اعتراض نمبر 115: کہ ابو مسہر نے کہا کہ اس منبر پر بیٹھ کر ائمہ ابو فلاں پر لعنت کرتے تھے اور الفرہیانی نے کہا کہ وہ ابوحنیفہ تھا۔
اعتراض نمبر 115:
کہ ابو مسہر نے کہا کہ اس منبر پر بیٹھ کر ائمہ ابو فلاں پر لعنت کرتے تھے اور الفرہیانی نے کہا کہ وہ ابوحنیفہ تھا۔
أخبرنا البرقاني، أخبرنا بشر بن أحمد الإسفراييني، حدثنا عبد الله بن محمد بن سيار الفرهياني قال: سمعت القاسم بن عبد الملك أبا عثمان يقول:سمعت أبا مسهر يقول: كانت الأئمة تلعن أبا فلان على هذا المنبر، وأشار إلى منبر دمشق. قال الفرهياني: وهو أبو حنيفة.
الجواب : میں کہتا ہوں کہ تینوں مطبوعہ نسخوں میں الفراہنیانی کی جگہ الفرھیانی لکھا ہوا ہے اور یہ غلط ہے اور کسی معین شخص پر لعنت کرنے کی شریعت میں نص نہیں آئی۔ یہ اعتبار کر کے کہ بے شک وہ اہل نار میں سے ہے۔ بلکہ اس دین حنیف میں یہ گناہ عظیم شمار کیا جاتا ہے اگرچہ وہ عام ظالم آدمی ہو تو کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ لعنت دین کے اماموں میں سے کسی پر کی جائے۔ اور صرف یہی جرم لعنت کرنے والے کے سقوط کے لیے کافی ہے۔ پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو مجرموں کے جرائم کو دلیل بناتے ہیں۔
علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ابو مسہر کی روایت میں دمشق کے منبر پر ابوحنیفہ پر لعنت کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ آپ کے سامنے یہ واضح ہے بلکہ اس نے کہا کہ اس منبر پر ائمہ 《ابو فلاں》 پر لعنت کرتے تھے تو الفراہنیانی خبیث نے بغیر دلیل کے ابو فلاں کی جگہ ابوحنیفہ کر دیا اور ائمہ کے الفاظ سے جبکہ اس کو منبر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے تو اس سے یہی معنی سمجھ آتا ہے کہ اس سے مراد خلفاء ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی امیہ کے خلفاء (حضرت امیر معاویہ کے دور کے بعد) حضرت علی بن ابی طالب پر اس منبر پر بیٹھ کر لعنت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی ان کو رسوا کرے۔ یہاں تک کہ اس معاملہ کو عمر بن عبد العزیز نے ختم کیا اور ان کے بعد تو دمشق دار الخلافہ رہا ہی نہیں کہ تصور کیا جائے کہ بے شک وہ خلفاء اس منبر پر بیٹھ کر ابوحنیفہ پر لعنت کرتے تھے۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ کاروائی ان حکمرانوں یا ظالم حکمرانوں کی پناہ لینے والے خطیبوں کی طرف سے ہوتی رہی ہے تو ابوحنیفہ کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے طریقہ میں بہترین نمونہ ہے۔ اور الفراہنیانی جو کہ اعتقاد میں ابن عدی اور محمد بن الحسن نقاش اور ان دونوں کے طریقہ پر چلنے والوں کے شیوخ میں سے ہے تو اس پر اعتماد اسی جیسا آدمی ہی کر سکتا ہے۔
اور ابو مسہر تو اپنے مخالفین کے خلاف زبان درازی کرنے والا تھا۔
لیکن قرآن کریم کے مسئلہ کے بارہ میں جو آزمائش آئی اس میں جلد ہی حکومتی نظریہ کو اس نے قبول کر لیا۔ اللہ تعالی اس سے درگزر فرمائے۔[1]
امام کوثری کا کلام ملکمل ہوا۔
[1]۔ یہ روایت ضعیف ہے ، راوی القاسم بن عبد الملك أبا عثمان مجہول ہیں ، ان کی توثیق ہمیں نہیں ملی ۔
فائدہ : اسی روایت کو (تاريخ دمشق لابن عساكر ٤٩/١١٥) میں ابن عساکر اپنی سند سے خطیب بغدادی اور پھر اس سے آگے سند سے بیان کرتے ہیں لیکن وہاں امام ابو حنیفہ کا ذکر موجود نہیں بلکہ یہ ہیکہ لعنت ابو فلاں پر کی گئی ، آگے ابن عساکر لکھتے ہیں کہ شاید یہ راوی القاسم بن عثمان أبا عبد الملك الجوعي ہیں ، لیکن یہ بھی ان کا گمان تھا کیونکہ انہوں نے خود الجوعی کا تذکرہ الگ سے مفصل انداز میں کیا ہے جبکہ اس مجہول راوی کا تذکرہ الگ ۔ تاریخ بغداد کے محقق دکتور بشار عواد اسی روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اگر "القاسم بن عبد الملك أبو عثمان" ثقہ ہو تو یہ سند صحیح ہے (یعنی ان کو بھی اس راوی کی کوئی توثیق نہیں ملی) ساتھ ہی ساتھ وہ اس روایت کے متن پر کلام کرتے ہوئے اس کو منکر قرار دیتے ہیں۔
نکتہ : تاریخ بغداد میں ایک اور روایت بھی اسی طرز پر ہے ، جس میں ابو مسہر بیان کرتے ہیں ایک مجہول راوی سلمہ بن عمرو القاضی سے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو مخلوق کہا ، جبکہ تاریخ ابن عساکر میں یہی روایت ہیکہ اللہ ابو فلاں پر رحم نہ کرے کہ اس نے سب سے پہلے قرآن کو مخلوق کہا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے ،
[2]۔ اول : ابو مسہر (جنہوں نے حکومتی دباو میں آ کر خلق قرآن کے باطل عقیدہ کا اقرار کر لیا تھا) کی روایت میں ذکر نہیں کے لعنت کس پر کی گئی ، ابو مسہر متوفی 218ھ سے دو واسطوں کے بعد ایک راوی الفرہیانی المتوفی 303ھ کہتے ہیں کہ یہ ابو حنیفہ تھے ، یہ بات عجیب ہے ، کیونکہ الفرہیانی کو کیسے معلوم ہوا ابو فلاں سے مراد ابو حنیفہ ہے ؟ کیا الفرہیانی نے ابو مسہر سے خود ابو حنیفہ کا سنا ؟ نہیں ، پھر خود اندازے سے تعین کس دلیل پر ؟
دوم : روایت میں ہیکہ آئمہ نے دمشق کے منبر پر لعنت کی ۔ یہاں آئمہ مجہول ہیں ۔ وہ کون سے آئمہ تھے ؟ ان کا درجہ کیا تھا ؟ آیا وہ ثقہ تھے ؟ عقیدے میں درست تھے ؟ معلوم نہیں ، لہذا آئمہ مجہول ہیں۔
سوم : لعنت دمشق میں کروائی جا رہی ہے ، جب کہ دمشق میں اس وقت نہ ہی امام ابو حنیفہ کے خاص شاگرد اور اصحاب تھے ، نہ وہاں امام صاحب رہتے تھے ، پھر دمشق میں لعن طعن کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگر لعن طعن ہونا ہوتا تو کوفہ شہر میں ہونا چاہیے تھا جہاں ہزاروں آئمہ ، محدثین اور فقہاء رہتے تھے ، جب کہ ہمیں ایسی ایک بھی روایت نہیں ملتی کہ کوفہ میں بعض لوگوں نے امام ابو حنیفہ پر بر سر منبر لعن طعن کیا ہو۔
چہارم : بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ یہ روایت صحیح ہے ، تب ہم کہتے ہیں کہ دمشق کے منبروں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی لعن طعن کیا گیا تھا (حضرات صحابہ بشمول امیر شام رضی اللہ عنہ اس سے بری ہیں) ، جس طرح شہید کوفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات عالی ، اس لعن طعن سے پاک ہے ، ویسے ہی فقیہ کوفہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات پر بھی بعض متعصب جاہل مجہول لوگوں کی لعن طعن سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں