اعتراض نمبر 120: کہ عبد الله بن المبارک سے کہا گیا کہ تو ابو حنیفہ سے روایت کرتا ہے اس وجہ سے لوگ ایک کافر کو امام بنائے بیٹھے ہیں ،
اعتراض نمبر 120:
کہ عبد الله بن المبارک سے کہا گیا کہ تو ابو حنیفہ سے روایت کرتا ہے اس وجہ سے لوگ ایک کافر کو امام بنائے بیٹھے ہیں ، تو اس نے کہا کہ میں ابو حنیفہ کی روایات سے توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی مانگتا ہوں۔
أنبأنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، أخبرنا الأبار، أخبرنا محمد بن المهلب السرخسي، حدثنا علي بن جرير قال: كنت في الكوفة فقدمت البصرة - وبها ابن المبارك - فقال لي: كيف تركت الناس؟ قال: قلت: تركت بالكوفة قوما يزعمون أن أبا حنيفة أعلم من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: كفر. قلت: اتخذوك في الكفر إماما، قال: فبكى حتى ابتلت لحيته يعني أنه حدث عنه.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ پہلی خبر کی سند میں ابن رزق اور ابن سلم اور الآبار ہیں اور علی بن جریر کی ابن المبارک سے ان دو خبروں کے علاوہ کوئی روایت مطلقاً آپ نہ پائیں گے۔ اور یہ علی بن جریر الأبيوردي گمراہ ہے۔ اور ابن ابی حاتم پوری محنت کے باوجود نہ تو اس کا کوئی شیخ ذکر کر سکا اور نہ اس سے کوئی روایت کرنے والا۔
اور اس نے اس کو اس راوی کے مرتبہ کا قرار دیا جس کی حدیث لکھی جا سکتی ہے اور صرف اس روایت میں غور کیا جاتا ہے جو وہ اپنے باپ سے روایت کرے۔
اس کو ان لوگوں کے زمرہ میں شمار نہیں کیا جا سکتا جن سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے۔
اور ہم جب اس میں غور کرتے ہیں تو اس کو بہتان تراش پاتے ہیں۔
اس کا دل تعصب سے بھرا ہوا ہے اور اس کی گلے میں اٹک جانے والی بے تکی بات اور چھپی ہوئی عصبیت پر کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے، صرف یہی دلیل کے لیے کافی ہے جو یہاں ذکر کیا گیا ہے[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]اعتراض : امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ۔
03:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ۔
جواب :
تمہید :
ایک اعتراض بہت زور شور سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا، یعنی امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنا بند کر دیا تھا… آج اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ یہ دیکھیں گے کہ دلائل کی روشنی میں یہ بات غلط ہے، یعنی یہ ثابت نہیں کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کیا تھا…
اس سلسلے میں جتنے بھی اقوال ہیں، ہم ان سب کا جائزہ لیں گے… اور ہماری تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں…
1:- سب سے پہلا قول جو امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنے والد امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری (عمر) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا… (الجرح والتعدیل 4/449)
ثم تركه ابن المبارك بأخرة سمعت أبي يقول ذلك
جواب: – امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے یہاں یہ بات نہیں بتائی کہ ان تک یہ بات کس ذریعے سے پہنچی ہے، کیونکہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا انتقال امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہو چکا تھا، اس لیے یہاں یہ معلوم نہیں کہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ تک یہ بات کیسے پہنچی…
نتیجہ : یہ قول حجت نہیں…
2:- امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام زکریا ساجی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا جس میں امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو) ترک کر دیا… (الانتقاء 292)
وذکر الساجي، عن محمد بن نوح المدائني، عن معلى بن أسد، قلت لابن المبارك: كان الناس يقولون إنك تذهب إلى قول أبي حنيفة، قال: ليس كل ما يقول الناسُ يصيبون فيه، قد كنا نأتيه زمانا ونحن لا نعرفه، فلما عرفناه تركناه
جواب: – اس کی سند میں ایک راوی محمد بن روح المدائنی ہے جو کہ مجہول ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے اور یہ قول بھی ثابت نہیں…
سند میں محمد بن راوح چاہے وہ المدائنی ہو یا العکبری مجہول ہے ، اس کی کوئی توثیق نہیں ہے ، اور امام احمد کا دوست ہونے سے یہ کہاں سے لازم آ گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ ہو گا ، پس غیر مقلدین کی من مانی ہے ، دل پر نہ آئے تو واضح ثقہ راوی کو بھی ثقہ نہیں مانتے ، نفس کہے تو ، مجہول کو بھی زبردستی ثقہ لکھ دیتے ہیں ۔
3:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے 400 احادیث لکھیں ہیں، جب عراق واپس جاؤں گا تو انہیں مٹا دوں گا… (تاریخ بغداد 572/15)
أخبرني الحسن بن أبي طالب، أخبرنا أحمد بن محمّد بن يوسف،.
حدّثنا محمّد بن جعفر المطيري- حدّثنا عيسى بن عبد الله الطّيالسيّ، حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيّ قَالَ: سَمِعْتُ ابن المبارك يَقُولُ: صليت وراء أَبِي حنيفة صلاة وفي نفسي منها شيء، قَالَ: وَسَمِعْتُ ابن المبارك يَقُولُ: كتبت عن أَبِي حنيفة أربعمائة حديث إذا رجعت إلى العراق إن شاء الله محوتها.
جواب: – اس قول کی سند میں احمد بن محمد بن یوسف ہے جو کہ ضعیف ہے، ساتھ اس روایت میں وہ اپنے جس شیخ سے روایت کر رہا ہے ان سے روایت کرنے میں بھی کلام ہے… معلوم ہوا یہ قول بھی ثابت نہیں…
أَبُو عَبْدِ اللهِ، أحمد بن المُحَدِّثِ مُحَمَّدِ بنِ يُوْسُفَ بنِ دُوْسْتَ، البَغْدَادِيُّ البزاز
وَاخْتَلَفُوا فِي عَدَالَتِهِ، ضَعَّفَهُ الأَزْهَرِيُّ، وَطَعَنَ ابْنُ أَبِي الفَوَارِس فِي روَايته عَنِ المَطِيْرِي.
وَقَالَ البَرْقَانِيُّ: كَانَ يَسْرُدُ الحَدِيْثَ مِنْ حِفْظِهِ، وَتكَلَّمُوا فِيْهِ،
(سير أعلام النبلاء)
4:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ہی علی بن جریر کے واسطے سے دو قول نقل کیے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ علی بن جریر امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے پاس آیا تو ان سے کہا کہ تیری وجہ سے لوگوں نے کافر کو امام بنا رکھا ہے، کیونکہ تو (امام ابن مبارک رحمہ اللہ) ان سے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے) روایت کرتا ہے، اس پر امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرنے کی وجہ سے) اللہ سے توبہ کی… (تاریخ بغداد 572/15)
أَخْبَرَنَا ابن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن سلم، قَالَ: أَخْبَرَنَا الأبَّار، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن المهلب السَّرْخَسِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير، قَالَ: كُنْت في الكوفة، فقدمت البصرة ويها ابن المبارك، فَقَالَ لي: كيف تركت النَّاس؟ قُلْتُ: تركت بالكوفة قوما يزعمون أن أَبَا حنيفة أعلم من رَسُول الله، ﷺ قَالَ: كفر، قُلْتُ: اتخذوك في الكفر إماما، قَالَ: فبكى حَتَّى ابتلت لحيته، يعني: أَنَّهُ حدث عَنْهُ
أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن عَليّ المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عَبْد الله النَّيْسَابُوري، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَر مُحَمَّد بن صالح بن هانئ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا مسدد بن قطن، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَبِي عتاب الأعين، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير الأبيوردي، قَالَ: قدمت عَلَى ابن المبارك، فَقَالَ لَهُ رجل: إن رجلين تماريا عندنا في مسألة، فَقَالَ أحدهما قَالَ أَبُو حنيفة، وَقَالَ الآخر: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: كَانَ أَبُو حنيفة أعلم بالقضاء، فَقَالَ ابن المبارك: أعد عَليّ، فأعاد عَلَيْهِ، فَقَالَ: كفر، كفر، قُلْتُ: بك كفروا، وبك اتخذوا الكفر إماما.
قَالَ: ولم؟ قُلْتُ: بروايتك عن أَبِي حنيفة، قَالَ: أستغفر الله من رواياتي عن أَبِي حنيفة
جواب: – یہ قول سند اور متن دونوں لحاظ سے صحیح نہیں… پہلے سند پر بات کرتے ہیں۔ اس کی سند میں راوی عَليّ بن جرير الأبيوردي ہماری تحقیق میں یہ مجہول ہے… اگرچہ اسے امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے الجرح والتعدیل میں صدوق کہا ہے لیکن امام ابو حاتم رحمہ اللہ کا اسے صدوق کہنا بہت عجیب و غریب ہے، کیونکہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ اور امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ باوجود اپنے وسیع علم کے نہ اس کا کوئی استاد بتا سکے اور نہ ہی کوئی شاگرد… اور نہ ہی اس راوی کی حدیث کی کسی مشہور کتاب میں کوئی روایت ہے… تو ایک ایسا راوی جس کے نہ استاد کا پتا نہ شاگرد کا نہ کسی (مشہور) حدیث کی کتاب میں اس کی کوئی روایت، پھر وہ کس بنیاد پر صدوق؟
اب کوئی کہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے علی بن جریر کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے، جواب میں عرض ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ مجہول کو ثقات میں نقل کرنے کے لیے مشہور ہیں، ان کا ثقات میں اس کو نقل کرنا اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی، جبکہ اس راوی کے واسطے سے کوئی روایت ہی ثابت نہیں تو یہ کیسے ثقہ یا صدوق ہو سکتا ہے… حاصل کلام یہ کہ یہ راوی مجہول ہے اور اس قول کی سند بھی صحیح نہیں…
اس کے علاوہ اس قول کا متن بھی اس قول کو مردود بناتا ہے کیونکہ اس میں ہے کہ (مجہول) علی بن جریر آیا اور ان کے سامنے ایسے انکشافات کیے جو اس (علی بن جریر) کو تو معلوم تھے لیکن امام ابن مبارک رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہوتے ہوئے ان سے بےخبر تھے… اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر کہتا، ان امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے جن کی زندگی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کرنے میں گزری، جن امام ابن مبارک رحمہ اللہ جیسی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کوئی اور نہیں کرتا… جن امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب امام ابن مبارک رحمہ اللہ اور (ثقہ) ابو اسحاق الفزاری کی ملاقات ہوتی تو ابو اسحاق الفزاری کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی برائی بیان کرے… اب سوچیں ابو اسحاق الفزاری جو ثقہ ہے اور معروف بھی، اس کی تو ہمت امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی برائی کرنے کی بھی نہیں ہوتی اور یہ مجہول علی بن جریر سیدھا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر کہتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے جو خود امام ابن مبارک رحمہ اللہ کو بھی معلوم نہیں، یہی باتیں اس کے متن کو مردود بنانے کے لیے کافی ہیں… ثابت ہوا اس قول کی سند اور متن دونوں صحیح نہیں…
5:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کے واسطے سے نقل کیا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں اپنی کتاب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی احادیث نکال دوں گا… (تاریخ بغداد 573/15)
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن سُلَيْمَان المُؤَدِّب، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر ابن المُقْرِئ، قَالَ: حَدَّثَنَا سلامة بن محمود القَيْسِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بن حَمْدَوَيْه البِيكَنْدِيّ، قَالَ: سَمِعْتُ الحُمَيْدِيّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيم بن شَمَّاس، يَقُولُ: كُنْت مَعَ ابن المبارك بالثغر، فَقَالَ: لئن رجعت من هذه لأخرجن أَبَا حنيفة من كتبي.
جواب: – اس قول کی سند بھی صحیح نہیں، اس میں خطیب کے استاد ابراہیم بن محمد بن سلیمان مجہول ہیں، اس کے علاوہ سند کے ایک اور راوی سلمہ بن محمود کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ امام ابو بکر ابن مقری رحمہ اللہ کے علاوہ ان سے کسی نے روایت کیا ہو یا انہیں کسی نے ثقہ کہا ہو… معلوم ہوا اس قول کی سند بھی صحیح نہیں…
اوپر آپ نے دیکھا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے رجوع کرنے یا انہیں ترک کرنے کے جتنے بھی اقوال ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے نہیں یعنی ثابت نہیں…اب صحیح سند سے دو قول ہیں اور آئیں اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں...
6:- ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ انہیں کتاب سے پڑھا رہے تھے جب بھی (امام) ابو حنیفہرحمہ اللہ کی حدیث آتی تو فرماتے اسے خراش دو (مارک کر دو / مٹا دو) [اس کے کچھ دن بعد امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا]... (تاریخِ بغداد، الثقات ابن حبان)
أَخْبَرَنَا العتيقي، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُوسُف بن أَحْمَد الصَّيْدَلانِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن عَمْرو العُقَيْلِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِبْرَاهِيم بن جناد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بن شَمَّاس، قَالَ: سعت ابن المبارك، يَقُولُ: اضربوا عَلَى حديث أَبِي حنيفة.
أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عُمَر الواعظ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن سُلَيْمَان، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن أَحْمَد بن حَنْبَل، يُقَال حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين، عن الحَسَن بن الربيع، قَالَ: ضرب ابن المبارك عَلَى حديث أَبِي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة.
جواب: – اس عبارت کے کئی جواب دیے جا سکتے ہیں... ہم سلسلہ وار ان کا ذکر کرتے ہیں۔
1:- یہاں یہ واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کون مراد ہیں، کیونکہ امام ابن مبارک ررحمہ اللہ کے اساتذہ میں دو ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (نعمان بن ثابت ررحمہ اللہ) اور دوسرے ابو حنیفہ رحمہ اللہ (نشیرہ بن عبداللہ) [تفصیل کے لئے امام ابن حبان رحمہ اللہ کی الثقات، امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی الجرح والتعدیل اور امام بخاری رحمہ اللہ کی تاریخ الکبیر دیکھی جا سکتی ہیں]...
اب عبارت سے واضح نہیں کہ یہاں کون مراد ہیں، ممکن ہے یہاں دوسرے ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہوں کیونکہ وہ احادیث میں غلطی کرتے تھے جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے...
2:- اگر بالفرض مان بھی لیں کہ یہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہی مراد ہیں، تب بھی یہ ترک کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ممکن ہے کہ جن احادیث کو امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے مٹانے کا حکم دیا ہو، اس کی سند میں اوپر کوئی ضعیف راوی ہو، جس کی بنیاد پر امام ابن مبارک نے ایسا کہا ہو۔
3:- یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ روایات امام ابن مبارک کے نزدیک ضعیف ہوں یا ان میں کوئی اور علت موجود ہو جو امام ابن مبارک کے نزدیک اسے ضعیف بناتی ہو... کیونکہ یہ ایک طالب علم بھی جانتا ہے کہ ایک حدیث ایک محدث کے نزدیک صحیح ہوتی ہے اور دوسرے محدث کے نزدیک وہی حدیث ضعیف ہوتی ہے...
4:- جب ایک عام راوی کو بھی کوئی محدث ترک کرتا ہے تو اس کی وجہ معلوم ہونی ضروری ہے اور وہ وجہ ترک کرنے کے لئے جائز بھی ہونی چاہیے... یعنی ایسا نہیں کہ ایک محدث بغیر کسی خاص وجہ کے کسی کو ترک کر دے...
یہاں وہ وجہ معلوم نہیں کہ کس بنیاد پر امام ابن مبارک نے ایسا کہا، کیونکہ امام ابن مبارک کی زندگی امام ابو حنیفہ کی تعریف کرنے میں گزری، وہ تو کوئی بات بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف نہیں سنتے تھے، اور اچانک ان کی احادیث کو مٹانے کا حکم دیں تو یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر ایسا کیوں کہا گیا... لیکن وہ وجہ ہی معلوم نہیں...
5:- دوسرے محدثین جب امام ابو حنیفہ کا یا امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو امام ابن مبارک کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرنے والا بتاتے ہیں، ترک کرنے کا ذکر نہیں کرتے جو یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات درست یا ثابت نہیں...
6:- سب سے اہم بات اصحاب ابن مبارک میں ہمارے علم کے مطابق کوئی بھی امام ابن مبارک ہ کا امام ابو حنیفہ کو ترک کرنے کی بات نقل نہیں کرتا... یعنی جو امام ابن مبارک کے ریگولر طلباء ہیں ان میں سے کوئی ترک کی بات نقل نہیں کرتا سوائے ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کے، اور ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے ریگولر طالب علم نہیں تھے... اگرچہ محدثین نے ابراہیم بن شماس کو امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنے والا لکھا ہے لیکن ہمیں عام اقوال کے علاوہ کوئی حدیث ابراہیم بن شماس کی امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے نہیں ملی...
7:- بلکہ اصحاب ابن مبارک نہ صرف امام ابن مبارک سے امام ابو حنیفہ کی توثیق و تعریف نقل کرتے ہیں بلکہ ان کے واسطے سے روایات بھی نقل کرتے ہیں...
اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ امام ابن مبارک سے توثیق اور روایات نقل کرنا پہلے کی بات ہوگی جبکہ ابراہیم بن شماس ان کے آخری دنوں کی بات نقل کر رہے ہیں، اس پر ہم کہیں گے کہ اس عبارت سے ترک کرنے کی بات ثابت نہیں ہوتی... رہی بات کہ امام ابن حبان نے اپنی کتاب المجروحین میں ابراہیم بن شماس سے ترک کرنے کا قول نقل کیا ہے...
وأخبرنا الحسين بن إدريس الأنصاري قال: حدثنا محمد بن علي الثقفي قال : سمعت إبراهيم بن شماس يقول ترك ابن المبارك أبا حنيفة في آخر أمره.
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سند کے راوی محمد بن علی الثقفی کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں، اس سند کے علاوہ اس کا تذکرہ ہمیں کہیں نہیں ملا... اور اگر بالفرض اس قول کو صحیح مان بھی لیں تو ہم کہیں گے کہ یہ ابراہیم بن شماس کا قول ہے، امام ابن مبارک کا نہیں... اور ابراہیم بن شماس متعصب ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی نے ان کے ترجمے میں نقل کیا...
اور ترک والی بات سوائے ابراہیم بن شماس کے علاوہ کوئی اور نقل نہیں کرتا... اگر کوئی کہے کہ راجح بات اس کی ہوگی جو امام ابن مبارک سے ان کا آخری عمل نقل کرے.... اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہی بات (امام ابو حنیفہ کی حدیث مٹا دینے کی) امام ابن مبارک کے دوسرے شاگرد حسن بن ربیع سے امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العلل میں بھی نقل کی ہے۔
لیکن اس کے باوجود وہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ترک کی بات نقل نہیں کرتے... اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترک کرنے کی بات ابراہیم بن شماس نے اپنی طرف سے سمجھ لی ہے، امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے ریگولر طلباء یہ بات نہیں کرتے... اس تمام بحث سے ثابت ہوا کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ کو ترک کرنا ثابت نہیں... آپ سے امام ابو حنیفہ کی توثیق و تعریف اور روایت کرنا ہی صحیح سندوں سے ثابت ہے۔
دلیل : کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کرنا ثابت نہیں ۔
اسی طرح یہ واقعہ بھی دیکھئے جو ابونصرمروزی نے کتاب الورع میں اسحاق بن راہویہ کے حالات میں نقل کیاہے۔
وحدثنا القاسم بن محمد قال: سمعت إسحاق بن راهويه يقول: كنت صاحب رأي فلما أردت أن أخرج إلى الحج عمدت إلى كتب عبد الله بن المبارك، واستخرجت منها ما يوافق رأي أبي حنيفة من الأحاديث، فبلغت نحو من ثلثمائة حديث ۔۔۔ الخ
(الورع ص 122 رقم 401 ت سمير الزهيري: وص 75 ط: قديمة
القَاسِمُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ الحَارِثِ المروزي کو امام ابو حاتم رازی نے صدوق اور خطیب نے ثقہ لکھا ہے )
اس صحیح سند سے منقول واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ شروع میں اہل الرائے کے مذہب پر تھے ۔ انہوں نے عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کی کتاب سے امام ابوحنیفہ کی 300 مستدل احادیث تلاش کیں اورپھر وہ بغداد آئے اور ان کا خیال تھا کہ ان احادیث کا جواب کوئی شخص نہیں دے سکے گا یا وہ اس سے اختلاف نہیں کرے گا اور لاجواب ہوجائے گا۔ وہ گھومتے گھماتے بصرہ پہنچے ان کی ملاقات عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے شاگرد) سے ہوئی ۔ عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ مرو کا ۔ چونکہ عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ بھی مرو شہر کے رہنے والے تھے اورعبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے ابن مہدی رحمہ اللہ کو بڑی عقیدت تھی تو ابن مہدی رحمہ اللہ نے پوچھا کہ ان کا کوئی مرثیہ وغیرہ تمہیں یاد ہے ؟ تو اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ابو تمیلہ کا مرثیہ پڑھ دیا
( وفات کے بعد کسی کی تعریف یا خوبیاں بیان کرنا مرثیہ کہلاتا ہے ،
جبکہ محدث امام أبي تميلة يحي بن واضح الأنصاري ثقہ ہیں
[سیر 9/211] )
جب وہ مرثیہ میں اس شعر پر پہنچے کہ
و برأي النعمان كنت بصيرا
حين تبغى مقايس النعمان
مفہوم :
اور عبداللہ بن مبارک ، امام ابوحنیفہ کی فقہ سے آشنا تھے ، اس میں درک رکھتا تھا۔
جب امام ابوحنیفہ کے قیاسی مسائل پیش کئے جاتے تھے۔
یہ سننے کے بعد ابن مہدی نے ابن راہویہ کو روک دیا اور کہا کہ رک جاو ۔بے شک تم نے شعر بگاڑ دیا ہے۔اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اس کے بعد اچھے اشعار ہیں فرمایا کہ اب اس بات کو چھوڑو ۔ تم عبداللہ بن المبارک کی ابوحنیفہ سے روایت کو ابن مبارک کے مناقب میں شمار کرتے ہو ؟ حالانکہ عبداللہ بن المبارک کی عراق میں یہی ایک بھول چوک تھی اور اس کے بعد ابن مہدی کہتے ہیں
ولوددت أنه لم يرو عنه ،
وأني كنت أفتدي ذلك بعظم مالي .
اور میری شدید خواہش ہے کہ کاش عبد اللہ بن المبارک ابوحنیفہ سے روایت نہ کرتے اور اس کے بدلے میں ،میں اپنے مال کا بڑاحصہ فدیہ بھی دینے کو تیار تھا۔
یہ واقعہ صحیح ہے۔ اوراس میں کئی چیزیں قابل غور ہیں۔
نمبر ایک :
امام اسحاق بن راہویہ ، عبداللہ بن المبارک کے شہر کے ہیں ، یعنی مرو۔ ان کو بھی پتہ نہیں کہ عبد اللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ کو ترک کر دیا ہے۔ اس پر یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اسحاق بن راہویہ اس وقت نوجوان تھے حصول علم میں مشغول تھے ان کو زیادہ واقفیت نہ رہی ہوگی۔ لیکن ابو تمیلہ تو پختہ کار تھے ، اور وہ بھی عبداللہ بن المبارک کے ہی شہر کے تھے ان کو تومعلوم ہونا چاہئے تھا کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلقات اور قطع علائق کر دیا ہے۔ لیکن ان کو بھی یہ بات معلوم نہ تھی۔
دوسری بات :
محدث امام ابو تمیلہ کے بعد امام عبدالرحمن بن مہدی جن کو عبداللہ بن المبارک سے بہت محبت تھی ۔ عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ربط ضبط اور میل جول کو وہ بہت زیادہ ناپسند کرتے تھے (کیونکہ ابن مہدی سفیان ثوری رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اور سفیاں ثوری رحمہ اللہ حق بات میں بھی امام صاحب کی موافقت کو تیار نہ تھے ، تفصیل دیکھیں
ابن مہدی رحمہ اللہ کو بھی یہ ترک والی بات معلوم نہ تھی ۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک نے امام ابو حنیفہ سے قطع تعلق کر لیا ہے تو یہ ابن مہدی کو ضرور پتہ ہوتی اور وہ مرثیہ سنانے کے وقت ابن اسحاق کو ٹوکتے اور کہتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو ، ابن المبارک رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ کے اقوال سے رجوع کر لیا تھا لیکن ہم ایسا کچھ بھی نہیں دیکھتے ہیں۔
فائدہ :
واضح رہے کہ محدثین نے امام ابوحنیفہ کے مثالب میں چھوٹی اور معمولی درجہ کی باتوں کو بھی اہتمام کے ساتھ بیان کیا ہے تو کیا صرف یہ عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کا ہی واقعہ ایسا ہے جو چپ چاپ اور گمنام ہو کر رہ گا ؟ ۔
اور اس دور کے بڑے بڑے اور نامور محدثین کو اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ اور خبر ہوئی بھی تو چوتھی صدی میں جا کر کچھ لوگوں کو اس کی خبر ہوئی کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کر لیا ہے
حاصل کلام :
اگر عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کیا ہوتا تو یہ کوئی معمولی بات نہ تھی ، کیونکہ دونوں شخصیات رتبہ کے لحاظ سے بہت اعلی ہیں ، اور امیر المومنین فی الحدیث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ، اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیتے تو ، یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ، لیکن ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں ملتا ، نہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شہر مرو کے محدثین اس بارے میں کچھ جانتے تھے نہ ہی امام صاحب سے تعصب رکھنے والے بغداد ، کوفہ ، بصرہ وغیرہ کے محدثین ۔ معلوم ہوا ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو ترک کرنے والا افسانہ بعد کے زمانے میں گھڑا گیا ۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کرنا ثابت نہیں ۔
ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱ھ) کی جس روایت کی بنیاد پر امام ابن ابی حاتمؒ(م۳۲۷ھ) وغیرہ ائمہ نےکہا کہ ’’ترکہ ابن المبارک بآخرہ‘‘ ،اس خاص روایت کو ائمہ محدثین بلکہ دیگر کبار اصحاب عبد اللہ بن مبارک ؒنے جھوٹی ،مرجوح،بلکہ خود ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱ھ) نے اس روایت سے انکار کردیا ہے۔ چنانچہ ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴ھ) فرماتے ہیں کہ
قال ابو اسحاق الخلال صاحب عبد اللہ بن المبارک: بلغنی ان ابراہیم بن شماس یقول : ان عبد اللہ بن المبارک ترک ابا حنیفۃ فغمنی ذلک و انکرت،فجئت الی ابراہیم بن شماس و انا شبہ المغضب فقلت بلغنی عنک انک قلت:عبد اللہ ترک ابا حنیفۃ ،فقال معاذ اللہ ما قلت من ہذا شیئاً۔
ابو اسحاق الخلال، عبدالله بن المبارک کے شاگرد کہتے ہیں: مجھے پتہ چلا کہ ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ عبد الله بن المبارک نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تو مجھے اس سے غم ہوا اور میں نے انکار کیا، پھر میں ابراہیم بن شماس کے پاس گیا اور میں کچھ غصہ میں تھا، میں نے کہا: مجھے آپ کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ آپ کہتے ہیں : عبداللہ نے ابو حنیفہ کو چھوڑ دیا ، تو انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔
(مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری:ص۱۴۲-۱۴۳،نیز دیکھئےکشف الآثار الشریفۃ :ج۲: ص۲۵۲)☆[۱]
ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ روایت ابراہیم بن شماس ؒ(م۲۲۱ھ) کا وہم تھا،تب ہی تو انہوں نے اس سے رجوع کر لیا۔
اسی طرح صدوق،حافظ الحدیث،امام ابو محمد الحارثیؒ (م۳۴۰ھ) فرماتے ہیں کہ
قال أبو زيد عمران بن فرينام: سمعت بعض أصحابنا يذكرقال:قيل لاحمد بن مردويه إن إبراهيم بن شماس يذكر أن عبد اللہ ترك أبا حنيفة فغضب وقال: ُقـل لابراہیم:أن ثالثة وثلاثين كتاباً من كتب عبد اللہ تكذبك، فكان ّ تأول على عبد اللہ : ثم أنكر جميع ذلك لما أنكر عليه وصرفه إلى غيره۔
ابوزید عمران بن فرینام کہتے ہیں کہ میں نے ہمارے بعض ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمد بن مردویہ سے کہا گیا: ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تو وہ ناراض ہو گئے اور کہا: ابراہیم سے کہو : عبد اللہ کی کتابوں میں سے تینتیسویں کتاب تمہاری تکذیب کرتی ہے، پھر وہ عبد اللہ پر تاویل کرتے تھے، پھر جب ان پر نکیر کی گئی تو ان تمام چیزوں کا انکار کر دیا اور اسے دوسرے کی طرف پھیر دیا۔
(کشف الآثار الشریفۃ :ج۲:ص۲۵۲)
سند کی تحقیق:
(۱) ابو محمد الحارثیؒ(م۳۴۰ھ)صدوق،حافظ الحدیث ہیں،اور
(۲) ابو زید،عمران بن فرینامؒ ثقہ ہیں،جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
(۳) ’’بعض اصحابنا‘‘کی جہالت مضر نہیں،کیونکہ دیگراصحاب عبد اللہؒ نے اس روایت کی تنقید فرمائی ہے،جیساکہ گزرچکا۔
(۴) احمد بن محمد بن موسی،ابو العباس المروزی المعروف بمردویۃؒ(م۲۳۵ھ)ثقہ،حافظ الحدیث اورمکثر عن ابن المبارک ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۵:ص۷۶۴،تقریب)
لہذایہ روایت حسن ہے۔واللہ اعلم
غالباً یہی وجہ ہے کہ صدوق،حافظ ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰ھ) کہتے ہیں کہ
إن إبراهيم بن شماس كان ظاهرالعداوة لأبي حنيفة، يروي فی أمر أبي حنيفةأشياء لا تثبت ولا تصح ولا يقبل قوله وقول أمثاله في أبي حنيفة ولا في عبد اللہ ۔۔۔۔۔۔وقد كان أوقع إبراهيم بن شماس في الناس في تأويل تأوله على عبد اللہ: أن عبد اللہ ترك أبا حنيفة حتى انتصب له أصحاب عبداللہ ففسقوه وردوا عليه وكذبوه حتى أنكر ذلك ۔
یقینا ابراہیم بن شماس ابو حنیفہ سے کھلی عداوت رکھتے تھے، اور ابوحنیفہ کے بارے میں بہت سی ایسی چیز میں روایت کرتے تھے جو نہ صحیح ہیں نہ ثابت، اور ان کا اور ان جیسوں کا قول نہ ابو حنیفہ کے بارے میں مقبول ہے نہ ابن مبارک کے بارے میں ، اور ابراہیم بن شماس نے لوگوں کو ایسی تاویل میں مبتلا کر دیا تھا جو انہوں نے عبد اللہ پر کی تھی کہ عبد اللہ نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا، یہاں تک کہ عبد اللہ کے شاگرد ان کے خلاف کھڑے ہوئے ، ان کی تفسیق کی ، ان پر رد کیا، ان کی تکذیب کی یہاں تک کہ انہوں نے ان کا انکار کیا۔
(کشف الآثار:ج۱:ص۲۵۱-۲۵۲)
ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴ھ)فرماتے ہیں کہ
’’وبعض الطاعنين والحاسدين يقول: إن عبد اللہ بن المبارك ترك أقاويل أبي حنيفة وترك مسائله وترك الرواية عنه، فقال أبو عبد الله: سمعت بمكة يذكر هذا الكلام، فأخبرت الحسن بن الربيع -وكان من أصحاب عبدالله بن المبارک فقْلت هذا الكالم فقال: هؤلاءكذبوا على عبدالله، فإني سمعته قبل موته بثلاثة أيام يروي عن أبي حنيفة ويذكر مسائل أبي حنيفة، فمن أخبرك غير هذا فلاتصدقه فإنه كذاب‘‘
بعض طعن کرنے والے اور حاسدین کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن المبارک نے ابو حنیفہ کے اقوال ، ان کے مسائل اور ان سے روایت کرنا ترک کر دیا تھا، ابو عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے مکہ میں اس کلام کا تذکرہ سنا تو میں نے عبداللہ بن المبارک کے شاگرد الحسن الربیع سے اس کلام کا ذکر کر کے اس کے بارے میں جانا چاہا تو انہوں نے کہا: یہ لوگ عبد اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، میں نے ان کی وفات سے تین روز پہلے انہیں سنا وہ ابوحنیفہ سے روایت بیان کر رہے تھے اور ان کے مسائل ذکر کر رہے تھے، پس جو تمہیں اس کے علاوہ کوئی بات بتائے اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ وہ کذاب ہے
(مناقب الامام ابی حنیفۃ لابن ابی حفص بحوالہ مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری:ص۱۵۸)
لہذا جب عبد اللہ بن المبارکؒ(م۱۸۱ھ) اپنی وفات سے ’’۳‘‘ دن پہلے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰ھ) سے روایت بیان کی ہے ،ان کے اقوال ذکر کئے ہیں،تو اس سےابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۰ھ)وغیرہ کی روایت کی حیثیت ظاہر ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ
- ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱ھ)کی روایت وہم اورخطاء ہے،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ خود ابن شماسؒ (م۲۲۱ھ) نے بھی اپنی روایت سےانکار کردیاتھا۔
- معلی بن اسدؒ(م۲۱۸ھ)کی روایت بھی سند اًضعیف ہے،جیسا کہ تفصیل گزرچکی،نیز اگر سند درست بھی ہوجائے ،تو تب بھی کبار اصحاب عبد اللہ مثلاًحافظ ابو اسحاق الخلالؒ (م۲۴۱ھ)،حافظ ابو العباس مردویہؒ(م۲۳۵ھ) اور حافظ ابو علی ،الحسن بن الربیع البجلیؒ(م۲۲۰ھ) وغیرہ نےاس طرح کی روایات کا رد کردیا ہے۔
- بلکہ وفات سے ’’۳‘‘ دن سے پہلے بھی امام عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱ھ)نے امام صاحبؒ(م۱۵۰ھ)سے روایت بیان کی ہے،لہذاصحیح و راجح یہی ہے کہ امام ابن المبارکؒ(م۱۸۱ھ)،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰ھ)کو ثقہ ،احفظ الناس اور امام المسلمین سمجھتے تھے،یہاں تک آپؒ کی وفات ہوگئی۔واللہ اعلم
اور اللہ تعالی ہم سے کو اپنے اپنے وقت پر کامل ایمان سے خاتمہ نصیب فرمائیں۔۔آمین۔
(۱) مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری میں اگرچہ اس روایت کے شروع میں ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴ھ)کا نام لکھا نہیں ہے،لیکن اسی کتاب کے شروع میں صدوق،امام شمس الآئمہ ابو الفضل،بکر بن محمد الزرنجریؒ(م۵۱۲ھ) نے ابو عبد اللہ بن ابی حفصؒ(م۲۶۴ھ) اور ان کی کتاب مناقب ابی حنیفۃ کا نہ صرف ذکر کیا ،بلکہ اس کتاب کی مکمل سند بھی بیان کردی ہے (ص۱۰۷- ۱۰۸) اور اس کتاب میں اکثر جگہ ان ہی کی کتاب سےاستفادہ بھی کیا ہے،نیز اس باب[روایۃ بعض الآئمۃ عن ابی حنیفۃ وقولہم فیہ] کے شروع میں بھی اکثر جگہ انہوں نے امام ابوعبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴ھ) سےیااس سند میں موجود ان کے شیخ کے حوالےسے ہی ائمہ کے اقوال ذکر کئے ہے، (مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری : ص ۱۳۰،نیز دیکھئے ۱۳۴،۱۳۵)جس کی واضح مثال یہی ابو اسحاق الخلالؒ(م۲۴۱ھ) روایت ہے ،جس میں صاحب کتاب،امام ابو الفضل، الزرنجریؒ (م۵۱۲ھ) نے یہ روایت مناقب ابی حنیفۃ لابن ابی حفص سے ہی ذکر کی ہے ،مگر ان کا نام نہیں لیا،بلکہ ان کے شیخ ابو اسحاق الخلالؒ(م۲۴۱ھ) کے حوالے سے روایت نقل کردی ہے ۔لیکن امام ابو محمد الحارثی ؒ (م۳۴۰ھ) کی روایت میں امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ (م۲۶۴ھ) کاذکر ہے،دیکھئےکشف الآثار الشریفۃ :ج۲:ص۲۵۲۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام صاحب کو کبھی بھی ترک نہیں کیا ،
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں