سایۂ حلم میں چمکتا آفتابِ علم – امام ابو حنیفہؒ
امامِ اعظمؒ کا اخلاقی وقار: ایک معاصر ناقد کے تناظر میں
امام ابو حنیفہؒ کا کمالِ اخلاق: ناقد کو بھی معزز جانا - امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمھم اللہ
امام نعمانؒ و سفیانؒ دونوں جلیل القدر فقہاء ایک ہی دور کے عظیم علماء تھے، اور ان کی فقہی آراء میں بھی بہت سی مماثلتیں موجود تھیں۔ چونکہ وہ ایک ہی زمانے میں تھے، اس لیے معاصرانہ اختلافات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ مگر اس اختلاف میں بھی ہمیں دونوں کے مزاج اور کردار کا فرق نمایاں نظر آتا ہے۔
امام سفیان ثوریؒ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں:
1. امام سفیان ثوریؒ کا ایک قول نقل ہوا ہے:
"مجھے حق بات میں بھی ابو حنیفہ کا ساتھ دینا پسند نہیں۔"
(العلل، روایت مروزی ص: 172)
2. جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔ سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔
(تاریخ بغداد 15/504، الانتقاء، ص 144، مترجم ص 347)
3. امام سفیانؒ کبھی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کفر سے توبہ کی ادھوری روایت سناتے تھے۔ جب ان سے تحقیق کی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعہ ادھورا تھا، اور وضاحت کی کہ امام ابو حنیفہؒ کی توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔
4. امام سفیان ثوریؒ، امام ابو حنیفہؒ سے حدیث روایت بھی کرتے تھے، ان ہی احادیث پر اپنے فقہی نظریات بھی قائم کرتے، اور کبھی انہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض بھی کرتے۔
یہ سب اقوال اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام سفیانؒ کا اعتراض بسا اوقات ذاتی یا معاصرانہ اثر کا نتیجہ تھا، کیونکہ وہ علمی بنیاد پر اعتراضات سے اکثر قاصر نظر آتے ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کا رویہ امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں:
1. امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
"اگر سفیان ثوری، امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں بھی ہوتے، تو لوگ سفیان کی بیان کردہ احادیث کی ضرورت محسوس کرتے۔"
(تاریخ بغداد 9/169)
2. آپؒ مزید فرماتے ہیں:
> "اگر سفیان ثوری کا انتقال امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں ہو جاتا تو لوگ ان کی وفات پر رنجیدہ ہوتے۔"
(تاریخ بغداد 9/169)
یہ اقوال امام ابو حنیفہؒ کی عاجزی اور وسعتِ قلبی کی علامت ہیں۔ انہوں نے امام سفیان ثوریؒ کو عراق کے عظیم فقہاء میں شمار کیا، بلکہ ان کی علمی حیثیت کو ابراہیم نخعیؒ جیسے امام کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بلند قرار دیا۔
3. جب کسی نے امام ابو حنیفہؒ سے امام سفیانؒ سے روایت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
> "ان سے روایت لی جا سکتی ہے، سوائے ان احادیث کے جو ابو اسحاق عن حارث عن علی یا جابر جعفی کی سند سے ہوں۔"
(الکامل، ابن عدی، ج2، ص328)
4. عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:
> "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"
(الکامل، ج8، ص236)
🌟 اختتامی نوٹ — امام ابو حنیفہؒ: علم و حلم کا آفتاب
ان روایات سے جو نکتہ چمکتا ہوا اُبھر کر سامنے آتا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ کی اخلاقی عظمت، علمی وقار اور قلبی وسعت ہے۔ جہاں امام سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر عالم، معاصرانہ رقابت یا جذباتی کیفیت میں امام ابو حنیفہؒ پر بلاوجہ کلام کر گئے، وہاں امام ابو حنیفہؒ نے خندہ پیشانی، بلند نظری، اور سچے اہلِ علم کی شان کے ساتھ ان کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھا۔
یہی وہ وصف ہے جو درختِ علم کو تناور اور سایہ دار بناتا ہے—کہ وہ صرف پھل دیتا ہے، کانٹے نہیں چبھوتا۔ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت ایک ایسے چاند کی مانند ہے، جس پر تیر برسے، تب بھی وہ اپنی روشنی دنیا کو دینا نہیں چھوڑتا۔
انہوں نے تنقید کا جواب تنقیص سے نہیں، بلکہ تعظیم و تحسین کے موتی نچھاور کر کے دیا۔ ایک ایسے امام کی یہ شان تھی، جو اگر چاہتا تو زبان سے طوفان برپا کر دیتا، مگر اُس نے صبر و حلم کی لہروں میں اپنے دل کی کشتی کو تھامے رکھا۔ امام سفیان ثوریؒ پر تنقید کے مواقع موجود تھے، مگر امام ابو حنیفہؒ نے اپنے لبوں کو محبت کی مہر سے بند رکھا—اور یہی بزرگی کی دلیل ہے۔
یہی وہ خوبی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کو "امامِ اعظم" بناتی ہے۔ وہ نہ صرف فقہ کے میدان کے شہسوار تھے، بلکہ اخلاق، بردباری، حسنِ نیت، اور حُسنِ ظن کے اعلیٰ ترین نمونہ بھی تھے۔
ان کی ذات ہمیں سکھاتی ہے کہ علم بغیر حلم، خالی ہتھیار ہے—مگر جب علم، حلم، تواضع، صبر، وسعتِ قلب اور اخلاق سے جُڑ جائے، تو وہ شخصیت "ابو حنیفہؒ" کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی امام ابو حنیفہؒ کی طرح نرم گفتار، عالی ظرف، اور اہلِ حق کی توقیر کرنے والا بنائے۔ آمین۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں