فرقہ مجسمہ کہتے ہیں کہ استویٰ استیلاء کے معنی میں لینا درست نہیں بلکہ استویٰ بمعنی استقر ہے ۔اور بمعنی قہر یا استیلاء لینا اہل سنت کے اقوال میں نہیں ملتا۔بندہ عاجز نے تتبع شروع کیا تو الحمدللہ کافی اقوال مجھے ملے اہل سنت مفسرین متکلمین کے کتب اقوال سے۔ارادہ کیاہے کہ مجلہ راہ ہدایت کے قارئین کرام کےلیے قسط وار پیش کروں ۔
1)___مشہور ادیب نحوی اور لغوی عالم ابوعبدالرحمن عبداللہ بن یحیی ابن المبارک (المتوفی 237ھ )اپنی کتاب غریب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
" الرحمن علی العرش استویٰ : استویٰ استولی "
(غریب القرآن وتفسیرہ 113)
کہ الرحمن علی العرش استویٰ جو سورہ طہ میں آیاہے اس میں استویٰ بمعنی استولی ہے ۔۔جس کامعنی قہر اور غلبہ ہے۔
2)___مشہور لغوی عالم ابواسحاق ابراہیم بن سری الزجاج (المتوفی 311ھ) جس کے متعلق امام ذھبی فرماتے ہیں کہ نحوی زمانہ کہ اپنے زمانے کے نحو کے بہت بڑے عالم تھے اپنی کتاب معانی القرآن میں لکھتے ہیں کہ
" وقالوا : معنی استویٰ استولی"
(معانی القرآن 3/350)
کہ استویٰ بمعنی استولی ہے۔
3)___امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ (المتوفی 333ھ) جو امام اہل سنت والجماعت ہے اپنی کتاب تاویلات اہل السنّۃ میں لکھتے ہیں کہ
” الرحمن علی العرش استویٰ او الاستیلاء وان لاسلطان لغیرہ ولا تدبیر لاحد فیہ“
(تاویلات اھل السنة 1/85)
یعنی عرش پر اللہ تعالیٰ کااستیلاء غلبہ ہے اور اس پر کسی غیر کاسلطنت اور تدبیر نہیں چلتا۔
4)___مشہور لغوی عالم ابوالقاسم عبدالرحمن بن اسحاق الزجاجی ( المتوفی 340ھ) جس کے متعلق امام ذھبی لکھتے ہیں کہ شیخ العربیة کہ عربیت اور ادب کے بہت بڑے شیخ ہے اپنی کتاب اشتقاق اسماء اللہ میں لکھتے ہیں کہ
" والعلی العالی ایضا القاھرالغالب للاشیاء فقول العرب علا فلان فلانا ای غلبہ وقھرہ کماقال الشاعر
فلما علونا واستویٰ نا علیھم
ترکناھم صرعی لنسر وکاسر
یعنی غلبناھم وقھرناھم واستولیناعلیھم"
(اشتقاق اسماء اللہ 109)
علٰی اور عالی کامعنی بھی قہر اور اشیاء پر غالب ہونے کاآتاہے، عرب کاقول علافلان فلانا کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس پر قہر اور غلبہ کیا۔جس طرح شاعر کے شعر میں واستویٰ نا علھیم کامطلب واستولینا علیھم کاہے۔۔یعنی ہم نے ان پر غلبہ کیاہے۔
5)__شیخ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی (المتوفی 450ھ ) لکھتے ہیں کہ
" ثم استویٰ علی العرش (سورة اعراف) فیہ قولان : والثانی استولی علی العرش کماقال الشاعر
قد استویٰ بشر علی العراق
من غیر سیف ودم مھراق ۔
(النکت والعیون 2/229)
استویٰ علی العرش اس میں دو قول ہیں دوسرا قول یہی ہے کہ استویٰ کامطلب ہے استولی علی العرش۔جیساکہ شاعر کہتے ہیں کہ بشر نے عراق پر استویٰ کیایعنی غلبہ کیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں