نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 123 : کہ ابن المبارک نے کہا کہ زہری کی ایک حدیث میرے نزدیک ابو حنیفہ کے سارے کلام سے زیادہ پسندیدہ ہے۔


 اعتراض نمبر 123 : 

کہ ابن المبارک نے کہا کہ زہری کی ایک حدیث میرے نزدیک ابو حنیفہ کے سارے کلام سے زیادہ پسندیدہ ہے۔


أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن يَعْقُوب، أخبرنا محمد بن نعيم الضبي قال:

سمعت أَبَا سَعِيد عَبْد الرَّحْمَن بن أَحْمَد المقرئ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْر أَحْمَد بْن مُحَمَّد بن الحُسَيْن البلخي يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّد بن عَليّ بن الْحَسَن بن شقيق يَقُولُ: سَمِعْتُ أبي  يَقُول: سمعت عَبْد اللَّهِ بْن المبارك يقول: لحديث واحد من حديث الزُّهْرِيّ أحب إليَّ من جميع كلام أبي حنيفة.


الجواب :

 اور اس کے بعد والی خبر کی سند میں ابن شفیق ہے اور وہ لیس بذاک ہے۔ (یعنی کسی شمار میں نہیں ہے) اور اس روایت کا متن یوں ہے  《لحديث واحد من حديث الزُّهْرِيّ أحب إليَّ من جميع كلام أبي حنيفة》  کہ ابن المبارک نے کہا کہ زھری کی حدیث میرے نزدیک ابو حنیفہ کے تمام کلام سے زیادہ پسندیدہ ہے"

 اور اس کا ابوحنیفہ کو کیا نقصان ہے؟

 اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر ثابت ہے تو[1] ابن المبارک نے زھری کی اس ایک حدیث کو ابوحنیفہ کی تمام کلام پر فضیلت دی ہے جو وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے۔ 

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ابو حنیفہ نے کتاب اللہ اور سنت رسول کے علاوہ اپنے قیاس سے جو روایات کی ہیں تو ان تمام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مروی حدیث فضیلت رکھتی ہے[2]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ خطیب کے شیخ محمد بن احمد بن یعقوب مجہول ہیں  ، ہمیں ان کا ترجمہ کسی کتاب میں نہیں ملا . 


 دوم اس روایت میں راوی  أَبَا بَكْر أَحْمَد بْن مُحَمَّد بن الحُسَيْن البلخي پر بھی کلام کیا گیا ہے . 

قال الأسماعلي:»كان مستهترا بالشراب

«قال الحاكم:»وقع إلي من كتبه بخطه، وفيها عجائب". 

(المغني في الضعفاء ١/‏٥٤ ، معجم شيوخ الإسماعيلي ١/ ٣٦٩، وتاريخ جرجان للسهمي ١/ ٧٥، وميزان الاعتدال ١/ ١٣٤،  ديوان الضعفاء ١/‏٩ )

 محدث اسماعیلی نے کہا: "وہ شراب نوشی میں بے حد مشغول تھا۔"  

امام حاکم نے کہا: "مجھے اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں سے کچھ ملی ہیں، جن میں عجیب و غریب باتیں ہیں۔"  


[2]۔ بالفرض یہ روایت صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو ہمارا جواب یہ ہیکہ یہ روایت امام ابو حنیفہ کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے ؟ 

کیونکہ ابن المبارک رحمہ اللہ نے مرفوع  حدیث کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام پر ترجیح دی ہے ، اور یقینا حدیث رسول علیہ السلام کو تمام امتیوں کے کلام پر ترجیح ہے ۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ یہاں زھری رحمہ اللہ کی نسبت کیوں کی گئی ہے ؟ 

جواب یہ ہیکہ امام زھری رحمہ اللہ امت کے عظیم تریں محدثین میں سے ایک تھے لہذا ان کی حدیث ہو یا کسی اور محدث کی ، وہ امام ابو حنیفہ کیا بلکہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام  مسلم ،امام  ترمذی اور دیگر آئمہ محدثین و فقہاء کے ذاتی کلام سے اعلی و ارفع ہے کیونکہ وہ حدیث نبوی ہے ۔ 

امام عبداللہ بن مبارک نے خاص امام صاحب کا نام کیوں لیا ؟

جیسے امام زھری رحمہ اللہ امت کے عظیم محدثین میں سے ایک ہیں ویسے ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی امت کے کبار فقہاء میں سے ایک ہیں ، عبداللہ بن مبارک رہ اللہ سے صحیح سند سے منقول ہیکہ 

قال عبد الله بن المبارك: قول أبي حنيفة عندنا أثر إذا لم يكن فيه أثر

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول (اثر) ہمارے ہاں (صحابہ رضی اللہ عنہم کے) اثر کی طرح ہے (جب کوئی  حدیث یا صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر نہ ہو)

 (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ,  صفحہ 84, اسنادہ صحیح)

اب عبداللہ بن مبارک حدیث سے محبت کا اظہار اس طرح کر رہے ہیں کہ 

مجھے اپنے محبوب ترین استاد کے سارے کلام (وہ کلام جسے وہ اثر کی طرح کہہ چکے ہیں) سے زیادہ محبوب ،  عظیم محدث زھری رحمہ اللہ سے منقول نبی علیہ السلام کی ایک حدیث زیادہ پسند ہے ۔ 

یہاں حدیث سے محبت میں مبالغے کیلئے جہاں زھری جیسے عظیم محدث کا ذکر کیا گیا وہاں ابو حنیفہ رحمہ اللہ جیسے ماہر متکلم و فقیہ کا ذکر کیا گیا ، یہاں جیسے زھری رحمہ اللہ کی تعریف ہے بطور  محدث وہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف ہے بطور ماہر متکلم اور فقیہ ۔

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...