مصنف عبد الرزاق کی 21 رکعت والی تراویح کی روایت پر اعتراض کا جواب
پروفیسر ابو معاویہ حفظہ اللہ
پہلا اعتراض: کفایت اللہ صاحب کا مصنف عبدالرزاق کی 21 رکعت والی حدیث پر اعتراض
اردو ترجمہ:
کفایت اللہ صاحب مصنف عبدالرزاق کی 21 رکعت والی حدیث پر اعتراض کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ "21 رکعت کے الفاظ نامعلوم لوگوں یعنی 'وغیرہ' کے ہیں، نہ کہ داؤد بن قیس کے۔ کیونکہ داؤد بن قیس سے صحیح سند سے جو ثابت ہے، اس میں تعداد کا ذکر نہیں ہے، بلکہ رسّیوں سے سہارا لینے اور اختتام کے وقت کا ذکر ہے، جیسا کہ کتاب الصیام فریابی کی حدیث نمبر 175 میں ہے۔"
جواب: -
کفایت اللہ صاحب کا یہ کہنا کہ داؤد بن قیس رحمہ اللہ سے صحیح سند سے صرف رسّیوں سے سہارا لینے اور اختتام کے وقت کا ذکر ہی ثابت ہے، بالکل درست نہیں ہے۔ کیونکہ مصنف عبدالرزاق کی وہ حدیث جسے داؤد بن قیس نے روایت کیا ہے محمد بن یوسف سے، بالکل صحیح حدیث ہے۔ اسے کسی محدث نے ضعیف نہیں کہا سوائے موجودہ دور کے غیر مقلدین کے، بلکہ خود مشہور سلفی علماء نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ تعجب ہوتا ہے، خود کہتے تو ہیں اہل حدیث لیکن اصول حدیث کو مکمل طور پر ایک طرف پر رکھ دیتے ہیں جب مخالف کی دلیل کا جواب دینا ہوتا ہے۔ انشاءاللہ ہم مکمل جائزہ لیں گے کہ کفایت اللہ صاحب کے فضول اور بے جا اعتراض کا جس کا نہ کوئی ہاتھ ہے نہ کوئی سر۔
پہلے ہم کچھ محدثین کے نام ذکر کردیتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو صحیح مانا اور سمجھا ہے۔
مصنف عبدالرزاق کی 21 رکعت والی حدیث کو صحیح کہنے والے:
1. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی مشہور بخاری شریف کی شرح فتح الباری کے جلد 8 صفحہ 549 تحقیق شعیب ارناؤط/جلد 4 صفحہ 253 تحقیق بن باز میں صحیح قرار دیا ہے۔
کفایت اللہ صاحب خود لکھتے ہیں فتح الباری کا حوالہ دیتے ہوئے کئی مقامات پر لکھتے ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ اگر حدیث نقل کرنے کے بعد سکوت کریں تو وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا کم از کم حسن ہوتی ہے۔ [ایام قربانی اور صحابہ صفحہ 28، انوار البدر صفحہ 229 تا 230، تیسرا ایڈیشن]
2. شیخ شعیب الارنؤوط نے حدیث کی سند کو قوی کہا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء تحقیق الارنؤوط جلد 1 صفحہ 401 حاشیہ نمبر 1]
3. مشہور سلفی عالم شیخ مصطفی العدوی نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [بحث فی عدد رکعات قیام اللیل صفحہ 39]
4. مشہور سلفی عالم شیخ عبداللہ الدویش کہتے ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں، صحیحین کے رجال ہیں۔ [تنبیہ القاری لتقویۃ ما ضعف الالبانی صفحہ 47]
5. مشہور سلفی عالم شیخ سلمان العودہ کہتے ہیں مصنف عبدالرزاق کی 21 رکعت والی حدیث کی سند صحیح ہے۔ [دروس رمضان وکفۃ الصیام صفحہ 46]
اب اس کے علاوہ جو داؤد بن قیس سے ثابت ہے اس میں تعداد کا ذکر نہیں، اب اس بنیاد پر یہ کہنا کہ داؤد بن قیس سے تعداد والی روایت ثابت نہیں درست نہیں ہے، کیونکہ داؤد بن قیس اکیلے ایسے راوی نہیں ہیں جنہوں نے اپنے استاد محمد بن یوسف سے بغیر تعداد کی روایت نقل کی ہے، بلکہ محمد بن یوسف کے شاگردوں کی فہرست ہے جو بغیر تعداد کے بھی حدیث نقل کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ بغیر تعداد اور تعداد دونوں کے ساتھ بھی روایت کرتے ہیں الگ الگ مقام پر۔
محمد بن یوسف کے شاگرد جو بغیر تعداد رکعت کے بھی حدیث نقل کرتے ہیں:
1. امام مالک بن انس
2. عبداللہ بن عمر
3. اسماء بن زید
4. ابو زکیر
5. داؤد بن قیس
امام مالک بن انس، عبداللہ بن عمر، اسماء بن زید کی روایت:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوسُفَ، حَدَّثَهُمْ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «جَمَعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، فَكَانَا يَقُومَانِ فِي الرَّكْعَةِ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ، حَتَّى إِنَّ النَّاسَ لَيَعْتَمِدُونَ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَيَتَنَوَّطُ أَحَدُهُمْ بِالْحَبَلِ الْمَرْبُوطِ بِالسَّقْفِ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَكُنَّا نَخْرُجُ إِذَا فَرَغْنَا وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى بُزُوغِ الْفَجْرِ»...
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ مالک اور عبداللہ بن عمر اور اسماء بن زید نے بیان کیا، یہ کہتے ہیں کہ محمد بن یوسف نے ان سے بیان کیا وہ سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں، سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کیا چنانچہ یہ دونوں حضرات قرآن کی مئین (وہ سورتیں جو 100 سے زیادہ آیات پر مشتمل ہیں) ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ لمبی قیام کی وجہ سے لوگ عصا کا سہارا لے لیتے، اور کوئی چھت سے بندھی ہوئی رسی سے خود کو متعلق کر لیتا (باندھ لیتا) اور جب ہم فارغ ہو کر نکلتے تو ہم صبح طلوع ہونے کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔ [تاریخ مدینہ ابن شیبہ جلد 2 صفحہ 716]
ابو زکیر کی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو ذُكَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ يُوسُفَ الْأَعْرَجَ، يُحَدِّثُ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: " جَاءَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً مِنْ لَيَالِي رَمَضَانَ إِلَى مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ بِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ وَمَعَهُ النَّفَرُ فَقَالَ [ص:714]: لَوِ اجْتَمَعْتُمْ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ كَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ جَاءَ مِنَ الْعَالِيَةِ وَقَدِ اجْتَمَعُوا عَلَيْهِ وَاتَّفَقُوا فَقَالَ: «نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يُصَلُّونَ، وَكَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ أَوَّلَ اللَّيْلِ وَيَرْقُدُونَ آخِرَهُ»...
ابو زکیر ہم سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یوسف الاعرج کو سائب بن یزید کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک رات مسجد نبوی میں تشریف لائے صورت حال یہ تھی کہ لوگ بکھرے ہوئے تھے، کوئی اکیلے نماز پڑھ رہا تھا تو کوئی کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ پڑھا رہے تھے، تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر آپ حضرات کسی ایک قاری پر جمع ہو جاتے تو زیادہ اچھا ہوتا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا، چنانچہ لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر سب کو جمع کر دیا، پھر کچھ دن بعد آپ "العالیہ" سے آئے تو لوگ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر سب جمع تھے اور ان پر سب متفق تھے۔ تو آپ نے فرمایا: یہ بڑی اچھی بدعت ہے، اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اس حصے سے افضل ہے جس میں یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، اور لوگ رات کے شروع میں نماز پڑھتے تھے اور رات کے آخر میں سو جاتے تھے۔[تاریخ مدینہ ابن شیبہ جلد 2 صفحہ 713]
اب اس سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن یوسف خود اس حدیث کو کبھی تعداد رکعت کے ساتھ بیان کرتے تھے اور کبھی بغیر تعداد کے۔ اس سے کہیں ثابت نہیں ہوتا ہے کہ داؤد بن قیس نے صرف بغیر تعداد رکعت والی حدیث ہی روایت کی۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ داؤد بن قیس کی حدیث جس میں 21 رکعت کا ذکر آیا ہے اسے محدثین نے صحیح مانا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ثابت ہے کہ ان کے استاد محمد بن یوسف کی عادت تھی کہ وہ کبھی تعداد رکعت کے ساتھ بیان کرتے تھے اور کبھی بغیر تعداد کے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے صرف چالاکی اور دھوکہ بازی سے کام لیا ہے مزید یہ کہ کفایت اللہ صاحب کو بہت اچھے سے پتہ رہے گا کہ ان کا یہ جواب کسی طرح انہیں نفع نہیں پہنچائے گا اور ان کی بات تب ہی مانی جائے گی جب وہ مصنف عبدالرزاق کی حدیث کو ضعیف ثابت کریں جو کہ ممکن نہیں تھا کیونکہ ان حدیث کا ایک ایک راوی ثقہ اور صحیحین کا راوی ہے۔ دونوں حدیث اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔
اس لیے اس اعتراض کے بعد انہوں نے دوسرے اعتراض کرنے چالو کر دیے جس میں امام عبدالرزاق اور امام اسحاق بن ابراہیم الدبری بلکہ کفایت اللہ صاحب اتنے اندھے ہوگئے اس حدیث کا رد کرنے میں کہ پوری مصنف عبدالرزاق پر سوال کھڑا کردیا جانے انجانے میں جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
کفایت اللہ صاحب کا امام عبدالرزاق پر بہتان :-
کفایت اللہ صاحب صفحہ 223 پر لکھتے ہیں: "ظاہر ہے کہ یہ اضافی باتیں اس نامعلوم شخص ہی کے متن کا حصہ ہیں جن کا نام امام عبدالرزاق نے نہیں بتایا ہے۔ لہٰذا اس نامعلوم شخص کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔ یاد رہے کہ یہ طرز عمل یعنی دو طریق سے مختلف الفاظ کو یکجا (ایک ساتھ) کرکے ایک ہی سیاق میں بیان کرنا اہل فن کے یہاں نہ صرف معیوب بات ہے، بلکہ بکثرت ایسا کرنا باعث جہل بھی ہے، جیسا کہ ماقبل میں بتایا گیا ہے کہ واقدی پر اسی وجہ سے بھی جرح کی گئی ہے۔ چونکہ امام عبدالرزاق سے یہ بکثرت ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس طرح کی ایک دو غلطی معاف ہے، مگر جس روایت میں یہ غلطی ثابت ہوگئی وہ روایت اس سیاق میں صحیح نہ ہوگی۔"
جواب :-
اوپر بحث میں ہم نے ثابت کیا ہے کہ 21 رکعت کے الفاظ "داؤد بن قیس" سے ثابت ہے ساتھ ہی ساتھ یہ "وغیرہ" سے بھی ثابت ہے جسے کفایت اللہ سنابلی صاحب بھی مانتے ہیں اور جس دلیل کی باطل تاویل کرکے کفایت اللہ صاحب نے اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی باطل کوشش کی اس کا جواب بھی ہم نے دے دیا ہے کہ اس روایت کا مرکزی راوی محمد بن یوسف رحمہ اللہ خود اس حدیث کو کبھی تعداد اور کبھی بغیر تعداد رکعت کے ذکر کرتے ہیں اور محدثین اور سلفی علماء نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے اور سند کی۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی یہ بات ذرا بھی درست نہیں ہے کہ 21 رکعت کو "نامعلوم" لوگوں نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اصل میں اس حدیث کو محمد بن یوسف رحمہ اللہ نے "داؤد بن قیس اور دوسرے لوگوں نے" روایت کیا ہے جیسے کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے بلکہ کفایت اللہ صاحب کو اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کسی محدثین کا حوالہ دینا چاہیے تھا لیکن وہ اپنے خود ساختہ دعوے جس سے انہوں نے خود پیدا کیا اس پر کسی محدثین کی دلیل نہیں کیونکہ وہ اس سے قاصر تھے۔
کفایت اللہ سنابلی صاحب کا امام عبدالرزاق پر الزام کے تعلق سے صرف یہ کہنا چاہیں گے کہ "اسلامی تاریخ میں سے ایک محدث صرف ایک محدث دکھا دے اپنے اس دعوے کے سپورٹ میں"۔ ایک عظیم محدث جس کی ثقاہت ایک دم واضح ہے اور کسی محدث نے اس طرح کی معیوب بات نہیں کی اور یہ سب اس لیے کی کیونکہ یہ حدیث کفایت اللہ صاحب کے موقف کے خلاف ہے اتنا بغض اور نفرت۔ یہ صرف ایک متعصب اور ہٹ دھرمی پر اتارو شخص ہی کر سکتا ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں اللہ کفایت اللہ سنابلی صاحب کو توبہ کی توفیق دے۔
اسحاق بن ابراہیم الدبری رحمہ اللہ عن امام عبدالرزاق والے طریق پر اعتراض کی حقیقت :-
کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں: "اسحاق بن ابراہیم الدبری عن عبدالرزاق کے طریق میں ضعیف ہے۔ مصنف عبدالرزاق کے مطبوعہ نسخے میں مذکورہ روایت کو امام عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم الدبری نے نقل کیا ہے اور اس طریق سے عبدالرزاق کی مرویات پر اہل فن نے کلام کیا ہے۔ اسحاق دبری نے امام عبدالرزاق کے آخر میں سنا ہے اور آخر میں امام عبدالرزاق رحمہ اللہ مختلط ہوگئے تھے۔ لہٰذا جب امام عبدالرزاق آخر میں مختلط ہوگئے تھے تو جن لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیر تحقیق روایت کو ان سے اسحاق الدبری نے روایت کیا جنہوں نے امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔"
جواب :-
کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس مقام پر دجل اور دھوکے سے کام لیا ہے یعنی دھوکہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسحاق الدبری عن عبدالرزاق کی تمام سند میں محدثین کا کلام ہے بلکہ یہ بات ایک دم غلط ہے۔ محدثین نے اس اسحاق الدبری عن عبدالرزاق کی سند میں تخصیص کی ہے۔ محدثین نے یہ بات واضح طور پر فرمائی ہے کہ اسحاق الدبری عن عبدالرزاق کی سند سے پائی جانے والی منکر حدیثیں وہ غیر تصانیف یعنی مصنف عبدالرزاق کے علاوہ کی حدیثوں میں ہے نہ کہ مصنف عبدالرزاق کی حدیثوں میں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
امام اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان سے ان کے نابینا ہونے کے بعد سنا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے اور جو ان کی کتابوں میں ہے وہ صحیح ہے جو ان کی کتابوں میں نہیں ان احادیث کی تلقین ان کے سامنے کی جاتی تھی اور وہ اس تلقین کو قبول کرتے تھے۔ [ہدی الساری مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری ابن حجر رحمہ اللہ تحقیق ارناؤط صفحہ 411]
امام ابن صلاح کا موقف:
قال ابن الصلاح: وقد وجدت فيما روى الدَّبَرِيّ، عَن عَبد الرزاق أحاديث أستنكرها جدا فأحلت أمرها على الدَّبَرِيّ لأن سماعه منه متأخر جدا والمناكير التي تقع في حديث الدَّبَرِيّ إنما سببها أنه سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطه فما يوجد من حديث الدَّبَرِيّ، عَن عَبد الرزاق في مصنفات عبد الرزاق فلا يلحق الدَّبَرِيّ منه تبعة إلا إن صحف أو حرف وإنما الكلام في الأحاديث التي عنده في غير التصانيف فهي التي فيها المناكير وذلك لأجل سماعه منه في حالة الاختلاط والله أعلم
ابن صلاح کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرزاق سے دبری کی روایت سے ایسی احادیث پائی ہیں جن کو میں بہت ہی زیادہ منکر سمجھتا ہوں تو میں نے ان کا معاملہ دبری پر ڈال دیا کیونکہ انہوں نے عبدالرزاق سے بہت بعد میں سماع کیا۔ اور دبری کی روایت میں واقع ہوجانے والی منکر روایت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے عبدالرزاق سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔ پس دبری کی عبدالرزاق سے روایت کردہ احادیث اگر عبدالرزاق کی تصانیف میں پائی جاتی ہیں تو دبری کا ذمہ اس سے بری ہے۔ ہاں اگر کوئی تصحیف یا تحریف واقع ہوئی ہو تو الگ بات ہے۔ کلام صرف ان احادیث میں ہے جو ان کی روایت سے ہے اور وہ (عبدالرزاق کی) تصنیف میں نہیں ہے پس انہی میں مناکیر پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ ان کا اختلاط کی حالت میں ان سے سماع کرنا ہے واللہ اعلم۔ [لسان المیزان ابن حجر جلد 2 صفحہ 36]
امام سخاوی نقل کرتے ہیں:
وَقَالَ شَيْخُنَا: الْمَنَاكِيرُ الْوَاقِعَةُ فِي حَدِيثِ الدَّبَرِيِّ إِنَّمَا سَبَبُهَا أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ بَعْدَ اخْتِلَاطِهِ، فَمَا يُوجَدُ مِنْ حَدِيثِ الدَّبَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ فِي مُصَنَّفَاتِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ فَلَا يَلْحَقُ الدَّبَرِيَّ مِنْهُ تَبِعَةٌ إِلَّا إِنْ صَحَّفَ وَحَرَّفَ، وَقَدْ جَمَعَ الْقَاضِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُفَرِّجٍ الْقُرْطُبِيُّ الْحُرُوفَ الَّتِي أَخْطَأَ فِيهَا الدَّبَرِيُّ وَصَحَّفَهَا فِي مُصَنَّفِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، إِنَّمَا الْكَلَامُ فِي الْأَحَادِيثِ الَّتِي عِنْدَ الدَّبَرِيِّ فِي غَيْرِ التَّصَانِيفِ، فَهِيَ الَّتِي فِيهَا الْمَنَاكِيرُ ; وَذَلِكَ لِأَجْلِ سَمَاعِهِ مِنْهُ فِي حَالِ اخْتِلَاطِهِ
ہمارے شیخ (حافظ ابن حجر) نے کہا کہ دبری کی حدیث میں جو منکر روایت ہے ان کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے عبدالرزاق سے اختلاط کے بعد سنا تو جو دبری کی عبدالرزاق سے حدیث ہے مصنف عبدالرزاق میں تو اس سے دبری پر کوئی مسئلہ نہیں آتا ہاں اگر وہ تصحیف یا تحریف کا شکار ہو جائے۔ قاضی محمد بن احمد بن مفرج القرطبی نے حروف جمع کیا ہے جس میں دبری خطا کا شکار ہوگئے ہیں اور مصنف عبدالرزاق میں ان سے تصحیف واقع ہوگئی ہے۔ کلام صرف دبری کی عبدالرزاق کی تصانیف کے علاوہ احادیث میں ہے انہی میں مناکیر واقع ہوئے ہیں اس بنا پر کہ انہوں نے اختلاط کے بعد ان سے سماع کیا ہے۔ [فتح المغیث جلد 4، صفحہ 480]
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے قول سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری نے جو منکر روایات بیان کی ہیں امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے وہ غیر تصانیف یعنی ان کی کتابوں کے علاوہ والی حدیثیں ہیں۔ کلام بھی انہی روایات پر ہے نہ کہ مصنف عبدالرزاق کی حدیثوں پر۔ لیکن ایک بات اس قول میں یہ بھی ہے کہ ان سے تصحیف و تحریف (یہاں پر تحریف سے مراد بھی تصحیف ہے) ہوجاتی یعنی الفاظ کو لکھنے میں غلطی ہو جاتی تھی تو اس کا جواب خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دے دیا ہے کہ ایسا کھاتا والے الفاظ کو قاضی محمد بن احمد بن مفرج القرطبی نے جمع کیا ہے اور ان کی کتاب کا نام ہے:
كتاب إصْلَاح الْحُرُوف الَّتِي كَانَ يصحفها إِسْحَاق الدبرِي فِي مُصَنف عبد الرَّزَّاق لأبي عبد الله مُحَمَّد بن أَحْمد بن مفرج
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تک یہ کتاب پہنچی ہے اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب معجم المفھرس رقم 1785 پر کیا ہے اور خود سے لے کر کتاب کے مؤلف قاضی محمد بن احمد بن مفرج القرطبی تک سند بھی بیان کی ہے.... اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مصنف عبدالرزاق کی 21 رکعت والی حدیث کو نقل کیا ہے اپنی مشہور صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کے جلد 8 صفحہ 549 پر ( تحقیق شعیب ارناؤط/جلد 4 صفحہ 253 تحقیق بن باز ) ۔ اس سے نقل کرنے کے بعد کوئی کلام نہیں کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے 21 رکعت کے الفاظ درست ہیں ۔ کیونکہ اگر اس میں غلطی ہوتی تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس سے ضرور نقل کرتے کیونکہ ان کے پاس وہ کتاب بھی تھی جس میں مصنف عبدالرزاق میں ہوئی تحریف کے الفاظ درست کیے گئے جسے قاضی محمد بن احمد مفرج القرطبی نے لکھا ہے کتاب کا نام اوپر ذکر کیا گیا ہے.
کفایت اللہ صاحب خود لکھتے ہیں فتح الباری کا حوالہ دیتے ہوئے کئی مقامات پر لکھتے ہیں ابن حجر رحمہ اللہ اگر حدیث نقل کرنے کے بعد سکوت کرے تو وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا کم از کم حسن ہوتی ہے۔ [ایام قربانی اور صحابہ صفحہ ۲۸، انوار البدر صفحہ ۲۲۹ تا ۲۳۰، ایڈیشن ۳]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:-
الشَّيْخُ، العَالِم، المُسْنِد، الصَّدُوْق، أَبُو يَعْقُوْب إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيْم بنِ عَبَّاد الصَّنْعَانِيّ الدَّبَرِي: رَاويَة عَبْد الرَّزَّاقِ، سَمِعَ تَصَانِيْفه مِنْهُ فِي سَنَة عَشْر وَمائَتَيْنِ بَاعْتِنَاء أَبِيه بِه، وَكَانَ حَدثاً، فَإِن مَوْلِده - عَلَى مَا ذَكَرَهُ الخَلِيْلِيّ - فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَتِسْعِيْنَ وَمئَة، وَسَمَاعه صَحِيْحٌ.
الشیخ العالم المسند الصدوق، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن عباد الصنعانی الدبری، جو عبد الرزاق سے روایت کرنے والے ہیں۔ انہوں نے سنا ۲۱۰ھ کو امام عبد الرزاق سے ان کی تصانیف اپنے والد کے عنایت اور توجہ کے باعث سنی۔ جب کہ اس وقت وہ کم عمر تھے۔ کیوں کہ ان کی ولادت امام خلیلی کے بیان کے مطابق ۱۹۵ھ ہے اور ان کا سماع درست ہے۔ [سیر اعلام النبلاء جلد ۱۳ صفحہ ۴۱۶]
قُلْتُ: سَاق لَه ابْن عَدِيٍّ حَدِيْثاً وَاحِداً مِنْ طَرِيْق ابْن أَنعم الإِفْرِيْقِيّ (4) ، يحْتَمل مثله، فَأَيْنَ المَنَاكِير؟ وَالرَّجُل فَقَدْ سَمِعَ كُتباً، فَأَدَّاهَا كَمَا سَمِعَهَا، وَلَعَلَّ النَّكَارَة مِنْ شَيْخه، فَإِنَّهُ أَضَرَّ بِأَخَرَة، - فَاللهُ أَعْلَمُ -.
آگے کہتے ہیں: ”اور انہوں نے (اسحاق الدبری نے) نے بہت سی کتابوں کا سماع (عبد الرزاق سے) کیا ہے اور جس طرح سنا اسی طرح بیان کیا۔“ [سیر اعلام النبلاء جلد ۱۳ صفحہ ۴۱۷]،
والدَّبري صدوق محتج به في الصحيح، سمع كتبًا، فأداها كما سمعها
[تاریخ اسلام امام ذہبی جلد ۶ صفحہ ۷۱۵]
اسی طرح اپنی دوسری کتابیں میں لکھتے ہیں:-
سَمِعَ: مصنّفات عبد الرزاق سنة عشرة منه باعتناء والده إِبْرَاهِيم، وكان صحيح السّماع
انہوں نے سنا ۲۱۰ھ کو امام عبد الرزاق سے ان کی تصانیف اپنے والد کے عنایت اور توجہ کے باعث سنی اور ان کا سننا صحیح ہے۔ [تاریخ اسلام امام ذہبی جلد ۶ صفحہ ۷۱۴]
صلاح الدین بن خلیل ایبک الصفدی لکھتے ہیں:-
إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم بن عبادٍ أَبُو يَعْقُوب الدّبري الْيَمَانِيّ الصَّنْعَانِيّ سمع مصنفات عبد الرَّزَّاق سنة عشر مِنْهُ باعتناء وَالِده وَكَانَ صَحِيح السماع
انہوں نے عبد الرزاق کی مصنفات کا سماع کیا ۱۰ سال کی عمر میں اپنے والد کے زیر نگرانی میں اور ان کا سماع صحیح تھا۔ [الوافی بالوفیات جلد ۸ صفحہ ۲۵۷]
امام قاسم بن قطلوبغا لکھتے ہیں:-
إسحاق بن إبراهيم بن عباد الدَّبَري، أبو يعقوب الصنعاني، من قرية يقال لها دَبَرَة.
قال مسلمة (5): لا بأس به، وكان صغيراً في عبد الرزاق وإنما صحح روايته عند سماعه مع أبيه، وكان العقيلي يصحح روايته عن عبد الرزاق وأدخله في كتابه الصحيح الذي ألفه، مات سنة أربع وثمانين ومائتين، وقيل: سنة ست.... ”مسلمہ کہتے ہیں: ان میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ عبد الرزاق کے تعلق سے صغیر ہے اور ان کی روایت عبد الرزاق کی صحیح ہے لیکن اس وقت کی وہ اپنے والد کے ساتھ اس کی سماعت کرے۔“ [الثقات جلد ۲ صفحہ ۳۰۰]
ان تمام محدثین کی عبارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری کا امام عبد الرزاق سے ان کی تصانیف سے سماع بالکل صحیح ہے اور ان کی جو روایت مصنف عبد الرزاق کتاب میں موجود ہے اس سے قبول کیا جائے گا۔ بلکہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری مصنف کو سنا کرتے تھے جب ان کے والد صاحب ابراہیم الدبری امام عبد الرزاق کے سامنے پڑھ کر سناتے تھے۔
قرأت بِخَط الحكم أَمِير الْمُؤمنِينَ حَدثنَا أَحْمد بن مطرف بن عبد الرَّحْمَن المشاط حَدثنَا أَبُو عُثْمَان سعيد بن عُثْمَان الأعناقي قَالَ رَحل ابْن السكرِي مُحَمَّد بن عبد الله إِلَى صنعاء الْيمن فامتحن أَصْحَاب عبد الرَّزَّاق من بَقِي مِنْهُم فألفى أَبَا يَعْقُوب إِسْحَاق ابْن إِبْرَاهِيم بن عباد الدبرِي أفضلهم فَسَأَلَهُ عَن مُصَنف عبد الرَّزَّاق كَيفَ رَوَاهُ فَقَالَ كَانَ أبي إِبْرَاهِيم بن عباد الْقَارئ للديوان على عبد الرَّزَّاق وَحَضَرت السماع حَتَّى انْقَضى وَكَانَ إِذا مضى حَدِيث يستحسن أَصْحَاب الحَدِيث إِسْنَاده قَالُوا لَهُ يَا أَبَا بكر حَدثنَا فَكَانَ يقرأه لنا وَكَانَ أبي يعلم على ذَلِك الحَدِيث فَقَالَ لَهُ السكرِي اقرأه يَا أَبَا يَعْقُوب فقرأه عَلَيْهِم فَلم يرد عَلَيْهِ السكرِي شَيْئا من تَصْحِيف وَلَا غَيره إِنَّمَا أسمع حَتَّى فرغ بقرَاءَته فَقَالَ لَهُ السكرِي يَا أَبَا يَعْقُوب لَا تقْرَأ هَذَا المُصَنّف لأحد إِلَّا كَمَا قرأته لنا وَلَا تقبل تلقين أحد فِي لَفْظَة مِنْهُ فَكَانَ أَبُو يَعْقُوب لَا يقبل تلقين أحد فَمَا كَانَ مُقَيّدا قَرَأَهُ كَمَا كَانَ وَمَا لم يكن مُقَيّدا قَرَأَهُ كَمَا بَقِي وَقَالَ لَهُ ابْن السكرِي إِذا استفتحت الْكتاب فَقل قَرَأنَا على عبد الرَّزَّاق وَإِذا جَاءَ الحَدِيث الَّذِي حَدثكُمْ بِهِ وقرأه فَقل حَدثنَا عبد الرَّزَّاق
ابو عثمان سعید بن عثمان الاعناقی کہتے ہیں ابن سکری محمد بن عبد اللہ نے صنعاء یمن کا سفر کیا اور امام عبد الرزاق کے جو اصحاب باقی تھے ان کا امتحان لیا تو ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم الدبری کو ان میں افضل پایا۔
تو ان سے مصنف عبد الرزاق کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے اس کو کس طرح روایت کیا ہے؟
تو انہوں نے (اسحاق الدبری) نے کہا کہ میرے والد ابراہیم بن عباد، عبد الرزاق کے سامنے وہ دیوان پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور میں سماع کے وقت اختتام تک حاضر رہتا۔ دوران سماع ہوتا تھا کہ جب کوئی ایسی حدیث گزرتی جس کی سند کو محدث اچھا سمجھتے، تو (ان کے شاگرد) ان سے کہتے کی یا ابو بکر (امام عبد الرزاق کی کنیت ہے) ہمیں خود بیان کرو، تو وہ خود ہمیں قرات کر کے بیان کرتے اور میرے والد صاحب اس حدیث پر علامت لگاتے تھے۔
تو سکری نے اس سے (اسحاق بن ابراہیم الدبری) کہا:- اے ابو یعقوب (اسحاق الدبری کی کنیت ہے) وہ مصنف (مصنف عبد الرزاق) ذرا سناؤ تو انہوں نے ان کے سامنے مصنف (مصنف عبد الرزاق) پڑھی۔ تو سکری نے ان پر تصحیف یا کسی اور وجہ سے کوئی رد نہیں کیا بلکہ فارغ ہونے تک مصنف سنتے رہے۔ جب وہ فارغ ہو گئے تو سکری نے ان سے کہا: کہ اے ابو یعقوب آپ یہ مصنف کسی کو بھی نہ سنائیں مگر صرف اس طریقے سے جس طرح آپ نے ہمیں سنایا اور اس کی کسی بھی لفظ میں کسی کی تلقین نہ لیا کریں۔
پس ابو یعقوب کسی کی بھی تلقین نہیں لیا کرتے تھے اور جو حدیث مقید ہوتی تو اس کو اسی طرح پڑھتے اور جو مقید نہ ہوتی تو اس کو اس طرح پڑھتے جس طرح وہ باقی رہے۔
اور ابن سکری نے ان سے کہا: جب تم کتاب کھولو تو ایسا کہو:
ہم نے عبد الرزاق پر پڑھا اور جب وہ حدیث آئے جسے عبد الرزاق نے آپ کو بیان کی تھی تو ایسا کہو کہ ہمیں عبد الرزاق نے بیان کیا۔ [الفہرست ابن خیر اشبیلی صفحہ ۱۰۹]
اوپر کی عبارت ایک واضح دلیل ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری نے مصنف عبد الرزاق ایک دم صحیح طریقے سے سنا ہے اور جیسے سنا ویسے ہی وہ بیان بھی کرتے تھے۔ بلکہ اس عبارت سے تو تصحیف والا الزام بھی رفع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تصحیف کا الزام مان بھی لیا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیوں کہ جو تصحیفات ہوئی ہے انہیں صحیح کر دیا گیا ہے۔ جس کی بحث اوپر گزر چکی ہے۔
اب کفایت اللہ سنابلی صاحب کی تحقیق کو کیا کہا جائے اتنی واضح عبارتیں موجود ہونے کے باوجود انہوں نے مسند عبد الرزاق کتاب کی حدیثوں پر ہی ہاتھ صاف کر دیا۔ اگر مصنف عبد الرزاق کی اس طریق پر جرح کی جائے تو مصنف عبد الرزاق کتاب سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گا کیوں کہ اسی سند ( اسحاق بن ابراہیم ) سے مصنف عبد الرزاق روایت ہوئی ہے جو کہ اہل فن کے نزدیک مشہور و معروف ہے۔
کفایت اللہ صاحب کی بیان کردہ تیسری علت اور اس کا جواب:-
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں صفحہ ۲۲۵ پر ”امام عبد الرزاق سے نقل کرنے والا اسحاق بن ابراہیم الدبری“ یہ خود بھی متکلم فیہ ہے۔
یاد رہے کہ مصنف عبد الرزاق کی عام روایت دبری کے طریق سے آنے کے باوجود بھی مقبول ہے، کیوں کہ دبری کی روایت کتاب سے ہے، لیکن جن روایت میں نکارت اور مخالفت ہو وہ دبری کی وجہ سے محل نظر ہے۔
جواب:- اسحاق بن ابراہیم الدبری پر کلام صرف امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے بیان کردہ ان روایتوں پر ہے جو مصنف عبد الرزاق کے علاوہ کی ہیں اور ۲۱ رکعت والی تراویح کی روایت مصنف عبد الرزاق کتاب کی ہے۔ اس پر ہم نے پہلے ہی محدثین کے اقوال پیش کر چکے جس سے بات ایک دم واضح ہو جاتی ہے۔
اسحاق بن ابراہیم الدبری فی نفسہ صدوق ہے راوی ہے۔
۱۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ:-
قال الحاكم: سألت الدَّارَقُطْنِيّ، عن إسحاق الدبرى؟ فقال: صدوق، ما رأيت فيه خلافًا، إنما قيل لم يكن من رجال هذا الشأن، قلت ويدخل في الصحيح؟ قال إي والله... امام حاکم کہتے ہیں میں سوال کیا امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اسحاق بن ابراہیم الدبری کے تعلق سے تو انہوں نے کہا وہ صدوق ہے میں نے ان کے تعلق سے اختلاف نہیں دیکھا جب کہ یہ کہا گیا وہ اس فن کے آدمی نہیں تھے۔ آگے امام حاکم کہتے ہے وہ صحیح میں داخل ہوتے ہیں امام دارقطنی نے اس پر کہا واللہ ہی یعنی قسم سے داخل ہوتے ہیں۔ [سوالات الحاکم للدارقطنی رقم ۶۲]
۲۔ امام ذہبی رحمہ اللہ:-
الشَّيْخُ، العَالِم، المُسْنِد، الصَّدُوْق، أَبُو يَعْقُوْب إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيْم بنِ عَبَّاد الصَّنْعَانِيّ الدَّبَرِي: رَاويَة عَبْد الرَّزَّاقِ
الشیخ العالم المسند الصدوق، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن عباد الصنعانی الدبری، جو عبد الرزاق سے روایت کرنے والے ہیں۔ [سیر اعلام النبلاء جلد ۱۳ صفحہ ۴۱۶]
۳۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:-
إسحاق بن إبراهيم الدبري:
قال الحافظ في حديث هذا أحد رجال سنده: "رجاله ثقات أثبات معروفون". "المسدد" (89).
وقال في حديث آخر من هذا القبيل: "رواته ثقات". "الدراية" (2/ 21).
۴۔ وقال في سند هذا أحد رجاله: "إسناد صحيح". "الفتح" (2/414)
[تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير جلد ۲ صفحہ ۲۵۶]
جہاں تک کفایت اللہ صاحب کا یہ کہنا ”یاد رہے کہ مصنف عبد الرزاق کی عام روایت دبری کے طریق سے آنے کے باوجود بھی مقبول ہے، کیوں کہ دبری کی روایت کتاب سے ہے، لیکن جن روایت میں نکارت اور مخالفت ہو وہ دبری کی وجہ سے محل نظر ہے“
جواب:- ہم نے پہلے ہی ثابت کر آئے ہیں اس حدیث میں کسی طرح کی نکارت نہیں بلکہ اسحاق بن ابراہیم الدبری کی امام عبد الرزاق کی ان حدیثوں میں نکارت ہے جو غیر تصانیف سے ہیں نہ کہ مصنف عبد الرزاق کی حدیثوں میں جیسے کہ محدثین نے واضح کیا ہے۔ جہاں تک مصنف عبد الرزاق میں تصحیف کی بات ہے تو اسے بھی درست کر لیا گیا جیسے کہ بحث اوپر گزر چکی ہے۔
جہاں تک کفایت اللہ صاحب کا یہ باور کرانا کہ اس حدیث میں ۲۱ رکعت میں اسحاق بن ابراہیم الدبری نے مخالفت کی ہے یہ سراسر غلط ہے کیوں کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری نے مصنف عبد الرزاق کو ویسے ہی آگے پہنچایا جیسے انہیں ملی تھی جس کی وضاحت امام ذہبی کے قول سے واضح ہو جاتا ہے۔
”اور انہوں نے (اسحاق الدبری نے) نے بہت سی کتابوں کا سماع (عبد الرزاق سے) کیا ہے اور جس طرح سنا اسی طرح بیان کیا۔“ [سیر اعلام النبلاء جلد ۱۳ صفحہ ۴۱۷، تاریخ اسلام امام ذہبی جلد ۶ صفحہ ۷۱۵]
اس پر مزید دلیل یہ بھی ہے ابن خیر اشبیلی کا نقل کردہ واقعہ بھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف عبد الرزاق انہیں صحیح سے یاد تھی۔ جو یہ کفایت اللہ صاحب کے دعوے کو باطل کر دیتی ہے۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ تراویح کی حدیث میں نہ ہی اسحاق بن ابراہیم الدبری سے غلطی ہوئی ہے اور نہ داؤد بن قیس وغیرہ سے بلکہ اصل معاملہ محمد بن یوسف کا ہے کیوں کہ انہیں تعداد رکعت صحیح سے یاد نہیں تھی جس وجہ سے وہ کبھی ۱۱، ۱۳ اور ۲۱ رکعت بیان کرتے تھے۔ ساتھ ہی اپنے سے اوثق راوی یزید بن خصیفہ کی مخالفت بھی کرتے تھے جو ۱۱ رکعت کی حدیث کو شاذ اور ضعیف ثابت کرتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں