اعتراض نمبر 114: کہ خالد بن یزید نے کہا کہ ابوحنیفہ نے زنا اور سود کو حلال کیا اور خون کو رائیگاں قرار دیا اور ابوالحسن النجاد نے کہا کہ اس میں شریعت اور احکام کو باطل کرنا لازم آتا ہے
اعتراض نمبر 114:
کہ خالد بن یزید نے کہا کہ ابوحنیفہ نے زنا اور سود کو حلال کیا اور خون کو رائیگاں قرار دیا اور ابوالحسن النجاد نے کہا کہ اس میں شریعت اور احکام کو باطل کرنا لازم آتا ہے
أَخْبَرَنِي الحسن بن أبي طالب، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن نصر بن أَحْمَد بن نصر بن مالك، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الحسن علي بن إبراهيم النجاد، من لفظه قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن المسيب، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هبيرة الدمشقي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مسهر، قَالَ: حَدَّثَنَا خالد بن يزيد بن أبي مالك، قال: أحل أَبُو حنيفة الزنا، وأحل الربا، وأهدر الدماء، فسأله رجل: ما تفسير هذا؟ فقال: أما تحليل الربا، فقال: درهم وجوزة بدرهمين نسيئة لا بأس به، وأما الدماء، فقال لو أن رجلا ضرب رجلا بحجر عظيم فقتله كان على العاقلة ديته، ثم تكلم في شيء من النحو فلم يحسنه، ثم قال: لو ضربه بأبا قبيس كان على العاقلة، قال: وأما تحليل الزنا، فقال لو أن رجلا وامرأة أصيبا في بيت وهما معروفا الأبوين، فقالت المرأة هو زوجي، وقال هو: هي امرأتي، لم أعرض لهما. قال أَبُو الحسن النجاد: وفي هذا إبطال الشرائع والأحكام
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں نصر بن لمک ہے اور صحیح نصر بن مالک ہے جیسا کہ ہم نے لکھا ہے۔ اور اس نا معقول حکایت کی سند میں محمد بن نصر بن احمد بن نصر بن مالک القطیعی ہے جو کہ کذاب ہے۔ اور خطیب کی تاریخ ص 312 ج 3 میں الازھری سے روایت ہے کہ اس نے ابوالحسن بن رزقویہ کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا تو ابن مالک کی طرف نہیں دیکھا یعنی اس القطیعی کی طرف بے شک وہ میرے پاس ابن ابی الدنیا کی کتابوں میں سے کچھ لایا اور کہا کہ مجھ سے یہ خرید لو کیونکہ اس میں وہ روایات ہیں جو تو نے میرے ساتھ شریک ہو کر البرذعی سے سنی ہیں۔
تو میں نے اس کو کہا اے شخص! اللہ کی قسم میں نے تو البرذعی سے کچھ سنا ہی نہیں۔ الازھری نے کہا کہ پھر میں نے ان کتابوں کو دیکھا اور بے شک اس میں ابن مالک نے اپنے خط کے ساتھ ابن رزقویہ سے سننے کا لکھا تھا[1]۔
روایت کا حال تو یہ ہے مگر اس جیسے آدمی کی روایت خطیب کے ہاں محفوظ کے زمرہ میں شمار کی جاتی ہے۔
اور رہا اس کا راوی خالد بن یزید بن ابی مالک الدمشقی تو اس کے بارہ میں ابن معین نے کہا کہ شام میں ایک کتاب اس لائق ہے کہ اس کو دفن کر دیا جائے اور وہ خالد بن زید بن ابی مالک کی کتاب الدیات ہے۔
وہ صرف اپنے باپ پر ہی جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا بلکہ اس نے صحابہ پر جھوٹ لکھ دیا۔
ابن ابی الحواری نے کہا کہ میں نے یہ کتاب خالد سے سنی پھر میں نے وہ کتاب (ردی میں) عطر فروش کو دے دی تو وہ اس میں لوگوں کو چیزیں لپیٹ کر دیتا تھا۔
امام نسائی نے کہا کہ خالد ثقہ نہیں ہے اور احمد نے کہا کہ وہ لیس بشئ ہے[2]۔ اور یہ سب کچھ امام ذہبی نے المیزان میں کہا ہے اور نہ جانے اس وقت خطیب کی عقل اور دین کہاں تھا جب اس نے یہ افسانہ مدون کر کے اس کو ناقلین کے ہاں محفوظ کے زمرہ میں ظاہر کیا۔
ایسی سند کے ساتھ جس میں ان دونوں جیسے جھوٹے راوی ہیں۔
حالانکہ وہ باقی لوگوں کی بہ نسبت ان دونوں کے حال کو زیادہ جانتا ہے۔ پس شاید کہ غلط بات کہنے کی جرات کرنے اور افتراء باندھنے میں خود خطیب کی حالت ان دونوں سے کم نہیں ہے۔
رہی بات مسائل کی تو ایک درہم اور ایک اخروٹ کو دو دراہم کے بدلے ادھار بیچتا تو یہ بلاشک بہتان ہے اس لیے کہ یہ اس کے خلاف ہے جو اس کے مذہب کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور ادہار کے معاملہ میں تو ابوحنیفہ باقی فقہاء سے زیادہ سخت نظریہ رکھتے ہیں۔
اور خالد بن ابی مالک جس کا ذکر کیا گیا ہے اس سے اسی جیسے افتراء کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔ اور بهر حال کسی مثقل (بھاری) چیز کے ساتھ قتل کرنا تو اس کا بیان پہلے تفصیل سے ہو چکا ہے یہاں ہم اس کا اعادہ نہیں کرتے۔
اور اسی طرح نحوی غلطی کا دعوئی کہ انہوں نے کہا ولو ضربه بابا قبیس تو اس کا بیان بھی پہلے گزر چکا ہے[3]۔
اور رہا زنا کا مسئلہ تو الملک المعظم نے السھم المصیب میں کہا ہے کہ جب ایک آدمی ایک عورت اور مرد کے پاس آیا تو ان دونوں نے اس کو کہا کہ ہم میاں بیوی ہیں تو یہ آدمی کس دلیل سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا یا ان کے خلاف کوئی کاروائی کرے گا۔
اس لیے کہ بے شک ان میں سے ہر ایک حلال چیز کا دعویٰ کر رہا ہے۔
اور اگر اس کاروائی کا دروازہ کھول دیا گیا تو ہر انسان ہر دن بلکہ ہر گھڑی اپنے آپ پر اور اپنی بیوی پر گواہ ہی پیش کرتا رہے کہ بے شک وہ دونوں میاں بیوی ہیں اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس کا ائمہ میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہے اور اس میں تمام لوگوں کو مشقت میں ڈالنا بھی ہے جو کسی پر مخفی نہیں ہے۔ الخ۔[4] پس اسی طرح ابوحنیفہ کے مذہب میں عیب لگانے کے بارہ میں من گھڑت ہوائی روایات کو درج کرنے کے ساتھ خطیب کی کوشش ضائع ہو گئی۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ تاريخ بغداد ت بشار ٤/٥١٥ ، الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ٣/١٠٤ ، لسان الميزان ت أبي غدة ٧/٥٤٦
[2]۔ خالدُ بنُ يَزيدَ بنِ أبي مَالكٍ؛ وقد ضعَّفَه جمهورُ النُّقَّادِ، بل قال أحمدُ وابنُ مَعِينٍ: «ليس بشيءٍ»، وقال النَّسائيُّ: «ليس بثقةٍ»، وقال أبو داودَ: «متروكُ الحديثِ»، وقال ابنُ مَعِينٍ وأبو داودَ في رواية عنهما: «ضعيفٌ»، وَضَعَّفَهُ كذلك: ابنُ المَدِينيِّ (سؤالات ابنِ أبي شَيْبةَ له ٢٢٧)، ويعقوبُ بنُ سفيانَ، والدَّارَقُطنيُّ، وابنُ الجارُودِ، والسَّاجيُّ، وغيرُهُم، وقال أبو حاتم: «يَروِي أحاديثَ مناكيرَ». واتَّهَمه ابنُ مَعِينٍ بالكذبِ كما في (تاريخ دمشق ١٦/ ٢٩٧).
(ديوان السنة - قسم الطهارة ١٣/٧٥ )
[3]۔ تانیب الخطیب ، تاریخ بغداد میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ
[4]۔السهم المصيب في الرد على الخطيب - ط العلمية - الملك المعظم عيسى الأيوبي - ص 90
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں