نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*خلافیات بہیقی کی روایت اور غیرمقلدین کی غلطی فہمی کا ازالہ*


 *خلافیات بہیقی کی روایت اور غیرمقلدین کی غلطی فہمی کا ازالہ* 

سب سے پہلے ہم امام بیہقی کی پیش کردہ اس روایت کو پیش کرتے ہیں، جس میں رفع یدین کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام بیہقی نے یہ روایت امام حاکم سے نقل کی ہے، اور امام حاکم نے اسے اپنی کتاب معرفة علوم الحديث میں بیان کیا ہے۔ دونوں کی سند ایک ہی ہے، لیکن جب امام حاکم کی اپنی اصل کتاب کا جائزہ لیا جائے تو وہاں اس روایت کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا، بلکہ وہاں وضو کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ 

«الخلافيات - البيهقي - ت النحال» (2/ 362):

«أخبرنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَاشِدٍ الْأَدَمِيُّ، ثنا ‌مُحَمَّدُ ‌بْنُ ‌يَحْيَى (1) ‌الْوَاسِطِيُّ خَادِمُ أَبِي مَنْصُورٍ الشُّنَابذِيُّ (2)، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو مَنْصُورٍ: قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَإِنَّ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ قَالَ لِي: قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ مَنْصُورٍ، فَإِنَّ مَنْصُورًا قَالَ لِي: قُمْ حتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لِي: قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ عَلْقَمَةَ، فَإِنَّ عَلْقَمَةَ قَالَ لِي: قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ لِي: قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِي: "قُمْ حَتَّى أُرِيَكَ صَلَاةَ جِبْرِيلَ عليه السلام"، فَصَلَّى فَافْتَتَحَ الصَّلَاةَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ

ہمیں ابو عبداللہ الحافظ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو بکر محمد بن داؤد بن سلیمان الزاہد الثقۃ المأمون نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن احمد بن المؤمل الضریر نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابراہیم بن راشد الادمی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یحییٰ الواسطی، جو کہ ابو منصور الشنابذی کے خادم تھے، نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ابو منصور نے مجھ سے کہا: "اٹھو تاکہ میں تمہیں سفیان الثوری کی نماز دکھاؤں، کیونکہ سفیان الثوری نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں منصور کی نماز دکھاؤں۔' اور منصور نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں ابراہیم کی نماز دکھاؤں۔' اور ابراہیم نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں علقمہ کی نماز دکھاؤں۔' اور علقمہ نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نماز دکھاؤں۔' اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دکھاؤں۔' اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا تھا: 'اٹھو تاکہ میں تمہیں جبرئیل علیہ السلام کی نماز دکھاؤں۔'

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، چنانچہ جب نماز کی تکبیر کہی تو اپنے ہاتھ اٹھائے، جب رکوع کا ارادہ کیا تو دوبارہ ہاتھ اٹھائے، اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر ہاتھ اٹھائے۔

*امام حاکم رحمہ اللہ کی بیان کردہ  اصل حدیثِ مسلسل برائے وضو* 

قارئین کے سامنے اصل حدیث پیش کی جاتی ہے جو امام حاکم رحمہ اللہ کی کتاب "معرفة علوم الحديث" میں موجود ہے۔

«معرفة علوم الحديث للحاكم» (ص30):

حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَاشِدٍ الْأَدَمِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْوَاسِطِيُّ خَادِمُ أَبِي مَنْصُورٍ الشَّنَابُزِيِّ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو مَنْصُورٍ: قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ مَنْصُورٍ، فَإِنَّ مَنْصُورًا قَالَ لِي: قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لِي: قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ عَلْقَمَةَ، فَإِنَّ عَلْقَمَةَ قَالَ لِي: قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَإِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ لِي: قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِي: «قُمْ فَصُبَّ عَلَيَّ حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ جَبْرَائِيلَ عليه السلام» ، فَقُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: كَيْفَ تَوَضَّأَ؟ قَالَ: ثَلَاثًا ثَلَاثًا

ہم سے یہ حدیث ابو بکر محمد بن داؤد بن سلیمان زاہد نے بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے ابو عبداللہ محمد بن احمد بن المؤمل الضریر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے ابراہیم بن راشد الادمی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھ سے محمد بن یحیی الواسطی، جو کہ ابو منصور الشنابذی کے خادم تھے، نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں:

ابو منصور نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں منصور رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔" کیونکہ منصور رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا تھا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں ابراہیم رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔" اور ابراہیم رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا تھا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں علقمہ رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔" اور علقمہ رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا تھا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وضو دکھا سکوں۔" اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا تھا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دکھا سکوں۔" اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں جبرائیل علیہ السلام کا وضو دکھا سکوں۔"

میں نے ابو جعفر سے پوچھا: "انہوں نے کیسے وضو کیا؟" تو انہوں نے کہا: "تین تین بار۔"

*غیر مقلدین کی پیش کردہ حدیث پر حافظ ابن کثیر کا حکم* 

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "منکر" قرار دیا ہے، جسے غیر مقلدین بڑے ذوق و شوق سے دلیل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ درحقیقت، یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف  ہے، جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مشہور روایت وہی ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ مزید برآں، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے جو معروف ہے، وہ یہ ہے کہ نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ نہیں۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی کتاب "الأحكام الكبرى" کے صفحہ نمبر 379 پر لکھتے ہیں:  

وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ غَرِيبٌ بَلْ مُنْكَرٌ، وَالْمَشْهُورُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مَا تَقَدَّمَ، وَالْمَعْرُوفُ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَدَمُ الرَّفْعِ إِلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔

ترجمہ:

"اور یہ حدیث اس سند سے غریب بلکہ منکر ہے، اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مشہور وہی روایت ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ اور سفیان ثوری سے جو معروف ہے، کہ نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت رفع الیدین کیا جائے گا  واللہ اعلم۔"

*حدیث کی سند اور متن پر مزید تحقیق و تخریج*

کتاب "الأحكام الكبرى" پر تحقیق و تخریج طرفہ بنت صالح بن عبد الله بن سفر الغامدی نے کی ہے، جو جامعہ الملک خالد میں معیدہ (لیکچرر) ہیں، جبکہ اس علمی کام کی نگرانی ڈاکٹر محمود أحمد الميرة نے کی، جو جامعہ الإمام محمد بن سعود الإسلامیہ میں حدیث کے پروفیسر ہیں۔ ان محققین کی تحقیق کے مطابق، مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے، 

قلتُ: في هذا النَّصِّ خللٌ، والصَّحيحُ هو الذي وردَ في "معرفةِ علومِ الحديثِ" (ص ١٧٩)، ونصُّهُ:

«قال لي أبو منصورٍ: قُمْ فصُبَّ علَيَّ حتَّى أُريكَ وُضُوءَ سُفيانَ الثَّوريِّ، فإنَّ سُفيانَ الثَّوريَّ قال لي: قُمْ فصُبَّ علَيَّ حتَّى أُريكَ وُضُوءَ عَلْقَمَةَ، فإنَّ عَلْقَمَةَ قال لي: قُمْ فصُبَّ علَيَّ حتَّى أُريكَ وُضُوءَ ابنِ مسعودٍ، فإنَّ ابنَ مسعودٍ قال لي: قُمْ فصُبَّ علَيَّ حتَّى أُريكَ وُضُوءَ النَّبيِّ ﷺ، فإنَّ النَّبيَّ ﷺ قال لي: "قُمْ فصُبَّ علَيَّ حتَّى أُريكَ وُضُوءَ جِبْرِيلَ"».

ثلاثًا ثلاثًا.

قلتُ: إسنادُهُ ضعيفٌ جدًّا؛ فيهِ محمدُ بنُ أبي بكرٍ الواسطيُّ، لم يُعرَفْ حالُهُ، وفيهِ أبو منصورٍ الشنابذيُّ: مجهولُ العينِ والحالِ. وفي متنهِ نكارةٌ أوضحَها المؤلِّفُ بقولِهِ: بل غريبٌ بل منكرٌ.

میں کہتا ہوں: اس نص میں خلل ہے، اور صحیح وہی ہے جو "معرفة علوم الحديث" (صفحہ 179) میں وارد ہوا ہے، جس کا متن یہ ہے:

"ابو منصور نے مجھ سے کہا: اٹھو اور مجھ پر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں سفیان ثوری کا وضو دکھا سکوں، کیونکہ سفیان ثوری نے مجھ سے کہا: اٹھو اور مجھ پر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں علقمہ کا وضو دکھا سکوں، کیونکہ علقمہ نے مجھ سے کہا: اٹھو اور مجھ پر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں ابن مسعود کا وضو دکھا سکوں، کیونکہ ابن مسعود نے مجھ سے کہا: اٹھو اور مجھ پر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں نبی کریم ﷺ کا وضو دکھا سکوں، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’اٹھو اور مجھ پر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں جبرائیل علیہ السلام کا وضو دکھا سکوں۔‘"

یہ وضو تین تین بار کیا گیا۔

میں کہتا ہوں: *اس کی سند انتہائی ضعیف ہے* ، کیونکہ اس میں محمد بن ابی بکر واسطی ہیں، جن کے حال کا کوئی پتہ نہیں، اور اس میں *ابو منصور الشنابذی ہیں، جو مجہول العین اور مجہول الحال ہیں* ۔ مزید برآں، اس حدیث کے متن میں نکارت ہے، اور مصنف (ابن کثیر) نے خود اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث غریب بلکہ منکر ہے۔

*غیر مقلدین کی علمی خیانت بے نقاب* 

یہی روایت جب اسی سند کے ساتھ امام بیہقی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں تو اس کا متن بالکل بدل جاتا ہے، حالانکہ سند کے تمام راوی ایک ہی ہیں۔ یہ واضح طور پر علمی خیانت ہے کہ ایک ہی سند کے ساتھ متن میں تبدیلی کر دی جائے۔

قارئین کے سامنے  دونوں متون کی اصل سند پیش کی جاتی ہے تاکہ اپ کو کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو

«معرفة علوم الحديث للحاكم» (ص30):

«حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَاشِدٍ الْأَدَمِيُّ، حَدَّثَنِي ‌مُحَمَّدُ ‌بْنُ ‌يَحْيَى ‌الْوَاسِطِيُّ خَادِمُ أَبِي مَنْصُورٍ الشَّنَابُزِيِّ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو مَنْصُورٍ:»

«الخلافيات - البيهقي - ت النحال» (2/ 362):

«أخبرنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَاشِدٍ الْأَدَمِيُّ، ثنا ‌مُحَمَّدُ ‌بْنُ ‌يَحْيَى الْوَاسِطِيُّ خَادِمُ أَبِي مَنْصُورٍ الشُّنَابذِيُّ  قَالَ: قَالَ لِي أَبُو مَنْصُورٍ:»

*دونوں متون کا تقابل*

ان دونوں متون کا تقابل کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سند کے راوی بالکل ایک ہی ہیں۔ مشترک راویوں میں أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ، أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الضَّرِيرُ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَاشِدٍ الْأَدَمِيُّ، اور مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْوَاسِطِيُّ خَادِمُ أَبِي مَنْصُورٍ الشَّنَابُزِيِّ شامل ہیں۔ بسندِ بیہقی أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الزَّاهِدُ کو الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جبکہ معرفة علوم الحديث للحاكم میں یہ صفت موجود نہیں۔ اس معمولی فرق کے باوجود، دونوں اسانید میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں بلکہ راوی ایک ہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں متون میں فرق پایا جاتا ہے تو وہ علمی تحریف یا خیانت کے زمرے میں آ سکتا ہے، اور غیر مقلدین اس خیانت کا ارتکاب کر چکے ہیں

*امام شہاب الدین رحمہ اللہ کی تائید اور علمی خیانت کا انکشاف* 

مذکورہ روایت کی تائید چھٹی صدی ہجری کے مشہور امام شہاب الدین رحمہ اللہ نے بھی کی ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو وضو کے متعلق ہی قرار دیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اصل موضوع وضو کی کیفیت بیان کرنا ہے، نہ کہ رفع یدین کرنے کے متعلق

امام شہاب الدین رحمہ اللہ جیسے معتبر محدث کی تائید اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت وضو کے عمل کی تسلسل کے ساتھ نقل پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اسے وضو کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ یہ بات اس علمی خیانت کو بے نقاب کرتی ہے جو بعض لوگوں نے اس حدیث کو غیر متعلقہ مسائل سے جوڑ کر کی ہے۔

«نفائس الأصول في شرح المحصول» (7/ 3041):

«الخامسة: المسلسل.

قال الحاكم: هو السماع الظاهر الذي لا غبار عليه، مثل أن يقول: سمعت فلانًا قال: سمعت فلانًا إلى آخر السند، أو يحكي الرواة فعلًا من الأفعال (ما) يذكره كل منهم عن صاحبه بعينه.

كما يقول: قال لي: [أبو منصور] ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريد وضوء منصور، فإن منصورًا قال لي: ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريك وضوء إبراهيم؛ فإن إبراهيم قال لي: ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريك وضوء علقمة؛ فإن علقمة قال لي: ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريك وضوء ابن مسعود؛ فإن ابن مسعود قال لي: ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريك وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال لي: ‌قم ‌فصب ‌علي حتى أريد وضوء جبريل عليه السلام فقلت لأبي جعفر: كيف توضأ؟ فقال: ثلاثًا ثلاثًا.»

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسلسل وہ روایت ہوتی ہے جس میں سماع واضح ہو اور اس میں کوئی شبہ نہ ہو، جیسے کہ کوئی راوی کہے: "میں نے فلاں سے سنا، اس نے فلاں سے سنا"، اسی طرح پوری سند کے آخر تک یہ سلسلہ جاری رہے۔

یا پھر ایسا ہو کہ راوی ایک خاص عمل کو نقل کریں، جسے ہر راوی اپنے شیخ سے بعینہٖ بیان کرے۔ جیسے کہ یہ قول:

ابو منصور نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں منصور رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔"

پھر منصور رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں ابراہیم رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔"

ابراہیم رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں علقمہ رحمہ اللہ کا وضو دکھا سکوں۔"

علقمہ رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وضو دکھا سکوں۔"

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دکھا سکوں۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھو اور میرے اوپر پانی ڈالو تاکہ میں تمہیں جبرائیل علیہ السلام کا وضو دکھا سکوں۔"

میں نے ابو جعفر سے پوچھا: "انہوں نے کیسے وضو کیا؟"

تو انہوں نے جواب دیا: "تین تین بار۔"

*مذکورہ بالا موقف پر دیگر محدثین کی تائید* 

اس حدیث کو دیگر محدثین نے بھی حدیثِ مسلسل بالوضو قرار دیا ہے۔ چنانچہ، اٹھویں صدی ہجری کے محدث ابراہیم بن موسی بن ایوب شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو وضو سے متعلق مسلسل روایت کے طور پر ذکر کیا ہے۔ 

«الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح» (2/ 457):

«والثاني: المسلسل بقولهم: "‌قم ‌فصب ‌علي ‌حتى أريك وضوء فلان"»

اسی طرح، اسی صدی کے نامور فقیہ ابو الفضل زین الدین عراقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو حدیثِ مسلسل بالوضو قرار دیا ہے۔

«شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي» (2/ 95):

«والثاني: المسلسلُ بقولِهِم: ‌قُمْ ‌فصبَّ ‌عليَّ ‌حتى أريَك وضوءَ فلانٍ.»

نویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث علامہ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو حدیثِ مسلسل بالوضو تسلیم کیا ہے، 

«فتح المغيث بشرح ألفية الحديث» (4/ 39):

«الْحَدِيثَ. فَقَدْ تَسَلْسَلَ لَنَا بِقَوْلِ كُلٍّ مِنْ رُوَاتِهِ: (أَنَا أُحِبُّكَ فَقُلْ) . وَنَحْوُهُ الْمُسَلْسَلُ بِقَوْلِ: (رَحِمَ اللَّهُ فُلَانًا، كَيْفَ لَوْ أَدْرَكَ زَمَانَنَا؟ !) . وَبِقَوْلِ: (‌قُمْ ‌فَصُبَّ ‌عَلَيَّ ‌حَتَّى أُرِيَكَ وُضُوءَ فُلَانٍ) .»

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث وضو کے عمل کی تسلسل کے ساتھ نقل پر دلالت کرتی ہے اور اس کا تعلق رفع یدین جیسے دیگر مسائل سے جوڑنا علمی خیانت کے سوا کچھ نہیں۔

*خلاصہ کلام اور نتیجہ بحث* 

امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے وضو کے متعلق ایک حدیث بیان کی ہے، جو حدیثِ مسلسل بالعمل کہلاتی ہے۔ اس میں ہر راوی اپنے شیخ سے یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے اپنے استاد کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا تھا، اور یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ حدیث وضو کے طریقے کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے، جس میں ہر استاد اپنے شاگرد کو اسی طریقے سے وضو سکھاتا ہے، جیسے اسے اس کے استاد نے سکھایا تھا۔

تاہم غیر مقلدین نے اس حدیث کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا، جو کہ ایک بڑی علمی خیانت ہے۔ حدیث کا اصل موضوع وضو ہے، لیکن اسے نماز میں رفع یدین کے مسئلے سے جوڑ کر اس کے مفہوم کو بدلنا تحریفِ حدیث کے مترادف ہے۔ علمی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث کو اس کے اصل سیاق و سباق میں سمجھا جائے، نہ کہ اسے کسی خاص فقہی رائے کے مطابق ڈھال کر پیش کیا جائے۔

 *مفتی محمد مجاہد فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ*

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...