نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 111 : کہ امام احمد نے کہا کہ ابوحنیفہ کیسے جرات کرتا ہے کہ کہتا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق ہو جاتی ہے۔


 اعتراض نمبر 111:

 کہ امام احمد نے کہا کہ ابوحنیفہ کیسے جرات کرتا ہے کہ کہتا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق ہو جاتی ہے۔


أخبرني محمد بن عبد الملك القرشي، أخبرنا أحمد بن محمد بن الحسين الرازي، حدثنا محمود بن إسحاق بن محمود القواس - ببخاري - قال: سمعت أبا عمرو حريث بن عبد الرحمن يقول: سمعت محمد بن يوسف البيكندي يقول: قيل لأحمد بن حنبل قول أبي حنيفة: الطلاق قبل النكاح؟ فقال: مسكين أبو حنيفة كأنه لم يكن من العراق، كأنه لم يكن من العلم بشئ. قد جاء فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم، وعن الصحابة، وعن نيف وعشرين من التابعين، مثل سعيد بن جبير، وسعيد بن المسيب، وعطاء، وطاووس، وعكرمة. كيف يجترىء أن يقول تطلق.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس میں راوی البیکندی کا قول منقطع ہے۔ (اس لیے کہ اس نے کہا ہے قیل لاحمد تو معلوم نہیں کہ کہنے والا کون تھا) اور ہمیں اس کے راوی القواس اور اس کے ساتھی پر اعتماد نہیں۔ 

اور خطیب نے یہ روایت محمد بن عبد الملک القرشی۔ احمد بن محمد الحسین الرازی محمود بن اسحاق بن محمود القواس ابو عمرو حریث بن عبد الرحمن محمد بن يوسف البیکندی کی سند سے نقل کی ہے کہ البیکندی نے کہا کہ امام احمد سے پوچھا گیا۔  اور پھر آخر تک روایت بیان کی۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ابو حنیفہ کا نظریہ یہ ہے کہ عورت کو طلاق تب ہوتی ہے جبکہ وہ نکاح کی صورت میں آدمی کی ملک میں ہو یا یہ ہے کہ طلاق کو ملک کی طرف مضاف کیا جائے (یعنی یوں کہے کہ اگر میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق۔  تو یہ طلاق ملک کی طرف مضاف ہے) یا یہ کہ ملک کی متعلقہ چیزوں میں سے کسی سے معلق کرے۔

لازمی بات ہے کہ امام احمد باقی لوگوں کی بہ نسبت اس کو زیادہ جانتے ہوں گے اس لیے کہ بے شک وہ عراقی ہیں کیونکہ انہوں نے ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے عراقی علماء سے فقہ سیکھی ہے اور بے شک امت کا اتفاق ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ 

اس لیے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”اے ایمان والو ! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو طلاق دو ان کو چھونے سے پہلے تو ان عورتوں پر عدت نہیں ہے۔" 

تو جس شخص نے طلاق کو نکاح کے ساتھ معلق کیا اور کہا کہ اگر میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق تو . اس معلق کو نکاح سے پہلے مطلقا شمار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی نکاح سے پہلے طلاق واقع ہوتی ہے۔

 پختہ بات ہے کہ نکاح کے بعد ہی طلاق شمار کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ طلاق عقد نکاح کے بعد واقع ہوتی ہے تو یہ مسئلہ اس آیت کے مضمون سے خارج ہے۔

 اور اس حدیث کے مضمون سے بھی خارج ہے جس میں آتا ہے لاطلاق قبل النکاح کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔" اس لیے کہ بے شک اس مسئلہ میں طلاق نکاح کے بعد ہے اس سے پہلے نہیں ہے اور یہی نظریہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب ثلاثہ (ابو یوسف محمد بن الحسن اور زفر) اور عثمان البتی کا ہے اور یہی قول ہے ثوری۔ مالک النخعی۔ مجاہد الشعبی۔ اور عمر بن عبد العزیز کا اس صورت میں جبکہ اس نے اس کو متعین کیا ہو۔

 اور اس باب میں جو احادیث ہیں وہ اضطراب سے خالی نہیں ہیں۔ 

اور اختلاف سلف کے درمیان طویل ہے اس صورت میں جبکہ اس قائل نے عام کیا ہو یا خاص کیا ہو۔ (یعنی یہ کہا ہو کہ جس عورت سے بھی نکاح کروں اس کو طلاق یا کسی عورت کو متعین کر کے کہا ہو کہ اگر اس سے نکاح کروں تو اس کو طلاق) اور جو نظریہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب نے اپنایا ہے اس میں عمر بن الخطاب کا قول وضاحت سے ملتا ہے۔

 اور امام شافعی اور ابن المسیب نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوتی خواہ اس نے عام کیا یا خاص کیا ہو۔ اور یہی نظریہ ہے امام احمد کا اور اس مسئلہ میں کلام کی کافی گنجائش موجود ہے۔ 

تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ امام احمد نے وہ بات کی ہو جو اس چوتھی روایت میں ان کی طرف منسوب کی گئی ہے حالانکہ ابوحنیفہ کے پاس اس بارہ میں واضح دلیل موجود ہے اور اس کے ساتھ سلف فقہاء میں سے اس قدر افراد ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ 

تفصیل کے لیے ابو بکر الرازی کی احکام القرآن ص 361 ج 3 دیکھیں[1]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ اول : سند میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول ہیں ، کسی محدث نے ان کی توثیق نہیں کی ، غیر مقلدین اس راوی کو ثقہ ثابت کرنے کی بہت کوششیں کرتے ہیں ، جس کا جواب قارئین اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں 

ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی

دوم : ابا عمرو حریث بن عبدالرحمن کی توثیق بھی کسی محدث سے نہیں ملی ، لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔ 

سوم : یہ فقہی مسئلہ اختلافی ہے ، اس مسئلے پر امام صاحب اکیلے نہیں ہیں بلکہ  امام مالک رحمھم اللہ کی بھی رائے امام شافعی اور امام احمد رحمھم اللہ سے نہیں ملتی ، فقہی مسئلہ پر احناف کا موقف اور دلیل کیلئے دیکھیں

 ▪︎ تحفتہ الاالمعی 4/70 از شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب  رحمہ اللہ

▪︎ احکام القرآن للجصاص 3/473

التجريد للقدوري ٩/‏٤٧٨٩

 قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 108 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...