اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاقؒ(م۱۶۰ھ) نےامام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰ھ)
کے حافظہ اور ضبط کی تعریف کی ہے۔
-مفتی ابو احمد بن اسماعیل المدنی
صدوق،حافظ الحدیث،امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶ھ) فرماتے ہیں کہ
أخبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا أحمد قال ثنا أبو غسان قال سمعت أسرائيل يقول نعم الرجل النعمان ما كان أحفظه لكل حديث فيه فقه وأشد فحصه عنه وأعلمه بما فيه من الفقه وكان قد ضبط عن حماد فأحسن الضبط عنه ۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاقؒ(م۱۶۰ھ) کہتے ہیں کہ نعمان بن ثابت کیا ہی اچھےآدمی ہیں،اورکیا ہی اچھی طرح سےانہوں نےاحکام والی حدیث یاد رکھی ہے اوروہ حدیث کے بارے میں بڑی بحث کرنے والے اور اس میں موجودفقہی مسائل کو بہت زیادہ جاننے والے تھے۔(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ للصیمری :ص۲۳)
سند کی تحقیق:
(۱) امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶ھ) مشہور صدوق،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم،الفوائد البهية في تراجم الحنفية:ص۶۷)
(۲) عمر بن ابراہیم بن احمد،ابو حفص الکتانی المقریؒ(م۳۹۰ھ) ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۸:ص۶۶۶)
(۳) مکرم بن احمد البغدادیؒ(م۳۴۵ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۷:ص۸۲۸)
(۴) احمد بن عطیۃ متکلم فیہ راوی ہے۔
(۵) ابو غسان،ملک بن اسماعیل بن درہم الکوفیؒ(م۲۱۷ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ،متقن،صحیح الکتاب ہیں۔(تقریب : رقم۶۴۲۴)
(۶) اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعیؒ(م۱۶۰ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب: رقم۴۰۱)
معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں،البتہ احمد بن عطیۃ متکلم فیہ،ضعیف راوی ہے۔لیکن ان کے متابع میں ثقہ،حافظ ابراہیم بن سعید الجوہریؒ(م۲۵۰ھ) موجود ہیں،چنانچہ ثقہ،ثبت،حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثني محمد بن أحمد قال: حدثني محمد بن حماد، ثنا إبراهيم بن سعيد قال: ثنا المثنى بن رجاء قال: سمعت إسرائيل يقول: نعم الرجل النعمان بن ثابت على قلة روايته للحديث، فقهه عن حماد وحسبك به۔
اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاقؒ(م۱۶۰ھ) کہتے ہیں کہ نعمان بن ثابت بہترین شخص ہیں ، حدیث کی روایت ان سے کم ہونے کے باوجود، فقہ انہوں نے حماد سے حاصل کیا ، اوروہ تیرے کیلئے کافی ہیں ۔(فضائل ابی حنیفۃ لابن ابی العوام :ص۱۵۱)
سند کی تحقیق :
(۱) حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵ھ) مشہور ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ہیں۔(مجلہ الاجماع:ش۲:ص۳)
(۲) محمد بن حماد سے مراد ابو بشر،محمد بن احمد بن حماد الدولابیؒ(م۳۱۰ھ) بھی صدوق ،حافظ الحدیث ہیں۔(مجلہ الاجماع:ش۲:ص۳)
(۳) ابو عبد اللہ،محمد بن حماد بن المبارک المصیص یؒسے ایک جماعت مثلاً ابراہیم بن الحداد التنیسیؒ،اسماعیل بن محمد بن سنان القاضیؒ،معاویۃ بن محمدبن دینویۃ،ابو عبدالرحمٰن الاذریؒ،حافظ ابو بشر، محمد بن احمد بن حماد الدولابیؒ(م۳۱۰ھ)،احمد بن محمود بن مقاتل،ابو الحسن الفقیہؒ،حافظ محمد بن عمیرالرازیؒ(م۲۹۷ھ)،احمد بن اسحاق بن ابراہیم المحلمی ؒ(م۳۲۸ھ)،امام سلیمان بن احمد الطبرانی ؒ(م۳۶۰ھ)،وغیرہ نےروایت لی ہے۔(فتح الباب فی الکنی و الالقاب:ص۵۰۱،تاریخ دمشق:ج۷: ص۲۷۸،ج۵۹: ص۲۷۵،موجبات الجنۃ لابن الفاخر:ص۱۱۶،كتاب اللطائف من علوم المعارف لابی موسی المدینی:حدیث نمبر ۱۵۹، تاریخ بغداد:ج۱۱:ص۱۱۵،نیز دیکھئے مناقب الامام ابی حنیفۃ للذہبی:ص۲۳)
اور ان پر کوئی جرح نہیں ملی۔اور شیوخ الطبرانی جو میزان میں نہیں ہیں،وہ صدوق ہونگے۔(مجمو ع الزوائد:ج۱:ص۸)
لہذا وہ صدوق ہیں۔واللہ اعلم
(۴) ابراہیم بن سعید الجوہریؒ(م۲۵۰ھ) صحیح مسلم وسنن اربع کے راوی اورثقہ،حافظ ہیں۔(تقریب : رقم۱۷۹)
(۵) مثنی بن رجاءکی توثیق نہیں ملی،لیکن چونکہ ان کے متابع میں ثقہ،حافظ ابو غسان،ملک بن اسماعیل بن درہم الکوفیؒ (م۲۱۷ھ) موجود ہیں،لہذاان پر کلام فضول ہے۔
نوٹ:
ممکن ہےکہ مثنی بن رجاءؒ سے مراد اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعیؒ کے شاگرد،صدوق راوی عبد اللہ بن رجاء بن مثنی البصریؒ(م۲۲۰ھ)ہوں۔کیونکہ وہ اسرائیل کے شاگرد ہیں اور ابراہیم بن سعید الجوہریؒ (م۲۵۰ھ)کے شیوخ کے طبقہ سے ہیں۔ واللہ اعلم
(۶) اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعیؒ(م۱۶۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
خلاصہ یہ کہ احمد بن عطیۃکے متابع میں ثقہ،حافظ ابراہیم بن سعید الجوہریؒ(م۲۵۰ھ) موجود ہے،لہذااس روایت میں ان پر کلام فضول ہےاوران کی یہ روایت مقبول ہے اور ثابت ہوا کہ اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاقؒ(م۱۶۰ھ) نےحدیث میں امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰ھ) کے حافظہ اور ضبط کی تعریف فرمائی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں