اعتراض نمبر 136 : کہ سفیان ثوری کے سامنے ایک آدمی نے کہا کہ ابوحنیفہ نے اس طرح حدیث بیان نہیں کی جس طرح آپ نے بیان کی ہے تو اس نے کہا کہ تو نے مجھے ایسے آدمی کے حوالے کر دیا جو قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اعتراض نمبر 136 :
کہ سفیان ثوری کے سامنے ایک آدمی نے کہا کہ ابوحنیفہ نے اس طرح حدیث بیان نہیں کی جس طرح آپ نے بیان کی ہے تو اس نے کہا کہ تو نے مجھے ایسے آدمی کے حوالے کر دیا جو قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
أخبرنا البرقاني، أخبرنا محمد بن الحسن السراجي، أخبرنا عبد الله بن أبي حاتم الرازي، حدثني أبي قال: سمعت محمد بن كثير العبدي يقول: كنت عند سفيان الثوري فذكر حديثا. فقال رجل: حدثني فلان بغير هذا، فقال: من هو؟ فقال: أبو حنيفة. قال: أحلتني على غير ملىء.
أخبرنا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، أخبرنا إسماعيل بن محمد الصفار، حدثنا الحسن بن الفضل البوصرائي قال: حدثنا محمد بن كثير العبدي، حدثنا سفيان الثوري قال: رأيته وسأله رجل عن مسألة فأفتاه فيها، فقال له الرجل: أن فيها أثرا. قال له: عمن؟ قال: عن أبي حنيفة. قال: أحلتني على غير ملىء.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں محمد بن کثیر العبدی ہے اور اس کے بارہ میں ابن معین کہتے تھے کہ اس سے نہ لکھو کیونکہ وہ ثقہ نہیں ہے جیسا کہ امام الذہبی کی المیزان میں ہے۔
اور خطیب نے دوسری سند کے ساتھ جو خبر نقل کی ہے تو اس میں بھی محمد بن کثیر العبدی ہے۔
اور الحسن بن الفضل البوصرائی ہے۔ ابن المنادی نے کہا کہ لوگ اس سے کثرت سے روایت لیتے تھے پھر جب اس کا معاملہ واضح ہوا تو انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور اس سے مروی احادیث کو پھاڑ ڈالا۔
یہ ذہبی نے کہا ہے اور اس کے مثل خود خطیب نے اپنی کتاب میں کہا ہے مگر پھر بھی یہ روایت اس کے ہاں محفوظ ہے[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے جب عبد اللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر محدث اپنے استاد محترم امام ابو حنیفہ کے تعلق سے سوال کرتے ہیں تو امام سفیان ثوری پہلے ندامت سے سر جھکاتے ہیں پھر امام ابو حنیفہ کے علم ، حدیث و فقہ اور استنباط مسائل میں تعریف بیان کرتے ہیں ، اور امام اعظم پر طعن کرنے والوں پر افسوس بھی کرتے ہیں اور 2 بار استغفار بھی ۔( فضائل ابی حنیفہ رقم 144 ، اسنادہ حسن)
لہذا سفیان ثوری کا اس روایت میں اعتراض کرنا امام ابو حنیفہ سے معاصرانہ چشمک اور تعصب کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ خود عبداللہ بن مبارک کے آگے امام صاحب کی تعریف کر چکے ، مزید یہ کہ سفیان ثوری سے بالفرض کوئی جرح ثابت ہو بھی جائے تو بھی وہ مردود ہے کیونکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جرح غیر مفسر ہوتی ہیں اور معاصرت کی وجہ سے ہوتی ہیں جن کو جرح و تعدیل کے آئمہ جیسے امام مزی ، ذہبی اور ابن حجر رحمھم اللہ نے کوئی وقعت نہیں دی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں