اعتراض نمبر 116: کہ ایک آدمی نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور بعض دیگر صحابہ کرام کو دیکھا اور اس جماعت میں ایک میلے کچیلے کپڑوں اور خستہ حالت والا آدمی تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہے تو میں نے کہا کہ نہیں، میں نہیں جانتا تو آپ نے فرمایا یہ ابوحنیفہ ہے جو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی عقل کی وجہ سے گناہ گاروں پر سردار بنتا ہے۔ تو اس کو سعید بن عبد العزیز نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو سچ کہتا ہے۔ اگر تو نے یہ خواب نہ دیکھی ہوتی تو یہ بات تو اچھے طریقہ سے نہ کر سکتا۔
اعتراض نمبر 116:
کہ ایک آدمی نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور بعض دیگر صحابہ کرام کو دیکھا اور اس جماعت میں ایک میلے کچیلے کپڑوں اور خستہ حالت والا آدمی تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہے تو میں نے کہا کہ نہیں، میں نہیں جانتا تو آپ نے فرمایا یہ ابوحنیفہ ہے جو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی عقل کی وجہ سے گناہ گاروں پر سردار بنتا ہے۔
تو اس کو سعید بن عبد العزیز نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو سچ کہتا ہے۔
اگر تو نے یہ خواب نہ دیکھی ہوتی تو یہ بات تو اچھے طریقہ سے نہ کر سکتا۔
أخبرني الخلال، حدثنا أبو الفضل عبد الله بن عبد الرحمن بن محمد الزهري، حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن أبو محمد السكري، حدثنا العباس بن عبيد الله الترقفي قال: سمعت الفريابي يقول: كنا في مجلس سعيد بن عبد العزيز بدمشق فقال رجل: رأيت فيما يرى النائم كأن النبي صلى الله عليه وسلم قد دخل من باب الشرقي - يعني باب المسجد - ومعه أبو بكر وعمر، وذكر غير واحد من الصحابة، وفي القوم رجل وسخ الثياب رث الهيئة، فقال: تدري من ذا؟ قلت: لا، قال: هذا أبو حنيفة، هذا ممن أعين بعقله على الفجور. فقال له سعيد بن عبد العزيز: أنا أشهد أنك صادق، لولا أنك رأيت هذا. لم يكن الحسن يقول هذا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں عبارت ہے 《لولا أنك رأيت منالم. لم يكن الحسن يقول هذا》 اور اس کلام کا ماقبل سے کوئی ربط سمجھ نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت تبدیل ہو گئی ہو اور اصل یوں ہو《لولا أنك رأيت هذا. لم يكن تحسن يقول هذا.》
اسی لیے عبارت اسی طرح لی گئی ہے تا کہ اس کا مفہوم بن سکے۔ اور یہ خواب دیکھنے والے کی خواب میں تصدیق کرنے میں انوکھا استدلال ہے۔
جبکہ سعید بن عبد العزیز نے اپنے لیے مباح سمجھا کہ اس محمول کی گواہی دے کہ بے شک وہ اپنی خواب میں سچا ہے۔
گویا کہ وہ خواب دیکھنے میں اس کے ساتھ واقعہ میں حاضر تھا اور یہ تو ہم نے ابو حنیفہ کے مخالفین کی سوچ کا تھوڑا سا نمونہ پیش کیا ہے۔
اور اس (سعید) سے جو روایت کرنے والا ہے وہ محمد بن یوسف الفریابی ہے۔ یہ نیک آدمی تھا۔ عسقلان میں رہتا تھا۔ چوکیداروں کی جماعت کے ساتھ سرحد کا پہرہ دینے والا تھا اور سرحدی لوگوں کو ہر چیز میں استثناء (یعنی انشاء اللہ کہنے) کا حکم دیتا تھا اور دلیل یہ دیتا تھا کہ سلف میں سے بہت سے حضرات ایمان میں استثناء کرتے ہیں۔ یعنی وہ 《انا مؤمن انشاء اللہ》 کہتے ہیں اور مرجئہ جو کہ ایمان میں استثناء نہ کرتے تھے ان کا یہ انتہائی دشمن تھا اور ابوحنیفہ کے ساتھ بغض میں بہت عالی تھا کیونکہ اس کے زمانہ میں جو لوگ یہ کہتے تھے 《انا مومن حقا》 اور استثناء نہ کرتے تھے تو ان کے پیشوا ابوحنیفہ ہی تھے[1]۔
اور اس قسم کے لوگ یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ وہ مرجئہ کے سردار ہیں حالانکہ ایمان میں استثناء صرف اس اعتبار سے صحیح ہے کہ کسی کو اپنے خاتمہ کا علم نہیں ہے۔
اور اس مفہوم کے مطابق سلف یہ کیا کرتے تھے( اور المرجئہ کا نظریہ اس سے یکسر مختلف تھا) اور عسقلان میں اپنی جماعت کے ساتھ الفریابی کا اس بارہ میں غلو اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ وہ ہر چیز میں ان شاء اللہ کہتے۔
حتی کہ اگر آپ ان سے پوچھتے کہ کیا زمین ہمارے پاؤں کے نیچے ہے تو وہ کہتا انشاء اللہ
اور اگر کسی نے نماز پڑھ لی ہوتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ نے نماز پڑھ لی ہے تو وہ کہتا انشاء اللہ ۔
اور اسی طرح اس مذہب کا طریق رائج ہو گیا اور معاملہ وہاں تک جا پہنچا جو ابن رجب نے طبقات الحنابلہ میں ابو عمرو سعد بن مرزوق خیلی کے ترجمہ میں نقل کیا ہے جو کہ اس جماعت کا سردار تھا[2]۔
جو یہ کہتے تھے کہ بے شک ایمان کے اقوال اور افعال مخلوق نہیں ہیں اور بے شک بندوں کی حرکات مخلوق ہیں لیکن ان میں قدیم ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ کلام قدیم ہے اور بندوں کے الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے۔
اور ان جیسے لوگوں کو چھوڑ دینا ضروری ہے اور ان کی طرف تو توجہ ہی نہیں کرنی چاہیے مگر ان لوگوں کی کاروائی میں عبرت اور تعجب کا مقام ہے کہ باقی وہ ہر چیز میں استثناء کرتے ہیں اور شک کرتے ہیں مگر جو واقعات ابوحنیفہ کے طعن والے نقل کر دیے گئے ہیں ان پر یقین کرتے ہیں خواہ وہ بیداری کی حالت کے ہوں یا خواب کی حالت کے۔
اور یہ پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ دیکھنے والا کون ہے اور جو خواب بیان کی گئی اس کی تعبیر پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعض خوابیں بھی تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں۔ جیسا کہ فتح الباری وغیرہ میں ہے۔
اور خوابوں کی تعبیر کا علم جاننے والے حضرات اکثر پریشان کن خوابوں کی تعبیر خوشی اور خوش کن خوابوں کی تعبیر پریشانی سے بنانے رہے ہیں۔
اور جن لوگوں کی ہم نے حالت بیان کی اس گروہ پر تعجب نہیں ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ خطیب ہر وہ چیز تلاش کرتا جاتا ہے جس کو وہ ابو حنیفہ کے مطاعن میں ذکر کر سکے اور اس کے درختوں سے پتے جھاڑ کر اس کو چنتا جاتا ہے گویا کہ وہ ابو حنیفہ کے خلاف بہت بڑی دلیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ (وہ ابوحنیفہ کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل تو پیش نہ کر سکا مگر) ہاں صرف ایسی دلیل حاصل کر کے کامیاب ہوا ہے جو ابو حنیفہ کی دشمنی میں خطیب کے اصحاب کی انتہائی کمزور عقلی پر دلالت کرتی ہے۔
اور شریعت میں خواب کا جو حکم ہے وہ پہلے بیان ہو چکا ہے[3]۔
تو ہم اس کو دوبارہ نہیں ذکر کرتے۔
اور ان کی یہ خواب اگر ان کے نزدیک اسی طرح حقیقت ہے جس طرح بیداری میں واقعہ ہوتا ہے تو اس خواب میں ابوحنیفہ تو صحابہ کی جماعت میں سے تھے اور یہ مرتبہ کی بات ہے مگر حکایت نقل کرنے والے اس کو اس مقصد کےلیے بیان نہیں کرتے[4]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[2]. الذيل على طبقات الحنابلة 2/229
[4]۔ خواب دیکھنے والا شخص مجہول ہے یعنی اس کا جرح و تعدیل میں کیا مقام ہے ، معلوم نہیں ، دینی رتبہ کیا ہے معلوم نہین ، ثقہ ہے یا رطب و یابس کا دوکاندار ، معلوم نہیں
شاید وہ اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے ، جب خواب دیکھنے والا شخص نا معلوم ہے ، اس کی عدالت کا پتہ نہیں ، پھر کیسے ایسے مجہول شخص کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت سمجھا جا سکتا ہے جبکہ یہ معلوم نہیں کہ وہ سچ بھی بول رہا ہے یا نہیں ؟
یہاں سے خطیب بغدادی اور بعض محدثین کے دوہرے معیار کا اندازہ لگائیے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف ایک مجہول شخص کا خواب بھی ان لوگوں کیلئے حجت تھا ، گویا خطیب بغدادی نے اس مجہول شخص کے خواب کو نبیوں کے خواب کی طرح وحی سمجھ لیا ؟
دوم : سعید بن عبدالعزیز نے خواب کی تصدیق پر عجیب انداز سے ہمایت کی ہے ، گویا کہ وہ خود اس شخص کے ساتھ خواب میں شامل ہوں یا خود انہوں نے بھی یہی خواب دیکھا ہو. اگر وہ شخص عدالت اور دیانتداری میں معتبر اور روایت حدیث میں ثقہ ہوتا تو یہاں اسکا نام درج ہوتا لیکن افسوس اس کی ذات کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں.
اور بنا تصدیق کے امام ابو حنیفہ کے خلاف بات کو نقل کرنا اور شہرت دینا یہ صرف سعید بن عبدالعزیز ہی کا طریقہ نہیں بلکہ کئی محدثین جو احادیث کی جانچ پڑتال میں جتنی محنت و مشقت کرتے ہیں تاکہ صحیح بات تک پہنچا جا سکے وہ بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف کسی بھی طرح کی بات کو بغیر تصدیق یا بغیر تحقیق کے نقل کر دیتے ہیں. گویا یہاں اصول حدیث کی طرح صحیح بات تک پہنچنا شرط ہی نہ ہو.
جبکہ حدیث میں مؤمن کی عزت اور عظمت کو بیت اللہ کی عظمت پر ترجیح دی گئی ہے. تو حدیث کی روشنی میں کسی شخص کو بے وجہ تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر افسوس اس معاملے میں محدثین بہت غیر جانبدار نظر آتے ہیں.
ہماری بات مخالفین کو بری لگ سکتی ہے لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی ثقہ راوی امام ابو حنیفہ کے خلاف حجت ہو سکتے ہیں ، جو رطب و یابس سن کر ، بغیر تحقیق کئے (اسلامی احکامات کی صریح مخالفت کرتے ہوئے) ، ہر ایرے غیرے کی سنی سنائی باتوں پر کان دھر کر ، فقیہ ملت پر من گھڑت روایتیں نقل کرتے ہیں ، جن کو آج کے غیر مقلد اہلحدیث اسنادہ صحیح کا لیبل لگا کر ، انہی ثقہ راویوں اور اپنے اعمال نامہ میں بہتان ، جھوٹ اور تہمت بازی کے رجسٹر بھر رہے ہیں۔
نکتہ : معلوم ہوا ، راوی کا ثقہ ہونا جب حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں تو اسی طرح سند کا صحیح ہونا کسی پر تنقید یا جرح کے صحیح ہونے کے لئے لازم نہیں کیونکہ کتنے ہی بخاری مسلم کے ثقہ راوی ہیں جو صحابہ کو گالیاں دیتے تھے (فتاوی علمیہ ، کتاب العقائد ص 95) ، کیا ان ثقہ راویوں کی صحابہ کے خلاف روایتیں یا وہ باتیں جو صحابہ کے خلاف ہیں قابل قبول ہوں گی ؟؟؟
نکتہ : معلوم ہوا کہ اکثر ثقہ راوی ، امام ابو حنیفہ کے خلاف روایت سن لیتے تھے اور پھر بغیر کسی تحقیق کے اس روایت کو آگے بیان کر دیتے تھے اپنے شاگردوں سے ، بظاہر سند میں راوی ثقہ ہوتے تھے لیکن روایت اخذ کہاں سے کی، اس کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے یہ نہ تو وہ شاگرد اپنے اس ثقہ استاد سے پوچھنے کی ہمت کرتے ، نہ ہی وہ استاد بتانے کو ضروری سمجھتے ، یوں محدثین کا ایک گروہ امام ابو حنیفہ کی مخالفت میں سنی سنائی باتوں پر چل رہا تھا اور اپنے آپ کے نزدیک انہوں نے امام ابو حنیفہ کو گمراہ سمجھ لیا تھا۔
نکتہ : حدیث کے مطابق آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات ( بغیر تصدیق ) بیان کر دے (صحیح مسلم باب النَّهْىِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ، رقم 7 ) ، اب سوال یہ ہے کیا وہ ثقہ راوی امام ابو حنیفہ کے خلاف جرح نقل کرنے میں معتبر شمار ہوں گے جنہوں نے امام صاحب کے خلاف روایات بیان کین لیکن کوئی تحقیق نہیں کی۔ مثلا امام صاحب نے توبہ کیوں کی ، ہر ایک محدث اسے بیان کرتا ہے ، لیکن بات کی تحقیق صرف امام ابو قطن نے کی ، اگر وہ بات کی تحقیق نہ کرتے تو شاید ہمیں معلوم ہی نہ ہو پاتا کہ کیا واقعی کسی کفریہ نظریہ کی وجہ سے امام صاحب نے توبہ کی تھی یا وہ خوارج (باطل فرقہ) والوں کی چال تھی۔
● امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات
▪︎ اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں