نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*تین رکعت وتر کا ثبوت احادیث صحیحہ کی روشنی میں* *ایک غیر مقلد کی وائرل ویڈیو اور نمازِ وتر پر اعتراض کا تجزیہ*


 *ایک غیر مقلد کی وائرل ویڈیو اور نمازِ وتر پر اعتراض کا تجزیہ* 

 *تحریر: مفتی محمد مجاہد (فاضل مدرسہ عربیہ، رائیونڈ)* 


ایک غیر مقلد کی نمازِ وتر سے متعلق وائرل ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس کے بارے میں متعدد حضرات نے دریافت کیا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک صاحب نے نمازِ وتر کی ایک ادھوری حدیث پیش کرکے عوام کو مغالطے میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ حدیث یہ بیان کرتے ہیں: "وتر کی نماز کو نمازِ مغرب کی طرح نہ پڑھو۔" پھر خود سے اس کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ وتر کی دوسری رکعت میں قعدہ نہ کیا جائے تاکہ نمازِ مغرب کی مشابہت سے بچا جا سکے۔ اس ویڈیو میں کیے گئے اعتراض کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا، لیکن اس سے پہلے احناف کے طریقۂ نمازِ وتر کو احادیث کی روشنی میں سمجھ لینا ضروری ہے، تاکہ اصل حقیقت واضح ہو سکے۔


*تین رکعت وتر کا ثبوت احادیث صحیحہ کی روشنی میں* 

*تین رکعت وتر پڑھنے کا ثبوت صحیح بخاری سے*

«صحيح البخاري» (2/ 53):

1147 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ «أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رضي الله عنها: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ ‌يُصَلِّي ‌ثَلَاثًا. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي».

حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان میں (رات کی نماز میں) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے، جن کی خوبصورتی اور درازی کے بارے میں مت پوچھو! پھر چار رکعات پڑھتے، جن کی خوبصورتی اور درازی کے بارے میں مت پوچھو! *پھر تین رکعات پڑھتے* ۔"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے عائشہ! میری آنکھیں سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا۔"

 *تین رکعت پڑھنے کا ثبوت صحیح مسلم سے*

«صحيح مسلم» (1/ 509 ت عبد الباقي):

«حدثنا يحيى بن يحيى. قال: قرأت على مَالِكٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ؛ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ:

كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً. يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ. ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ. ثُمَّ ‌يُصَلِّي ‌ثَلَاثًا. فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ "يَا عَائِشَةُ! إن عيني تنامان ولا ينام قلبي".


*صحیح مسلم سے تین رکعت وتر پڑھنے کا ایک اور ثبوت* 

«صحيح مسلم» (1/ 530 ت عبد الباقي):

«حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عن أبيه، عن عبد الله بن عباس؛ أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَاسْتَيْقَظَ. فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ وَهُوَ يَقُولُ:

"إن في خلق السماوات وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ" [3/آل عمران/الآية-190]. فَقَرَأَ هَؤُلَاءِ الآيَاتِ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ. ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ. فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ وَالرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ. ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ. ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. سِتَّ رَكَعَاتٍ. كُلَّ ذَلِكَ يَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيَقْرَأُ هَؤُلَاءِ الآيَاتِ. ثُمَّ ‌أَوْتَرَ ‌بِثَلَاثٍ. فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ. وَهُوَ يَقُولُ "اللَّهُمَّ! اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِي نُورًا، وَمِنْ أَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا. اللَّهُمَّ! أَعْطِنِي نُورًا»

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسواک کی، وضو فرمایا اور (تلاوت کرتے ہوئے) یہ آیت پڑھی:

"بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔" (آل عمران: 190)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت جاری رکھی یہاں تک کہ پوری سورہ مکمل کر لی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں ادا کیں، جن میں قیام، رکوع اور سجدہ طویل کیا۔ پھر پلٹ کر سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل تین بار دہرایا، یعنی کل چھ رکعتیں پڑھیں، اور ہر بار مسواک کی، وضو فرمایا اور یہی آیات تلاوت کیں۔ *پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعت وتر پڑھیں۔* 

اس کے بعد مؤذن نے اذان دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے اور یہ دعا پڑھتے جا رہے تھے:

"اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری زبان میں نور پیدا کر، میرے کانوں میں نور پیدا کر، میری آنکھوں میں نور پیدا کر، میرے پیچھے نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، اے اللہ! مجھے نور عطا فرما۔"

*تین رکعت وتر میں تین سورتیں پڑھی جائیں گی، یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں*

«سنن الترمذي» (2/ 326):

463 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ البَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الحَرَّانِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَائِشَةَ، بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم؟ قَالَتْ: " ‌كَانَ ‌يَقْرَأُ ‌فِي ‌الأُولَى: بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ، وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَالمُعَوِّذَتَيْنِ ": «وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ»،

ہم نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلی رکعت میں «‏سبح اسم ربك الأعلى»،‏‏‏‏ دوسری میں «‏قل يا أيها الكافرون‏»،‏‏‏‏ اور تیسری میں «‏قل هو الله أحد» اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ۳- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: «عمرة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ 

*اسنادہ صحیح*

*وتر کی تین رکعت کے بعد سلام پھیرنے کا ثبوت*

«سنن النسائي» (3/ 235):

1701 - أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ «كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ فِي الْوَتْرِ بِ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}،

 وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ}، وَفِي الثَّالِثَةِ بِ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}، وَلَا ‌يُسَلِّمُ ‌إِلَّا ‌فِي ‌آخِرِهِنَّ، ‌وَيَقُولُ يَعْنِي بَعْدَ التَّسْلِيمِ: سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا».

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز میں پہلی رکعت میں "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" پڑھتے، دوسری رکعت میں "قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ" اور تیسری رکعت میں "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" پڑھتے، اور تینوں رکعات کے آخر میں ہی سلام پھیرتے۔ سلام کے بعد تین مرتبہ "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ" کہا کرتے تھے۔

*اسنادہ صحیح*

*دو رکعت کے بعد تشہد پڑھنے کا ثبوت*

«سنن الترمذي» (1/ 409):

385 - حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَافِعِ بْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى،» تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ 

فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نماز دو، دو رکعات (کر کے) ہے، اور ہر دو رکعات کے بعد تشہد پڑھا جائے۔"

 *اسنادہ صحیح* 

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہر دو رکعت کے بعد تشہد کا ثبوت* 

اس صحیح صریح حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر تین رکعت ایک سلام کے ساتھ ہیں۔ نیز وتر کی ان تین رکعت میں سے دو رکعت کے بعد قعدہ بھی کیا جائے گا اور اس میں تشہد بھی پڑھا جائے گا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث میں ہے کہ: 

«صحيح مسلم» (2/ 54):

«وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ ‌التَّحِيَّةَ،»

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھا کرتے تھے۔ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام نمازوں کا ضابطہ بیان فرما دیا گیا کہ ہر دو رکعت کے بعد التحیات پڑھنا چاہیے۔

*وتر کی دو رکعتوں میں سلام نہ پھیرنے کا ثبوت* 

«سنن النسائي» (3/ 372):

«- أخبرنا إسماعيل بن مسعود قال: حدَّثنا بشرٌ بن المُفَضَّل قال: حدَّثنا سعيد، عن قَتادةَ، عن زُرارة بن أوفى، عن سعد بن هشام

أنَّ عائشة حدَّثته، أنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم كان ‌لا ‌يُسلِّمُ في رَكعتَي ‌الوتر»

سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے۔

 *اسنادہ صحیح*

*وتر کی رکعت تین سے کم نہ ہونے پر زبردست ثبوت*

«مسند أحمد» (42/ 81 ط الرسالة):

«25159 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: بِكَمْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُوتِرُ؟ قَالَتْ: بِأَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ، وَسِتٍّ وَثَلَاثٍ، وَثَمَانٍ وَثَلَاثٍ، وَعَشْرٍ وَثَلَاثٍ، وَلَمْ يَكُنْ ‌يُوتِرُ ‌بِأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَلَا أَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ، وَكَانَ لَا يَدَعُ رَكْعَتَيْنِ 

إسناده صحيح على شرط مسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی تعداد

عبداللہ بن ابی قیس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعات کے ساتھ وتر پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: "چار کے ساتھ تین، چھ کے ساتھ تین، آٹھ کے ساتھ تین، اور دس کے ساتھ تین پڑھتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو تیرہ رکعات سے زیادہ وتر پڑھتے تھے اور نہ سات سے کم، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔"

*وتر کی نماز اور مغرب کی نماز میں یکسانیت*

«شرح معاني الآثار - ط مصر» (1/ 294):

1744 - حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ الرَّقِّيُّ ، قَالَ: ثنا شُجَاعٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: «الْوِتْرُ ثَلَاثٌ ، ‌كَوِتْرِ ‌النَّهَارِ ، صَلَاةِ الْمَغْرِبِ» .

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "وتر تین رکعات ہیں، جیسے دن کا وتر مغرب کی نماز ہے۔"

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رات کے وتر مغرب کی تین رکعات کی طرح ادا کیے جائیں گے۔ یعنی جیسے مغرب کی دو رکعات پڑھنے کے بعد قعدہ اور تشہد کیا جاتا ہے، پھر تیسری رکعت ادا کی جاتی ہے، اسی طرح وتر کی نماز میں بھی دو رکعات کے بعد قعدہ اور تشہد کیا جائے گا، پھر تیسری رکعت پڑھی جائے گی۔

*غیر مقلدین کی ایک غلط غلط فہمی اور اس کا ازالہ*

غیر مقلدین امام بیہقی کی ایک روایت پیش کرتے ہیں، جس میں یہ ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے روکا ہے۔ پہلے ہم اس روایت کو دیکھ لیتے ہیں، پھر اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔

«السنن الكبرى - البيهقي» (3/ 46 ط العلمية):

«4816 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدَانَ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ قَالُوا: أنبأ أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَبُو الْحُسَيْنِ طَاهِرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقِ بْنِ قُرَّةَ بْنِ نَهِيكَ بْنِ مُجَاهِدٍ الْهِلَالِيُّ بِمِصْرَ ثنا أَبِي، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: " لَا تُوتِرُوا بِثَلَاثٍ تُشَبِّهُوا بِالْمَغْرِبِ، وَلَكِنْ أَوْتِرُوا بِخَمْسٍ أَوْ بِسَبْعٍ أَوْ بِتِسْعٍ ‌أَوْ ‌بِإِحْدَى ‌عَشْرَةَ ‌رَكْعَةً أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ ". وَرَوَاهُ ابْنُ بُكَيْرٍ عَنِ اللَّيْثِ كَمَا»

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وتر تین رکعات اس طرح نہ پڑھو کہ وہ مغرب کی نماز سے مشابہ ہو جائے، بلکہ پانچ، سات، نو، گیارہ یا اس سے بھی زیادہ رکعات کے ساتھ وتر پڑھو۔"

 *غیر مقلدین کے لیے لمحہ فکریہ* 

نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو، یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاو تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔ اسی طرح، وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو تاکہ یہ مغرب سے ممتاز ہو جائے۔

دوسری جانب، ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اگر اس کا وہی ظاہری مطلب لیا جائے جو غیر مقلدین بیان کرتے ہیں، تو معاذ اللہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیانات میں تضاد لازم آتا ہے۔ اس سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ وہی تاویل اختیار کی جائے جو ہم نے بیان کی ہے، تاکہ احادیث میں تطبیق قائم رہے۔

مزید برآں، یہ روایت خود غیر مقلدین کے معمول کے بھی خلاف ہے، کیونکہ وہ عام طور پر گیارہ مہینے صرف ایک رکعت وتر ادا کرتے ہیں، جبکہ اس حدیث میں ایک رکعت وتر کی نفی کی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر مقلدین اس حدیث پر عمل کریں گے، یا اسے بھی اپنی خواہش کے مطابق نظر انداز کر دیں گے؟

*وتر اور مغرب صرف قراءت کا فرق ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گواہی* 

«شرح معاني الآثار - ط مصر» (1/ 293):

1743 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: ثنا أَبُو خَلْدَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: «عَلَّمَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم أَوْ عَلَّمُونَا أَنَّ ‌الْوِتْرَ ‌مِثْلُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ، غَيْرَ أَنَّا نَقْرَأُ فِي الثَّالِثَةِ ، فَهَذَا وِتْرُ اللَّيْلِ ، وَهَذَا وِتْرُ النَّهَارِ

حضرت ابو خلدہ کہتے ہیں 

میں نے ابو العالیہ سے وتر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: "ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے سکھایا، یا ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہم وتر کی تیسری رکعت میں (سورہ فاتحہ کے بعد) قراءت کرتے ہیں۔ پس یہی رات کا وتر ہے، اور مغرب دن کا وتر ہے۔"

وتر کی نماز اور مغرب کی نماز میں صرف قراءت کا فرق ہے، اور اس کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مل گیا۔ انہوں نے واضح طور پر سکھایا کہ وتر کی نماز مغرب کی طرح ہے، لیکن اس میں تیسری رکعت میں قراءت کی جاتی ہے، جو اس کا بنیادی امتیاز ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اوپر ہم نے جو توجیہ پیش کی تھی اس کا ثبوت صحابہ کرام سے بھی مل گیا ہے

*امام حسن بصری نے وتر کی تین رکعت ہونے پر اجماع نقل کیا ہے* 

«مصنف ابن أبي شيبة» (2/ 90 ت الحوت):

6834 - حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ ‌عَلَى ‌أَنَّ ‌الْوَتْرَ ‌ثَلَاثٌ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ»

حَفص نے ہمیں بیان کیا، وہ عمرو سے روایت کرتے ہیں، اور وہ حسن بصری سے کہ انہوں نے فرمایا: "مسلمانوں کا *اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعت ہیں* ، اور ان میں سلام صرف آخری رکعت میں پھیرا جاتا ہے۔"

*صحابہ رضی اللہ عنہ وتر کو مغرب کی طرح ادا کرتے تھے* 

حافظ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں 

«فتح الباري» لابن حجر (2/ 481 ط السلفية):

«وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي الْعَالِيَةِ أَنَّهُمْ أَوْتَرُوا بِثَلَاثٍ كَالْمَغْرِبِ،»

محمد بن نصر نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین رکعات وتر اسی طرح ادا کیے جیسے مغرب کی نماز پڑھی جاتی ہے۔

*حدیث کا ایک اور صحیح مفہوم اور امام عینی رحمہ اللہ کی وضاحت* 

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وتر تین رکعات پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں دوسری رکعت کے بعد قعدہ اور تیسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ امام عینی رحمہ اللہ کی وضاحت کے مطابق، اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وتر کی تین رکعات کو مغرب کی نماز کی طرح منفرد نہ رکھا جائے، بلکہ اس سے پہلے نفل رکعات کا اضافہ کیا جائے۔ اس تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ احناف کا مسلک اس حدیث کے مخالف نہیں، بلکہ اس کے صحیح مفہوم کے عین مطابق ہے۔ 

«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (4/ 253):

«فَإِن قلت: رُوِيَ عَن أبي هُرَيْرَة عَن النَّبِي، قَالَ: (لَا ‌توتروا بِثَلَاث وأوتروا بِخمْس أَو بِسبع، وَلَا تشبهوا بِصَلَاة الْمغرب) . قلت: رُوِيَ هَذَا مَوْقُوفا على أبي هُرَيْرَة، كَمَا رُوِيَ مَرْفُوعا، وَمَعَ هَذَا هُوَ معَارض بِحَدِيث عَليّ وَعَائِشَة وَمن ذكرنَا مَعَهُمَا من الصَّحَابَة، وَأَيْضًا إِن قَوْله: (لَا ‌توتروا بِثَلَاث) ، يحْتَمل كَرَاهَة الْوتر من غير تطوع قبله من الشفع، وَيكون الْمَعْنى: لَا ‌توتروا بِثَلَاث رَكْعَات وَحدهَا من غير أَن يتقدمها شَيْء من التَّطَوُّع الفع، بل أوتروا هَذِه الثَّلَاث مَعَ شفع قبلهَا لتَكون خمْسا، وَإِلَيْهِ أَشَارَ بقوله: (واوتروا بِخمْس) أَو: أوتروا هَذِه الثَّلَاث مَعَ شفعين قبلهَا لتَكون سبعا، وَإِلَيْهِ أَشَارَ بقوله: (أَو بِسبع) أَي: أوتروا بِسبع رَكْعَات: أَربع تطوع وَثَلَاث وتر، وَلَا تفردوا هَذِه الثَّلَاث كَصَلَاة الْمغرب لَيْسَ قبلهَا شَيْء، وَإِلَيْهِ أَشَارَ بقوله: (وَلَا تشبهوا بِصَلَاة الْمغرب) وَمَعْنَاهُ: لَا تشبهوا بِصَلَاة الْمغرب فِي كَونهَا مُنْفَرِدَة عَن تطوع قبلهَا، وَلَيْسَ مَعْنَاهُ: لَا تشبهوا بِصَلَاة الْمغرب فِي كَونهَا ثَلَاث رَكْعَات.»

 *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس حدیث کا صحیح مفہوم* 

اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل روایت بھی اس مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ صرف تین رکعات وتر نہ پڑھو، بلکہ اس سے پہلے دو یا چار رکعات نفل بھی ادا کرو، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ہے۔

«مصنف ابن أبي شيبة» (2/ 90 ت الحوت):

6828 - حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَا يُوتَرُ بِثَلَاثٍ بَتْرَاءَ صَلِّ ‌قَبْلَهَا ‌رَكْعَتَيْنِ، أَوْ أَرْبَعًا»

حضرت عباد بن عوام نے علاء بن مسیب کے واسطے سے اپنے والد سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "وتر کو تین رکعات منفرد (یعنی الگ تھلگ) نہ پڑھو، بلکہ اس سے پہلے دو یا چار رکعات نفل ادا کرو۔"

*غیر مقلدین کا ایک اور شبہ اور اس کا تسلی بخش جواب* 

غیر مقلدین ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر کی تین رکعات ادا فرماتے تو اس کے آخر میں قعدہ کرتے تھے، اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دو رکعات کے بعد قعدہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ استدلال بالکل غلط ہے، کیونکہ صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعات کے بعد قعدہ کرتے تھے،

«صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع» (7/ 595):

«كَانَ يُوتِرُ بِخَمْسِ رَكَعَاتٍ ‌لَا ‌يَقْعُدُ ‌إِلَاّ فِي آخِرِهِنَّ»

 اسی طرح سنن نسائی کی ایک روایت میں اتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعات پڑھنے کے بعد قعدہ فرماتے تھے۔ 

«سنن النسائي» (3/ 383):

«صلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ ‌لا ‌يَقعُدُ ‌إِلَّا في آخِرِهِنَّ، وصلَّى رَكعتين وهو قاعدٌ بعد ما يُسلِّم،»

اگر غیر مقلدین کے پیش کردہ استدلال کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالکل درمیان میں نہیں بیٹھتے تھے، جسے وہ خود بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا، درست مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعات کے بعد طویل قعدہ نہیں فرماتے تھے۔ اس حدیث میں طویل قعدہ کی نفی کی گئی ہے، نہ کہ مطلق قعدہ کی۔

*خلاصہ کلام اور نتیجہ بحث* 

 احناف کا تین رکعات وتر پڑھنے کا طریقہ احادیثِ صحیحہ کے عین مطابق ہے۔ پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات پر مشتمل ہے، اور دوسری رکعت کے بعد قعدہ کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں، تین رکعات میں سورت پڑھنے سے متعلق بھی احادیث موجود ہیں۔

الغرض، غیر مقلد کی وائرل ویڈیو کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اس میں بعض لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے اور شبہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محدثین کے مقام و وقار کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ان پر بدگمانی سے محفوظ رکھے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...