(تاریخ بغداد 15/504، الانتقاء، ص 144، مترجم ص 347)
3. امام سفیانؒ کبھی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کفر سے توبہ کی ادھوری روایت سناتے تھے۔ جب ان سے تحقیق کی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعہ ادھورا تھا، اور وضاحت کی کہ امام ابو حنیفہؒ کی توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔
4. امام سفیان ثوریؒ، امام ابو حنیفہؒ سے حدیث روایت بھی کرتے تھے، ان ہی احادیث پر اپنے فقہی نظریات بھی قائم کرتے، اور کبھی انہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض بھی کرتے۔
یہ سب اقوال اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام سفیانؒ کا اعتراض بسا اوقات ذاتی یا معاصرانہ اثر کا نتیجہ تھا، کیونکہ وہ علمی بنیاد پر اعتراضات سے اکثر قاصر نظر آتے ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کا رویہ امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں:
1. امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
"اگر سفیان ثوری، امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں بھی ہوتے، تو لوگ سفیان کی بیان کردہ احادیث کی ضرورت محسوس کرتے۔"
(تاریخ بغداد 9/169)
2. آپؒ مزید فرماتے ہیں:
> "اگر سفیان ثوری کا انتقال امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں ہو جاتا تو لوگ ان کی وفات پر رنجیدہ ہوتے۔"
(تاریخ بغداد 9/169)
یہ اقوال امام ابو حنیفہؒ کی عاجزی اور وسعتِ قلبی کی علامت ہیں۔ انہوں نے امام سفیان ثوریؒ کو عراق کے عظیم فقہاء میں شمار کیا، بلکہ ان کی علمی حیثیت کو ابراہیم نخعیؒ جیسے امام کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بلند قرار دیا۔
3. جب کسی نے امام ابو حنیفہؒ سے امام سفیانؒ سے روایت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
> "ان سے روایت لی جا سکتی ہے، سوائے ان احادیث کے جو ابو اسحاق عن حارث عن علی یا جابر جعفی کی سند سے ہوں۔"
(الکامل، ابن عدی، ج2، ص328)
4. عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:
> "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"
(الکامل، ج8، ص236)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس قدر تعصب رکھتے تھے کہ فرماتے تھے مین حق بات پر بھی ابو حنیفہ کی موافقت کو پسند نہیں کرتا ، یہی سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ سے استفادہ بھی کرتے نظر آتے ہیں ،
قال ونا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد بن فراس قال نا موسى ابن هارون قال نا يحيى بن عبد الحميد الحماني عن علي بن مسهر قال كنت عند سفيان الثوري فسأله رجل عن رجل توضأ بماء قد توضأ به غيره فقال نعم هو طاهر فقلت له ان أبا حنيفة يقول لا يتوضأ به فقال لي لم قال ذلك قلت يقول إنه ماء مستعمل ثم كنت عنده بعد ذلك بأيام فجاءه رجل فسأله عن الوضوء بماء قد استعمله غيره فقال لا يتوضأ به لأنه ماء مستعمل فرجع فيه إلى قول أبى حنيفة
علی بن مسہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا کہ ایک شخص ایسے پانی سے وضو کر سکتا ہے جس کو پہلے کسی شخص نے استعمال کر لیا ہو ؟
تو جواب میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک ہے پانی پاک ہے ۔
علی بن مسھر کہتے ہیں میں نے امام سفیان ثوری سے کہا کہ امام ابو حنیفہ تو کہتے ہیں ایسے پانی سے وضو نہیں ہوگا
تو امام سفیان نے مجھ سے دریافت کیا کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ؟
تو میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں ایسا پانی ماء مستعمل ہے
پھر کچھ دن بعد میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے ایسے ہی پانی سے وضو کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو امام سفیان نے فرمایا : ایسے پانی سے وضو نہیں کیا جائے گا کہ یہ ماء مستعمل ہے۔
تو علی بن مسہر رحمہ اللہ کہتے ہیں امام سفیان نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کے قول کی طرف رجوع کر لیا
( الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٦)
1۔ إبراهيم بن أحمد بن فراس العبقسي المكي أبو إسحاق
ثقة صدوق
(تاريخ الإسلام (٧/ ٧٧٩، ٧٩٨). وانظر: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم (٢). )
2۔ موسى ابن هارون ابن عبد الله الحمال : ثقة حافظ كبير
(تقريب التهذيب ١/٥٥٤ )
3۔ يحيى بن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن ميمون بن عبد الرحمن أبو زكريا
ثقة
( سير أعلام النبلاء - 10/527)
4۔ علي بن مسهر بن علي بن عمير بن عاصم بن عبيد بن مسهر
فقيها محدثا ثقة
[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (3/ 459)]
یہاں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، فقہ ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں لہذا یہ روایت کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ بالکل بھی نہ کرتے تھے اور ابو حنیفہ ان سے استفادہ کرتے تھے اور وہ فرماتے تھے کہ ابو حنیفہ سنت اور علم کے بغیر کلام کرتے تھے ، معتبر نہیں ہے ، بلکہ اس کے برعکس ، سفیان رحمہ اللہ کا استفادہ کرنا ثابت ہے جو اس بات کی دلیل ہیکہ امام صاحب صحیح علم رکھتے تھے تب ہی تو سفیان خود ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور فقہ سفیان ثوری فقہ حنفی کے بہت قریب تھا ۔
🌟 اختتامی نوٹ — امام ابو حنیفہؒ: علم و حلم کا آفتاب
ان روایات سے جو نکتہ چمکتا ہوا اُبھر کر سامنے آتا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ کی اخلاقی عظمت، علمی وقار اور قلبی وسعت ہے۔ جہاں امام سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر عالم، معاصرانہ رقابت یا جذباتی کیفیت میں امام ابو حنیفہؒ پر بلاوجہ کلام کر گئے، وہاں امام ابو حنیفہؒ نے خندہ پیشانی، بلند نظری، اور سچے اہلِ علم کی شان کے ساتھ ان کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھا۔
یہی وہ وصف ہے جو درختِ علم کو تناور اور سایہ دار بناتا ہے—کہ وہ صرف پھل دیتا ہے، کانٹے نہیں چبھوتا۔ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت ایک ایسے چاند کی مانند ہے، جس پر تیر برسے، تب بھی وہ اپنی روشنی دنیا کو دینا نہیں چھوڑتا۔
انہوں نے تنقید کا جواب تنقیص سے نہیں، بلکہ تعظیم و تحسین کے موتی نچھاور کر کے دیا۔ ایک ایسے امام کی یہ شان تھی، جو اگر چاہتا تو زبان سے طوفان برپا کر دیتا، مگر اُس نے صبر و حلم کی لہروں میں اپنے دل کی کشتی کو تھامے رکھا۔ امام سفیان ثوریؒ پر تنقید کے مواقع موجود تھے، مگر امام ابو حنیفہؒ نے اپنے لبوں کو محبت کی مہر سے بند رکھا—اور یہی بزرگی کی دلیل ہے۔
یہی وہ خوبی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کو "امامِ اعظم" بناتی ہے۔ وہ نہ صرف فقہ کے میدان کے شہسوار تھے، بلکہ اخلاق، بردباری، حسنِ نیت، اور حُسنِ ظن کے اعلیٰ ترین نمونہ بھی تھے۔
ان کی ذات ہمیں سکھاتی ہے کہ علم بغیر حلم، خالی ہتھیار ہے—مگر جب علم، حلم، تواضع، صبر، وسعتِ قلب اور اخلاق سے جُڑ جائے، تو وہ شخصیت "ابو حنیفہؒ" کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی امام ابو حنیفہؒ کی طرح نرم گفتار، عالی ظرف، اور اہلِ حق کی توقیر کرنے والا بنائے۔ آمین۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں