جمہور علماء اور فقہائے احناف کے نزدیک سجدہ کرتے وقت پہلے زمین پر گھٹنے پھر ہاتھ رکھنے کی صحیح حدیث اور غیر مقلدین کی غلط فہمی ازالہ
جمہور علماء اور فقہائے احناف کے نزدیک سجدہ کرتے وقت پہلے زمین پر گھٹنے پھر ہاتھ رکھنے کی صحیح حدیث اور غیر مقلدین کی غلط فہمی ازالہ
مفتی محمد مجاہد فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
جمہور علماء کرام اور فقہائے احناف کا متفقہ مؤقف ہے کہ سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں، پھر ہاتھ، اور جب سجدے سے اٹھا جائے تو پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اور پھر گھٹنے۔
اس مسئلے میں صحیح احادیث بھی جمہور کے موقف کی تائید کرتی ہیں، جیسا کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے وقت پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے، پھر ہاتھ، اور سجدے سے اٹھتے وقت پہلے ہاتھ اٹھاتے اور پھر گھٹنے۔ اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ پہلے ہاتھ رکھنے کا طریقہ بعد میں تبدیل کر دیا گیا اور گھٹنے پہلے رکھنے کا حکم دیا گیا۔
اس کے مقابلے میں غیر مقلدین کے پاس کوئی ایسی مضبوط اور واضح دلیل نہیں جو ان کے برعکس مؤقف کو ثابت کر سکے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس معاملے میں بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
احناف کی مستدل پہلی صحیح حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدے میں پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھنا – وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا بیان
«مسند الدارمي - ت الزهراني» (1/ 424):
«أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا سَجَدَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»
اسنادہ صحیح
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے بلند کرتے۔
شریک النخعی پر سوء حفظ کی جرح اور اس کا جواب
بعض لوگوں نے شریک النخعی پر حافظے کی خرابی (سوء حفظ) کی جرح کی ہے، مگر یہ جرح قابل قبول نہیں۔ کیونکہ شریک سے یہ روایت یزید بن ہارون نے بیان کی ہے، اور انہوں نے یہ روایت واسط میں سنی، کیونکہ وہ شریک کے واسطی شاگرد تھے۔ البتہ جنہوں نے ان سے کوفہ میں روایت کی ہے، ان کی روایات میں کئی اوہام پائے جاتے ہیں۔
یزید بن ہارون کا شریک النخعی سے حافظہ کی خرابی سے پہلے روایت کرنا اور امام ابن حبان کی توثیق
امام ابن حبان لکھتے ہیں
«الثقات لابن حبان» (6/ 444):
«وَكَانَ فِي آخر أمره يخطئ فِيمَا يروي تغير عَلَيْهِ حفظه فسماع الْمُتَقَدِّمين عَنهُ الَّذين سمعُوا مِنْهُ بواسط لَيْسَ فِيهِ تَخْلِيط مثل يزِيد بن هَارُون وَإِسْحَاق الْأَزْرَق وَسَمَاع الْمُتَأَخِّرين عَنهُ بِالْكُوفَةِ فِيهِ أَوْهَام كَثِيرَة»
ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اپنی زندگی کے آخری حصے میں شریک النخعی سے روایت میں غلطیاں ہونے لگیں اور ان کا حافظہ کمزور ہوگیا۔ چنانچہ جن لوگوں نے ان سے پہلے زمانے میں واسط میں سنا، جیسے *یزید بن ہارون* اور اسحاق الأزرق، ان کی روایت میں کوئی گڑبڑ نہیں۔ لیکن جو لوگ ان سے بعد میں کوفہ میں روایت کرنے لگے، ان کی روایات میں بہت سے وہم پائے جاتے ہیں۔
حافظ ابن حجر اور امام سمعانی کا ابن حبان کی تائید کرنا
بعض لوگوں نے شریک النخعی پر حافظے کی خرابی (سوء حفظ) کی جرح کی ہے، مگر یہ جرح قابل قبول نہیں۔ کیونکہ شریک سے یہ روایت یزید بن ہارون نے بیان کی ہے، اور انہوں نے یہ روایت واسط میں سنی، کیونکہ وہ شریک کے واسطی شاگرد تھے۔ البتہ جنہوں نے ان سے کوفہ میں روایت کی ہے، ان کی روایات میں کئی وہم پائے جاتے ہیں۔
«التذييل على تهذيب التهذيب» (ص173):
«قال ابن حبان: شريك بن عبد اللَّه النخعي ولى القضاء بواسط سنة خمسين ومائة، ثم تولى الكوفة بعد ذلك، مات بالكوفة سنة سبع أو ثمان وسبعين ومائة، وكان في آخر أمره يخطئ فيما يروي، تغير عليه حفظه، فسماع المتقدمين منه الذين سمعوا منه بواسط ليس فيه تخليط، مثل يزيد بن هارون، وإسحاق الأزرق، وسماع المتأخرين عنه بالكوفة فيه أوهام كثيرة»
«الأنساب - السمعاني» (5/ 474):
«وكان في آخر أمره يخطئ فيما يروي، تغير عليه حفظه، فسماع المتقدمين عنه الذين سمعوا منه بواسط ليس فيه تخليط مثل يزيد بن هارون، وإسحاق الأزرق، وسماع المتأخرين عنه بالكوفة فيه أوهام كثيرة.»
عاصم بن کلیب کی توثیق
محدثین کرام نے عاصم بن کلیب کی توثیق کی ہے اور انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ چند اہم اقوال درج ذیل ہیں:
امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عاصم بن كليب الجرمي ثقة»
(الثقات للعجلي، ص 242)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے:
«ذكره ابن حبان في الثقات»
«الثقات لابن حبان» (7/ 256):
«عَاصِم بْن كُلَيْب بْن شهَاب الْجرْمِي من أهل الْكُوفَة يروي عَنْ أَبِيه عَنْ وَائِل بْن حجر روى عَنْهُ الثَّوْريّ وَشعْبَة مَاتَ سنة سبع وَثَلَاثِينَ وَمِائَة»
دیگر محدثین کا عاصم بن کلیب کوثقہ قرار دینا
«تهذيب الكمال في أسماء الرجال» (13/ 538):
«قال أبو بكر الأثرم عَن أحمد بْن حنبل: لا بأس بحديثه.وَقَال أحمد بْن سعد بْن أَبي مريم، عَنْ يحيى بْن مَعِين: ثقة وكذلك قال النَّسَائي.
وَقَال أبو حاتم : صالح
ابو بکر الأثرم نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: "اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں۔" احمد بن سعد بن ابی مریم نے یحییٰ بن معین سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: "یہ ثقہ ہے۔" اسی طرح امام نسائی نے بھی یہی کہا۔ امام ابو حاتم نے فرمایا: "یہ صالح (قابلِ اعتماد) ہے۔"
یہ حوالہ جات ثابت کرتے ہیں کہ عاصم بن کلیب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں،
عاصم بن کلیب: بخاری و مسلم کے راوی
امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی روایت کو تعلیقاً، ذکر کیا ہے
«صحيح البخاري» (7/ 151):
«بَابُ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَقَالَ عَاصِمٌ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِيٍّ مَا الْقَسِّيَّةُ»
عاصم نے ابو بردہ سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قسیہ (کپڑا) کیا ہے؟
عاصم بن کلیب کی روایات صحیح مسلم میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، حدیث نمبر 2078 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درمیانی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔
اسی طرح، حدیث نمبر 2725 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا میں یہ الفاظ کہنے کی تعلیم دی: "اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور مجھے سیدھے راستے پر چلا"۔
مزید برآں، حدیث نمبر 6911 میں بھی عاصم بن کلیب کی روایت موجود ہے، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دعا کے کلمات نقل کیے گئے ہیں۔
یہ احادیث صحیح مسلم میں عاصم بن کلیب کی روایت کردہ چند مثالیں ہیں۔
محدث امام عینی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے
«نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار» (4/ 400):
عن وائل بن حجر قال: "كان رسول الله عليه السلام إذا سجد بدأ بوضع ركبتيه قبل يديه".» مرفوع صحيح ورجاله ثقات،
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔"
یہ حدیث مرفوع ہے اور صحیح ہے اور اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں
احناف کی مستدل دوسری صحیح حدیث
«المستدرك على الصحيحين» (1/ 349):
822 - فَحَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْعَطَّارُ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَبَّرَ فَحَاذَى بِإِبْهَامَيْهِ أُذُنَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ مَفْصِلٍ مِنْهُ، وَانْحَطَّ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى سَبَقَتْ رُكْبَتَاهُ يَدَيْهِ» . «هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَا أَعْرِفُ لَهُ عِلَّةً وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي]822 - على شرطهما ولا أعرف له علة
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر کہی اور اپنے انگوٹھوں کو اپنے کانوں کے برابر کیا، پھر آپ نے رکوع کیا یہاں تک کہ آپ کے تمام جوڑ اپنی جگہ پر ٹھہر گئے، اور آپ نے تکبیر کہتے ہوئے نیچے جھکنے کا آغاز کیا یہاں تک کہ آپ کے گھٹنے آپ کے ہاتھوں سے پہلے زمین پر پہنچے۔"
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ سند صحیح ہے اور شیخین امام بخاری و مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے، اور میں اس میں کوئی علت نہیں جانتا، مگر انہوں نے اسے روایت نہیں کیا۔"
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر اتفاق کرتے ہوئے فرمایا: "یہ حدیث شیخین امام بخاری و امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور میں اس میں کوئی علت نہیں جانتا۔"
امام حاکم اور امام ذہبی دونوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے
اس حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کے لیے جھکتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے، پھر ہاتھ۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا اور فرمایا کہ یہ شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر اتفاق کیا۔
یہ حدیث فقہ حنفی اور جمہور کے اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے رکھے جائیں، پھر ہاتھ، اور سجدے سے اٹھتے وقت پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اور پھر گھٹنے۔ اس کے برعکس غیر مقلدین کے موقف کی تائید میں کوئی ایسی مضبوط اور صحیح حدیث نہیں جو ان کے دعوے کو تقویت دے سکے، جو ان کی کمزوری اور بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔
سجدے میں پہلے گھٹنے رکھنے کا عمل: قرونِ اولیٰ کا عملی تواتر
یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ میں سجدے میں پہلے ہاتھ رکھنے کا عمل متروک رہا اور جو حدیث غیر مقلدین پیش کرتے ہیں، اس پر سلفِ صالحین نے عمل نہیں کیا۔ درحقیقت، ائمہ متبوعین رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے جو احناف کا ہے کہ سجدے میں پہلے گھٹنے رکھے جائیں، پھر ہاتھ۔
یہی طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ سجدے میں پہلے گھٹنے رکھتے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ تابعین کے ہاں بھی یہی عمل رائج تھا، جیسا کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے سجدے میں پہلے ہاتھ رکھنے والے کو احمق یا مجنون کہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف کے ہاں یہی طریقہ معروف، متواتر اور عملی تواتر سے ثابت تھا، جبکہ غیر مقلدین کا استدلال قابلِ قبول نہیں۔
سجدے میں پہلے گھٹنے رکھناپھر ہاتھ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل
«شرح معاني الآثار» (2/ 360):
«1435 - كما حدثنا فهد بن سليمان قال ثنا عمر بن حفص، قال: ثنا أبي، قال: ثنا الأعمش، قال: حدثني إبراهيم عن أصحاب عبد الله علقمة والأسود، فقالا: حفظنا عن عمر في صلاته أنه خر بعد ركوعه على ركبتيه كما يخر البعير ووضع ركبتيه قبل يديه.» اسنادہ صحیح
فہد بن سلیمان نے بیان کیا، وہ عمر بن حفص سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے، وہ اعمش سے، اور اعمش نے ابراہیم سے، جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب (علقمہ اور اسود) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
"ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز کا مشاہدہ کیا، تو ہم نے انہیں رکوع کے بعد سجدے میں جاتے ہوئے دیکھا کہ وہ اونٹ کی طرح جھک کر پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے، پھر اپنے ہاتھ رکھتے۔"
سجدے میں پہلے ہاتھ رکھنے کی نکیر: تابعین کی نظر میں
«شرح معاني الآثار» (2/ 360):
«1437 - حدثنا ابن مرزوق، قال: ثنا وهب عن شعبة، عن مغيرة، قال: سألت إبراهيم عن الرجل يبدأ بيديه قبل ركبتيه إذا سجد، فقال: أو يضع ذلك إلا أحمق أو مجنون»
ابن مرزوق نے بیان کیا، وہ وہب سے، وہ شعبہ سے، اور وہ مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص سجدے میں پہلے ہاتھ رکھے اور پھر گھٹنے، تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: "ایسا کرنے والا یا تو احمق ہے یا مجنون!"
صحابہ کرام اور ائمہ متبوعین کا سجدے میں پہلے گھٹنے رکھنے پر اتفاق
«فتح الباري لابن رجب» (7/ 219):
«واختلفت العلماء في الساجد: هل يضع ركبتيه قبل يديه، أم يديه قبل ركبتيه؟ فقال الأكثرون: يضع ركبتيه قبل يديه.
قال الترمذي:» «فتح الباري لابن رجب» (7/ 220):
«وروي ذلك عن عمر بن الخطاب وابنه عبد الله.
وهو قول مسلم بن يسار، وأبي قلابة، وابن سيرين، والنخعي والثوري، وأبي حنيفة، والشافعي، وأحمد، وإسحاق.
وقال حجاج، عن أبي إسحاق: كان أصحاب عبد الله إذا أنحطوا للسجود وقعت ركبهم قبل أيديهم.»
علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ سجدہ کرنے والا پہلے گھٹنے رکھے یا پہلے ہاتھ؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ سجدے میں پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے۔ اسی طرح مسلم بن یسار، ابو قلابة، ابن سیرین، نخعی، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
حجاج نے ابو اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب جب سجدے کے لیے جھکتے تو ان کے گھٹنے پہلے زمین پر آتے تھے، پھر ہاتھ۔
امام ابن بطال یہی بات مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں
«شرح صحيح البخاري» لابن بطال (2/ 422):
«وقالت طائفة: يضع ركبتيه قبل يديه روى ذلك عن عمر بن الخطاب، وهو قول الثورى والكوفيين، وذكر ابن شعبان عن مالك مثله، وبه قال ابن وهب، والشافعى، وأحمد، وإسحاق. وحجتهم حديث وائل بن حجر: (أن النبى، عليه السلام، بدأ فوضع ركبتيه قبل يديه)»
"اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں، پھر ہاتھ۔ یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور یہی سفیان ثوری اور کوفیوں کا قول ہے۔ ابن شعبان نے امام مالک سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے، اور اسی پر ابن وہب، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق بن راهويه کا بھی قول ہے۔ ان کی دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سجدے میں جاتے وقت) پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے، پھر ہاتھ
امام ترمذی کے نزدیک بھی اکثر اہلِ علم کا یہی موقف ہے
«سنن الترمذي» (2/ 57):
«وَالعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ: يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»
اور اکثر اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے: وہ یہ کہتے ہیں ہیں کہ آدمی (سجدے میں جاتے وقت) پہلے اپنے گھٹنے رکھے پھر ہاتھ، اور جب اٹھے تو پہلے اپنے ہاتھ اٹھائے پھر گھٹنے۔
سجدے میں اونٹ کی مشابہت: غیر مقلدین کا غلط استدلال اور اس کا تجزیہ
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ حدیث میں اونٹ کے بیٹھنے کی کیفیت سے منع کیا گیا ہے، اور چونکہ اونٹ پہلے اپنے گھٹنے (یعنی اگلے پیر) زمین پر رکھتا ہے، اس لیے نماز میں سجدے کے وقت پہلے ہاتھ رکھنا اونٹ سے مشابہت پیدا کرے گا، جو کہ حدیث کی ممانعت میں آتا ہے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے وہ لغت کی ایک کتاب کا بھی حوالہ دیتے ہیں
سجدے میں اونٹ کی مشابہت سے اجتناب: فقہاء کی وضاحت
امام ابو جعفر طحاوی فریق مخالف کی اس استدلال پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں
«شرح معاني الآثار» (2/ 354):
«قال أبو جعفر: فقال قوم: هذا الكلام محال؛ لأنه قال: "لا يبرك كما يبرك البعير"، والبعير إنما يبرك على يديه، ثم قال: ولكن ليضع يديه قبل ركبتيه فأمره هاهنا أن يضع ما يضع البعير، ونهاه في أول الكلام أن يفعل ما يفعل البعير.»
ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے کہا: فقہاء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ یہ کلام محال ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اونٹ کی طرح نہ بیٹھو" جبکہ اونٹ پہلے اپنے اگلے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے۔ پھر حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا: "بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے" تو یہاں (حدیث کے دوسرے حصے میں) نمازی کو وہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اونٹ کرتا ہے، حالانکہ حدیث کے ابتدائی حصے میں اسی فعل سے منع کیا گیا ہے۔
ائمہ لغت غیر مقلدین کے لغوی استدلال کا ابطال: اونٹ اور انسان کے گھٹنے میں فرق
علامہ حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں لکھتے ہیں
«معجم البلدان» (3/ 63): «رُكْبة: بضم أوّله، وسكون ثانيه، وباء موحدة، بلفظ الركبة التي في الرجل من البعير وغيره،»
گھٹنہ اس کا پہلا حرف پیش کے ساتھ، دوسرا حرف ساکن، اور تیسرا حرف باء موحدہ ہے، یعنی گھٹنہ (رُکبہ) وہی لفظ ہے جو انسان اور اونٹ وغیرہ کے پاؤں میں موجود گھٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فیروزآبادی نے اپنی کتاب سفر السعادة (صفحہ 35) میں لکھا ہے:
«وأما حديث أبي هريرة الذي رواه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه" وهمٌ من بعض الرواة، لأن أول الحديث ينقض آخره، فإن البعير يضع يديه قبل ركبتيه، حال
البروك، والذي قال ركبة البعير في يديه، وهم وغلط وخالف قول أئمة اللغة.
والصواب أنه نهى عن التشبه بالحيوانات»
"جہاں تک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا تعلق ہے، جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: 'جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے'، تو یہ بعض رواة کی طرف سے وہم ہے، کیونکہ حدیث کے ابتدائی حصے سے اس کا آخری حصہ متصادم ہے۔ اس لیے کہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھتا ہے۔ اور جس نے کہا کہ اونٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں، اس نے وہم اور غلطی کی ہے اور ائمۂ لغت کے قول کی مخالفت کی ہے۔ درحقیقت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔"
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا غیر مقلدین کے استدلال کا رد کرنا
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«زاد المعاد» ط عطاءات العلم (1/ 255): الثاني: أن قولهم: «ركبتا البعير في يديه» كلام لا يُعقَل ولا يعرفه أهل اللغة، وإنما الرُّكبة في الرِّجلين، وإن أُطلق على اللتين في يديه اسمُ الركبة فعلى سبيل التغليب. الثالث: أنه لو كان كما قالوه لقال: فليبرُكْ كما يبرُك البعير، فإنَّ أول ما يمسُّ الأرض من البعير يداه. وسِرُّ المسألة أنَّ من تأمَّل بروكَ البعير وعَلِم نهيَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم عن بروكٍ كبروك البعير= علِمَ أنَّ حديث وائل بن حُجْر هو الصواب. والله أعلم۔
دوسرا نقطہ: غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ "اونٹ کے گھٹنے اس کے اگلے پیروں میں ہوتے ہیں" ایسا قول ہے جو ناقابلِ فہم ہے اور اہلِ لغت اسے نہیں جانتے، کیونکہ "رُکبہ" (گھٹنا) اصل میں ٹانگوں میں ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اونٹ کے اگلے پیروں کے جوڑوں کو گھٹنے کہا بھی ہے، تو وہ محض تغلیب (مجازاً) کہا ہے۔
تیسرا نقطہ: اگر ان کا قول درست ہوتا تو حدیث میں "اونٹ کی طرح بیٹھو" کہنے کے بجائے "اونٹ کی طرح زمین پر ہاتھ رکھو" کہا جاتا، کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو زمین پر سب سے پہلے اس کے اگلے ہاتھ لگتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص اونٹ کے بیٹھنے کے انداز کو غور سے دیکھے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انداز سے منع کرنے کو سمجھے گا، وہ جان لے گا کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت ہی صحیح ہے (یعنی پہلے گھٹنے رکھنا)۔ واللہ اعلم۔
سجدے اور قیام میں اونٹ کی مشابہت سے اجتناب اور اونٹ کے بیٹھنے کا طریقہ
ایک عرب محقق عالم علامہ البانی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں
«التنبيهات على رسالة الألباني في الصلاة» (ص42):
«ولا يخفى على الصبيان الصغار فضلاً عن الرجال الكبار: أن البعير إذا أراد البروك وضع يديه أولاً ثم رجليه، والمصلي إذا قدَّم يديه على ركبتيه في السجود، فقد برك كما يبرك البعير بلا شك، وإذا قدم ركبتيه على يديه عند القيام من السجود، فقد قام كما يقوم البعير، وكذلك من اعتمد بيديه على الأرض ورفع ركبتيه قبلهما، وإذا قام من التشهُّد الأول.
فهذا مُتشبه بالبعير عند قيامه، والأول متشبه به عند بروكه، وكل ذلك منهي عنه، وعلة النهي التشبه بالبعير في هيئة بروكه، وهيئة قيامه، وسواء قيل: إن ركبتي البعير في يديه أو في رجليه، فلا عبرة بذلك، وإنما الاعتبار بالهيئة الفعلية، ومن توقَّفَ فيما ذكرنا من التشبُّه، فليُشاهد البعير عند بروكه وعند قيامه، وليشاهد المقدم ليديه عند السجود، والمقدم لركبتيه عند القيام حتى يرى تمام المشابهة منهما للبعير.»
یہ بات چھوٹے بچوں پر بھی مخفی نہیں، چہ جائیکہ بڑے مردوں پر، کہ اونٹ جب بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے اگلے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے، پھر اپنی پچھلی ٹانگیں۔ پس، جو نمازی سجدے میں جاتے وقت اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے، وہ بلاشبہ اسی طرح بیٹھ رہا ہے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے۔
اسی طرح جو سجدے سے اٹھتے وقت پہلے گھٹنے رکھے اور پھر ہاتھوں کا سہارا لے، یا جو زمین پر ہاتھ رکھ کر پہلے اپنے گھٹنے اٹھائے، جیسے تشہدِ اول سے کھڑے ہوتے وقت، تو وہ اونٹ کے کھڑے ہونے کی مشابہت اختیار کر رہا ہے۔
پہلا طریقہ اونٹ کے بیٹھنے سے مشابہ ہے، اور دوسرا اس کے کھڑے ہونے سے، اور یہ دونوں انداز ممنوع ہیں۔ اس ممانعت کی علت جانور سے مشابہت ہے، چاہے کہا جائے کہ اونٹ کے گھٹنے اس کے اگلے پیروں میں ہوتے ہیں یا پچھلے پیروں میں، اس کا کوئی اثر نہیں، کیونکہ اصل چیز اس کی ظاہری کیفیت ہے۔
جو شخص اس تشبیہ کے بارے میں تردد کرے، اسے چاہیے کہ وہ خود اونٹ کو بیٹھتے اور کھڑے ہوتے دیکھے، اور پھر ان نمازیوں کے افعال پر غور کرے جو سجدے میں ہاتھ پہلے رکھتے ہیں یا قیام کے وقت گھٹنے بعد میں اٹھاتے ہیں، تاکہ اسے دونوں کے درمیان مکمل مشابہت کا اندازہ ہو جائے۔
غیر مقلدین کی مستدل پہلی روایت اور محدثین کا اس پر کلام
«سنن أبي داود» (2/ 131 ت الأرنؤوط):
«840 - حدثنا سعيدُ بن منصورِ، حدثنا عبدُ العزيز بن محمدٍ، حدثنى محمدُ بن عبدِ الله بن حسنٍ، عن أبي الزّناد، عن الأعرَج
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا سَجَدَ أحدُكم فلا يَبرُك كما يَبرُكُ البعيرُ، وليَضَع يديهِ قبل رُكبتيهِ»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ اس طرح نہ گرے جیسے اونٹ گرتا ہے، بلکہ اپنے گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے۔
عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کی آراء
اگرچہ بعض ائمہ جرح و تعدیل، جیسے علی بن المدینی، امام یحییٰ بن معین، اور امام عجلی رحمہم اللہ، نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں صدوق کہا ہے، جس کی روایت حسن درجے سے کم نہیں ہوتی، لیکن بہت سے ائمہ جرح و تعدیل نے ان پر جرح بھی کی ہے۔
عبد العزيز الدراوردي کے بارے میں امام ابو زرعہ کی رائے
«ميزان الاعتدال» (2/ 633):
«عبد العزيز بن محمد [م، خ قرنه، عو] الدراوردي.
وقال أبو حاتم: لا يحتج به.........
وقال أبو زرعة: سيئ الحفظ
ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: ان کی روایت سے حجت نہیں لی جا سکتی۔
ابو زرعہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ان کا حافظہ کمزور تھا۔
عبد العزيز الدراوردي کے بارے میں امام زین الدین بغدادی حنبلی کی رائے
«شرح علل الترمذي» (2/ 758):
«قال الأثرم: قال أبو عبد الله: الدراوردي إذا حدث من حفظه فليس بشيء، أو نحو هذا.
فقيل له: في تصنيفه؟ فقال: ليس الشأن في تصنيفه إن كان في أصل كتابه، وإلا فلا شيء.
(كان يحدث بأحاديث ليس لها أصل في كتابه.»
الأثرم کہتے ہیں کہ امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’الدراؤردی جب اپنے حافظے سے روایت کرتا ہے تو وہ کچھ قابل اعتبار نہیں ہوتا، یا اس کے قریب قریب کچھ کہا۔‘‘
پھر ان سے پوچھا گیا: ’’تو کیا اس کی تصنیفات کا بھی یہی حال ہے؟‘‘ تو فرمایا: ’’مسئلہ اس کی تصنیف کا نہیں، اصل بات یہ ہے کہ اگر اس کے بیان کردہ حدیث اس کی اپنی اصل کتاب میں موجود ہو تو درست ہے، ورنہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔‘‘
عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں حافظ ابن حجر اور امام نسائی رحمہما اللہ کی رائے
«تقريب التهذيب» (ص358):
«4119- عبد العزيز ابن محمد ابن عبيد الدراوردي أبو محمد الجهني مولاهم المدني صدوق كان يحدث من كتب غيره فيخطىء قال النسائي حديثه عن عبيد الله العمري منكر من الثامنة مات سنة ست أو سبع وثمانين ع»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں "صدوق" قرار دیا لیکن یہ بھی ذکر کیا کہ وہ دوسروں کی کتابوں سے روایت کرتے وقت غلطیاں کر جاتے تھے۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان کی روایت عبید اللہ العمری سے منکر ہے۔
عبد العزیز بن محمد بن عبید الدراوردی، ابو محمد الجہنی، جو کہ مدنی اور ان کے موالی میں سے تھے، صدوق تھے، لیکن دوسروں کی کتابوں سے روایت کرتے وقت غلطیاں کر جاتے تھے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کی روایت عبید اللہ العمری سے منکر ہے۔ یہ آٹھویں طبقے کے راوی تھے اور سن 186 یا 187 ہجری میں وفات پائی۔
عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں امام ابن ابی حاتم اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ کی رائے
«الجرح والتعديل - ابن أبي حاتم» (5/ 395):
«قال سمعت أحمد بن حنبل ذكر الدراوردى فقال: ما حدث عن عبيد الله بن عمر فهو عن عبد الله بن عمر.
نا عبد الرحمن نا محمد بن حمويه بن الحسن قال سمعت
أبا طالب قال سئل أحمد بن حنبل عن عبد العزيز الدراوردى فقال» كان معروفا بالطلب، وإذا حدث من كتابه فهو صحيح، وإذا حدث من كتب الناس وهم، كان يقرأ من كتبهم فيخطئ، وربما قلب حدیث عبد الله العمرى يرويه عن عبيد الله بن عمر.
میں نے احمد بن حنبل کو الدراوردی کا ذکر کرتے ہوئے سنا، تو انہوں نے فرمایا: "جو کچھ اس نے عبید اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے، وہ درحقیقت عبد اللہ بن عمر سے ہے۔"
عبد الرحمن نے بیان کیا کہ ہمیں محمد بن حمویہ بن الحسن نے بتایا، انہوں نے کہا: میں نے ابو طالب کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ امام احمد بن حنبل سے عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
"وہ طلب علم میں معروف تھا، اگر اپنی کتاب سے روایت کرے تو صحیح ہوتا ہے، لیکن جب دوسروں کی کتابوں سے روایت کرے تو وہم میں پڑ جاتا تھا۔ وہ دوسروں کی کتابیں پڑھ کر روایت کرتا اور غلطی کر بیٹھتا، اور کبھی کبھی عبد اللہ العمری کی حدیث کو الٹ دیتا اور اسے عبید اللہ بن عمر سے روایت کرتا۔"
ایک ضروری وضاحت
جب عبد العزیز الدراوردی کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہوں یا یہ ثابت ہو جائے کہ روایت بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے یا اپنے سے زیادہ اوثق راویوں کی مخالفت کریں، تو ان کی روایت قابل اعتبار نہیں ہوگی۔ تاہم، اگر وہ ثقہ راویوں کی روایت کے مطابق بیان کریں، تو ان کی روایت حجت ہوگی۔
سند کے دوسرے راوی محمد بن عبداللہ بن حسب حسن پر ائمہ جرح و التعدیل کے اقوال
سند کے دوسرے راوی محمد بن عبداللہ بن حسن کہ وہ حدیث جو غیر مقلدین اپنے استدلال میں پیش کرتے ہیں اس کو ائمہ جرح التعدیل نے معلول قرار دیا ہے
محمد بن عبداللہ بن حسن کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی رائے
«التاريخ الكبير» للبخاري (1/ 434 ت الدباسي والنحال):
«418] مُحمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، ويُقالُ: ابنُ حَسنٍ .
حَدَّثني مُحمدُ بنُ عُبيدِ اللَّهِ، قَالَ: حدَّثنا عَبدُ العزيزِ، عنْ مُحمدِ بنِ عبدِ اللَّهِ، عن أَبِي الزِّنادِ، عنِ الأَعرجِ، عنْ أَبِي هُريْرةَ، رَفعَهُ: "إِذا سَجَدَ فَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ".
ولا يُتابَعُ عَليهِ، ولا أَدرِي سَمِعَ منْ أَبِي الزِّنادِ أمْ لا»
امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر میں محمد بن عبداللہ، جنہیں ابن حسن بھی کہا جاتا ہے، کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی روایت کردہ حدیث "جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے" پر کسی نے ان کی متابعت نہیں کی، اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ابو الزناد سے سماع کیا ہے یا نہیں۔
محمد بن عبداللہ بن حسن کے بارے میں حافظ ابن قیم امام دارقطنی اور امام ترمذی رحمہم اللہ کی رائے
«زاد المعاد» ط عطاءات العلم (1/ 259):
«وأما حديث أبي هريرة المتقدِّم، فقد علَّله البخاري والترمذي والدارقطني. قال البخاري: محمد بن عبد الله بن حسن لا يتابع عليه، وقال: لا أدري سمع من أبي الزناد أم لا؟ وقال الترمذي: غريب لا نعرفه من حديث أبي الزناد إلا من هذا الوجه. وقال الدارقطني: تفرد به الدراوردي، عن محمد بن عبد الله بن الحسن العلوي، عن أبي الزناد.»
رہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا معاملہ، تو امام بخاری، ترمذی اور دارقطنی نے اس میں علت بیان کی ہے۔ امام بخاری نے کہا: "محمد بن عبد اللہ بن حسن کی اس روایت کی متابعت نہیں کی گئی، اور میں نہیں جانتا کہ اس نے ابو الزناد سے سنا ہے یا نہیں؟" امام ترمذی نے کہا: "یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے ابو الزناد کی روایت سے صرف اسی سند کے ساتھ جانتے ہیں۔" امام دارقطنی نے کہا: "اس حدیث میں الدراوردي نے تنہا روایت کی ہے، وہ اسے محمد بن عبد اللہ بن الحسن العلوی کے واسطے سے ابو الزناد سے بیان کرتا ہے۔"
محمد بن عبداللہ بن حسن کے بارے امام ابن عدی رحمہ اللہ کی رائے
«الكامل في ضعفاء الرجال» (7/ 477):
«1714- مُحَمد بْن عَبد الله ويقال ابن الحسن، عَن أَبِي الزناد.
لا يتابع عليه لم يسمع..»
محمد بن عبد اللہ کا ابو الزناد سے روایت کرنے میں کوئی متابع نہیں ہے
محمد بن عبداللہ کا ابو الزناد سے سماع ثابت نہیں
غیر مقلدین کا علامہ ابن قیم رحمہ اللہ پر اعتراض اور اس کا جواب
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متن کو مقلوب قرار دیا، جس پر غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ بے دلیل ہے اور ان سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں کہی۔
غیر مقلدین کے اعتراض کا اصولی اور تحقیقی جواب
اصولی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی اعتراض اٹھایا ہے اور وہ دلائل اور قرائن کی روشنی میں درست ثابت ہوتا ہے، تو اسے محض یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے پہلے کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا۔ اس حدیث کی سند میں دو راوی ایسے ہیں جن پر پہلے ہی تفصیلی کلام ہو چکا ہے: ایک راوی کا حافظہ کمزور ہے، اور دوسرے کا اپنے استاد سے سماع ثابت نہیں۔ یہ دو مضبوط علتیں اس روایت کی کمزوری پر دلالت کرتی ہیں۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ ایک طرف تو اونٹ کی طرح بیٹھنے سے منع کیا جا رہا ہے اور پھر اسی طرح بیٹھنے کا حکم بھی دیا جا رہا ہے، جو تضاد پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جو بات پہلے کسی نے نہ کہی ہو، وہ درست نہیں ہو سکتی، تو پھر یہی اعتراض دیگر مقامات پر بھی لازم آئے گا۔ مثلاً، جب ہم قادیانیوں سے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تو وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس سے پہلے کوئی نبی زندہ اٹھایا گیا ہے؟ اسی طرح، جب حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بے موسم پھل عطا فرمائے، تو منکرینِ کرامت اعتراض کرتے ہیں کہ کیا اس سے پہلے کسی کو اس طرح کے پھل دیے گئے؟
یہ تو الزامی جوابات ہوئے، لیکن تحقیقی جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات کی قوی دلیل ہے کہ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا متن بدلا ہوا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ ایسے بیٹھتے تھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے، اور اونٹ کے بیٹھنے کی کیفیت یہی بیان کی گئی ہے کہ وہ پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے اور پھر ہاتھ۔ یہی ترتیب حدیث میں مذکور ہے، جو اس کے مقلوب ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ایک اور مثال: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متن میں تبدیلی
اگر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے اس موقف کو محض اس بنیاد پر رد کیا جائے کہ ان سے پہلے کسی نے حدیث کے متن کو مقلوب قرار نہیں دیا، تو پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث بھی زیر بحث آئے گی جس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا۔ اس حدیث کو صرف ایک ہی محدث، ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ، نے مقلوب قرار دیا ہے۔ اگر یہ اصول اختیار کیا جائے کہ کسی حدیث کے مقلوب ہونے کا دعویٰ صرف اسی صورت میں قبول ہوگا جب اسے پہلے بھی کسی نے بیان کیا ہو، تو اس حدیث کے بارے میں بھی یہی سوال پیدا ہوگا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فتح الباري» (13/ 436 ط السلفية)
"جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ اپنے کسی بھی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا، اور وہ آگ کے لیے جسے چاہے پیدا فرماتا ہے۔"
ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ نے کہا: "اس بارے میں معروف بات یہ ہے کہ اللہ جنت کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا فرمائے گا، جبکہ آگ کے بارے میں یہ ہے کہ اللہ اس میں اپنا قدم رکھے گا۔" پھر انہوں نے کہا: "مجھے کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ملا کہ اللہ آگ کے لیے کوئی نئی مخلوق پیدا کرے گا۔"
اگر غیر مقلدین علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے موقف کو رد کرتے ہیں تو انہیں اس حدیث کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، کیونکہ علمی دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ استدلال میں یکسانیت رکھی جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت، جو متن کی تبدیلی پر دلیل ہے
«مصنف ابن أبي شيبة» (3/ 79 ت الشثري):
«2727 - حدثنا أبو بكر قال: نا ابن فضيل عن عبد اللَّه بن سعيد عن جده عن أبي هريرة يرفعه أنه قال: إذا سجد أحدكم (فليبتدئ) بركبتيه قبل يديه ولا يبرك بروك الفحل»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے، پھر ہاتھ، اور وہ گھوڑے کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے۔"
(مصنف ابن أبي شيبہ، 3/79، ت: الشثری)
نتیجہ بحث اور خلاصہ کلام
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متن کو مقلوب قرار دیا، جس پر غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ بے دلیل ہے اور ان سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں کہی۔ تاہم، اصولی طور پر اگر کوئی اعتراض دلائل اور قرائن کی روشنی میں درست ثابت ہو، تو اسے صرف اس بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے پہلے کسی نے وہ اعتراض نہیں کیا۔ اس حدیث کی سند میں دو راوی ایسے ہیں جن پر پہلے ہی محدثین نے تفصیلی کلام کیا ہے: ایک کا حافظہ کمزور ہے اور دوسرے کا اپنے استاد سے سماع ثابت نہیں، جو روایت کی کمزوری کی واضح وجوہات ہیں۔ مزید برآں، حدیث میں ایک تضاد پایا جاتا ہے کہ ایک طرف اونٹ کی طرح بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اور دوسری طرف اسی طرح بیٹھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ حدیث کا متن مقلوب ہے، کیونکہ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتے تھے، جو حدیث کے الفاظ سے مختلف ہے۔ اسی طرح، دیگر متون میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں جہنم کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرنے کا ذکر ہے، جسے محدثین میں سے صرف ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ نے مقلوب قرار دیا۔ اگر غیر مقلدین علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے اعتراض کو رد کرتے ہیں، تو انہیں دیگر ایسی احادیث کے بارے میں بھی یکساں معیار اپنانا ہوگا۔
غیر مقلدین کی دوسری مستدل روایت: حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور اس کا رد
«المستدرك على الصحيحين» (1/ 348):
821 - حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَطَّةَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَكَرِيَّا الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ، ثنا الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «يَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ» وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَفْعَلُ ذَلِكَ. «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ وَلَهُ مُعَارِضٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي]821 - على شرط مسلم
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ (سجدے میں جاتے وقت) اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
امام حاکم کہتے ہیں: "یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پر ہے، البتہ انہوں نے اور امام بخاری نے اسے روایت نہیں کیا۔" پھر وہ مزید کہتے ہیں: "اس حدیث کا معارض حضرت انس اور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہما کی روایت میں موجود ہے۔"
امام ذہبی نے بھی اس حدیث کو "مسلم کی شرط پر صحیح" قرار دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت پر فنی تحقیق
عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں مکمل تفصیل پہلے گزر چکی ہے، اب اس کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں "صدوق" قرار دیا، لیکن ان کی دوسروں کی کتابوں سے روایت کرنے میں غلطیاں کرنے کی نشاندہی بھی کی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے ان کی عبید اللہ العمری سے روایت کو "منکر" کہا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ الدراوردی اگر اپنی کتاب سے روایت کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے، لیکن دوسروں کی کتابوں سے روایت کرتے وقت وہم میں مبتلا ہو جاتا اور غلطیاں کرتا تھا، یہاں تک کہ بعض اوقات عبد اللہ العمری کی حدیث کو عبید اللہ بن عمر سے منسوب کر دیتا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الدراوردی کی منفرد روایات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب وہ عبید اللہ بن عمر سے روایت کرے۔
خلاصۂ کلام اور نتیجۂ بحث
غیر مقلدین کی دونوں مستدل روایات—حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما—پر محدثین نے تفصیلی نقد کیا ہے، اور یہ فنی اعتبار سے کمزور ثابت ہوئی ہیں۔ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں متن کا اضطراب اور سند میں کمزور راوی موجود ہیں، جبکہ حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے راوی عبد العزیز الدراوردی کے بارے میں محدثین نے واضح کیا ہے کہ وہ وہم اور غلطی کا شکار ہوتے تھے، خاص طور پر جب وہ عبید اللہ بن عمر سے روایت کریں۔
اس کے برعکس، حدیثِ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، اور اس پر ائمہ اربعہ کا عمل بھی موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عملی فعل سے بھی یہی مؤقف ثابت ہوتا ہے، اور بہت سے صحابہ و تابعین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔ لہٰذا، صحیح اور مستند روایت پر عمل کرنا ہی علمی دیانت کا تقاضا ہے، اور اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں