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) کی تعریف منقول ہے اور ان کا خود کا قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کی اہمیت واضح کرتا ہے جیسا کہ اوپر نقل کیا گیا۔

تیسری وجہ:

 یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ ایسے اقوال بھی منقول ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح اپنے استاد ابو حنیفہ پر بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ایک قول جسے امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے "آداب الشافعی و مناقب" 130/1 میں نقل کیا ہے 

کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی مسئلے میں خطا کرتے تو ان کے اصحاب (شاگرد) کہتے کہ آپ نے اس مسئلے کا جواب نہیں دیا (یعنی اپنے مسئلے کی صحیح وضاحت نہیں کی)"۔

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کا واقعہ ہے اور ظاہر بات ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ نہیں پایا تو وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کا واقعہ بغیر سند ذکر کیے (کہ ان تک یہ بات کیسے پہنچی) کیسے نقل کر سکتے ہیں؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ممکن ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور وہاں یہ واقعہ پیش آیا ہو۔

اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (مسند الشافعی میں) بیان کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے (ایک مسئلہ) پوچھا گیا کہ اگر آدھی رات کو فجر طلوع ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "اے لنگڑے آدمی! چپ ہو جا"۔ اب یہاں بھی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کی بات بغیر کسی سند کے نقل کی جا رہی ہے۔ تو جس شخص یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ہی نہیں پایا وہ بغیر کسی سند کے بار بار کسی ایسے شخص کی مجلس کا واقعہ کیوں نقل کریں گے جس کا زمانہ انہوں نے پایا ہی نہیں؟

اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ "ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی شخص سے مناظرہ کرتے تو ان کی آواز بلند (تیز) ہو جاتی"۔ اب یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ہی نہیں پایا تو وہ ان کے مناظرے کے بارے میں کیسے کوئی بات بغیر سند بیان کیے کہہ سکتے ہیں؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شاید امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد اپنے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہوں۔


اب کوئی کہے کہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) کے ترجمے میں یہ جرح نقل کی ہے تو ہم کہیں گے کہ کسی محدث کا اسے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے میں نقل کرنا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ واقعی امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہی ہو۔ ممکن ہے کنیت ایک جیسی ہونے کی وجہ سے اسے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ سمجھ کر ان کے ترجمے میں نقل کر دیا گیا ہو۔

اب کوئی کہے کہ پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی جو تعریف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے تو اس سے مراد امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں؟ تو ہم کہیں گے کہ مختلف قرائن اس بات کی طرف دلالت کرتے ہیں کہ اس سے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہی مراد ہیں۔

پہلا قرینہ: 

جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے "رضی اللہ عنہ" کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو واضح دلیل ہے کہ یہاں امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ مراد ہیں۔

دوسرا قرینہ: فقہ کے معاملے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) ہی مشہور ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی صریح توثیق ہمیں نہیں ملی۔

تیسرا قرینہ: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب "دیوان شافعی" میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں بہت خوبصورت شعر منقول ہے جس میں وضاحت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام المسلمین ہیں اور ان جیسی مثال کسی مشرقی یا مغربی شہر یا کوفہ میں نہیں ملتی۔ یہ صریح دلیل ہے کہ تعریف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نعمان بن ثابت کی جا رہی ہے، کیونکہ آپ ہی شہر کوفہ کے اور امت کے امام ہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو تعریف کے اقوال ہیں وہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ہی منقول ہیں۔

جرح 2: 

اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان ایک مناظرہ بھی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے

مَا ذُكِرَ مِنْ مُنَاظَرَةِ الشَّافِعِيِّ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَغَيْرِهِ

أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ ، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.

قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.

قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.

قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.

قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.

قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ

(كتاب آداب الشافعي ومناقبه - ط العلمية ١٢٠ ، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ١/‏١٣ ، تاريخ الإسلام - ت بشار ٤/‏٧٢٨)

 جس کا خلاصہ سے یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہر علم میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ترجیح دیتے تھے۔

جواب: یہ واقعہ بھی خلاف عقل و نقل ہے۔

کیونکہ پہلی بات اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو پھر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ آخری وقت تک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے پابند کیوں رہے؟

کیوں وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تائید میں کتابیں لکھتے تھے؟

کیونکہ انہوں نے (امام مالک رحمۃ اللہ علیہ) اور اہل مدینہ کے رد میں کتاب لکھی لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں کتاب نہیں لکھی۔

پھر بات امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی لوٹ کر آتی ہے کہ پھر کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کو اہمیت دیتے ہیں اور فقہ میں سب سے زیادہ احسان امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا مانتے ہیں؟

کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے اونٹوں کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں؟

کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی دلیل میں حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے؟

دراصل اس روایت کی بنیاد ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے جھوٹ کی طرف امام ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ اور امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ (شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ) نے اشارہ کیا ہے۔ حالانکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "میزان الاعتدال" میں ابن عبدالحکم کا دفاع کرتے ہوئے اسے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا نہیں کہا لیکن اتنی بات امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی منظور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔

وہی غلطی اس واقعے میں بھی نظر آتی ہے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ مالکی فقہ کو ماننے والے تھے ان کی روایت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف کیسے قبول ہو سکتی ہے جبکہ روایت میں کئی نقص (کمیاں اور غلطیاں) صاف واضح ہیں…

پھر خود ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں

 "الرد على الشافعي فيما يخالف فيه القرآن"

 نام کی کتاب لکھی ہے

(تاریخ الاسلام 410/6 ، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي ٢/‏٦٩ ، اصطلاح المذهب عند المالكية ١/‏١٣٢ )

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی قرآن و سنت کے خلاف عمل کرنے والا سمجھتے تھے۔

جرح نمبر 3:

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی کتاب دیکھی جس میں 130 صفحات تھے اور 80 صفحات قرآن و سنت کے خلاف تھے۔ 

أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال: قال لي محمد بن إدريس الشافعي: نظرت في كتب لأصحاب أبي حنيفة، فإذا فيها مائة وثلاثون ورقة، فعددت منها ثمانين ورقة خلاف الكتاب والسنة. قال أبو محمد:

لأن الأصل كان خطأ فصارت الفروع ماضية على الخطأ

(تاریخ بغداد ت بشار 15/567 ، مناقب الشافعي للبيهقي ١/‏١٧٠ )

جواب 1: اس کی سند میں بھی ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے بارے میں اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ اس کے حجت نہ ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔

جواب 2: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ کبھی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی کتاب دیکھی اور کبھی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دیکھی۔ 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، ثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «نَظَرْتُ فِي كِتَابٍ لِأَبِي حَنِيفَةَ فِيهِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ، أَوْ ثَلَاثُونَ وَمِائَةُ وَرَقَةٍ فَوَجَدْتُ فِيهِ ثَمَانِينَ وَرَقَةً فِي الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ، وَوَجَدْتُ فِيهِ إِمَّا خِلَافًا لِكِتَابِ اللهِ أَوْ لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَوِ اخْتِلَافَ قَوْلٍ أَوْ تَنَاقُضٍ أَوْ اخْتِلَافَ قِيَاسٍ

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 9/103)


یعنی دونوں اقوال میں تضاد ہے، جو اس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

جواب 3: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب اور مثال کے طور پر کوئی مسئلہ ذکر کیوں نہیں کیا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو تاکہ تحقیق کی جا سکے کہ واقعی وہ بات قرآن و سنت کے خلاف ہے بھی یا نہیں۔

جواب 4: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے کئی مسائل سے آخر عمر میں رجوع کر لیا تھا، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ خود پہلے اپنے اقوال کو قرآن و سنت کے خلاف سمجھتے تھے؟

جواب 5: قول سے ظاہر ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی کتاب تھی جس میں صرف 130 صفحات تھے، یعنی کسی مجہول شاگرد کی کتاب سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کیسے اعتراض ہو سکتا ہے جبکہ یہ واضح نہیں کہ وہ کتاب کس شاگرد کی تھی اور اس میں کون سے مسائل غلط تھے۔

جواب 6: اگر وہ کتاب کا نام ظاہر کر دیا جاتا تو ممکن ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد یا ان کے شاگرد کے شاگرد اس کا جواب لکھ دیتے یا کم سے کم غلط بات سے رجوع کر لیتے، لیکن ایسا کچھ نہیں ملتا۔

جواب 7: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ نے تو خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں کتاب لکھی ہے، پھر ایک راوی کی بات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف تو اعتراض کے طور پر پیش کی جائے لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف پیش نہ کی جائے، ایسا دوہرا معیار کیوں؟

حاصل کلام:

غرض ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور واسطے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جرح مقبول نہیں کیونکہ

1۔ ایک تو وضاحت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کون مراد ہیں۔ 

2۔ دوسری بات کئی اقوال جو ہم نے یہاں نقل نہیں کیے، وہ اپنے معنی کے لحاظ سے ہی غیر واضح ہیں (یعنی ان سے معلوم نہیں ہوتا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کا مقصد کیا ہے)۔ 

3۔ تیسرا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق و تعریف منقول ہے اور اس صورت میں توثیق ہی مقدم ہوگی کیونکہ توثیق واضح ہے اور جرح غیر مفسر اور غیر واضح۔



















"امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں"

امام شافعی رحمہ اللہ جو خود مجتہد اور محدث ہیں جن کے بلند مرتبے پر سب متفق ہیں، وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کیا احترام اور عزت کرتے ہیں؟ آج کی پوسٹ میں ان شاء اللہ ہم جانیں گے۔

1: أَخْبَرَنَا علي بن القاسم، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن إسحاق المادرائي، قَالَ: حَدَّثَنَا زكريا بن عَبْد الرَّحْمَن، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أَحْمَد، قال: قال هارون بن سعيد: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أحدا أفقه من أبي حنيفة.

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"میں نہیں جانتا کوئی شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑا فقیہ ہو..."

(تاریخ بغداد ت بشار 474/15 ، سند صحیح)

راویوں کی توثیق:

(1). علی بن قاسم بصری رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا 

(سیر اعلام النبلاء 240/17)

(2). علی بن اسحاق بصری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں امام، محدث، حجت کہا ہے۔ 

(سیر اعلام النبلاء 334/15)

(3) . زکریا بن یحییٰ الساجی بصری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا۔ 

(تاریخ الاسلام 117/7)

(4). عبداللہ بن احمد یعنی عبدان رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن عماد حنبلی رحمہ اللہ نے کہا۔ 

(شذرات الذہب 33/4)

(5) . ہارون بن سعید رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔

 (تقریب التہذیب 1014)

معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔


2:- حَدثنَا الشريف ابو الْحسن الْعَبَّاس بن أَحْمد بن الْفضل الْهَاشِمِي قَالَ ثَنَا احْمَد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد بن كأس النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا أَحْمد بن ابي خَيْثَمَة قَالَ ثَنَا سَلمَة النَّحْوِيّ قَالَ قَالَ سُلَيْمَان بن دَاوُد الْهَاشِمِي قَالَ لي الشَّافِعِي قَول أبي حنيفَة أعظم من أَن يدْفع بالهوينا

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بہت عظیم مرتبے والا ہے جسے ہم آسانی سے (اپنی رائے) سے رد نہیں کر سکتے۔

(أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/‏٨٧ ، سند حسن )


راویوں کی توثیق:

(1). عباس بن احمد ہاشمی رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا۔ (تاریخ بغداد 57/14)

(2) . احمد بن محمد بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں کیونکہ امام صیمری اور ذہبی رحمھم اللہ نے انہیں امام کہا ہے ، جبکہ امام قاسم قطلوبغا نے ان کو ثقات میں شامل کیا ہے

(تاریخ بغداد 275/6 ، تاريخ الإسلام - ت تدمري ٢٦/‏٢٢٥، الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة ٢/‏٧٦ ، أقوال الطحاوي في التفسير من أول القرآن حتى نهاية سورة التوبة جمعًا ودراسة ص 31)

(3) ۔ امام ابن کاس رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔

(تاریخ بغداد 540/13)

(4). احمد بن ابی خیثمہ رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کیا۔

(تاریخ الاسلام 481/6)

(5) . سلمہ النحوی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا۔

(تاریخ بغداد 194/10)

(6) . سلیمان بن داؤد ہاشمی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا۔

(تاریخ بغداد 41/10)

معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کسی قول کو محض اپنی کسی رائے سے رد نہیں کیا جا سکتا۔

3:- حَدثنَا الْعَبَّاس بن أَحْمد قَالَ ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا الْحسن بن قُتَيْبَة قَالَ ثَنَا خرملة بن يحيى قَالَ سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول من لم ينظر فِي كتب أبي حنيفَة لم يتبحر فِي الْفِقْه

 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا، اسے فقہ میں مہارت حاصل نہیں ہوگی۔"

(أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/‏٨٧ )


راویوں کی توثیق:

(1.) عباس بن احمد رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی۔

(2). احمد بن محمد بن منصور رحمہ اللہ کی توثیق بھی گزر چکی۔

(3). امام ابن کاس رحمہ اللہ کی توثیق بھی گزر چکی۔

(4)۔ حسن بن قتیبہ کے واسطے سے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل" میں روایت لی ہے اور انہوں نے ان کا تذکرہ کتاب میں نہیں کیا، جو امام ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔

(5)۔ حرملہ بن یحییٰ رحمہ اللہ صدوق ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔

(تقریب التہذیب 229)

معلوم ہوا اس سند میں کوئی خرابی نہیں۔


4:-أَخْبَرَنَا أَبُو طاهر مُحَمَّد بن علي بن مُحَمَّد بن يُوسُف الواعظ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبيد الله بن عثمان بن يحيى الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن مُحَمَّد بن أَحْمَد أَبُو إسحاق البخاري، قَالَ: حَدَّثَنَا عباس بن عزير أَبُو الفضل القطان، قَالَ: حَدَّثَنَا حرملة بن يحيى، قال: سمعت مُحَمَّد بن إدريس الشافعي، يقول: الناس عيال على هؤلاء الخمسة، من أراد أن يتبحر في الفقه فهو عيال على أبي حنيفة.

قال: وسمعته، يعني: الشافعي، يقول: كان أَبُو حنيفة ممن وفق له الفقه

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا محتاج ہے۔"

اور فرماتے ہیں:

 "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو فقہ کی توفیق و مہارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے۔"

(تاریخ بغداد ت بشار 474/15)


 راویوں کی توثیق:

(1)۔ محمد بن علی بن یوسف رحمہ اللہ صدوق ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔

(تاریخ بغداد 173/4)

(2) ۔ عبید اللہ بن عثمان رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔

(تاریخ بغداد 109/12)

(3)۔ ابراہیم بن محمد البخاری رحمہ اللہ بھی صدوق ہیں، امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی روایت کو مسلم کی شرط پر کہا اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

اس کے علاوہ امام حاکم رحمہ اللہ نے انہیں وقت کے فقیہ اہلِ نظر میں شمار کیا، جو ان کے علم میں بلند مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔

(تاریخ بغداد 102/7)

(4)۔ عباس بن عزیز سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ان کی نہ کوئی توثیق ہے اور نہ جرح۔

اور حرملہ رحمہ اللہ سے اس طرح کی بات روایت کرنے میں یہ منفرد بھی نہیں۔ حسن بن قتیبہ نے عباس بن عزیز ہی کی طرح کی بات نقل کی ہے۔

شاید اسی لیے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

(5)۔ حرملہ بن یحییٰ رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی۔

معلوم ہوا اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔






5:- أَخْبَرَنَا أَبُو نعيم الحافظ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي البصري، يقول: سمعت الربيع، يقول: سمعت الشافعي، يقول: الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے محتاج ہیں۔"

(تاریخ بغداد 474/15 غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی کے پسندیدہ محقق بشار عواد معروف نے سند کو حسن کہا ہے ، مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ١/‏٣٠ ، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/‏٢٢ ، سير أعلام النبلاء - ط الرسالة ٦/‏٤٠٣ ، مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث ١/‏٩٣ ، التهذيب في فقه الإمام الشافعي ١/‏٤٢ ، طبقات الحفاظ للسيوطي ١/‏٨٠ ،طبقات علماء الحديث ١/‏٢٦١ ، الوافي بالوفيات ٢٧/‏٩٣ ، مرآة الجنان وعبرة اليقظان ١/‏٢٤٢ ، البداية والنهاية ت شيري ١٠/‏١١٤ ،لوامع الأنوار البهية ٢/‏٤٦٠ ، المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي ١/‏٢٣٢ ، شذرات الذهب في أخبار من ذهب ٢/‏٢٣٠ ، عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد ١/‏٢٨، اخبار ابی حنیفہ رحمہ اللہ، الانتقاء، فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ)


راویوں کی تحقیق:

(1) ۔ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا۔

(سیر اعلام النبلاء 354/17)

(2)۔ محمد بن ابراہیم بن علی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے کہا۔

(تاریخ اصبہان 267/2)

(3)۔ حمزہ بن علی رحمہ اللہ کی توثیق ہمیں نہیں ملی، لیکن اس کا اثر قول پر نہیں پڑتا کیونکہ یہی بات دیگر کئی اسناد سے منقول ہے اور بعد کے محدثین نے بھی اس قول کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، جو اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

(4)۔ ربیع بن سلیمان بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔

(تقریب التہذیب 320)

معلوم ہوا اس کی سند قابلِ اعتبار ہے۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...