نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 122 : کہ ابن المبارک نے ابو حنیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد کہا کہ میرے دل میں اس نماز کے بارہ میں کھٹکا ہے اور کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے چار سو حدیثیں لکھی تھیں تو جب میں عراق واپس جاؤں گا تو ان کو مٹا دوں گا۔



اعتراض نمبر 122 :

  کہ ابن المبارک نے ابو حنیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد کہا کہ میرے دل میں اس نماز کے بارہ میں کھٹکا ہے اور کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے چار سو حدیثیں لکھی تھیں تو جب میں عراق واپس جاؤں گا تو ان کو مٹا دوں گا۔


أخبرني الحسن بن أبي طالب، أخبرنا أحمد بن محمد بن يوسف، حدثنا محمد بن جعفر المطيري - حدثنا عيسى بن عبد الله الطيالسي، حدثنا الحميدي قال: سمعت ابن المبارك يقول: صليت وراء أبي حنيفة صلاة وفي نفسي منها شئ، قال: وسمعت ابن المبارك يقول: كتبت عن أبي حنيفة أربعمائة حديث إذا رجعت إلى العراق إن شاء الله محوتها.


أخبرنا إبراهيم بن محمد بن سليمان المؤدب، أخبرنا أبو بكر بن المقرئ، حدثنا سلامة بن محمود القيسي، حدثنا إسماعيل بن حمدويه البيكندي قال:

سمعت الحميدي يقول: سمعت إبراهيم بن شماس يقول: كنت مع ابن المبارك بالثغر، فقال: لئن رجعت من هذه لأخرجن أبا حنيفة من كتبي.


أخبرنا العتيقي، أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، حدثنا محمد بن إبراهيم بن جناد، حدثنا أبو بكر الأعين، حدثنا إبراهيم بن شماس قال: سمعت ابن المبارك يقول: اضربوا على حديث أبي حنيفة.


 أخبرنا عبيد الله بن عمر الواعظ، حدثنا أبي، حدثنا عبد الله بن سليمان، حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن الربيع قال: ضرب ابن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة. كذا رواه لنا. وأظنه عن عبد الله بن أحمد عن أبي بكر الأعين نفسه، والله أعلم.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں احمد بن محمد بن یوسف بن محمد بن دوست البزاز ہے اس نے جو روایت المطیری سے کی ہے اس پر محمد بن ابی الفوارس نے کلام کیا ہے اور اس کے بارہ میں طعن کیا ہے اور الازھری نے کہا کہ ابن دوست ضعیف ہے۔  میں نے دیکھا کہ اس کی کتابیں ساری کی ساری نئی ہیں۔ 

یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ جزئیں  لکھتا ہے اور ان کی ترتیب ایسے رکھتا کہ گمان کیا جاتا کہ وہ پرانی ہے۔

 اور اس کے بارہ میں بہت لمبا چوڑا کلام خطیب کی تاریخ ص 125 ج 5 دیکھیں اور یہی ہمیں بے پرواہ کر دیتا ہے کہ ہم سند کے کسی اور راوی کے بارہ میں بحث کریں۔

اور الحمیدی کی روایت ابن المبارک سے غیر معروف ہے اور جو اس نے یہ نسبت ابن المبارک کی طرف کی ہے کہ اس نے کہا کہ اگر میں واپس لوٹا تو ضرور بضرور ابوحنیفہ کو اپنی کتابوں سے نکال دوں گا تو اس کی سند میں اسماعیل بن حمدویہ مجھول ہے۔  اور الحمیدی انتہائی متعصب ہے اور محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم نے اس کو جھوٹا کہا ہے اس روایت میں جو اس نے شافعی سے کی ہے اس شخص کے بارہ میں جس کو وہ اپنے بعد خلیفہ بنائیں گے۔ 

جیسا کہ تاج الدین السبکی کی الطبقات الکبری ص 224 ج 1 میں ہے۔ اور ابراہیم بن شماس عبادت گزار اور غازی تھا مگر ابو حنیفہ کے متعلق کچھ بھی نہ جانتا تھا۔

 صرف دشمنی میں حد سے تجاوز کرنے والا تھا۔ اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو فقہ میں قوت اور ضعف کے مقام کو جانتے ہیں وہ تو صرف اپنے چوکیدار بھائیوں سے سنتا پھر ان کو پھیلا دیتا۔

 اور یہ چیز اس کے عالی طبقہ ہونے پر دلالت نہیں کرتی۔ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے ان سے روایت نہیں لی۔ اور ان کے علاوہ جن حضرات نے روایت کی ہے تو وہ زیادہ نہیں ہیں۔ 

وہ تو لوٹ مار کرنے والا فوجی عبادت گزار متعصب تھا اور ابن المبارک کی عادت تھی کہ جب کوئی آدمی بہت زیادہ کسی چیز پر اصرار کرتا تو وہ اللہ تعالی کی  معیت پر معلق کر کے اس سے وعدہ کر دیتے (جیسا کہ یہاں بھی کہا کہ انشاء اللہ مٹا دوں گا).

 پھر خطیب نے ایک اور خبر پیش کی جس میں ابن المبارک کا قول ہے کہ ابوحنیفہ کی حدیث کھرچ ڈالو۔ 

مگر اس کی سند میں العقیلی ہے اور یہ نقصانی متعصب ہے۔ اور اس کا شیخ محمد بن ابراہیم بن جناد المقری کو ابن خراش کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا اور ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس کا ہم مذہب ہو۔ 

اور ابوبکر محمد بن ابی عتاب الاعین تو محدثین کے طبقہ کا تھا ہی نہیں۔  جیسا کہ ابن معین نے کہا ہے۔ اور ابراہیم بن شماس عبادت گزار ہونے کے باوجود اس کا چمڑا تعصب سے بھرا ہوا تھا۔  اور ابوحنیفہ کا اس میں کیا نقصان ہے۔ 

جبکہ فرض کر لیا جائے کہ راویوں میں سے کوئی اس کی احادیث میں سے کسی خاص حدیث کو کھرچ دیتا ہے۔ 

اور یہ کبھی اس لیے ہوتا ہے کہ وہ روایت اس سے اس انداز کی ہوتی ہے کہ راوی کو ضبط نہ رہا ہو۔  اور اس بارہ میں مخالفین کی من گھڑت روایتوں کا فیصلہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ ابو حنیفہ کی سترہ مسانید میں ابن المبارک کی روایتیں بہت زیادہ ہیں۔ 

بے شک ابو حنیفہ سے انحراف کرنے والے جامد راویوں کی خواہشات خاک میں ملتی رہیں۔ تو کیسے یہ روایت صحیح ہو سکتی ہے کہ ابن المبارک نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ابوحنیفہ کی حدیث کو کھرچ دیا تھا؟  اور ہم نے پہلے سیر حاصل بحث کر دی ہے جس سے یقینی طور پر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ابن المبارک اپنی وفات تک مسلسل ابو حنیفہ کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کی بزرگی کو تسلیم کرتے رہے۔ رحمہ اللہ تعالی۔

اور آخری روایت کی سند میں عبد اللہ بن سلیمان ہے اور وہ ابن ابی داؤد ہے جو کہ کذاب اور ساقط ہے اور عبد اللہ بن احمد جس کی کتاب السنہ ہے اور اس کتاب کے مضامین ہی اس آدمی کی پہچان کے لیے کافی ہیں اور ابو حنیفہ کے بارہ میں اس جیسے آدمی کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔  نیز اس کو جھوٹ میں آزمایا گیا ہے اور بے شک علی بن حمشاذ نے روایت کی ہے اور علم میں اس کا مرتبہ آپ جانتے ہیں۔  بے شک اس نے احمد بن عبد اللہ الاصبہانی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں عبد اللہ بن احمد بن حنبل کے پاس آیا تو اس نے پوچھا تو کہاں تھا؟ 

تو میں نے کہ نے کہا کہ الکریمی کی مجلس میں تھا تو اس نے کہا کہ اس کے پاس نہ جایا کر کیونکہ تو وہ کذاب ہے پھر کسی دن میرا وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہاں خود عبد اللہ اس سے لکھ رہا تھا تو میں نے کہا اے ابو عبد الرحمن کیا تو نے مجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو تو اس سے نہ لکھا کر کیونکہ یہ کذاب ہے تو اس نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا تو جب فارغ ہوا اور اس کے پاس سے اٹھا تو میں نے کہا اے ابو عبد الرحمٰن کیا تو نے نہیں کہا تھا کہ اس سے نہ لکھا کر کیونکہ یہ کذاب ہے تو اس نے کہا کہ اس سے میرا مقصد یہ تھا کہ بچے نہ آنے لگ جائیں تا کہ وہ ایک سند میں ہمارے ساتھ شریک نہ ہو جائیں۔ الخ۔

 اگرچہ خطیب نے ص 439 ج 3 میں اس واقعہ کی تعلیل کرنے کی کوشش کی ہے کہ بے شک احمد بن عبد اللہ الاصفہانی مجہول ہے۔  مگر یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو ابن حمشاذ کے ثقہ شیوخ میں سے ہے۔

 اور اس کا ترجمہ ابو نعیم کی تاریخ اصفہان میں موجود ہے۔ اور ابن حمشاذ الحافظ الثقہ ایسا آدمی نہیں ہے کہ مجہول راویوں سے روایت کرے۔  اور نہ ہی ایسا تھا کہ ایسے آدمی پر بھروسہ کرے جو اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔

 اگرچہ خطیب نے نفسانی ضرورت کی وجہ سے اس کو مجہول قرار دے دیا ہے تو یہ اس کو کوئی نقصان نہیں دیتا۔ اور الحسن بن الربیع کے بارہ میں ابن معین نے کہا کہ اگر یہ شخص اللہ تعالی سے ڈرتا تو مغازی میں وہ کچھ بیان نہ کرتا جس کو وہ اچھے طریقہ سے پڑھ بھی نہیں سکتا تھا۔ 

 اور پھر اس تمام صورت حال کے ساتھ اس کی عبارت منقطع ہے۔ (اس لیے کہ اس نے کہا کہ ابن المبارک نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ابوحنیفہ کی حدیث کو کھرچ دیا تھا تو اس نے نہیں بتایا کہ اس کے سامنے کھرچا تھا یا اس کو کسی نے بتایا تھا، اگر بتایا ہے تو کس نے بتایا۔ 

اس لحاظ سے اس کی عبارت منقطع ہے۔)[1]


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام صاحب کو کبھی بھی ترک نہیں کیا ، نہ ہی ان سے احادیث روایت کرنا چھوڑیں ، 

 تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...