یزید بن خصیفہ اور محمد بن یوسف کا موازنہ - یعنی تراویح کی روایت بیان کرنے والے یزید بن خصیفہ اور محمد بن یوسف میں کون زیادہ بہتر ہے
یزید بن خصیفہ اور محمد بن یوسف کا موازنہ - یعنی تراویح کی روایت بیان کرنے والے یزید بن خصیفہ اور محمد بن یوسف میں کون زیادہ بہتر ہے
پروفیسر ابو معاویہ حفظہ اللہ
یزید بن خصیفہ کمزور حافظہ والا - دوسری دلیل کا جواب
کفایت اللہ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ 197 پر لکھتے ہیں:
"محمد بن یوسف رحمہ اللہ کی کئی ایک محدثین نے اعلیٰ توثیق کی ہے" پھر آگے امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے "ثبت" کے الفاظ کے ساتھ توثیق نقل کرتے ہیں۔
جواب: کفایت اللہ صاحب نے یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے "ثبت" نقل کیا ہے، یہ بتادیں کہ یہ اعلیٰ درجے کی توثیقی کلمات ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر تاکیدی کلمات کی بحث چل رہی ہے۔ کفایت اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ یہ دعویٰ انہوں نے کیا ہے کہ "محمد بن یوسف رحمہ اللہ کی کئی ایک محدثین نے اعلیٰ توثیق کی ہے" محض عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کیا ہے۔ ہمارا یہ چیلنج ہے کہ وہ کسی ایک متقدم محدث یا امام اسماء الرجال سے صحیح سند محمد بن یوسف رحمہ اللہ کے تعلق سے تاکیدی کلمات کے ساتھ توثیق ثابت کریں۔
مراتب جرح و تعدیل میں توثیق اور جروحات کے الگ الگ طبقات ہیں اور ان میں مختلف کلمات آتے ہیں۔ اگر کفایت اللہ صاحب اپنے ہی بڑوں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تو واضح ہوجاتا۔ کفایت اللہ صاحب کو بھی اس بات کا علم ہوگا کہ "ثبت" ایک توثیق کا کلمہ ہے لیکن تاکیدی کلمات کا نہیں، لیکن پتہ نہیں کیوں اپنی نفس پرستی اور اپنی مذہب کی محبت میں اصول حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے باطل اور مردود باتیں لکھی ہیں۔
مراتب تعدیل میں سب سے پہلے طبقہ جو سب سے اعلیٰ ہے اس میں وہ راوی ہوتے ہیں جن کی توثیق میں بذریعہ اسم تفصیل یا صیغہ مبالغہ جیسے کہ "اَوْثَقُ النَّاس، اَثْبَتُ النَّاس" وغیرہ کا لفظ ہو۔
دوسرے طبقے میں وہ راوی ہوتے ہیں جن کے تعلق سے تاکیدی کلمات استعمال ہوتے ہیں، مثال کے طور پر "ثِقَةٌ حَافِظ، ثِقَةٌ ثَبْت، ثِقَةٌ مَأْمُون، ثِقَةٌ ثِقَة، ثِقَةٌ حُجَّة" وغیرہ۔
تیسرا درجہ آتا ہے جس میں راوی کی ثقاہت کو بغیر تاکید کے ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً کے طور پر "ثِقَة، ثَبْت، مُتْقِن" وغیرہ۔ اسی طرح اور بھی طبقات ہیں 6 تک۔ لیکن ہم تین پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس تیسرے طبقے "ثبت" میں نقل کیا ہے جو کہ غیر تاکیدی کلمات کا طبقہ ہے۔ [تقریب التہذیب، صفحہ 82، تحقیق شیخ محمد عوامہ]
ڈاکٹر محمود الطحان [أصول التخریج ودراسة الأسانید، صفحہ 163]
الشریف حاتم بن عارف العونی [خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعدیل، صفحہ 35]
ڈاکٹر زہیر عثمان علی نور [ابن عدی ومنهجه فی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال، جلد 2، صفحہ 140]
محمد بن علی بن آدم بن موسی اللولوئی [قرة العين المحتاج فی شرح مقدمة صحیح الامام مسلم بن الحجاج، صفحہ 330]
ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحاق نے کتاب جرح و تعدیل صفحہ 223 پر "ثبت" کو تیسرے طبقے کی توثیق میں شمار کیا ہے جو کہ تاکیدی کلمات والی توثیق نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر عنوان باندھتے ہیں وہ الفاظ جو بغیر تاکید کے ہوں اس کے تحت "ثبت" کا ذکر کرتے ہیں۔ [التحدیث فی علوم الحدیث، صفحہ 282]
ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری [فن اسماء الرجال، صفحہ 74]
اس پوری تفصیل سے واضح ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کا محمد بن یوسف رحمہ اللہ کو "ثبت" کہنا ایک اعلیٰ درجے کی توثیق تو ہے لیکن کوئی تاکیدی یا تکراری توثیقی کلمہ نہیں ہے۔
ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں صفحہ 198 پر "حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ناقدین کے اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہا ہے (تقریب رقم 7738) جب کہ محمد بن یوسف کو ثقہ ثبت کہا ہے (تقریب رقم 6414)"
چلیں ہم دیکھتے ہیں کہ محمد بن یوسف کو کس بنیاد پر سنابلی صاحب ثقہ ثبت ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں :-
1. امام یحییٰ بن سعید القطان کا محمد بن یوسف رحمہ اللہ کو "ثبت" کہنا۔
2. امام ابن معین رحمہ اللہ سے امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کے دوسرا قول نقل کرنا کہ "میں نے ثقاہت میں محمد بن یوسف کے ہم پلہ کسی کو نہیں دیکھا"
جواب: جو پہلا قول کفایت اللہ صاحب نے نقل کیا ہے اس کا تفصیلی جواب ہم نے اوپر دے دیا جس سے واضح ہے کہ "ثبت" نہ تو تاکیدی اور نہ ہی تکراری توثیقی کلمات میں سے ہے۔
دوسرا قول بھی کفایت اللہ صاحب کے اصول کی بنیاد پر ثابت نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنی اسی تراویح والی کتاب کے صفحہ 202 پر یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے امام ابن معین رحمہ اللہ کے "ثِقَةٌ حُجَّة" کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں "عرض ہے کہ ابن معین سے یہ قول ثابت نہیں، یہ قول الکمال مقدسی ج 9 صفحہ 405 میں بے سند و بے حوالہ مذکور ہے اور وہیں سے دیگر کتاب والوں نے بھی نقل کیا، مثلاً تہذیب الکمال للمزی ج32 صفحہ 173"
اوپر پیش کیا ہوا دوسرا قول بھی تہذیب الکمال للمزی ج 27 صفحہ 50 پر بے سند و بے حوالہ نقل ہے تو پھر کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق یہ بھی ثابت نہیں ہے۔
کفایت اللہ صاحب پر تعجب ہوتا ہے اور رشک بھی ہوتا ہے کتنی ڈھٹائی سے اپنے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں چار صفحے آگے 198 پر ایک بے سند اور بے حوالہ قول "امام ابن معین رحمہ اللہ سے امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کے دوسرا قول نقل کرنا کہ میں ثقاہت میں محمد بن یوسف کے ہم پلہ کسی کو نہیں دیکھا [تہذیب الکمال ج27 صفحہ 50]" سے پیش کرتے ہیں امام ابن حجر کے فیصلے کو محمد بن یوسف رحمہ اللہ کے تعلق سے ثابت کرنے کے لیے لیکن جب بات یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کی آئی تو اس کا رد کر دیا کہ یہ قول ثابت نہیں یہ کہہ کر کہ بے سند اور بے حوالہ ہے۔ اللہ ایسے دوغلے پن سے بچائے اور اصول حدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا کبھی ہمارے دشمن کو بھی نہ بنائے۔
اس بحث سے پتہ چلتا ہے محمد بن یوسف رحمہ اللہ کے تعلق سے اصول حدیث اور خود کفایت اللہ صاحب کے اصول کے لحاظ سے بھی کوئی تاکیدی یا تکراری توثیق ثابت نہیں ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کا ان کے تعلق سے خلاصہ لکھنا کہ وہ "ثِقَةٌ ثَبْت" ہے کہاں درست ہو سکتا ہے۔
کفایت اللہ صاحب سے ہم یہ بات ایک دم پختگی سے کہتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کوئی دھاندلی نہیں بلکہ دلیل سے ہم ثابت کر رہے ہیں کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے محمد بن یوسف رحمہ اللہ کو ثقہ ثبت کہنے میں آپ کے اصول کے مطابق یہ کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ مہربانی کرکے اصول حدیث میں اپنے نفس کی اتباع کرنا چھوڑیں اور اس کا کھیل بنانا چھوڑ دیں۔
کفایت اللہ صاحب کے امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول صدوق مقل کے باطل تاویل کا جواب -
امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمد بن یوسف رحمہ اللہ کے بارے میں کہا:-
"صَدُوقٌ مُقِلّ" یہ صدوق اور قلیل الحدیث ہے۔
کفایت اللہ صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں صفحہ 215 پر جس کا خلاصہ ہے "محمد بن یوسف رحمہ اللہ کو صدوق اس لیے کہا کیونکہ وہ قلیل الحدیث ہے اور اس کے بعد امام ابن معین رحمہ اللہ کی مثال دے کر سمجھتے ہیں کہ ابن معین رحمہ اللہ تو قلیل الحدیث راوی کے لیے "لَيْسَ بِشَيْء" کا لفظ استعمال کرتے تھے۔"
جواب: کفایت اللہ صاحب اپنی عادت سے مجبور ہیں جس کا مشاہدہ ان کی کتابوں میں جگہ جگہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے عجیب اور خود ساختہ اصول گھڑتے ہیں۔ مزید ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں جو کسی محدث نے بیان نہیں کی ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ کی مثال اس مقام پر پیش کرنا اور امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول پر قیاس محض دھوکہ ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا قول "لَيْسَ بِشَيْء" سے قلیل الحدیث لینا پر محدثین نے وضاحت کی ہے جیسے کہ شیخ عبد العزیز بن عبد اللطیف الطیفی نے اپنی کتاب "ضوابط الجرح والتعديل" کے صفحہ 167 پر بحوالہ "هدي الساري" صفحہ 412، اسی طرح ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحاق کتاب "جرح و تعديل" صفحہ 233 پر "فتح المغیث" جلد 2 صفحہ 132 کے حوالے سے لکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب آگے یہ بھی لکھتے ہیں اس لفظ کے اور بھی کئی معنی ہیں امام ابن معین رحمہ اللہ کے نزدیک جس کا پتہ ایسے کلمات کا تتبع کرنے سے پتہ چلتا ہے۔ متعصب غیر مقلد عالم محمد ابراہیم بن بشیر الحسینی بھی ایسی بات نقل کرتے ہیں اپنی کتاب "جرح و تعديل کے اصول و ضوابط" صفحہ 62/63۔
ان دلائل کی روشنی سے معلوم چلا کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کے قول سے محدثین نے وضاحت کر رکھی ہے۔ لیکن کفایت اللہ صاحب جو خود ساختہ بات کر رہے ہیں امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعلق سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہم کفایت اللہ صاحب سے گزارش بلکہ چیلنج کرتے ہیں کہ جو بات وہ کر رہے ہیں اور جو اشارہ انہیں دکھ رہا ہے اس تعلق سے کسی ایک مستند اور معتبر محدث یہ بات دکھا دے۔ انشاء اللہ قیامت آجائے گی لیکن وہ یہ نہیں دکھا پائیں گے۔
جواب نمبر 2:امام ذہبی رحمہ اللہ کا ثقہ راویوں کے ساتھ بھی مقل کے لفظ کا استعمال کرنا۔
کفایت اللہ صاحب صفحہ 215 پر لکھتے ہیں "امام ذہبی رحمہ اللہ نے محض قلیل الحدیث کی وجہ سے صدوق کہا ہے۔"
کفایت اللہ صاحب کی بات مردود ہے، پہلی بات اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، دوسری طرف جب ہم امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب "الکاشف" دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ایسے راوی بھی موجود ہیں جنہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے اور ساتھ میں مقل یعنی قلیل الحدیث بھی کہا ہے۔
1. طلق بن معاویہ کے بارے میں کہا: ثِقَةٌ مُقِل [الكاشف رقم 2489]
2. موسی بن انس بن مالک کے بارے میں لکھا: ثِقَةٌ مُقِلّ [الكاشف رقم 5679]
اس واضح دلیل کے بعد کچھ اور واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کفایت اللہ صاحب کا دھوکا واضح ہو جاتا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کا یزید بن خصیفہ کو میزان میں ذکر کرنے کا جواب ہم نے پہلے ہی دے دیا ہے اور امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کی توثیق کا جواب ہم نے یزید بن خصیفہ ضعیف حفظ کی دوسری دلیل کے عنوان کے ذیل میں جواب دے دیا ہے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کے ثقہ مامون کہنے پر اعتراض کا جواب
کفایت اللہ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ 216 پر لکھتے ہیں "ایک صاحب نے لکھا ہے: حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابن خصیفہ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ ہے"۔ عرض ہے کہ مسئلہ زیر بحث میں حفظ و ضبط کے لحاظ سے موازنہ کی بات چل رہی ہے کہ کون اعلیٰ درجے و ضبط ہے اور کون ادنیٰ درجے کا ضبط ہے۔ جبکہ "مامون" کے لفظ سے دیانت وغیرہ کی گواہی دی جاتی ہے نہ کہ ضبط کی، چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابو الزناد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں سینکڑوں لوگوں کو پایا جو مامون تھے، لیکن ان سے حدیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی، کیونکہ بقول اہل علم وہ اس قابل نہ تھے"۔
اب اگر امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ثقہ کے ساتھ انہیں "مامون" کہہ دیا تو یہ صرف دیانت کا بیان ہے۔ بھلا اس سے حفظ و ضبط کا پلڑا کیسے بھاری کیا جا سکتا ہے؟"
جواب: کفایت اللہ صاحب پتہ نہیں کس موازنہ کی بات کر رہے ہیں کیونکہ محمد بن یوسف کے تعلق سے ایک بھی تاکید والے کلمات صحیح سند سے کسی ایک محدث سے بھی ثابت نہیں معلوم نہیں کس بنیاد پر کفایت اللہ صاحب اتنے بڑے بڑے دعوے کر دیتے ہیں جس کی تحقیق کی دنیا میں کوئی حقیقت ہی نہیں۔ کفایت اللہ صاحب نے اپنا پورا مقدمہ ایسی بنیاد پر رکھا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
جب محمد بن یوسف کے تعلق سے ایک بھی تاکیدی والے کلمات ثابت نہیں ہیں تو موازنہ کس بات کا، وہیں دوسری طرف یزید بن خصیفہ کے تعلق سے ابن سعد رحمہ اللہ، امام ابن معین رحمہ اللہ یا ابن ابی مریم رحمہ اللہ، ابن عبد البر مالکی، امام یحییٰ بن سعید الفاسی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے تاکید والے کلمات ثابت ہیں بلکہ خود غیر مقلد کے علماء علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ، حمزہ احمد الزین اور شیخ وصی اللہ عباس نے بھی تاکید والے کلمات سے خود توثیق کی ہے۔
ایک طرف محمد بن یوسف رحمہ اللہ جیسا راوی ہے جس کے تعلق سے کوئی صحیح سند سے تاکیدی کلمات ثابت نہیں اور دوسری طرف یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ جن کے تعلق سے بہت سے ائمہ کی گواہی موجود ہے تاکیدی کلمات کی، کوئی کم عقل انسان ہی ایسا راویوں کا موازنہ کر سکتا جب موازنہ کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں ہے۔
کیا ثِقَةٌ مَأْمُونٌ کے کلمات سے محض دیانتداری میں اعلیٰ ہونا ثابت ہوتا ہے؟
یہ بات درست ہے ثِقَةٌ مَأْمُونٌ کا لفظ راوی کی اعلیٰ درجے کی عدالت کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہ صرف آدھا سچ ہے جیسے کہ کفایت اللہ صاحب کی عادت ہے کہ محض اتنی ہی بات ثابت کی جائے جس سے ان کا موقف ثابت ہوتا اور ان کی بات وزن ثابت ہو چاہے انہیں انصاف کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹنا پڑے۔
ثِقَةٌ مَأْمُونٌ کا لفظ محض راوی کی اعلیٰ درجے کی عدالت کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ راوی کے اعلیٰ درجے کے حفظ و اتقان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ ہم موجودہ دور کے مشہور سلفی عالم جن کا ذکر کفایت اللہ صاحب بھی اپنی کتاب میں کرتے رہتے ہیں انہی کی کتاب سے عبارت نقل کردیتے ہیں:
شیخ ابو حسین مصطفی بن اسماعیل فرماتے ہیں:
"حضرات محدثین کا قول ("فلاں ثِقَةٌ مَأْمُونٌ ہے") یہ لفظ اعلیٰ درجے کی تعریف کا ہے، اعلیٰ درجے کی تعریف یا تو اتقان میں یا دینداری میں۔ اگر تعریف اتقان کی ہو تو اس لفظ کا مطلب ہوگا "راوی ثِقَةٌ مُتْقِنٌ ہے" اور اگر تعریف دیانتداری کی ہے تو مطلب ہوگا "راوی ثقہ ہے، عبادت گزار ہے، پرہیزگار ہے، بہت زیادہ سچا"" [شفاء العلل، صفحہ 333]
اوپر پیش کی گئی عبارت سے واضح ہوتا ہے ثِقَةٌ مَأْمُونٌ کے لفظ حافظے کی اعلیٰ درجے کی توثیق کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے جو لفظ استعمال کیے ہیں یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے وہ اعلیٰ درجے کے حفظ و اتقان کے تعلق سے ہی ہیں کیونکہ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے محض اگر صرف "ثِقَةٌ مَأْمُونٌ" کے لفظ استعمال کیے ہوتے تو گنجائش تھی کہ کوئی کہتا یہ دیانتداری کے لحاظ سے ہے لیکن انہوں نے مکمل لفظ جو نقل کیے وہ ہے "ثِقَةً مَأْمُونًا مُحَدِّثًا مُحْسِنًا" جس سے پتہ چلتا ہے حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کی تعریف اعلیٰ درجے کی حفظ و اتقان کی وجہ سے کی ہے۔
ثِقَةٌ مَأْمُونٌ کے تاکیدی کلمات ہونے کی مزید دلیل:
1. امام نسائی رحمہ اللہ کے نزدیک ثِقَةٌ مَأْمُونٌ اعلیٰ درجے کے توثیقی کلمات ہیں۔[منهج الإمام النسائي في الجرح والتعديل، صفحہ 1006]
2. غیر مقلد عالم ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحاق کتاب جرح و تعديل صفحہ 223
3. شیخ سید عبد المجید الغوری [معجم ألفاظ الجرح والتعدیل، صفحہ 87]
4. ڈاکٹر محمود الطحان [أصول التخریج ودراسة الأسانید، صفحہ 163]
5. محمد بن احمد بن المسنّی الانسی [مصباح الأريب في تقريب مقدمة، صفحہ 13]
6. امام عجلی اور شیخ عبد العلیم عبد العظیم البستاوی [کتاب الثقات العجلی، صفحہ 102/104]
7. ڈاکٹر تقی الدین ندوی المظاہری [فن أسماء الرجال]
8. ڈاکٹر زہیر عثمان علی نور [ابن عدی ومنهجه فی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال، جلد 2، صفحہ 140]
9. محمد بن علی بن آدم بن موسی اللولوئی [قرة العين المحتاج فی شرح مقدمة صحیح الامام مسلم بن الحجاج، صفحہ 330]
10. معاذ بن بلال العوفی [أبو داود السجستانی وآثاره في علم الحديث، صفحہ 467]
11. اکرم الله امداد الحق [الإمام علي بن المديني ومنهجه في نقاد الرجال، صفحہ 603]
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ سے محمد بن یوسف رحمہ اللہ اور یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کے حکم لگانے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ محمد بن یوسف رحمہ اللہ جن کی کسی محدث نے تاکیدی کلمات کے ساتھ توثیق نہیں کی انکا درجہ ہوا بڑھاتے ہوئے انہیں ثقہ ثبت کہہ دیا. جبکہ یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ جن کی کئی محدثین نے تاکیدی کلمات کے ساتھ توثیق کی ہے انکا درجہ گھٹاتے ہوئے انہیں صرف ثقہ کہا. جبکہ یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کا درجہ ثقہ ثبت کا ہے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں