نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

"تقويم المیزان" یعنی مولانا اثری کے میزان کی اصلاح , "اعلاءالسنن فی المیزان"

 

"تقويم المیزان

" یعنی مولانا اثری کے میزان کی اصلاح


مصنف : خادم الحدیث مولانا سفیان عطاء صاحب مدظلہ العالی

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

ہمارے استاذالاستاذمولانا ارشاد الحق صاحب اثری رح نے "اعلاءالسنن" کے لیے جو "میزان"قائم کیا، اس کی تقویم و تعدیل کے لیے یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں، مولانا مرحوم نےاعلاء کے علو  ومرتبہ میں کمی کے لیے ہر وہ ممکنہ کوشش کی ہے،جو وہ کر سکتے تھے،حتی کہ انہوں نے اس سلسلہ میں سعودیہ کے معاصر سلفی علماء کی تقلید تک کو اختیار کیا، اور زیادتی مباحث وضخامتِ کتاب کے لیے انہوں نے جن مباحث پر گفتگو کی ہے، ان کے لیے مطروقۃ الموارد کی تعبیر اختیار کی جا سکتی ہے۔ان کے الفاظ کا انتخاب، جملوں کی ساخت،تعریضات اور طنزیہ جملے "وما تخفي صدورهم أکبر"  کا پتہ دیتے ہیں۔اس سب کے باوجود "اعلاءالسنن"کاحال یہ ہے۔

كناطخ صخرة يوما ليوهنها

فلم يضرها وأوهى قرنه الوعل

  راقم نے چندسال قبل  "قواعد فی علوم الحدیث، مترجم "میں  اس "میزان"کی تقویم کا وعدہ کیا تھا، اور اس پر کچھ ضروری اشارات بھی تیار کر لیے تھے،یہ سب استادمحترم مولاناعبدالعزیزخیرآبادی کے حسبِ ارشادتھا۔ اسی دوران معلوم ہوا، کہ چنیوٹ کے ایک نوجوان عالم نے اس پر مفصل کام کیاہے،جو قریب بتکمیل ہے۔اور عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔اس اطلاع پر راقم نے مزیدکام موقوف کردیا تھا۔راقم  کے کاغذات میں اس سلسلہ میں جو تحریرات متفرق طور پر جمع تھیں،ان کو یہاں افادہ و استفادہ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

"اعلاءالسنن" شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی کی تالیف کردہ ہے، جو شارح سنن ابی داؤد مولاناخلیل احمد سہارنپوری اور محدث بردوانی مولانامحمد اسحاق بردوانی کے خاص شاگرد ہیں،اسی طرح انہوں نے امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری سےبالمشافہہ اورمراسلتااستفادہ کیا۔جیساکہ انہوں نے دوران تالیف حضرت شاہ صاحب کی بیاض خاص سے بھی استفادہ کیا۔( انوار الباری : 2/455، نقش دوام: 138) لیکن اس کتاب کا انتساب تبرکا حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی طرف کیا گیا،کیونکہ انہی کے رہنمائی،مشورہ و سرپرستی میں یہ کام سر انجام پایا۔کتاب کے فقہی مباحث میں حضرت تھانوی کی آراء بکثرت نقل کی گئی ہیں۔اور خود حضرت تھانوی نے بھی فقہی مباحث میں حضرت امام العصر سے مکاتبتا استفادہ کیا ہے۔ (نفحۃ العنبر(

لیکن اس تبرکانہ نسبت کو مولانا اثری نے حقیقی سمجھ کر حضرت شیخ الہند سے منقول ایک روایت نقل کر دی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مولانا تھانوی،علامہ ظہیر احسن کی طرز پر کتاب لکھنا چاہتے تھے، اور حضرت شیخ الہند نے فرمایا: کہ ان میں اس طرح کی کتاب لکھنے کی اہلیت نہیں۔ اور نتیجہ یہ نکالا گیا، کہ اس کتاب کی علمی حیثیت کوئی نہیں۔ حالانکہ اولا تو یہ حضرت تھانوی کی کتاب ہی نہیں،کہ شیخ الہند کے مقولہ کو یہاں لایا جائے۔

بالفرض اگر شیخ الہند نے یہ جملہ ارشاد نہ فرمایا ہوتا، تو کیا اس کتاب کو علامہ نیموی کی کتاب کے ہم پلہ تسلیم کر لیا جاتا؟ نیز کیا اہل حدیث حضرات نے من حیث الجماعت "آثار السنن" کا علمی پایہ تسلیم کر لیا ہے، کہ اس کے برابر کسی کتاب کو تسلیم نہیں کر رہے ؟نیزیہ ایک رائے ہی تھی ،کوئی وحی  نہ تھی۔کہ اس کاتخلف ناممکن ٹہرتا۔غیروحی ، فراست ہو،یاالہام ، ارشادہویااجتہاد اس میں خطاء کااحتمال رہتاہے۔"فقہ ابی حنیفہ" اور "قرآت حمزہ "کےبارے بھی معاصرکباراہل علم یہی رائےرکھتے تھے،کہ شایدکوفہ کی سرحدسے باہرنہ جاپائیں گی۔

كم من صبي يرى في البدء محتقرا

وآخرشانه كالقلل في جبال

بزرگوں کی فراست سے یاد آیا، کہ مولاناسید نذیر حسین رحمہ اللہ اپنی جماعت کے سرکردہ اہل علم مناظرین کے بارے میں  ایک رائے رکھتے تھے،  سید صاحب اپنے مسلک کے مناظرین اور ان کی حالت زار پر بڑے فکرمندرہتےتھے،  انہیں جھوٹی گواہیوں، بے انصافی اور سطحی علم پر نصیحتیں کرتے رہتے، لیکن ان کے سوانح نگار ان کے الفاظ نقل کرتے ہیں: "لیکن میرے التماس کا اثر نہیں ہوا، نہ ہونے کی امید ہے" (الحیات بعدالممات: 308) یقینا اس فراست ایمانی کی کوئی تاویل اہلحدیث حضرات کے ہاں ہوگی، اور اگر وہ ہے،تو شیخ الہند کی اس روایت کی بھی وہی توجیہ کی جا سکے گی۔بلکہ دیکھاجائے،توحضرت شیخ الہندکی رائے سے اس موخرالذکررائے کی پختگی زیادہ ہے،کہ  اس میں ادراک تام موجودہے،اور امورمذکورہ،مشاہدہ اورتجربہ پرمبنی ہیں۔اوریہ رائےشرعا گواہی بننےکی صلاحیت رکھتی ہے۔شیخ الہندکی رائے،رائےمحض ہے۔مولاناسید نذیر حسین کی یہ تفصیلی رائے آگے آرہی ہے۔

"میزان " کتاب میں ایک عام سی بات کے لیے فتنہ تخریج سے بھرپور کام لیا گیا ہے، مخصوص مہارتوں سے پیالیوں میں طوفان برپا کیا گیا ہے، کتاب کا حجم ،حوالجات کی کثرت کا مقصد قارئین پر ایک علمی رعب طاری کر دیتا ہے، لیکن جیسے ہی کتاب کو دقت نظری سے ملاحظہ کیاجاتاہے، توواضح ہوتاہے، کہ مولانا اثری صاحب نے بیشتر مقامات پر مولانا عثمانی پر جوقواعدکے تناقض و تخالف کا الزام لگایا ہے،وہاں دراصل انہیں خود ضروری حدودو قیود سے ذہول ہو گیا ہے، وہ قواعد کو کلیات سمجھ بیٹھتے ہیں۔ گویا"لولا الإعتبارات لبطلت العبارات" کا معاملہ درپیش ہے۔متعدد مقامات پر ایسے اعتراضات لاتے ہیں،جو فریقین میں سے کسی کے اصول پر اعتراض بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

مولانا عثمانی کی پیش کردہ مباحث میں جو تقیید و تنقید ممکن تھی، اسے ان کے شاگرد مجاز شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے حواشی میں بیان کر دی ہیں۔ اورمولانااثری صاحب(اسی طرح مولاناصلاح الدین مقبول صاحب) نے بھی انہی کے حواشی سے استفادہ کرتے ہوئے مولانا پر اعتراضات کیے ہیں۔ اور انہیں محدثین کے متضاد مسلک کے طور پر پیش کیا ہے ۔حالانکہ اصول حدیث کے مباحث کے اجتہادی ہونے اور قواعد کے کلیہ نہ ہونے کا جب مشہور ضابطہ مقررہوچکا ہے ،تو پھر یہ مستثنیات،ان قواعد کے اطراد میں معارض نہیں، یہ اعتراضات فنی نوعیت کے ہیں، جن سے  مباحث اجتہادیہ خالی نہیں ہوتیں،قدماء اہل فن کو بھی اس سے مفر نہیں۔ خیال یہی ہے کہ اگر اثری صاحب کتاب کے قواعد اور ان کے انطلاق میں حدود و قیود، ضروری شرائط اور امور اضافیہ کا اعتبار گردانتے، توشاید انہیں کم ہی دقت اٹھانی پڑتی۔

اس کی عام فہم مثال یہ ہے، کہ" بخاری شریف" محدثین کے ہاں "اصح الکتب" کے درجہ پر فائز ہے، لیکن اس ضابطہ کے مستثنیات،دربارہ متن ورجال اس قاعدہ کی حیثیت کو مخدوش نہیں کرتے، اسی طرح "قواعد فی علوم الحدیث" میں موجود قواعد کے مستثنیات سے ان قواعد پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

کسی بھی قاعدہ کی بنیاد اکثریت واغلیت پر ہوتی ہے۔ اثری صاحب نے "کل من روی عنه فلان،ثقة" جو کچھ لکھا ہے ، وہ اسی ایک جملے سے هباء منثورا ہو جاتا ہے. رہی اثری صاحب کی دقت نظری، کہ فلاں استاد و شیخ پر فلاں نقد ہے، اس کے بارے میں اگر ذھبی کا قول ملحوظ خاطر رکھتے، تو ضیاع وقت سے  بچ جاتے۔امام ذھبی لیث بن سعد کے بارے میں لکھتے ہیں: کہ"...ليس بدون مالك، ولاسفيان، وما تساهل فيه الليث  فهوحجة، دليل على الجواز؛ لأنه قدوة" يعنی "ان کا درجہ امام مالک اور سفیان ثوری سے کم نہیں، اور جس شیخ کے بارے میں لیث نے تساھل برتا ہے، تو وہ حجت ہے،کیونکہ اس سے روایت لینے والےلیث ہیں،اوروہ قابل تقلید امام ہیں" (میزان الاعتدال:3/423)

  ہ دلیل ہے کہ مولانا عثمانی اس باب میں محدثین کے ہم مسلک ہیں، اور اصابت رائے رکھتے ہیں، امام ذھبی کے اسی قول سے مجتہد کے استدلال بالحدیث سے صحت حدیث کا لازم آنا بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ مجتہد حجت ہوتا ہے۔ لہذا عامی کے لیے اس کا استدلال صحت کی دلیل بن جاتا ہے۔ 

اثری صاحب نے امام صاحب کے ان شیوخ پر نقد کیا ہے،جن پر وضع اور کذب کا قول اختیار کیا گیا ہے، گویا کہ وہ اس سے امام صاحب کی روایات پر نقد اور مسلک حنفیہ کی تضعیف کرنا چاہتے ہیں۔ تلك أمانيهم حالانکہ یہ سارا مقدمہ اس پر موقوف ہے، کہ امام صاحب نے ان کی روایات سے ہی استدلال کیا ہو،ان کےپاس دیگرادلّہ نہ ہوں۔ اور یہ بہت نادر ہے ۔اسی طرح اگر امام صاحب کی ان مستدل روایات کی کوئی اصل دیگر روایات صحیحہ، آثار صحابہ، فتاوی تابعین میں نہیں، تب تو یہ قابل اعتراض ہے، اور اگر ان کی اصل موجود ہے، تو پھر یہ اعتراضات وقعت نہیں رکھتے، جیسا کہ خود بخاری شریف کی متکلم فیہ روایات اور رجال کے بارے میں ابن حجر نے جا بجا اسی ضابطہ کو بیان کیا ہے۔ نیز حنفیہ کی ان روایات میں پایا جانے والا ضعف، ضعف طاری ہے، جو بعد کے روات کے ضعف کی وجہ سے آیا ہے۔ اس سے متقدمین حنفیہ کے ہاں ان روایات کی صحت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ جیسا کہ خود ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ائمہ اسلام کے اعذار میں اس کو نقل کیا ہے۔ان کےالفاظ ہیں:"بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين، كانوا أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير؛ لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لايبلغنا إلا عن راو مجهول أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية، وكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين"(الصواعق المرسلة:554) امام ذھبی نے بھی یہی بات شقیق بلخی رحمہ اللہ کے احوال  میں لکھی، کہ" ان پر ضعف کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ ان سے آنے والی احادیث کی نکارت دراصل ان کے بعد والے روات کی وجہ سے ہے" (میزان الاعتدال:2/ 279)معلوم ہوا، کہ احادیث پر ضعف بسا اوقات نچلے روات کی وجہ سے ہوتا ہے۔

  اس بحث سے یہ ملخص ہوا، کہ رجال و متون کی تائید دیگر روایات سے ملنے کی وجہ سے، اسی طرح صدر اول میں معمول بہا ہونے کی وجہ سے ان پر کیے گئے اعتراضات کی حیثیت کو ختم کر دیتے ہیں، کیونکہ اصل متن جب کسی دلیل سے، مثلا عمل متوارث سے ثابت ہو جائے، تو سند کا محتاج نہیں رہتا،اسی وجہ سے مالکیہ کے ہاں اہل مدینہ کے عمل کو راجح قرار دیا گیا ہے۔

اہل  کوفہ کی روایت

  اثری صاحب نے اہل کوفہ کی روایات کی حیثیت پر بھی انتقاد کیا ہے۔ اور امام شافعی سے ایک روایت اس مضمون کی لائے ہیں۔ امام شافعی کی اہل کوفہ کے بارے میں اس روایت کی حیثیت کیا ہے؟ شہروں کی طرف نسبت کرتے ہوئے روات کی تضعیف کی حیثیت کیا ہے؟ امام شافعی کا یہ مقولہ،درایتا کس درجہ کا ہے؟ اس مقولہ پر ان تین سوالوں سے اغماض برت کر اسے نقل کرنا، صرف حنفیہ کے خلاف اپنی رائے کا اظہار ہی مقصودہوسکتا ہے۔ امام شافعی شروع زمانہ میں اہل کوفہ کی روایات کے بارے میں یہی خیال رکھتے تھے، لیکن پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے منقول ہے" وكان الشافعي يرى هذا المذهب أولا،ثم رجع عنه" یعنی "امام شافعی اس مذہب کے قائل تھے، پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا" (الصواعق المرسلہ: 554) امام شافعی جب اہل مدینہ اور اہل کوفہ دونوں سے علم کی تحصیل کر چکے تو ان کا تاثر کیا تھا؟ وکیل شافعیہ امام بیہقی لکھتے ہیں: کہ "امام شافعی کہا کرتے تھے، کہ اہل کوفہ اہل مدینہ کے مذاہب  کی معرفت رکھتے تھے، اور اہل مدینہ اہل کوفہ کے مذاہب کی معرفت نہ رکھتے تھے، چنانچہ جب یہ آپس میں ملتے،اور گفتگو کرتے، تو اہل مدینہ جواب نہ دے پاتے"(المدخل: 596) شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ "جمہور اہل علم کے ہاں حدیث کی صحت کا تعلق صرف روات کی صفات سے ہے۔ کسی بھی شہر کے کسی بھی راوی میں توثیق کی صفات پر روایت کی تصحیح کی جائے گی، شہروں کی بنیاد پر تضعیف نہیں کی جائے گی"( الصواعق المرسلہ : 554 )جہاں تک اس قول کا درایتی تعلق ہے۔ تو اس کے لیے امام اہل سنت مولاناسرفرازخان صفدر رح کی کتاب "مقام ابی حنیفہ" میں موجود محدثین کوفہ کی فہرست ملاحظہ ہو۔ جس سےاس مقولہ کی اصلیت سامنے آجائےگی۔اس مقولہ کی سطحیت کی مثال ایسے ہے،کہ  جیسے "الأنساب" للسمعانی کا مطالعہ کیا جائے، اور کہا جائے کہ اسلام کے ناقلین تو موچی، درزی دکاندار، باورچی اور خوانچہ فروش تھے۔اورمسیحی ذہنیت کایہ نتیجہ نکالاجائے،کہ اس طبقہ کےلوگوں کی عرف میں کوئی حیثیت نہیں،توان سےمنقول مذہب کی کیاحیثیت ہوگی؟

اثری صاحب نے اس طرح کا کام کیا ہے کہ جیسے کوئی شخص امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الجامع الصحیح کے تنقیدی مقامات کو اٹھا کر عوام کے سامنے پیش کر کے یہ کہتا پھرے کہ ان کے ہاں جواصح الکتب ہے اس کا یہ حال ہے. یا پھر روایتا درایتا مخدوش احادیث کو عوام کے سامنے پیش کر کے احادیث کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کا دین و مذہب اس قسم کے روایات سے ماخوذ ہے ظاہر ہے کہ اس عامی شخص کا یہ فعل اس کے تعصب کا شاخسانہ اور اس کی جہالت کا ائینہ دار ہے لیکن اثری صاحب کے مقام کے پیش نظر ہم ایسے الفاظ ان کے حق میں مناسب نہیں سمجھتے۔

ضیاع عمری کا افسوس

اثری صاحب نے امام العصرعلامہ انورشاہ کشمیری رح کا ایک مقولہ نقل کیا، جس میں انہوں نے اپنی عمر کے ضیاع پرافسوس کیا،کہ کاش عمر بھر مسلکی موضوعات پر کام کرنے کی بجائے اس سے  اہم موضوع پر کام کیا ہوتا۔ شاہ صاحب کے اس مقولہ پر اثری صاحب نےخوب تعلیقات کیں۔اورخاص مقصدثابت کرناچاہا۔ اس سلسلہ میں گزارشات ملاحظہ ہوں۔

(1) اللہ تعالی نے انسان میں صفت معراج ودیعت کی ہے، ایک خوبی و وصف کو حاصل کر لینے کے بعد وہ دوسری کا خواہشمند رہتا ہے۔ اور افضل سے افضل کا متلاشی رہتا ہے۔

 (2) دینی خدمات، معروضی احوال کے پیش نظر اپنی اہمیت بدلتی رہتی ہیں۔کہیں تعلیمی قران مقدم، کہیں اس کی تفہیم، کہیں مناظرانہ اسلوب تو کہیں دعوت کو فوقیت حاصل ہے۔

(3)  سلف صالحین کے ہاں ایسی تعبیرات ملتی ہیں، کہ ایک عرصہ ایک دینی خدمت بجا لانے کے بعد جب دوسری خدمت میں مصروف ہوتے ،اور اس کی اہمیت ان پر منکشف ہوتی، تو وہ اپنی پہلی خدمت پر حسرت کرتے ،کہ کاش پہلے ہی زیادہ اہم خدمت کو بجا لاتے۔ قارئین کرام! یہی صورتحال ہندوستان کی تھی، جب ایک طبقہ، اہل رفض کے ساتھ اشتراک عمل کرتے ہوئے مسالک  فقہیہ خصوصااحناف  کو اسلام کے خلاف سازش قرار دینے پر تلا ہوا تھا، تو معروضی احوال کے پیش نظر ضرورت تھی، کہ فقہ حنفی کے مستدلات کو سامنے لایا جائے، اور معترضین کی تشفی کرائی جائے،چنانچہ فتنہء انکار تقلید کی سرکوبی کے بعد جب یہ حضرات مریضا کادیانی کی گوش مالی کے لیے میدان عمل میں اترے۔تو احساس ہوا؛ کہ یہ کام زیادہ اہم تھا، اور اس کے لیے محنت کم کی گئی۔ شاہ صاحب کی عبارت کا سیاق و سباق واضح ہے، کہ وہ کس نقطہ نظر سے گفتگو کر رہے ہیں۔ زمانہ کے تغیرات،ضروریات کے پیش نظر وہ مخاطبین کو یہ سبق دے رہے ہیں، کہ اسلام کی خدمت میں زمانہ کی ضروریات کو فراموش نہ کریں ، زندقہ و الحاد کے اس دور میں طلبہ کے لیاقت و استعداد زیادہ سے زیادہ انہی امور پر مرتکز ہونی چاہیے۔نہ کہ ترجیح مسلک پر۔

(4) حضرت شاہ صاحب  کے اس مقولہ کی نظیر خود علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں ملتی ہے،جنہوں نے زندگی بھر دینی خدمت، اعلاء کلمۃ اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بسر کی۔ اپنی انفرادی اجتہادی آراء کے باوجود وہ اپنے دور کے فرد فرید تھے ۔اور بجا طور پر شیخ الاسلام کے عظیم منصب کے لائق۔  پوری زندگی تعلیم و تصنیف، جہاد و تبلیغ میں گزارنے کے بعد اسی زندگی پر ان کے ہاں ایک تاسف بھرا قول ملتا ہے، جس میں وہ یہ کہتے نظر اتے ہیں۔کہ میری عمرکااکثرحصہ ضائع ہواہے۔

دوران قید،قران مجیدمیں غوروفکر کرنے پران پریہ نکتہ کھلا: "وندمت على تضييع أكثر أوقاتي في غير معاني القران" (الذیل علی طبقات الحنابلة:2/405)

اہل علم کی اس طرح کی عبارات کو ان کی عالی دماغی، علمی اور عملی معراج کی بجائے سطحیت و کج فہمی سے پرکھنا کسی طرح قابل تحسین عمل نہیں۔ اگر ان عبارات کو اغراض فاسدہ اور مسائل کاسدہ پر محمول کیا جا سکتا ہے، تو سید نذیر حسین رح کی عبارات، ان معانی کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے مناظرین (جن میں غزنوی ، امرتسری، ملتانی، مبارک پوری،سہوانی، اور قنوجی نسبت کےکباراہل علم شامل ہیں) کے بارے میں ارشاد کیں۔

اہل حدیث لٹریچر میں جن تحریکوں کو اسلام کے احیاء سنت و حدیث کی تحریکیں کہا گیا، انہی کے بارے میں سید صاحب موصوف کے اقوال ملاحظہ ہوں۔موصوف  ان مناظروں کو مقلدین کے ہاں جگ ہنسائی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ (الحیات بعد الممات: 167) یہ مناظرے ان کے خیال میں یومیہ بنیاد پر اہل حدیث کے لیے ذلت، ضعف اور افلاس میں اضافے کا باعث تھے۔ اپنے مناظرین کے بارے میں انہیں علم اور اعتراف تھا، کہ وہ غیر مہذب، بد چلن، غیر محقق، متعصب اورمکفرین ہیں۔ نہی عن المنکر میں جھوٹی گواہی تک کا ارتکاب، مقلدین کی مخالفت میں کر ڈالتے ہیں ۔اور یہ تکفیر مسلمین کو فریضہ جہاد فی سبیل اللہ سمجھتے ہیں۔ (نیز یہ کام دو چار روز کا نہیں تھا بلکہ سال بھر یہی کام جاری رہتا تھا۔(ایضا: 308)

جناب من! انہی لوگوں کی تردید میں جو وقت شاہ صاحب نے صرف کیا، اسی پر کف افسوس ملتے تھے۔سید نذیر اپنے مناظرین کے  مستقبل کےبارے میں بھی نا امید تھے ،کہ ان کی کوئی اصلاح ہو سکتی ہے۔

پیش نظر رہے کہ سید صاحب خود بھی صاحب فن مناظر تھے۔ ان کے مناظرے ایک موضوع پر مسلسل دو ماہ سے زیادہ ایام لیا کرتے۔ مثلا شیخ ابن عربی کی تکفیر پر ایک مناظرہ مولاناسہوانی و مولانا ڈیانوی کے ہمراہ سید نذیر حسین صاحب کا ہوا،جو مسلسل 60 سے 70 روز چلا، اس مناظرے میں فریقین ایک تل کے برابر بھی اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ سید نذیر حسین ابن عربی کے اسلام کے قائل تھے،انہیں الشیخ الاکبرسے موصوف کرتے۔ جبکہ فریق ثانی ابن عربی کی تکفیر کا قائل تھا۔

مسندامام احمد کی روایات کا حسن یا صحیح ہونا، ابو داؤد کا سکوت، نسائی کی خاموشی کا صحت روایت اور قبول روایت کو لازم آنا، "تلخیص" و "فتح" میں حافظ ابن حجر کا سکوت، حسن کے رتبہ میں ہونا۔۔۔ ان سب سے یہ لازم نہیں آتا، کہ ان قواعدوشرائط پر آنے والی تمام احادیث کو مسلک و مشرب بنا لیا جائے۔

اولا: اس لیے کہ یہ قواعد اکثری ہیں کلی نہیں۔

 ثانیا:  اگر تمامی کتب میں موجود ساری صحیح احادیث کو بطور مسلک اختیارکیا جائے۔تو ایک متعارض، متناقض، غیر معقول مذہب بن جائے گا۔ اسی نکتہ کی وجہ سے محدثین و فقہاء نے تطبیق وترجیح اور  نسخ کے قواعد تشکیل دیے ہیں۔ اور یہ قاعدہ اختیار کیا ہے،کہ صحت حدیث، روایت حدیث سے مذہب لازم نہیں آتا۔

ثالثا: خود حضرات اہل حدیث بھی محدثین کے قواعد میں تنقیح کرتے ہیں، کہیں کسی کا قول لیتے ہیں، اور کہیں اسی کا قول ترک کرتے ہیں، ہر جگہ استقصاء قاعدے کے عین مطابق روایت و مذہب کے اختیار کرنے کا دعوی تو شایدغیرمحتاط شخص ہی کرے گا۔

رابعا: مسلک کی تدوین، کتب حدیث کی تدوین سے پہلے ہوئی اس لیے کتب حدیث کو مسلک پر حجت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امام مالک رفع یدین کے قائل نہیں حالانکہ خود موطاء میں روایت موجود ہے۔ اسی طرح تمام فقہی مذاہب میں، روات ائمہ کی روایات پر مسلک کا اعتماد اور بنیاد ہے۔

 خامسا: احادیث ورجال کی بہت سی کتب، حوادث زمانہ کی نذرہوچکیں۔  اور بہت سے روات کے احوال ضبط نہ ہوسکے،ان پرکی گئی نقود کی درست تنقیح نہ ہونے کی وجہ سے متعددمسائل تشنہء تحقیق ہیں۔

مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے جو اقوال نقل کیے ہیں۔ اور انہیں ضابطہ قرار دیا ہے، وہ بلا دلیل نہیں۔ ہر قاعدہ اور اصول کی دلیل انہوں نے نقل کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے  کہ ایک طبقہ یعنی اہل حدیث حضرات کے ہاں ان قواعد کو معمول بہا قرار نہیں دیاگیا۔ ان اقوال کے اہل علم سے منقول ہونے کا انکار اہل حدیث حضرات کبھی بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ اہل حدیث حضرات نے ان اقوال کو بطور قواعد قبول نہیں کیا۔ اور نہ ان کے خیال میں ان اقوال پر امت کا تعامل ہے ۔اس پر عرض ہے کہ جماعت اہل حدیث کا بہت سارے اختلافی مسائل میں طریقہ کار یہ ہے، کہ وہ ان مسائل کی احادی سند اور عصر نبوی میں ان کا ثبوت مل جانا کافی سمجھتے ہیں۔امت نے ان احادیث اور مسائل کو تلقی بھلے نہ دی ہو۔ تو تعامل اور قبولیت کو وہ اپنے پیش نظر نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے، کہ اگر ان مسائل میں ان حضرات کے لیے محض اسناد و روایات کافی ہیں۔تو پھر مولانا ظفر احمد عثمانی کے لیے تاصیل سازی میں ان اقوال کا اہل علم سے منقول ہو جانا کافی کیوں نہیں ؟ یہاں اہل حدیث حضرات کےخیال کےمطابق،ان اقوال کی بطوراصول تلقی اور ان پرتعامل کیوں ضروری ہے؟یہ دوھرامعیارکیوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

امام محمد اورمولانااثری

مولانا ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اعلاءالسنن فی المیزان" میں شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب "اعلاءالسنن" کو اپنے "میزان" میں تولتے ہوئے امام محمد رحمہ اللہ کے مقام و مرتبہ پربھی چند تنقیدات کی ہیں۔  ذیل کے سطور میں ان کاایک جائزہ پیش خدمت ہے۔

 [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے جو عمرہ ادا فرمایاتھا، اس کے بارے میں امام محمد رحمہ اللہ نے لکھا: "ہمیں یہ بات پہنچی ہے، کہ جب رسول اللہ نے حنین سے احرام باندھا تھا تو فرمایا تھا:کہ" یہ عمرہ فتح مکہ کے دن، بغیر احرام کے، مکہ میں داخل ہونے کی وجہ سے ہے"

اس عبارت پر اثری صاحب نے دو اعتراض کیے ، ایک یہ کہ یہ عمرہ حنین سے نہیں، بلکہ جعرانہ سے تھا۔ دوسرایہ کہ امام محمد کا یہ بلاغ  ثابت بالسند نہیں کیا جا سکتا،اس سلسلہ میں گزارش ہے، کہ اثری صاحب پہلے وہ شخص نہیں ، جو اس عبارت پر مطلع ہوئے ہوں۔ صدیوں سے یہ کتاب پڑھی پڑھائی جا رہی ہے ،بلکہ یہ کتاب متلقی بالقبول ہے، اور امام مالک سے اصح روایات کی حامل تالیف ہے۔( تاریخ المذاہب الاسلامیہ ، ابو زہرہ: 2/232) کسی نے بھی یہ پہلا اعتراض  نہیں کیا، بلکہ اس سے صرف نظر کیا،کیونکہ توسع فی العبارة میں اس طرح کی عبارات آیا کرتی ہیں۔ اسی لیے محشی مولانا لکھنوی نے اس کی توضیح کر دی۔ لیکن پھبتی نہیں کسی، اثری صاحب نے کچھ اس طرح یہ اعتراض نقل کیا، جیسے وہ امام محمد پر استدراک فرما رہے ہیں۔حالانکہ خود امام محمد نے دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کی، کہ یہ عمرہ حنین سے واپسی پر جعرانہ سے احرام باندھ کر کیا گیاتھا۔ ان کے الفاظ ہیں:  "قال محمد: بلغنا أن رسول الله دخل مکة عام الفتح، وعلى رأسه المغفر، ولم يكن رسول الله محرما، فلما فرغ من حنين، أحرم رسول الله من الجعرانة بعمرة، ثم قال: هذه لدخولنا مكة." (کتاب الحجة علی أهل المدینة: 2/585،ط: مکتبہ طیبہ،کوئٹہ،پاکستان) 

امید ہے کہ اس اعتراض سے اہل اعتراض کی تشفی ہو گئی ہوگی۔ جہاں تک دوسرا اعتراض ہے ،تو اتنی بات قابل تسلیم ہے،کہ راقم کو بھی اس کا حوالہ نہیں ملا، لیکن کیا یہ بخاری کی ان تعلیقات کی طرح نہیں،جو ثابت بالسند نہیں؟ یا امام ترمذی کی ایسی روایات کی طرح نہیں،جن کی تخریج ابھی تک نہیں ہو سکی؟ محققین اس طرح کے مسائل میں طنزو نقد کی بجائے لم أجده کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ عجیب بات ہے، کہ امام محمد کے اس بلاغ پر مولانا لکھنوی نے جو لکھا، اثری صاحب کے بقول وہ والله أعلم بنيته ہے۔ گویا امام محمد پر طنز کا ایک پہلو لانا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ اصل حاشیہ میں والله أعلم بحال نبیه لکھا ہے ۔جس کا حاصل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکہ میں تشریف آوری کے وقت آپ محل تھے یا محرم تھے؟ اور جعرانہ سےیہ عمرہ ادا تھا یا قضا ؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔

اثری صاحب کے اعتراض کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے امام محمد کی "کتاب الحجة علی أهل المدینة" کو بنظرعمیق دیکھا،تو معلوم ہوا،کہ امام محمد کے بلاغات کے بارے میں علامہ شامی نے جو "مسندة" فرمایا ہے، وہ درست ہے۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کی تین جلدوں کے بلاغات کا ایک جائزہ پیش کیاجاتا ہے۔

جلد اول میں 21 بلاغات ہیں، ان سب کی متن میں یا پھر حواشی میں تفصیل وسند بیان کر دی گئی ہے۔اس میں صحاح ستہ اور دیگر امہات کتب کے علاوہ مالکیہ کی "المدونة" امام شافعی کی "الأم" اور ابن حزم کے "المحلی" سے بھی تخریج کی گئی ہے۔

جلد دوم میں کل بلاغات 14 ہیں، اور ان میں سے 13 کی تخریج و تفصیل متن یا حواشی میں موجود ہے، صرف ایک موقع پر بلاغ کی تخریج نہیں مل سکی۔

جلد سوم میں کل 19 بلاغات ہیں، ان میں سے 17 مقامات کی تخریج متن یاحواشی میں موجود ہے۔ ایک بلاغ کی معنوی تخریج موجود ہے ۔جبکہ ایک بلاغ بغیر تخریج کے ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں 54 بلاغات میں سے صرف دو نہیں مل سکے ،اور انہی میں سے ایک پراعتراض کیاگیا۔

  نہ مل سکنے کی وجہ سے صاف ظاہر ہے،کہ مصادر مفقود ہیں، یا اہل علم کی رسائی ان تک نہیں کوسکی، چنانچہ محشی علام ایک موقع پر لکھتے ہیں: "لم أجد من خرج أثر عمر، والعلم أمانة في أعناق العلماء، فأفيضواعلينا من فيض علومكم أيها العلماء، بإطلاع المخرج المذكور."(الحجة علی أهل المدینة: 3/99)

مولانا عبدالحئی نے "التعلیق الممجد" میں ان بلاغات کے بارے میں شروع ہی میں لکھ دیا: "...ومنها: أنه يذكر بعض الآثار والأخبار غير مسندة، ويصدر بعضها بقوله بلغنا، وقد ذكروا كما في رد المحتار وغيره، أن بلاغاته مسندة. خاتمة: ليس في هذا الكتاب حدیث موضوع. نعم فیه ضعاف، أكثرها يسيرة الضعف المنجبر بكثرة الطرق، وبعضها شديدة الضعف، لكنه غير مضر أيضا، لورود ذالك في صحاح الطرق"(التعلیق الممجد،مقدمہ)

واضح رہے کہ امام محمد کے پیش نظر بھی یہ بات تھی، کہ بلاغ مخرج اور غیر مخرج دونوں برابر نہیں ،جس کا مطلب ہے، کہ انہوں نے بلاغات علی وجہ البصیرہ اور پوری امانت سے لکھے ہیں۔ ایک جگہ وہ مالکیہ کے بارے میں لکھتے ہیں: "وقال أهل المدينة: بلى، بلغنا أن سعدا كان يمر بين أيدي الناس وهم يصلون، قيل لهم: إنمايروي هذا مالك بن أنس مرسلا عن سعد، ولم يسنده هو، ولم يروه عن أحد، وإنماقال بلغني أن سعدا كان يفعل ذالك"... (149/3)

خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے بلاغات ایک مستقل موضوع مبحث ہیں،ان کے بلاغات میں سے چار بلاغات حافظ ابن عبدالبر رحمة اللہ علیہ کو نہیں ملے، ان کی بعد حافظ ابن صلاح نے بھی تحقیق کی، تو دو بلاغ انہیں بھی نہ مل سکے۔اخیراحافظ ابن حجر نے بھی سجدہ سہوکےمبحث میں لکھا: "فإنه من بلاغات مالك، التي لم يوجد موصولة بعد البحث الشديد.

اثری صاحب نے ان پربھی کچھ اس طرح "ارشاد" فرمایاہوتا۔۔

اہل علم ملاحظہ کرسکتےہیں،کہ ابن حجر نے کس ادب سے وہی بات کہی ہے،جواثری صاحب نے تیزوتندلہجےکی نذرکی۔

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اس کتاب میں قیاس کے متعلق بھی حنفیہ کاموقف واضح کرتےہیں۔چنانچہ امام محمد لکھتے ہیں: "قال محمد: لولا جاء من الأثار كان القياس على ما قال أهل المدينة، ولكن لا قياس مع الأثر، وليس ينبغي إلا أن ينقاد للآثار." (الحجة على أهل المدينة: 1/140،206) کہ اگر آثار نہ ہوتے، تو قیاس کا تقاضا وہی تھا،جو اہل مدینہ کہہ رہے ہیں۔ لیکن آثار کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں کیا جا سکتا اور یہ مناسب نہیں،کہ آثار کو چھوڑ دیا جائے۔اسی طرح وہ مالکیہ کےترک آثارپر،متعدمقامات پرنقدکرتےہیں،مثلا: 1/151، 226، 236،136،151/3

اہل کوفہ پر نقد و تنقید ان کے زمانے میں بھی تھی، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: "إن هذا لمن العجب، إنكم ترغبون فيما تزعمون عن رواية أهل الكوفة، ولا تأخذون بها، وتروون عمن يأخذ من أهل الكوفة، كيف لم تسمعوا بهذا الحديث،-وهو فیما تزعمون فقيهكم- سعید بن المسیب، حتى تروونه عن عطاء الخراساني" (119/1)

اس عبارت میں امام محمد نے عطاءخراسانی پر نقد کیا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے استاد عطاء خراسانی عن ابن المسیب کے بارے میں امام محمد کی رائے پرہی  امام بخاری نے صاد کیاہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ یہ اثر تم  ایسے شخص سے نقل کر رہے ہو، جس کا تعلق خراسان سے ہے، کیا اہل مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس اثرکو ابن المسیب سے نقل کرتا؟ حالانکہ اس مسئلے کا تعلق بھی عموم بلوی کثیرہ سے ہے۔

عطاءخراسانی کے بارے میں امام بخاری کی رائے بھی ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں،کہ امام مالک کے اساتذہ میں ایک ہی شخص میرے نزدیک مستحق  ترک ہے، اور وہ عطاء خراسانی ہے۔(سیراعلام النبلاء: 6/141)

امام محمد نے یہ تعریض کی، کہ بزعم خود تم اہل کوفہ کی روایت سے پہلو تہی کرتے ہو، لیکن جن لوگوں نے خود اہل کوفہ سے روایت لی، ان سے تم لے لیتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اسی کتاب میں امام محمد رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں قال بعض الناس کے الفاظ بھی استعمال کیےہیں(1/311،313)

بعیدنہیں،کہ امام بخاری نے انہیں سے یہ الفاظ اخذکئے ہوں۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے عمرہ جعرانہ کی جو حدیث نقل کی ہے،اس میں "قضی" کے الفاظ ہیں۔ ممکن ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے  "قضی" سے مراد بجائے ادا کے "قضا" ہی لیا ہو،

الفاظ یہ ہیں: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا مُعْتَمِرًا، فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلًا، فَقَضَى عُمْرَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِهِ، فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ كَبَائِتٍ۔۔الخ

 [2] امام محمد نے مؤطا میں باب التشہد في الصلاة قائم کیا،اوراس کے تحت انہوں نے مختلف صحابہ کرام سے منقول تشہد کے مختلف کلمات و صیغے بیان کیےہیں۔ باب کے اخر میں انہوں نے ابن مسعود سے منقول تشہد کو ترجیح دی۔ اور فرمایا:"وكان عبدالله يكره أن يزاد فيه حرف، أوينقص منه حرف."(مؤطاامام محمد)

اس پر اثری صاحب نے دو اعتراض کیے،کہ ابن مسعود سے ،الفاظ کی کمی وبیشی کی کراہت ثابت نہیں کی جا سکتی، اس دعوی کو وہ خلاف حقیقت قراردیتے ہیں۔اس پر دلیل یہ لائے،کہ بخاری شریف میں ہے کہ ابن مسعود، رسول اللہ کی وفات کے بعد "السلام علیک ایهاالنبی" کی بجائے "السلام علی النبی" پڑھتے، اور یہ کمی ہے، لہذا ثابت ہوا، کہ امام محمد نے غلط دعوی کیا ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ امام محمد نے باب کے شروع میں تشہد کے مختلف کلمات نقل کیے،جن کاحاصل یہ ہے:

1۔ التحيات الطيبات، الصلوات الزاكيات لله، أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، السلام عليكم. (عائشة)

2۔ التحيات لله، الزاكيات لله، الطيبات لله، الصلوات لله. (عمر)

3۔ بسم الله، التحيات لله، والصلوات لله، والزاكيات لله، شهدت أن لا إله إلا الله، وشهدت أن محمدا رسول الله. (ابن عمر)

ان تشہدات ثلاثہ کے کلمات مختلفہ کو امام محمد نے نقل کیا، اور اس کے بعد اپنے ہاں راجح  تشہد یعنی تشہد ابن مسعود نقل کیا،ان مختلف کلمات کو نقل کرنے کا مقصد ان تشہدات ثلاثہ اور تشہد ابن مسعود کے مابین فرق  بیان کرناہے،اسی طرح حضرت ابن مسعودکےکمی وبیشی کو ناپسند کرنےکاتعلق بھی انہی کلمات سےتھا۔علم حدیث سے شغف رکھنے والے حضرات اس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن اثری صاحب امام محمد کی مراد(شاید) سمجھے بغیر "علیک" اور "علی" کے مابین الجھ کر رہ گئے،اوراپنااعتراض ثابت کرناچاہا۔

یہ بات بھی قارئین کے لیے دلچسپ ہے کہ بظاہر اثری صاحب نے یہاں اپنی تحقیق نقل کی،لیکن دراصل انہوں نے مولانا عبدالحئی صاحب رح کے تسامح سے ٹھوکر کھائی ، مولانا نے "التعلیق الممجد"میں لکھا: کہ بخاری میں ہے، کہ السلام علی النبی پڑھتے تھے،جس سے تشھدمیں کمی ثابت ہوگئ۔ اگرچہ خود مولانا لکھنوی نے اس کمی کو لایعباء بہ قرار دے کر امام محمد کے قول کو درست کہا ہے۔ لیکن اثری صاحب نے اس کمی کو قابل اعتناء گردانتے ہوئےبطور اعتراض پیش کر دیا۔  اثری صاحب نے  یہ بھی لکھا: کہ امام محمد کے اس بلاغ  کو سند کے ساتھ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

اثری صاحب کے بارے میں حسن ظن تو یہی ہے کہ انہوں نےاس موقع پر "التعلیق الممجد" ملاحظہ نہیں کی ہوگی، کیونکہ اگر انہوں نے ملاحظہ کی ہوتی، تو بہت سے اشکالات وہیں سے ہی رفع ہو جاتے، ان کے مقام کاتقاضہ یہی ہے،کہ وہ علمی خیانت کےالزام  سے بری ہوں۔ مولانا لکھنوی نے امام طحاوی سے نقل کیا،کہ ابن مسعود کے سامنے جب کسی نے تشہد کو اضافہ کے ساتھ پڑھا، تو انہوں نے ٹوک دیا، ظاہر ہے کہ قران مجید کی طرح تاکیداسکھائے جانے کا تکلف تبھی ثابت ہو سکتا ہے، جب اس کے کلمات کی مکمل محافظت کی جائے، اور یہی ابن مسعود نےاور ان کے تلامذہ نے کیا۔ اور اسی کو امام محمد رحمہ اللہ نے نقل کیا،حواشی میں باحوالہ مرقوم  یہ واضح بات اثری صاحب پر مخفی ہی رہی۔فدعي الرماح لأهلها وتعطري

یہ بات درست ہے کہ حضرت ابن مسعود "السلام علیک ایها النبی" کی بجائے "السلام علی النبی" پڑھا کرتے تھے۔ لیکن محدثین کے ہاں یہ اختلاف چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔اسلئے محدثين نےاسے غیرمعتبرگردانتےہوئے،تشھدابن مسعود کو روات کامتفق اللفظ تشھد قراردیاہے.

  واضح رہے کہ صحابہ وتابعین کی اکثریت اسی تشہد کو اختیار کرتی تھی۔ جیسے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا، امام بزار کے بقول یہ 20 سے زیادہ طرق سے مروی ہے۔ اس سے زیادہ صحیح، اثبت اور شہرت یافتہ کوئی تشہد نہیں۔محدثین میں کسی کو اس سے اختلاف نہیں۔

ابن حجر نے ان امور کے ساتھ یہ بھی لکھا: "ومن رجحانه أنه متفق عليه دون غيره، وأن الرواة عنه من الثقات لم يختلفوافي ألفاظه، بخلاف غيره."(فتح الباري) جس کا مطلب ہوا کہ  "السلام علیک ايهاالنبی" کی "على النبی"سے تبدیلی ،ان کے ہاں "لايعبأبه" کے درجے میں ہے، اور یہ سب محدثین کے تحقیقی فیصلے ہیں۔ لیکن اثری صاحب بلاشرکت غیرےاہل حدیث بھی ہیں، اور محدثین کے ساتھ بھی نہیں۔

پیش نظر رہے،کہ سند کے لحاظ سے، اثبات الفاظ کے لحاظ سے، روات کی کثرت و شہرت کے لحاظ سے تشہد ابن مسعود کو تشہد عمر،تشہد ابن عباس، تشہد ابن عمر اورتشہدعائشہ سے فوقیت کاحامل  ہے۔ لیکن اس کے باوجود امام مالک نے تشہد عمر کو اور امام شافعی نے تشہد ابن عباس کو ترجیح دی ہے۔ اہل حدیث حضرات کے اصول کے مطابق یہ بات قابل اعتراض ٹھہرتی ہے، معلوم نہیں اثری صاحب یاان کےہم خیال اہل علم میں سےکسی  نے امام مالک وامام  شافعی کی تردید بعنوان مخالفت حدیث کر کے یہ فریضہ سرانجام دیا ہے یا نہیں۔ 

نیز محدثین نے تواتر  لفظی کی مثال میں "من کذب علي۔۔الخ" نقل کی ہے۔ اثری صاحب کے ہاں علیک اور علی النبی چونکہ قابل اعتراض کمی بیشی ہے، لہذا ان کے مطابق تواتر لفظی کی مثال سے درج ذیل حدیث خارج ہو جائے گی۔اوراسی اصول کےمطابق دنیائےحدیث میں تواترلفظی کی کوئی مثال باقی نہ رہےگی۔ فافہم و تدبر۔

تشہدابن مسعودکی اس بحث میں مولانااثری صاحب نےبڑی جرات سے یہ بھی لکھ ڈالا: "یہ معلق اثربےسندہے، صحیح سندسےابن مسعوداورمتعددصحابہ کے عمل کے بھی منافی ہے"

 [3] مسح علی العمامة پر امام محمد نے لکھا:" لايمسح على الخمار ولا العمامة، بلغنا أن المسح كان فترك. (مؤطامع التعليق الممجد: 1/287)  اس پر مولانا لکھنوی نے لکھا:" لم نجد إلى الآن ما يدل على كون مسح العمامة منسوخا، لكن ذكروا أن بلاغات محمد مسندة، فلعل عنده وصل بإسناده"  اس پر اثری صاحب نے یہ تبصرہ کیا:" کہ مسح عمامہ کے متروک ہونے کی روایت کہاں گئی؟۔۔۔ کاش کوئی ہمت کر کے اس کا ثبوت دے،تاکہ اس مسئلہ میں نزاع تو ختم ہو جائے"( میزان: 135)

اس پر چند گزارشات ملاحظہ ہوں۔

(1)  زیر بحث عبارت میں عمامہ پر مسح کرنے سے مراد یہ ہے، کہ ایک بے وضو شخص، وضو کرتے ہوئے بلا عذر شرعی مسح راس کی بجائے عمامہ پر مسح اس بنیادپرکرے،کہ اس سے مسح راس کا فرض اداہو جائےگا۔

(2)  مسح عمامہ کے بارے میں جمہور اہل علم امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی عدم جواز کے قائل ہیں، ائمہ اربعہ میں صرف امام احمد اس کے جواز کے قائل ہیں۔مگر انہوں نے بھی اس کی متعدد شرطیں لگائی ہیں.(المغني:1/380) حالانکہ جن احادیث میں جواز ملتا ہے ،ان میں شرائط کا تذکرہ سیاقا سباقاکہیں نہیں ملتا۔شرائط ومسلک کےلئے دیکھئے: (المغني:1/380)

 (3) مسح راس کی حقیقی ومتوارث صورت متواتر روایات سے ثابت ہے، اور عمامہ پر مسح کی روایات آحاد ہیں، ان کا خفاء اس قدر تھا، کہ امام شافعی تک نے ان کو قبول نہ کیا، جو آحاد سے کتاب اللہ پر زیادتی کے قائل ہیں۔ گویا امام احمد کے اختیار سے قبل اس مسلک کو قبولیت نہیں ملی۔

 (4) جن قلیل اہل علم نے اسے جواز کی سند فراہم کی ہے، ان کی مویداحادیث و ادلّہ معلول ہیں، محتمل ہیں۔ متواترحدیث اورظاہرقران کے معارض ہیں۔

 اسی طرح ان مجوزین کی شرائط میں بھی باہمی اختلاف ہے۔

 (5) اس عبارت میں امام محمد نے دعوی نسخ کیا ہے،لیکن انہوں نے مسند الیہ کا تذکرہ نہیں کیا۔ یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ بلاغ مرفوعی ہے۔ تو ان سے روایت مرفوع کا مطالبہ کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ یہی کام مولانا مبارک پوری نے بھی کیا،کہ انہوں نے بھی شرح ترمذی میں امام محمد سے روایت کا مطالبہ کیا۔ان کے الفاظ ہیں:" لابد أن يأتي بالحديث الناسخ الصحيح الصريح." (تحفة الأحوذي)  حالانکہ امام محمد نے بلاغ مرفوع کا دعوی نہیں کیا، اس عبارت میں انہوں نے اپنے کسی استاد،تابعی یاصحابی کو مراد لیا؟ یا پھر بلاغ مرفوع مراد ہے؟ کسی کے تعین پر کوئی دلیل و قرینہ موجود نہیں۔نیز ان حضرات معترضین کے مطالبہ روایت کی بنیاد دراصل نسخ کے غیر اجتہادی ہونے کے نظریہ پر قائم ہے، اگر کسی مجتہدکےہاں نسخ اجتہادی  درست ہو ،تو پھر اسے الزام بھی  نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا امام محمد سے حدیث کا مطالبہ درست نہیں۔نیز بلاغ صرف مرفوع ہی نہیں، مرسل موقوف اور مقطوع بھی ہو سکتا ہے۔

 (6) اس نسخ کو نسخ اجتہادی پر محمول کیا گیا ہے۔اس نسخ اجتہادی کی سند و دلیل جمہور اہل علم، ائمہ ثلاثہ کا مسلک اور اخبار متواترہ ہیں، اسی طرح جواز مسح کی احادیث آحاد کا خفا ہونابھی دلیل ہیں۔ تو جب یہ نسخ اجتہادی ہے، تو اس پر حدیث کا مطالبہ غیر معقول ہے، ہاں اس کی سند پوچھی جا سکتی ہے ، جو کہ عرض کر دی گئی ہے ۔

(7) اثری صاحب نے جب امام محمد کی تضعیف کرنا چاہی، تو انہوں نے غیر مجتہد، جمہور محدثین کا قول ڈھال بنا لیا، لیکن یہاں امام محمد کے ترجیح شدہ مسئلہ میں انہیں مجتہدین جمہور امت کا مسلک نظر نہ آیا۔ بلکہ ایسے عبارت لکھ دی،جیسے یہ مسئلہ متنازعہ ترین ہو، اور اس طرح لکھا کہ جیسے دیگر مسائل میں ادلّہ کی دستیابی پر انہوں نے اختلافات کو ہی ختم کر ڈالا ہو۔اوریہ مسئلہ دلیل نہ ہونےپراختلافی رہ گیا۔ 

(8)  متعارض روایات میں اہل علم کا طریقہ بحث طلبہ حدیث پر مخفی نہیں، امام محمد نے اسی طریق پر  متواتر کی معارض روایات کے بارے میں نسخ اجتہادی کا قول اختیار کیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ مجتہدہونےکی حیثیت سے  اس کا اختیار رکھتے ہیں، کہ مرجوح روایات کی کوئی توجیہ کریں، اس بارے میں ان کاموید جمہور کا مسلک ہے۔

حافظ ابن حجر ایک بحث میں لکھتے ہیں: "فهذا ما يعتذر به عن الحسن، وإن كان الصواب خلافه، فهو إمام مجتهد."  (تہذیب التہذیب: 1/495، 1477)

(9) امام محمد کے طریقہ تحریر سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان کے یہاں مسح علی العمامہ کے عدم جواز میں کوئی اختلاف سامنے نہ تھا۔  وہ اس کو اجماعی نظر سے دیکھتے تھے۔ اور جب ان کے ہاں یہ اجماعی مسئلہ ہے، تو اجماع خود احاد کے لیے دلیل ناسخ بننےکی صلاحیت رکھتاہے، یہ نکتہ ان کے شرعا معذور ہونے کے لیے کافی ہے۔

(10) شیخ ابن القیم نے "الصواعق المرسلة"میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے مجتہدین امت کے جو اعذار نقل کیے ہیں، اس میں سے چند مفید طلب عبارات ملاحظہ ہوں۔جن سےزیر بحث،مبحث نکھرکرسامنے آجاتاہے۔اسباب اختلاف کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"الثالث:إعتقاده أن ذالك الحكم منسوخ." (الصواعق:1/542) ایک جگہ لکھا: "ومما يوضح هذا، أن كل من ترك موجب الدليل لظن الإجماع، فإنه قد تبين لغيره أنه لا إجماع في تلك المسألة، والخلاف فيها قائم." (الصواعق:1/583)

اس کےتحت انہوں نےامام مالک،لیث بن سعد،امام شافعی اورامام احمدسے منقول بعض اجماعی مسائل کاتذکرہ کیا،حالانکہ ان مسائل میں اختلاف موجودتھا۔لیکن ان حضرات کےعلم میں نہ تھا۔اس مبحث میں لکھتے ہیں:"وقد يترك الحديث لظنه إنعقاد الإجماع على خلافه، إذا لم يبلغه الخلاف..."(أيضا:542)

ان عبارات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خیال کیا جا سکتا ہے،کہ امام محمد نے جواز مسح کی روایات کو اجماع کے خیال سے منسوخ قرار دیا ہو۔ ان کے خیال میں اس بات پر اجماع ہو چکا تھا،کہ مسح علی العمامہ درست نہیں۔ اس سلسلہ میں جواز کی چند ایک روایات کو انہوں نے اپنے اجتہادو اعتقاد کی بنیاد پر منسوخ قرار دیا ہو، اور ازروئے اجتہاد وہ اس کے مجاز اور معذور تھے۔

(11) جس طرح ایک مجتہد،ادلہ کےپیش نظراحکام تکلیفیہ کی انواع کاتعین کرتاہے،ان میں سے فرض،واجب،سنت ،مباح مندوب وغیرہ کاتعین کرتاہے،اسی طرح بسااوقات ناسخ ومنسوخ کاتعین بھی وہ اپنے اجتہاد سے کرتاہے۔زیربحث مسئلہ میں امام محمدنےبھی جمہورکے مقابلہ میں مرجوح آحادروایات کوخلاف اجماع پاکرحسن تعبیراختیارکی،کہ یہ منسوخ ہیں۔جیساکہ امام خطابی نے ایک مبحث میں کیا۔ وہ لکھتے ہیں:"قديحتمل أن يكون القتل في الخامسة واجبا، ثم نسخ لحصول الإجماع من الأمة على أنه لايقتل." (معالم السنن3/329)

(12) امام محمدکایہ دعوی،ان محدثین کرام کے دعوی سے زیادہ قابل تعجب وانکار نہیں،جو  استثناء فی الایمان کوفرض قراردیتےہیں۔ ایسے ہی بعض محدثین نماز میں   رفع یدین کو فرض قرار دیتے ہیں اور سفر کی حالت میں   فجر کی نماز کو بطور قصر  ایک رکعت پڑھنے کا فتوی بھی دیتے ہیں۔

(13) مستبعدنہیں،کہ امام محمدکےپاس اس نسخ کی کوئی واضح دلیل موجودہو۔

لیکن وہ کسی وجہ سے اسے بیان نہ کرسکے ہوں۔یہ عدم بیان معترضین کےلئے عدم وجودبن گیا۔شيخ الاسلام ابن تیمیہ نےوضاحتالکھا،کہ متقدمین اہل علم کےعلوم اورروایات حدیث کاکچھ حصہ بالکلیہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ان کےالفاظ ہیں: ﺑﻞ اﻟﺬﻳﻦ ﻛﺎﻧﻮا ﻗﺒﻞ جمع هذه اﻟدواوﻳﻦ ﻛﺎﻧﻮا ﺃﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﺄﺧﺮﻳﻦ ﺑﻜﺜﻴﺮ؛ ﻷﻥ ﻛﺜﻴﺮا ﻣﻤﺎ ﺑﻠﻐﻬﻢ ﻭﺻﺢ ﻋﻨﺪﻫﻢ ﻗﺪ ﻻ ﻳﺒﻠﻐﻨﺎ إﻻ ﻋﻦ ﻣﺠﻬﻮﻝ أو ﺑﺈﺳﻨاد ﻣﻨﻘﻄﻊ أو ﻻ ﻳﺒﻠﻐﻨﺎ ﺑﺎﻟﻜﻠﻴﺔ ﻭﻛانت دواوﻳﻨﻬﻢ صدوﺭﻫﻢ اﻟﺘﻲ تحوي أضعاف ما في الدواوين" (الصواعق:554) 

اس سے معلوم ہوا،کہ ممکن ہے ،امام محمد کے پاس کوئی دلیل موجود ہو، لیکن وہ اس کو کسی وجہ سے بیان نہ کر سکے ہوں۔

فائدہ: اس مبحث میں اثری صاحب کے طریقہ بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ ان کے پیش نظر بھی اپنے اصول اور اپنے مسلک کی خدمت ہے۔ اپنا مسلک  مجتہدین امت، جمہور امت کے خلاف، متواترات کے خلاف، ظاہر نسق قران کے خلاف ہونے کے باوجودبھی وہ اس کا دفاع کر رہے ہیں، پس اگر ان کا مقصود حدیث کا دفاع ہوتا، تو معاملہ برعکس ہوتا۔ اور اسی نقطہ کو جب ہمارے حضرات  بیان کرتے ہیں تو اثری صاحب اسے بدبودار جملہ قرار دیتے ہیں۔ اس قضیے کا حاصل یہ ہے ،کہ امام العصرعلامہ انورشاہ نے ایک ناقابل تردید حقیقت بیان فرمائی، کہ محدثین نے کتب حدیث کی تدوین کے دوران اپنی فقہی آراء و مسلک کا خیال کیا ہے، اثری صاحب نے اس پر طنز کرتے ہوئے اسے احساس محرومی قرار دیا، اسے شوشہ اوربے حد گندہ اور بدبودار الزام قرار دیاہے۔واقعہ یہ ہے کہ اثری صاحب اگر قدرے غور کرتے تو انہیں سیر و تراجم کی مراجعت کے بغیر ہی یہ نقطہ واضح ہو جاتا۔

صحاح ستہ میں امام مسلم کے علاوہ دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں اپنے مسلک و اختیارات کی طرف اشارات دیے ہیں، اس لیے "فقہ البخاری فی تراجمہ" کا معروف و مشہور جملہ زبان زد عام و خاص ہے، اور یہ صرف بخاری کے تراجم کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ سنن اربعہ کے تراجم احادیث،احادیث پر ان کے نقوداوران کےہاں مختاراہل علم کے نقلِ اقوال ان کے مذہب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اس لیے اہل علم کے ہاں ان کے مسالک کے تعین کے لیے ان کی کتب حدیث کے تراجم و اقوال کو بطور دلیل لایا جاتا ہے، تو کیایہ امر حضرت شاہ صاحب کے قول کی دلیل بین نہیں؟

رہا ان میں استثناء کا وجود! تو وہ محل انکار ہے نہ موجب استنکار۔ البتہ مجموعی رویہ وہی ہے، جو شاہ صاحب نے فرمایا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ یعنی اپنی فقہی مسلک کے رجحان کا اظہار اور اس کی موید احادیث کا بیان، ان حضرات کی للہیت کی ہی دلیل ہے، کہ انہوں نے اپنی تحقیق و اجتہاد میں جو حق تھا، اسے واضح کیا اور ادلّہ مہیا کیے، اس سے ہی علوم و فنون کی آبیاری ہوئی۔ 

اجتہادی و فقہی آراء کے مطابق احادیث کو ترک کرنا یا نقل کرنا امت کے محدثین میں متوارث و معہود ہے، اس سے بڑھ کر نفس احادیث کا بیان ،کہ کن احادیث کو بیان کیا جائے، کن کو نہ کیا جائے،ایک مجتہدفیہ مسئلہ ہے، خروج علی الامراء کی احادیث،احادیث صفات ،احادیث الغرائب صحاح کے بارے میں محدثین کے اقوال کس ذی شعور پر مخفی ہیں؟

 امام ذہبی لکھتے ہیں: "ولكن العالم قد يؤديه إجتهاده إلى أن ينشر الحديث الفلاني إحياء للسنة، فله ما نوى، وله ما أجر، وإن غلط في إجتهاده."  (سيراعلام النبلاء:1/598ترجمہ حضرت ابوہریرہ) گویا احیائے سنت پر حدیث کو محمول کرنا اور اس کی تبلیغ کرنا خود اجتہادی امر ہے۔ امام ذہبی نے یہ بھی لکھا:"  وقد اعتنى الحفاظ بجمع فضائل  العباس، رعاية للخلفاء" (سيرالنبلاء:1/99)

مورخین نے خوداجلہ محدثین کےبارے یہ بات صراحت سے لکھی،کہ وہ کسی خاص مسلک کی نصرت کےلئے خدمات سرانجام دیتے تھے۔چنانچہ صفدی لکھتے ہیں: "وإما أن تجتهد في نصرة مذهب الشافعي، كأنك البيهقي."  (أعیان العصر:4/296 ) انہیں بیہقی کےبارے مورخین امام الحرمین کاقول نقل کرتےہیں : "ما من شافعي إلا وللشافعي عليه منة، إلا أبا بكر البيهقي، فإن له منة على الشافعي، لتصانيفه في نصرة مذهبه." (تذكرة الحفاظ:3/220) یہ تمام نقول اس بات کےشاہدہیں،کہ امام العصرکاارشادعالی،درست اور  حقیقت کےمطابق ہے۔ 

اسی طرح انتخاب احادیث کی شرائط خود محدثین کے ہاں مختلف فیہ اور مستحدث ہیں،اسی  بنیاد پر کتنی ہی صحیح احادیث کو نہیں لایا جاتا۔

امام بخاری نے تو تصریح کی ،کہ انہوں نے اپنی کتاب میں کتنی ہی  احادیث صحیحہ کو نہیں لیا۔پس اگر ان شرائط کی بنیاد پر حدیث لانا،نہ لانا خواہش پرستی نہیں، تو فقہی مسلک پر روایات کو جمع کرنا کیوں کر ہوا پرستی ہے؟ اور امام بخاری کا مقولہ "من طلب الحدیث لیقوی به هواه" کو صرف فقہی مسلک کے ساتھ کیوں خاص کیا جا سکتا ہے؟ اس کے تحت خود محدثین کے اپنےقواعد نہیں آتے؟ 

مولانا عثمانی کے قواعد (بھلے وہ محدثین سے منقول ہیں) اثری صاحب کے ہاں خانہ ساز اصول ہیں، حالانکہ محدثین کے اصول بھی منصوص نہیں استخراجی ہیں، یہی حال ان قواعد کا ہے، جو مولاناعثمانی یہاں لائے ہیں، یا تو وہ صراحتا محدثین سے منقول ہیں یا استخراجی ہیں، خود مولانا نے یا محشی نے ان کی ادلہ بیان کر دی ہیں۔لیکن اثری صاحب کے ہاں ان قواعد کی تردید محض اسی نقطہ پر مرتکز ہو کر محدود رہی، کہ انہوں نے ان قواعد کو مستثنیات کے ساتھ بیان کیا، اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ قواعد ٹھیک نہیں۔ فلم يضرها وأوهى قرنه الوعل

خود اثری صاحب نے بھی "کل من روی عنه  فلان فهو ثقة" کی بحث میں محدثین کی مخالفت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کی ادلہ ہیں،تو ان کا قول جس طرح معتبر ہے، اسی طرح مولانا عثمانی کا حال ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے، کہ ان کی ہر بات مستند ٹھہرتی ہے ،اور مولاناعثمانی  کی ہر بات قابل رد ۔

تمہاری زلف میں پہنچی توحسن کہلائی

وہ تیرگئ،جومرےنامہ سیاہ میں تھی

 [4] امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی بلاغی سند کے ساتھ"ما رآه المسلمون حسنا، فهو عند الله حسن"  کو مرفوع قرار دیا. اس پر اثری صاحب نے نقد کیا اور کہا: کہ" اس کومستندسندسے ثابت نہیں کیا جا سکتا"یہ درست ہے، کہ محققین نے اس کو موقوفا درست قرار دیا ہے، اور مرفوعا ان الفاظ کو غیر ثابت قرار دیا ہے، اس لحاظ سے امام محمد رحمہ اللہ ایسےبلندمرتبہ شخص کے بارے میں ایک محتاط رویہ یہ اختیار کیا جا سکتا تھا،کہ اس کو مرفوعا نقل کرنا ان کا وہم ہے،اور ظاہر ہے کہ اجلہ محدثین سے بھی اس قسم کے وہم کا صدور محققین اہل فن کی نظر میں موجود ہے،اوریہ ان کےمقام کےلئے قادح نہیں۔لیکن یہ عجیب خبط فکری ہے، کہ اگر محدثین سے معانی وفہم احادیث  میں غلطی ہو جائے، تو وہ ان کے لیے قابل اعتراض نہیں، لیکن اگر فقہاء سے رفع و وقف میں غلطی ہو جائے، تو یہ ان کے مقام و مرتبہ کے لیے قادح اور موجب طعن بن جائے۔  اس سلسلہ میں چند باتیں مزید قابل غور ہیں۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کو مرفوعا نقل کرنا صرف امام محمد رحمہ اللہ کے ہاں نہیں، بلکہ اجلہ اصولیین اور فقہاء اس کومرفوعا نقل کرتے ہیں۔(مثلا امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو مرفوعا نقل کیاہے) اس امرکا اعتراف اثری صاحب کو بھی ہے۔ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے مولانا عبدالحئی صاحب نے سوال اٹھایا،کہ آخر اصولیین اور فقہاء اس حدیث کو مرفوعا کیوں نقل کرتے ہیں؟ وہ اسے مستبعد قرار دیتے ہیں، کہ اجلہ مفسرین،فقہاء اور اصولیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی ایسی حدیث کا انتساب کریں جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے اس کی  تفصیل نے"التعلیق الممجد" میں دی ہے،جس سے اثری صاحب نے نہ صرف، صرف نظر کیا۔بلکہ انہوں نے مولانا پر یہ بات بھی کہہ ڈالی ، کہ مولانا بھی اس حدیث کے مرفوع ہونے کے دیگراہل علم کی طرح مخالف ہیں۔ حالانکہ مولانا لکھنوی کی کلام میں واضح تاثر ملتا ہے،کہ وہ اس حدیث کےمرفوع معنوی کےقائل ہیں۔ جسے اہل نقدمثلاامام ذهبی" لفظه موضوع، معناه ثابت" کہتے ہیں۔مولانالکھنوی کےالفاظ ہیں:

"ويجاب عنهم  بأنه إن ثبت رفع هذا الحديث على ما ذكره جمع منهم محمد فذاك، وإلا فلا يضر المقصود؛ لأن قول الصحابي في ما لا يعقل له حكم المرفوع، على ما هو مصرح في أصول الحديث، فهذا القول وإن كان قول ابن مسعود، لكن لما كان مما لا يدرك بالرأي والإجتهاد، صار حكما مرفوعا، فيصح الإستدلال به."(التعليق الممجد:1/633)

اس عبارت سے یہ بات واضح ہوئی، کہ مولانا اسے مرفوع حکمی قرار دیتے ہیں۔

نیز اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے، کہ یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کی منقبت میں بیان کی،اور اس کے اخر میں انہوں نے یہ جملہ ارشاد فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ المسلمون سے مراد صحابہ کرام ہیں. چنانچہ اس لحاظ سے اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کا اجماع حجت ہے اور یہ دیگر احادیث سے بھی چونکہ ثابت ہے،اس لیے اس کو مرفوع حکمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن القیم نے" اعلام الموقعین" میں اسی تناظر میں اس روایت کو بطور استدلال پیش کیا ہے۔ (فصل الفتوى بالآثار السلفية والفتاوى الصحابية) اور اگر المسلمون سے مراد عامۃ المسلمین ہوں، تو پھر بھی اس کے معنوی مرفوع ہونے پر لاتجتمع أمتي على الضلالة موید ہے۔ 

خلاصہ یہ ہوا کہ یہ الفاظ اگرچہ مرفوعا ثابت نہیں،لیکن ان الفاظ کا مفہوم مرفوعا ثابت ہے۔

ممدوح اہل حدیث علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی "ارشاد الفحول الی تحقیق الحق فی علم الاصول" میں اس کو حدیث مرفوع قرار دیا ہے۔دیکھئے:1118/2و 608/1 اور شروع کتاب میں انہوں نے تصریح کی ہے کہ وہ اس کتاب میں رائے کو اختیار نہ کریں گے، بلکہ علم الروایہ کی روشنی میں حق بات کو لائیں گے۔ص:54/1۔

دیکھتے ہیں،کہ مولانا"ارشاد "علامہ شوکانی کی "ارشاد"کے اس "ارشاد"پرکیا"ارشاد" فرماتے ہیں۔

اثری صاحب ہمارے بصد شکریہ کے  مستحق ہیں۔کہ انہوں نے امام محمد رحمہ اللہ کی ان بلاغات پر من كذب علي متعمدا كا اطلاق نہیں کیا، ورنہ ان کے حسن کرشمہ ساز سے یہ کوئی بعید نہ تھا۔

 [5] رہا ان پر ضعیف ہونے کا الزام جو اثری صاحب نے بڑے شد و مد سے پیش کیا ہے، عجیب بات ہے کہ امام محمد کو مجتہد تسلیم کرنے کے بعد ضعف کا اعتراض اثری صاحب جیسے فہیم شخص کے ہاں کیسے قابل وقعت رہ گیا؟وہ ان کومجتہدبھی تسلیم کررہےہیں،اورسخت ضعیف بھی قراردیتےہیں۔ وكل فعالكم عجاب

  شاید مجتہد کا مقام و مرتبہ سےانہیں ذھول ہوگیاہے۔ جب ایک مجتہد تمام شرائط معروفہ عند اہل علم مجتہد قرار پاتا ہے، تو اس کے لیے جو خصوصیات ازروئے شرح حاصل ہوتی ہیں، ان کے پیش نظر ضعف کا اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ بھلا جس شخص کو شریعت نے فروعی اختلافی مسائل میں اپنے زمانہ میں لوگوں کے لیے مقتدی قرار دیا ہو، اس پر اس قسم کے اعتراضات کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ اور ظاہر ہے کہ جوہری ہی جوہری کی قدر جان سکتا ہے۔وہ لوگ جو محض علم حدیث کے ماہرہوں،یاپھر محض راوی ہوں،ان کی جلالت ومقام تسلیم۔۔لیکن ظاہر ہے،کہ وہ مجتہد کے مقام کا ادراک کیسے کرسکتےہیں؟  امام ابن تیمیہ نے "رفع الملام" میں کسی مجتہد کے لیے ممکنہ اعذار ،ترک حدیث کے ،جو ہو سکتے ہیں، بیان کیے ہیں ،ان سے ایک  مجتہد اورغیرمجتہد کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے ،یہ مبحث  آخرمقالہ  میں آرہا ہے۔ اسی وجہ سےاکابر امت نے محدثین سے منقول جروح کے باوجود امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور امام محمد وطحاوی اور دیگرایسے مجتہدین،وماہرین فن کوثقہ قرار دیا ہے،مبحث "الثقات المجروحين" کایہی حاصل ومفاد ہے۔بلاشبہ ان ناقد محدثین پر بھی حرف طعن نہیں، کہ وہ اپنے علم کے مکلف تھے۔ اللهم إذاثبت مايوجبه.

امام محمد رحمہ اللہ کا مقام محدثین کے ہاں کیا تھا؟ اس بارے میں ایک شعر موقع کی مناسب ترجمانی کرتا ہے۔

ذکر مہر وفاءتو ہم کرتے

پر تمہیں شرم سار کون کرے

جناب زبیر علی زئی کے مفصل رد یعنی امام ابو حنیفہ کے تلامذہ، خصوصا امام محمد کے دفاع میں لکھی گئی تحریر از مولانا نثار الحسینی  مدظلہ بلاشبہ قلم توڑ تحقیق ہے۔اگر اس کے بعد بھی کوئی تغافل برتے ،تو سو برتے ، ليهلك من هلك، وجزی الله المؤلف کل خیر عن المسلمین عامة وعن الحنفیة خاصة.  جناب من! اخبار احاد صحیحہ  بھی معارض قوی سے ترک ہو جاتی ہیں، تو اقوال علماء فی العلماء کی کیا حیثیت ہوگی؟وہ کیوں قابل ترک نہیں ہوسکتے؟

فائدہ:  مجتہد کامقام اورخصوصیات

 مجتہد کے مقام کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے،جیسے حدیث متواتر  اقسام حدیث میں  سب سے اعلی ہے، اسی طرح اہل علم کے مراتب میں اجتہاد سب سے فائق ہے. جس طرح حدیث متواتر کے اسانید پر جروح، قیل وقال اس کے مرتبہ ومقام ،صحت وقبولیت کے لیے مضر نہیں،اسی طرح مجتہد پر کی گئی  جروح بھی ناقابل التفات اور مردود ہیں،اس کےمقام ومرتبہ اورثقاہت وقبولیت کےلئےمضرنہیں،اور ان کامقابلہ ایک عام ثقہ راوی سے کرناایسےہی ہے،جیسےخبرغریب کو متواترکےبرابرلانا۔

ألم ترأن السيف ينقص قدره...إذاقيل إن السيف أعلى من العصا

 علماءمحققین کےطرز عمل  سے یہ بات نمایاں ہے۔

اب ہم مجتہدکوشریعت کی طرف سے دی گئی خصوصیات کوشیخ الاسلام ابن تیمیہ کے حوالہ سے رقم کرتےہیں۔

شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ائمہ مجتہدین کے لیے "رفع الملام" میں جو اعذار بیان کیے ہیں، انہی کے ضمن میں ان حضرات کے خصائص آگئے ہیں، وہ خصائص درج ذیل ہیں۔

بصورت درستگی اجتہاد دگنا ثواب ملنا۔

بصورت خطا وعید لاحق نہ ہونا۔

گناہ نہ ہونا۔

ایک نیکی کا ملنا۔ بعض احادیث کاخفاء اسکےاجتہادکےلئے قادح، باعث عیب و طعن نہ ہونا۔

حدیث و رجال کی تصحیح و تضعیف میں اخذوترک کااختیار ہونا۔

کسی سندوحدیث سے استدلال اس حدیث و سند کی صحت قرار پانا۔

اہل علم سے اختلاف کا حق ہونا۔

نسیان پر مواخذہ نہ ہونا۔ 

خلاف واقعہ استدلال و اعتقاد پر مواخذہ نہ ہونا۔

ترک حدیث کی وعیدیں اس کے حق میں ہونے کے دعوی کا ناجائز ہونا۔

تحریم الحلال یا تحلیل الحرام کی وعیدیں ان کے بارے میں ہونے کا خیال ناجائز ہونا ۔(اس میں صرف بشر مریسی اور معتزلہ کا اختلاف ہے)

خطاء کا ماجور و مغفور ہونا۔

ان ائمہ سے عمدا،ترک حدیث کی ناجائز صورت صادر نہیں ہو سکتی،ورنہ ان کی امامت ودیانت قابل سوال ہوگی۔

رہی امام محمد کی تضعیف !چندایک گزارشات پہلے بھی کی گئی ہیں۔ان کےساتھ ان سطورکوبھی ملادیاجائے۔

امام محمد کی،کی گئ تضعیف، تضعیف نسبتی بھی ہو سکتی ہے ۔اوروہ غیرمعتبر ہے۔کیونکہ اس کاحاصل محض دولوگوں کاتقابل ہوتاہے ۔نیز اسےمعتبرقرارادینے سے اجلہ ائمہ،ابن معین اور امام بخاری تک ضعیف قرارپائیں گے۔نیز جس طرح "کفردون کفر"" ایمان دون ایمان" "وضو دون وضو"کی اصطلاح ہے۔ اسی طرح "حفظ دون حفظ" "ثقة دون ثقة" کابھی ضابطہ ہے۔اوریہی تضعیف نسبتی کی بنیاد ہے۔

اصول حدیث، قواعد حدیث، اسماء الرجال اور ان کےمتعلقات  عموماچار قسم کے طبقات کرتے ہیں۔ علمائے اصول فقہ، علمائے فقہ، علمائے اصول حدیث اور علمائےمحدثین۔

ان  چاروں طبقات میں علمائے فقہ اور علمائے محدثین کی بات زیادہ مقبول ہے، کیونکہ وہ باقاعدہ دونوں علوم کے جامع ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پہلے طبقات یعنی علمائے اصول فقہ اور علمائے اصول حدیث اپنے فن کے لحاظ سے جامع ضرور ہوتے ہیں۔ مگر قواعد کی تطبیق وانطباق سے ان کوواسطہ نہیں۔اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو ائمہ حنفیہ پر نقد کرنے والے حضرات کا تعلق علمائے اصول حدیث یا علمائے رجال سے ہے۔ ان علمائے محدثین سے نہیں ہے، جن پرعلوم حدیث اورعلوم فقہ کامدار واعتبار ہے۔فافہم وتدبر

خلاصہ کلام یہ ہے، کہ اثری صاحب نے امام محمد رحمہ اللہ سے جس طرح غیر علمی اور خلاف تحقیق رویہ اختیارکیاہے،ویسے ہی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا ہے ۔جوان جیسےقدآورشخص کےلئےشایدبہتر نہ تھا۔ والله یسامحنا وإیاه.


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...