یزید بن خصیفہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں , یزید بن خصیفہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ ثقہ قابل اعتماد راوی ہے
*یزید بن خصیفہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں*
*یزید بن خصیفہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ ثقہ قابل اعتماد راوی ہے*
*پروفیسر ابو معاویہ حفظہ اللہ*
کفایت اللہ سنابلی نے لکھا:
امام مزّی (رحمہ اللہ) نے کہا: "یعنی امام احمد نے کہا: یزید بن خُصَیفَہ مُنْکَرُ الحدیث ہے۔"
مزید فرمایا: اس قول کو امام احمد بن حنبل سے امام ابو داؤد نے روایت کیا اور ان سے ابو عبید نے، پھر انہی کی کتاب سے امام مزّی نے اس قول کو نقل کیا، پھر اسے غیر ثابت کہنا کیا معنی رکھتا ہے...
جواب: یہ جرح امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے خراب حافظہ یا راوی کے ضعیف ہونے کے مطلب میں مراد نہیں، جسے کفایت اللہ سنابلی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کبھی ثقہ راوی کی منفرد روایت ہونے پر بھی اس راوی کو منکر الحدیث کہہ دیتے ہیں اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں. یہ بھی دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے یزید بن خُصَیفَہ کی توثیق ہی ثابت ہے:
(1): امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے ان کے شاگرد ابو بکر الاثرم (رحمہ اللہ) نے روایت کیا ہے: "(یزید بن خُصَیفَہ) ثقہ ہیں۔"
[سؤالات ابو بکر الاثرم بتحقیق ابو عمر محمد بن علی ازہری، صفحہ: 193]
(2): امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے ان کے بیٹے عبد اللہ نے روایت کیا ہے: "میں ان کے بارے میں صرف خیر ہی جانتا ہوں۔"
[العلل و معرفۃ الرجال، رقم# 3232]
اگر صرف خیر ہی جانتے ہیں تو پھر "منکر الحدیث" کا قول اس کے منافی نہیں ہوگا۔
جیسے کہ شیخ ابو اسحاق الحوینی نے بھی کہا، بشر العواد کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"شاید یہ اختلاف یزید بن خُصَیفَہ کی طرف سے ہے، یہ اگرچہ ثقہ تھے مگر امام احمد (رحمہ اللہ) نے ایک روایت کے مطابق کہا: یہ منکر الحدیث ہیں۔ مطلقہ روایت میں یزید کی مخالفت کی گئی ہے۔ تہذیب (33/173) کے حاشیہ نگار نے جو یہ کہا ہے کہ یہ امام احمد سے ثابت نہیں تو انہوں نے یہ کہنے کے علاوہ اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔"
"میرا یہ خیال ہے" اور یہ کہ امام احمد نے کہا: "میں ان کے بارے میں صرف خیر جانتا ہوں" لیکن یہ قول اس بات کے منافی نہیں کہ اس کے بارے میں امام احمد کا دوسرا قول بھی ہو۔ واللہ اعلم۔
[فضائل القرآن لابن کثیر، صفحہ 117/118، حاشیہ 1]
شیخ ابو اسحاق الحوینی کی عبارت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ خود بھی یزید بن خُصَیفَہ کے تعلق سے امام احمد بن حنبل کے قول کو جرح نہیں مانتے ہیں کیونکہ اگر وہ جرح ہوتی تو امام احمد بن حنبل کے قول "ثقہ" اور "میں ان کے بارے میں صرف خیر ہی جانتا ہوں" کے خلاف ہوگا۔ اس کا مطلب شیخ ابو اسحاق الحوینی بھی "منکر الحدیث" کے قول کو یزید بن خُصَیفَہ کے تفرد یا غرابت پر محمول کرتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل کے "منکر الحدیث" کے قول کو یزید بن خُصَیفَہ کے تعلق سے غرابت اور تفرد پر محمول کیا گیا ہے۔
اگر امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے اسے ثابت بھی مان لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یزید بن خُصَیفَہ کے تعلق سے کوئی جرح کے الفاظ نہیں بلکہ تفرد پر محمول ہے۔ اس تعلق سے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
(1): ابن حجر عسقلانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
"یزید بن عبداللہ بن خُصَیفَہ الکندی... امام احمد (رحمہ اللہ) نے فرمایا: "منکر الحدیث"۔
میں ( امام ابن حجر ) کہتا ہوں: یہ لفظ (یعنی "منکر الحدیث") امام احمد (رحمہ اللہ) ان کے بارے میں کہتے ہیں جو اپنے اقران (ہم عصر ساتھیوں) کے دور میں "غریب الحدیث" (منفرد روایت کرنے والے) ہوں۔ یہ بات ان کے حال کے بارے میں استقراء کرنے سے معلوم ہوئی ہے۔ اور ابن خُصَیفَہ سے امام مالک اور تمام ائمہ نے حجت پکڑی ہے۔
[ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، صفحہ: 453]
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"امام احمد، امام نسائی اور بہت سے ائمہ نقد نے "منکر" کا اطلاق مطلقاً تفرد پر بھی کیا ہے۔"
[النکت، جلد: 2/ صفحہ: 674 بحوالہ توضیح الکلام از غیر مقلد ارشاد الحق اثری، صفحہ: 200]
امام احمد (رحمہ اللہ) جب روایات پر تفرد کے اعتبار سے "منکر" کا اطلاق کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک راوی جسے وہ "منکر الحدیث" کے ساتھ ساتھ "ثقہ" بھی کہتے ہیں تو ان کے نزدیک ایسے راوی کو "منکر الحدیث" اسی شخص کو کہا جائے گا جو منفرد روایات بیان کرتا ہے۔ اور منفرد روایت بیان کرنا کوئی عیب نہیں ہے کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کی صرف ایک صحیح سند ہوتی ہے لیکن متن کے لحاظ سے وہ درست ہوتی ہیں اور امت کا اس پر عمل بھی ہوتا ہے.
اس کی مزید وضاحت ڈاکٹر نورالدین عطر اور شیخ ابو حسین مصطفی بن اسماعیل سے بھی ہوتی ہے۔
**(2). شیخ ابو حسین مصطفی بن اسماعیل فرماتے ہیں:**
"دوسری بات یہ ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ منکر الحدیث کا اطلاق ایک سے زیادہ معنی پر کرتے ہیں چنانچہ کبھی جرح شدید کے طور پر بھی منکر الحدیث کا اطلاق کرتے ہیں جیسا کہ الکامل ابن عدی میں ابان ابن عیاش کا ترجمہ آیا ہے، ابو طالب احمد ابن حمید کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد ابن حنبل سے سنا کہ ابان سے حدیث لکھی نہیں جائے گی، میں نے پوچھا کیا ابان من مانی کیا کرتا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں، وہ منکر الحدیث ہے۔
اور امام احمد بن حنبلؒ سے کہا گیا کہ عبدالرحمٰن ابن زیاد افریقی سے حدیث نقل کی جائے گی تو انہوں نے کہا نہیں، وہ منکر الحدیث ہے۔ اور کبھی کبھار یہ لفظ اس راوی پر بھی اطلاق کرتے ہیں جو شواہد اور متابعت میں چل سکتا ہے جیسا کہ بہت سارے تراجم میں انہوں نے یہ بات کہی ہے، اور منکر الحدیث کا اطلاق وہ اس راوی پر بھی کرتے ہیں جو کسی حدیث میں منفرد ہو، اس کا کوئی متابع نہ ہو، اگرچہ وہ راوی فی النفسہٖ ثقہ ہو جیسا کہ فتح الباری کے مقدمہ میں محمد بن ابراہیم التیمی کے ترجمہ میں امام احمد بن حنبلؒ نے کہا ہے کہ وہ منکر حدیث روایت کرتا ہے۔
حافظ کہتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ منکر کا اطلاق امام احمدؒ اور محدثین کی ایک جماعت منفرد حدیث پر کرتے ہیں جس کا کوئی متابع نہ ہو، لہٰذا اسے اسی پر محمول کیا جائے گا، اور اسے محدثین کی ایک جماعت نے استدلال بھی کیا ہے۔ اور حافظ کہتے ہیں کہ یزید بن عبداللہ کے ترجمہ میں کہ امام احمد بن حنبلؒ منکر الحدیث کا اطلاق اس شخص یا راوی پر بھی کرتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں غریب روایات بیان کرتا ہو، اور اس بات کا پتہ خوب جانچ پڑتال کے بعد چلا۔ اور یہ بات پہلے آ چکی ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے اس لفظ (منکر الحدیث) کو کئی معنی میں استعمال کیا ہے، لہٰذا اسے اسی پر محمول کیا جائے گا جس پر حافظ ابن حجرؒ نے محمول کیا ہے۔"
پھر آگے فرماتے ہیں:
"یہ لوگ اگرچہ نکارت کا اطلاق تفرد پر کرتے ہیں لیکن ان کا ہر قول جو انہوں نے کہا ہے وہ تفرد پر ہی محمول ہوگا، ایسا نہیں، سوائے علامہ لکھنوی اور چند لوگوں کے، اس لیے کہ متقدمین منکر الحدیث کی جرح بعض مرتبہ جرح شدید کے طور پر بولتے تھے، بعض مرتبہ جرح خفیف کے طور پر بولتے تھے، اور کبھی تفرد پر بھی محمول کرتے تھے جیسا کہ ابو حاتم، امام احمد، امام بخاری، ابن معین وغیرہ کا قول گزر چکا ہے۔
اس میں فائدہ تب ہوگا جب ائمہ کے اقوال میں اختلاف ہو جائے، اسے جمع کرنے میں کہ یہ کس پر محمول کیا جائے گا (یعنی منکر الحدیث کس معنی پر محمول کیا جائے گا)۔ آگے مثال دے کر لکھتے ہیں:
"امام احمد بن حنبلؒ کسی کے بارے میں ثقہ کہیں، دوسری جگہ پر منکر الحدیث کہیں تو اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ یہاں پر منکر سے مراد یہ لیا جائے گا کہ راوی متفرد ہے (یعنی منفرد) اور منفرد ہونے کے باوجود اس کا تفرد مقبول ہے، اس لیے کہ وہ ثقہ ہے۔"
**[شفاء العلیل بلفظ و قواعد الجرح و التعدیل، صفحہ 309 تا 311]
** (3). ڈاکٹر نورالدین عطر کی عبارت
"محدثین کا قول حدیثِ منکر:-
یہ لفظ جو ہے متقدمین اس کا استعمال کرتے ہیں اس معنی پر کہ منکر وہ حدیث ہے جسے ضعیف راوی نے روایت کیا ہو ثقہ کے مخالفت میں۔ متقدمین منکر کا اطلاق منفرد پر کرتے تھے اگرچہ راوی ثقہ ہی کیوں نہ ہو، اور یہ بات کثرت سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قلم میں ملتی ہے، یہیں سے بات معلوم ہوئی کہ ان لوگوں سے چوک ہوئی یزید بن خصیفہ کے تعلق سے جو اس حدیث کا راوی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں ۲۰ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، اسے ضعیف قرار دیا ہے، ان لوگوں کی غلطی اسی سے معلوم ہو جاتی ہے کیونکہ انہوں نے ان کو ضعیف قرار دے دیا، بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ منکر الحدیث ہے، آپ کو یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول منکر الحدیث یہ اس کے ضعیف ہونے کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف سے یہ حکم لگانا اس کا مطلب ہے کہ وہ منفرد حدیث بیان کرتا ہے اور ثقہ کے لیے یہ بات مضر نہیں ہے کہ وہ حدیث میں منفرد ہو، مضر تب ہوتی ہے جب وہ اوثق یا دوسرے ثقہ کی مخالفت کر رہا ہو، اور یہاں جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جو کہا اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ منفرد ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی توثیق بھی کی ہے اور اس طرح ان کی توثیق پر جمہور علماء نے اعتماد کیا ہے۔"
[منہاج النقد فی علوم الحدیث صفحہ 114]
یہاں یہ معلوم ہوا کہ اس جرح کا حافظہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کوئی یہاں کہے کہ یزید بن خصیفہ نے اپنے اوثق محمد بن یوسف کی مخالفت کی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمد بن یوسف رحمہ اللہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ثقہ ثبت کہنا یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی غلطی ہے۔ بلکہ اسماء الرجال اور اصولِ حدیث کی تمام کتب کو نکال کر دیکھیں گے تو ایک بھی اعلیٰ درجے کی یعنی تحقیق شدہ کلمہ کے ساتھ ایک بھی توثیق محمد بن یوسف کے تعلق سے نہیں ملتی ہے اور دوسری طرف یزید بن خصیفہ کے تعلق سے متعدد علماء سے اعلیٰ درجے کی توثیق ملتی ہے جس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی شامل ہیں چنانچہ:-
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب "النکت" میں نقل کرتے ہیں ایک روایت:-
**قال يزيد بن الهاد: فحدثت بهذا الحديث يزيد بن خصيفة فقال: "هكذا حدثني السائب بن يزيد عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم"**
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے راویوں کے تعلق سے کہتے ہیں جن میں یزید بن خصیفہ بھی موجود ہے:
**"رجاله ثقات أثبات والسائب قد صح سمعاه من النبي - صلى الله عليه وسلم"**
"اس روایت کے رجال ثقہ، اثبات (ثقہ ثبت) ہیں اور سائب بن یزید کا سماع حضور اکرم ﷺ سے صحیح ثابت ہے۔"
[النکت تحقیق شیخ ماہر بن یاسین صفحہ 536]
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک یزید بن خصیفہ کا ثقہ ثبت ہے۔
غیر مقلدین علماء کا امام احمد رحمہ اللہ کے منکر الحدیث کے تعلق سے موقف:
(1) شیخ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ نے بھی امام احمد بن حنبل کے منکر الحدیث والے کلمہ کو یزید بن خصیفہ پر تفرد پر محمول کیا ہے۔
[کتاب الوحدان، صفحہ 26]
(2) شیخ ارشاد الحق اثری صاحب اپنی کتاب "توضیح الکلام" کے صفحہ 455 پر لکھتے ہیں:
"منکر الحدیث" کا لفظ اگر امام احمد بن حنبل سے منقول ہو بھی تو ان الفاظ سے عوام کا ناقابل اعتبار ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ جبکہ ان کے نزدیک اس سے مراد "غربت اور تفرد" ہے۔"
شیخ ارشاد الحق اثری کی بھی عبارت بالکل واضح ہے کہ ثقہ راوی کے لئے اگر امام احمد بن حنبل منکر الحدیث کا کلمہ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد تفرد ہوتا ہے۔
دوسرے مقام، صفحہ 485 پر منکر الحدیث کے تعلق سے لکھتے ہیں:
"لیکن راوی سے ایک دو منکر حدیث مل جانے پر بھی محدثین بسا اوقات "منکر الحدیث" کا لفظ بولتے ہیں اور کبھی ضعیف راوی سے منکر روایت بیان کرنے کی وجہ سے یہ لفظ بولتے ہیں۔ حالانکہ فی نفسہ وہ (راوی) ثقہ ہوتا ہے۔"
(3) ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحاق اپنی کتاب "جرح و تعدیل" کے صفحہ 232 پر امام احمد بن حنبل کے لفظ "منکر الحدیث" کے تعلق سے لکھتے ہیں:
"لیکن یہ کلمہ جب امام احمد استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ان کے یہاں یہ ہوتا ہے کہ راوی کسی چیز کی روایت کرنے میں جملہ احباب سے منفرد ہے۔"
اس کے بعد ڈاکٹر اقبال صاحب وہی دلیل دیتے ہیں ( جو کفایت اللہ صاحب نے دی، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ "منکر الحدیث" یہ راوی پر جرح ہے) جبکہ امام احمد بن حنبل اگر کسی ثقہ راوی کے بارے میں "منکر الحدیث" کا کلمہ استعمال کریں تو یہ جرح نہیں ہوتی ہے۔
(4) مولانا ابوالسیف بنارسی اپنی کتاب "دفاع صحیح بخاری" کے صفحہ 663 پر ایک راوی موسیٰ بن نافع پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی "منکر الحدیث" کی جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ان کی کل حدیثیں منکر نہیں ہیں، بلکہ بعض ہیں۔ اس کے لیے "الحدیث" پر "الف" اور "لام" عہد کا ہے اور اس سے ان کے حق میں جرح نہیں ہو سکتی ہے۔"
مولانا ابوالسیف بنارسی، جو کہ کفایت اللہ صاحب کے مکتبہ فکر کے بڑے عالم گزرے ہیں، وہ بھی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی "منکر الحدیث" کو راوی کے حق میں جرح نہیں مان رہے۔
**الزامی جواب:**
غیر مقلدین علماء کے نزدیک "منکر الحدیث" غیر مفسر جرح ہے:
یاد رہے کہ ہم یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے کہے گئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول "منکر الحدیث" کو محض تفرد و غرائب پر محمول کرتے ہیں، نہ کہ یہ کوئی جرح ہے۔
1. مولانا محمد گوندلوی متعدد جرح کے الفاظ نقل کرتے ہیں، جس میں "منکر الحدیث" بھی شامل ہے۔ ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"جو جرحیں نقل کی گئی ہیں ان میں کوئی جرح مفسر نہیں۔"
[خیر الکلام، صفحہ 162]
2. شیخ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
"صرف ضعیف، یا متروک، یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے۔"
[تعدد قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ، صفحہ 43]
3. مولانا نذیر احمد رحمانی لکھتے ہیں:
"ہم نے اپنے ثانی جواب میں دوسرے الفاظ جرح کے ساتھ "منکر الحدیث" کو بھی جرح مبہم کہا ہے۔ شاید اس کے متعلق کسی کو شبہ ہوا ہو، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اس کا ازالہ کر دیا جائے۔
پس پہلی بات یہ ہے کہ تیسرے جواب سے معلوم ہوا کہ "منکر الحدیث" کا لفظ محدثین کے نزدیک مختلف معانی میں مستعمل ہے۔ اس لیے بغیر کسی قرینہ اور دلیل کے اس کے مراد کا مشتبہ اور مبہم ہونا ظاہر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مستند علماء نے اس کی جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے۔"
[انوار المصابیح، صفحہ 119]
اوپر کی پیش کردہ عبارات کو سامنے رکھ کر ہم کفایت اللہ سنابلی صاحب سے کہنا چاہتے ہیں، جب منکر الحدیث یہ جرح غیر مفسر ہے۔ اور آپ کے ہی مکتب فکر کے مستند علماء کے نزدیک اس سے راوی کے اوپر کسی طرح کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے تو پھر آپ کیوں اسے یزید بن خصیفہ کے حافظے کی کمزوری میں دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں؟ بلکہ یزید بن خصیفہ ثقہ و ثبت راوی ہیں۔
خود غیر مقلدین علماء سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر "منکر الحدیث" کو جرح مان بھی لیا جائے تو یہ جرح غیر مفسر ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
الزامی جواب 2:
یزید بن خصیفہ کے تعلق سے امام احمد بن حنبل کا قول "منکر الحدیث" کوئی جرح نہیں ہے بلکہ تفرد اور غرائب کے تعلق سے ہے۔
البتہ اگر اس جرح کو مان بھی لیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ غیر مقلدین کے نزدیک اول تو یہ غیر مفسر جرح ہے جس وجہ سے یہ مردود ہے، اور دوسری بات یہ بھی مان لی جائے کہ اگر یہ جرح ثابت ہے تو غیر مقلدین علماء کے حساب سے توثیق کو ترجیح دی جاتی ہے اور ثابت شدہ توثیق کے مقابلے میں جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
عبارت ملاحظہ کریں:
شیخ ارشاد الحق اثری "توضیح الکلام" کے صفحہ 484 حاشیہ ایک میں لکھتے ہیں:
"مگر یہ یاد نہ رہا کہ ایک ہی محدث سے جرح و تعدیل میں اختلاف ہو تو اعتبار توثیق کا ہوتا ہے۔"
امام احمد بن حنبلؒ کا یزید بن خصیفہ کی روایت سے دلیل پکڑنا:
چور کے ہاتھ کو کس جگہ سے کاٹا جائے گا؟ اس تعلق سے امام عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنے والد امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کرتے ہیں:
"امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ کہنی کے جوڑ (elbow joint) سے ہاتھ کاٹا جائے گا، پھر آگے حدیث نقل کرتے ہیں: "حدیث یزید بن خصیفہ عن ابن شعبان عن نبی اکرمﷺ کہ آپ ایک چور کے پاس آئے، تو اس کا ہاتھ کاٹا اور پھر اسے داغ دیا گیا۔ یہ دلالت کرتی ہے کہ مفصل یعنی جوڑ سے اسے کاٹا جائے۔" [مسائل امام احمد بن حنبل بروایت عبداللہ، رقم 1545]
آپ حضرات دیکھ سکتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ نے یزید بن خصیفہ کی حدیث سے استدلال بھی کیا، وہ بھی احکام اسلام کو نافذ کرنے کے لیے، جبکہ یہ روایت یزید بن خصیفہ کی غریب روایات میں سے ایک ہے۔اس حدیث کو امام ابو عبید القاسم بن سلام الحروی نے اپنی کتاب "غرائب الحدیث" جلد 2، صفحہ 95 پر نقل کیا ہے۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یزید بن خصیفہ ایک ایسے درجے کا راوی تھا جس سے وہ حجت پکڑتے تھے۔
بلکہ امام خطیب بغدادیؒ نے بھی یزید بن خصیفہ کی روایت کے تعلق سے کہا ہے:
"یہ حدیث غریب ہے، یزید بن خصیفہ کی احادیث میں سے۔" [تاریخ بغداد، جلد 16، صفحہ 20، تحقیق بشار العواد]
اس حدیث کو امام احمد بن حنبلؒ نے بھی نقل کیا ہے: [مسند احمد، تحقیق شعیب الارنؤوط ، حدیث نمبر 15717]
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محدثین کرام کو یہ معلوم تھا کہ یزید بن خصیفہ غریب احادیث بیان کرتے ہیں جن میں وہ منفرد ہوتے تھے۔
خود علماء غیر مقلدین بھی فرماتے ہیں:
مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں:
"لیکن راوی سے ایک دو منکر احادیث مل جانے پر بھی محدثین بسا اوقات "منکر الحدیث" کا لفظ بولتے ہیں، اور کبھی ضعیف راوی سے منکر روایت بیان کرنے کی وجہ سے یہ لفظ بولتے ہیں، حالانکہ فی نفسہ وہ (راوی) ثقہ ہوتا ہے۔" [توضیح الکلام، صفحہ 485]
مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب امام ذہبی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"محدثین جب کسی راوی کے بابت منکر الحدیث کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کی جتنی روایات ہیں وہ سب منکر ہیں، بلکہ اس کی چند روایات میں سے اگر بعض بھی منکر ہوں تو اس کو منکر الحدیث کہہ دیتے ہیں۔" [انوار المصابیح صفحہ 119]
تحقیق سے بات ہمیں سمجھ آتی ہے یہی وجہ رہی ہوگی جو امام احمد بن حنبلؒ نے یزید بن خصیفہ کو منکر الحدیث کہا ہے۔
اس تمام بحث سے پتہ چلتا ہے کہ یزید بن خصیفہ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک ثقہ راوی تھے، جس سے دلیل پکڑی جاتی ہے، اور جو منکر الحدیث کا قول ہے وہ ان کے غرائب اور تفردات کے تعلق سے ہے، نہ کہ کسی حافظے میں کمی کے تعلق سے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں