نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اصحاب الحدیث کا اصحاب الرائ پر تشدد ،ایک حقیقت ہے۔


اصحاب الحدیث کا اصحاب الرائ پر تشدد ،ایک حقیقت ہے۔

-مولانا نذیر الدین قاسمی

اصحاب الحدیث یعنی محدثین ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث،امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) اور ان کے متبعین کو اصحاب الرائ قرار دیتے تھے۔اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اصحاب الرائ کے سلسلے میں اصحاب الحدیث یعنی ائمہ محدثین عام طورسے متشدد اور متعنت تھے۔

مختصر دلائل درج ذیل ہیں : 

قولی دلائل :

(۱) امیر المومنین فی الحدیث،امام الجرح و التعدیل،امام یحیی بن معینؒ(م۲۳۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

’’ أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأصحابه ‘‘

ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے سلسلے میں زیادتی کرتے ہیں۔(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر:ج۲:ص۱۰۸۱)

(۲) مشہور حافظ الحدیث،مفسر،مجتہد،امام ابن جریر الطبریؒ(م۳۱۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

’’ تحامى حديثه قوم من أهل الحديث من أجل غلبة الرأي عليه وتفريعه الفروع والمسائل في الأحكام مع صحبة السلطان وتقلده القضاء ‘‘

محدثین کی ایک جماعت نے امام ابو یوسفؒ(م۱۸۲ھ)کی احادیث سے پرہیز کیا ہے،ان پر غلبة الرأي وغیرہ کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔(الانتقاء لابن عبد البر:ص۱۷۳،نیز دیکھئے ص:۴۳،۱۳۲،۱۷۲)،اوراس کی تشریح میں

(۳) حافظ المغرب،امام ابن عبد البرؒ(م۴۶۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

’’ كان يحيى بن معين يثني عليه ويوثقه وأما سائر أهل الحديث فهم كالأعداء لأبي حنيفة وأصحابه ‘

امام یحیی بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)،امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کی تعریف کرتے اور ان کو ثقہ قرار دیتے تھے اور باقی تمام محدثین امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے گویا دشمن تھے۔(الانتقاء لابن عبد البر:ص۱۷۳)

(۴) اسی طرح مشہور ثقہ،فقیہ،امام ابو عبد اللہ ،محمد بن احمد بن حفص البخاریؒ(م۲۶۴؁ھ) بھی ان حضرات کو متعنتین و طاعنین قرار دیا ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ لابن ابی حفص بحوالہ مناقب ابی حنیفۃ للزرنجری : ص ۱۳۱،۱۱۹)

(۵) محدث،امام بدر الدین العینیؒ(م۸۵۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

’’ هؤلاء كالأعداء لأبى حنيفة وأصحابه على ما يظهر من كلامهم ‘‘

یہ لوگ [ یعنی محدثین] جیسا کہ ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے،امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے گویا دشمن تھے۔(مغانی الاخیار :ج۱:ص۲۴۳)

یہ ثقہ،ثبت ائمہ جرح و تعدیل اور صدوق ائمہ محدثین کی صریح شہادتیں ہے کہ امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) اور متبعین کے ساتھ ائمہ محدثین نے عام طورسے تشدد سے کام لیا ہے۔

فعلی دلائل : 

(۱) ثقہ،ثبت،حافظ،امام یعقوب بن سفیان الفسویؒ(م۲۷۷؁ھ) نے مشہور حدیث ’’منها الزلازل والفتن، ومنها يطلع قرن الشيطان ‘‘ (کہ اہل عراق سے زلزلے اور فتنے ہونگے اور وہیںسے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی) کا مصداق امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) اور ان کے متبعین کو قرار دیا ہے۔جس کا اقرار المعرفۃ و التاریخ کے محقق سلفی عالم اکرم ضیاء العمری صاحب نے بھی کیا ہے۔(المعرفۃ و التاریخ : ج۲:ص۷۴۷،ت العمری)

امام یعقوب بن سفیان الفسویؒ(م۲۷۷؁ھ) کا علمی مقام،ثقاہت اور اتقان اپنی جگہ ہے،لیکن کیا یہ ان کی طرف سے امام ابوحنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) اور ان کے متبعین پر تشدد نہیں ہے ؟؟؟

(۲) مشہور حافظ الحدیث،ثقہ،ثبت،امام ابو حاتم ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

’’ وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ما له حديث في الدنيا غيره أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا۔۔۔۔ ‘‘

امام ابو حنیفہؒ ایک جھگڑالو آدمی تھے،ظاہری تقوی تھا، حدیث ان کا میدان نہیں تھا،انہوں نے صرف ’’۱۳۰‘‘ احادیث مسند بیان کی ہے،اور اس کےعلاوہ ،دنیا میں ان کی کوئی حدیث موجود نہیں ہے اور ان ’’۱۳۰‘‘ میں انہوں نے ’’۱۲۰‘‘ احادیث میں خطاء کی ہے۔(المجروحین لابن حبان : ج۳:ص۶۳)

- امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ)کو جھگڑالو اور ان کے تقوی کو ظاہری تقوی کہنا،کیا ان پر تشدد نہیں ہے۔

- غور کریں ! اگرحدیث امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کا میدان نہیں ہوتا،تو کیا ان سے سفیان ثوریؒ(م۱۶۱؁ھ)،شعبۃ بن الحجاجؒ(م۱۶۰؁ھ)،حماد بن سلمۃ ؒ(م۱۶۷؁ھ)،حماد بن زیدؒ(م۱۷۹؁ھ)،عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱؁ھ)،فضیل بن دکنؒ (م۲۱۹؁ھ)،یزید بن ہارونؒ(م۲۰۷؁ھ)،وکیع بن الجراحؒ(م۱۹۸؁ھ)،سفیان بن عیینۃؒ(م۱۹۸؁ھ)،امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) وغیرہ کئی ائمۃ الجرح و التعدیل روایت لیتے ؟

* سفیان بن عیینۃؒ(م۱۹۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’أول من أقعدني للحديث أبو حنيفة ‘‘سب سے پہلے حدیث کے لئے، امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) نے مجھے بٹھایا تھا۔(فضائل ابی حنیفۃ لابن ابی العوام : ص۱۸۵)،

جس کا میدان حدیث نہ ہو، کیا وہ دوسروں کو حدیث کے لئے بٹھایے گا ؟؟

* ثقہ،ثبت،امام مسعر بن کدامؒ (م۱۵۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ طلبت مع أبي حنيفة الحديث، فغلبنا۔۔۔۔ ‘‘ میں نے امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ حدیث طلب کی،تو وہ ہم پر غالب رہے۔(کتاب الطحاوی بحوالہ مناقب ابی حنیفۃ  للذہبی: ص۴۳،شرح معانی الآثار للطحاوی : ج۴:ص۳۹۷)

جس کا میدان حدیث نہ ہو،وہ مسعر بن کدامؒ (م۱۵۵؁ھ) جیسے ثقہ،ثبت،امام پر غالب آئے گا ؟؟؟

* کئی ائمۃ الجرح و التعدیل اور ائمۃ المحدثین نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کا حدیث میں ثقہ،ثبت ہونا نہ صرف تسلیم کیا ہے،بلکہ ان کو حفاظ الحدیث میں بھی شمار کیا ہے۔دیکھئے مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث  للمحدث عبدالرشید النعمانی:ص۵۸۔

لہذا سوال یہ ہے کہ کیا حافظ الحدیث کا بھی میدان حدیث نہیں ہوتا ؟؟؟

- امام ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) کے قول’’۱۳۰  کی احادیث کے علاوہ،امام ابو حنیفہؒ کی کوئی حدیث دنیا میں موجود ہی نہیں ہے‘‘ کے جواب میں عرض ہے کہ امام ابن عدیؒ(م۳۶۵؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمئة حديث من مشاهير وغرائب‘‘ ان کی احادیث ’’۳۰۰‘‘ سے کچھ زیادہ ہے۔(الکامل لابن عدی : ج۸: ص۲۴۶)

کتاب الآثار بروایت ابی یوسف،کتاب الآثار بروایت محمد،مسند ابی حنیفۃ بروایت ابی نعیم،مسند ابی حنیفۃ بروایت ابن المقری،جامع المسانید للخوارزمی وغیرہ کتابیں دلالت کرتی ہے کہ امام ابو حنیفۃ کی مسند روایات ’’۳۰۰‘‘ سے کہیں زیادہ ہے۔

نیز امام صاحبؒ (م۱۵۰؁ھ)کے علم میں ۵  لاکھ ’’۵۰۰۰۰۰‘‘ احادیث تھی ،جیسا کہ انہوں نے اپنے لڑکے حماد بن ابی حنیفہؒ (م۱۷۶؁ھ) سے کہا تھا ۔(مخطوطۃ وصیۃ ابی حنیفۃ لابنہ)

- امام ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) کے قول’’ أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا۔۔۔۔‘‘ کے جواب میں عرض ہے کہ امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) معصوم عن الخطاء نہیں،بلکہ بشرتھے،ان سے حدیث میں خطاء و وہم ہوسکتا ہے۔لیکن اصحاب الحدیث نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) اور ان کے اصحاب کی احادیث کے ساتھ سختی کی اور ان سے روایت نہیں لی، من أجل غلبة الرأي عليه وتفريعه الفروع والمسائل في الأحكام وغیرہ کی وجہ سے،جیسا کہ مشہور حافظ الحدیث،امام الجرح و التعدیل،امام ابن جریر الطبریؒ (م۳۱۰؁ھ) اور حافظ المغرب ؒ (م۴۶۳؁ھ)وغیرہ کےحوالے گزرچکے۔

لہذا امام صاحبؒ (م۱۵۰؁ھ)کی جن احادیث پر اعتراض ہے،ان کوپیش کیا جائے،جیسا کہ ابن عدیؒ (م۳۶۵؁ھ) نے پیش کیا ہے۔ تا کہ ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) کی جرح میں سختی والے پہلو کا احتمال ختم ہوجائے ۔ واللہ اعلم

بریحال امام ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) جرح میں متشدد بھی تھےاور اصحاب الحدیث میں سے بھی تھے۔لہذا امام صاحبؒ(م۱۵۰؁ھ) پر ان کا یہ کلام تشدد پر مبنی ہے۔واللہ اعلم

(۳) حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)کہتے ہیں کہ 

’’والمحفوظ عند نقلة الحديث عن الأئمة المتقدمين في أبي حنيفة خلاف ذلك‘‘

محدثین کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)کے سلسلے میں ائمہ متقدمین سے ان اقوال( یعنی اقوال المدح) کے خلاف (یعنی اقوال الذم ) محفوظ ہے۔(تاریخ بغداد : ج۱۳:ص۳۶۵)

توجہ فرمائیں ! حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)، امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) کے توثیق کے مقابلے میں، ان کے سلسلے میں مروی اقوال الذم کو ترجیح دی ہے،جس کو اسی کتاب میں انہوں نے اپنے اس قول کے بعد نقل کیا ہے۔

لیکن کیا کوئی اہل حدیث معتدل عالم بھی ان اقوال الذم کو امام صاحبؒ کے حق میں صحیح مانتا ہے ؟؟؟ 

اور پھر حافظ المشرق ؒ(م۴۶۳؁ھ)کے قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکثرمحدثین کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کے سلسلے میں اقوال الذم راجح ہے۔اس سے بھی امام الجرح و التعدیلؒ(م۲۳۳؁ھ)،حافظ ابن جریرالطبریؒ (م۳۱۰؁ھ)،حافظ المغربؒ (م۴۶۳؁ھ)وغیرہ کےاقوال کی تصحیح ثابت ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) اور ان کے متبعین کے سلسلے میں محدثین کی ایک جماعت متشدد تھی۔ واللہ اعلم

(۴) مشہور حافظ الحدیث،ثقہ،ناقد،امام ابن عدیؒ(م۳۶۵؁ھ)،امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’ وقد استغنى أهل الحديث عما يرويه محمد بن الحسن وأمثاله ‘‘

اہل حدیث یعنی محدثین محمد بن الحسن اور ان جیسے حضرات  سے روایت کرنے سے مستغنی ہے۔(الکامل لابن عدی : ج۷:ص۳۷۸)

حالانکہ امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) سے امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)،امام ابو عبید،قاسم بن سلامؒ(م۲۲۴؁ھ)،امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،امام اسماعیل بن توبۃؒ(م۲۴۷؁ھ) وغیرہ حضرات نے روایت لی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۱۳:ص۶۰،تاریخ الاسلام،سیروغیرہ)

اگر یہ اہل حدیث یعنی محدثین نہیں ہے تو پھر کون ہے ؟؟؟

نیز امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)،ان کے اصحاب و متبعین سے جن جن محدثین نے روایت لی ہے ،کیا وہ تمام کے تمام ائمہ حدیث کی صف سے خارج ہوگئے ؟؟

یہ کچھ مختصر دلائل و براہین ہے کہ اصحاب الرائ  کے سلسلے میں اصحاب الحدیث عام طورسے متشدد اور متعنت تھے۔ پھر اصحاب الحدیث میں ہونے کے علاوہ،اگر جارح متشدد یا متعصب بھی ثابت ہوجائے ،تو ان کی صحاب الرائ پر کی گئی جرح کی کیا حیثیت ہوتی ہے، اہل علم خوب جانتے ہے۔

پس اللہ تعالی ہمارے دلوں میں اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائ،دونوں کی محبت کو پیدا فرمائے۔۔۔آمین 

دیگر وجوہات کی وجہ سےجرح :

امام ابوحنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)کے کلام کو بغیر سیاق سباق کے نقل کردیا گیا تھا،جس کی وجہ سے ان کے کلام کا غلط مفہوم لیا گیا اور ان ائمہ حضرات نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) پر کلام کردیا۔مثلاً

قال الخطيب رحمه الله تعالى (ج۱۳ ص۳۹۳):

أخبرنا القاضي أبو بكر الحيري حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم قال سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى قال: استتيب أبو حنيفة مرتين۔

قال عبد الله بن أحمد رحمه الله (ج۱ ص۲۱۰):

حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن سعيد القطان حدثنا يحيى بن آدم حدثنا شريك وحسن بن صالح أنهما شهدا أبا حنيفة وقد استتيب من الزندقة مرتين۔

قال الإمام أحمد رحمه الله (ج۳ص۲۳۹):

كتب إليّ ابن خلاد قال: سمعت يحيى قال: حدثنا سفيان قال: استتاب أصحاب أبي حنيفة أبا حنيفة مرتين أو ثلاثاً۔

قال الإمام أحمد رحمه الله في العلل (ج۲ص۵۴۵):

سمعت سفيان بن عيينة يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. فقال له أبو زيد: يعني حماد بن دليل رجل من أصحاب سفيان لسفيان: في ماذا؟ فقال سفيان: تكلم بكلام فرأى أصحابه أن يستتيبوه فتاب۔

قال عبد الله بن أحمد رحمه الله في السنة (ج۱ص۲۱۹):

حدثني أبو موسى   الأنصاري قال سمعت أبا خالد الأحمر يقول: استتيب أبو حنيفة من الأمر العظيم مرتين۔

قال أبو زرعة الدمشقي في تاريخه (ج۱ص۵۰۵):

حدثنا أبو مسهر قال حدثني يحيى بن حمزة عن شريك قال: استتيب أبو حنيفة مرتين۔

قال العقيلي رحمه الله (ج۴ ص۲۸۲):

حدثنا محمد بن  عيسى قال حدثنا إبراهيم بن سعيد قال سمعت معاذ بن معاذ العنبري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين۔

یہ تمام روایات سلفی شیخ مقبل بن ھادیؒ کی کتاب’ ’نشر الصحیفۃ‘‘ سے لی گئی ہیں۔

یہ تمام روایات جس کو شیخ مقبلؒ نے ذکر کیا ہے ، اسی طرح اور دوسری روایات جو کتب تاریخ اور اسماء الرجال میں موجود ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی صراحۃً یہ منقول نہیں کہ امام صاحب ؒ کو کفر سے توبہ کرتے یا کراتے ہوئے راوی نے بالمشافہۃ خود دیکھا ہو۔ 

لہذاایسی روایت سے امام صاحب ؒ پر کسی قسم کا بھی اعترا ض نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ آدمی پر کفر کا الزام لگانا ، زنا سے بھی بڑی تہمت ہے ، اور زنا عینی گواہوں سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ ناقلین سے۔ 

اب چاہے’’۴‘‘کے بجائے ’’۱۰‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی نے زنا کیا ، لیکن ان میں سے کوئی بھی عینی شاہد نہیں ہے ، تو کیا مذہب اسلام اس آدمی پر زنا کی سزا مقرر کرے گا؟

ہر گز نہیں ، بس یہی معاملہ امام صاحبؒ کے تعلق سے مروی ان روایات کا ہے جن میں کفر سے ان کی توبہ کرنے یا کروانے کا ذکر ہے۔ 

ہم یہی کہتے ہیں کہ جتنی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی صراحت نہیں کہ راوی نے بالمشافہ یا بالمشاہدۃ اپنی آنکھوں سے امام صاحبؒ کو کفر سے توبہ کرتے یا کراتے ہوئے دیکھا ہو۔ لہذا اس طرح کی روایات چاہے ’’۶‘‘  ہوں یا ’’۱۰‘‘، ان سے امام صاحبؒ کی ذات پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ، اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی روایات صرف افواہوں کی بنیاد پر ہوسکتی ہے، کہیں بھی کسی صحیح روایت میں کوئی ثقہ راوی یاشاگرد بالمشافہہ امام صاحبؒ سے اس طرح کی بات نقل نہیں کرسکتا۔ 

اور پھر امام لالکائیؒ (م۴۱۸؁ھ) کہتے ہیں  : 

’’ أنا محمد بن أبي بكر، أنا محمد بن مخلد، قال: نا الحسن بن الصباح، قال: نا مؤمل، قال: نا سفيان، قال: سمعت عباد بن كثير، يقول: " استتيب أبو حنيفة مرتين "

عباد بن کثیرؒ (ضعیف راوی) کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ توبہ کرائی گئی۔(شرح أصول اعتقاد أھل السنة والجماعة رقم۱۸۳۰)

معلوم ہوا سفیانؒ نے یہ روایت عباد بن کثیرؒ سے سنی تھی اور عباد مشہور ضعیف راوی ہیں۔(تقریب رقم : ۳۱۳۹)

لہذا سفیان ؒ کی یہ روایت باطل و مردود ہے،نیز اس بات کا قوی احتمال ہے کہ یہ بات سفیان ثوری ؒ(م۱۶۱؁ھ) سے سننے کے بعد، انکے معاصر اورشاگرد مثلاً ابو خالداحمرؒ،شریک بن عبد اللہ نخعیؒ،ابن عیینہؒ،معاذ بن معاذ عنبریؒ وغیرہ نے نقل کردی ہو ۔ (تہذیب الکمال : ج۱۱: ص۱۵۴،تفسیر قرطبی : ج۱۰: ص ۱۳۰،المعجم الاوسط للطبرانی : ج۴ : ص ۲۴۲، حدیث نمبر ۴۰۸۸)   

اور پھرسفیان کے شاگرد ابن عیینہؒ سے ان شاگرد امام احمد ؒ اور اسد بن موسیؒ وغیرہ نے اس بات کو آگے بڑھادیا ہو۔ مگر کسی نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے سماع یا خود دیکھنے کی تصریح کے ساتھ یہ واقعہ نقل نہیں کیا۔واللہ اعلم 

جب کہ دوسری روایت میں اس واقعہ کی صحیح تشریح موجود ہے،چنانچہ ثقہ،ثبت،محدث عبدالقادر القرشیؒ (م۷۷۵؁ھ)کہتے ہیں :

وَقَالَ أَبُو الْفضل الْكرْمَانِي لما دخل الْخَوَارِج الْكُوفَة ورأيهم تَكْفِير كل من أذْنب وتكفير كل من لم يكفر قيل لَهُم هَذَا شيخ هَؤُلَاءِ فَأخذُوا الإِمَام وَقَالُوا تب من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَقيل لَهُم أَنه قَالَ أَنا تائب من كفركم فَأَخَذُوهُ فَقَالَ لَهُم أبعلم قُلْتُمْ أم بِظَنّ قَالُوا بِظَنّ قَالَ إِن بعض الظَّن إِثْم وَالْإِثْم ذَنْب فتوبوا من الْكفْر قَالُوا تب أَيْضا من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَهَذَا الذى قَالَه الْخُصُوم أَن الإِمَام استتيب من الْكفْر فى طَرِيق الْحجاز... "

صدوق ،امام،فقیہ ابو الفضل کرمانی ؒ(م۵۴۳؁ھ)کہتے ہیں کہ جب خوارج کوفہ میں داخل ہوئے، اور ان کا مذہب یہ تھا کہ وہ ہر گناہ گار کو کافر قرار دیتے تھے ، اور (جو عاصی کو کافر نہ کہے) اس کی بھی تکفیر کرتے تھے ، تو کسی نے ان سے کہا کہ یہ(امام ابو حنیفہؒ) سب کے استاد ہیں، تو انہوں نے امام کو پکڑ لیا اور کہا کفر سے توبہ کرو تو امام ابو حنیفہ نے کہا :کہ میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ 

مگر خوارج سے پھرکسی نے کہہ دیا کہ ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں تمہارے کفر سے توبہ کرتا ہوں ۔

تو خوارج نے امام کو پکڑ لیا ،تو امام صاحب نے کہا کہ: ایسا تم نے کسی یقین کی بنیاد پر کہا ہے یا پھر تمہارا گمان ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ ظن کی بنیاد پر ،امام صاحب نے کہا کہ:﴿ ان بعض الظن إثم﴾۔ (بعض گمان گناہ ہیں) اور إثم گناہ ہے پس تم کفر سے توبہ کرو، پھر وہ خوارج ،امام سے کہنے لگے کہ: کفر سے تم بھی توبہ کرو تو امام نے کہا کہ کہ میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں۔

  یہ وہ بات جس کو خصم یعنی مخالف نے ذکر کیا ہے کہ امام نے حجاز کے راستے میں توبہ کی۔۔۔۔(الجواھر المضیة في طبقات الحنفية :ج۱:ص۴۸۷-۴۸۸)

  یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ فضائل أبي حنيفة وأخبارلابن ابی العوام: ص ٧٤،٧٥ رقم ٨٤  پر موجود ہے۔ (تفصیل کے لئے مجلہ الاجماع : ش۹:ص۴۶)

اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب سے جس بات سے توبہ کرائی گئی تھی دراصل وہ قابلِ اعتراض بات ہی نہ تھی، لیکن جب امام ابوحنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)کے کلام کو بغیر سیاق سباق کے نقل کردیا گیا ،اور ان کے کلام کا غلط مفہوم لیا گیا ۔جس کی وجہ سے ائمہ حضرات نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) پر کلام کردیا۔

لہذا اس طرح کی روایات سے امام صاحبؒ(م۱۵۰؁ھ) کی ذات پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ، ا ورکہیں بھی کسی صحیح روایت میں کوئی ثقہ راوی یاشاگرد بالمشافہہ امام صاحبؒ (م۱۵۰؁ھ)سے اس طرح کی بات مکمل سیاق سباق کے ساتھ نقل نہیں کرسکتا۔ واللہ اعلم


پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...