بھینس کی قربانی
امت محمدیہ کے ایمانی عقائد اور اسلامی شعائر کی حفاظت کی بنیاد قرآن اور حدیث کو مضبوطی سے تھامنے نیز سلف صالحین پر اعتماد اور یقین کرنے میں ہے۔ لیکن باطل فرقوں نے ہمیشہ سلف صالحین پر سے اعتماد ختم کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، چنانچہ اسی بات کو آج کل کے نام نہاد اہل حدیث یعنی غیر مقلدین بخوبی انجام دیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے امت کے اجماعی مسائل چاہے وہ عقائد سے تعلق رکھتے ہوں یا فروعی مسائل سے، یہ لوگ امت سے الگ ہٹ کر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور اپنی تحقیق کو صحیح اور دوسروں کی تحقیق کو گویا اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے العزیز باللہ اکابرین امت نے ان مسائل کو سمجھا ہی نہ ہو۔
انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے بھینس کی قربانی کو لے کر۔ اس بات پر تمام امت کا اجماع ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ اس لیے اس کی قربانی کو فقہا نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن غیر مقلدین عادت سے مجبور اس معاملے میں بھی اختلاف کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس لیے غیر مقلدین بھینس کی قربانی جائز نہیں کہتے، دیکھیے فتاویٰ اہل حدیث 90/2۔
حضرات آپ لوگوں کو انشاء اللہ معلوم ہو جائے گا کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ بھینس کو عربی میں کیا کہتے ہیں اور یہ گائے کے زمرے میں شامل ہے یا نہیں۔ اس لیے پہلے اصحاب لغت کے حوالے پیش خدمت ہیں۔
1:- علامہ ابن منظور رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الجاموس نوع من البقر دخيل وجمعه جواميس فارسى معرب وهو بالعجميه كواميش (لسان العرب 43/6)
یعنی: جاموس (بھینس) گائے کی ایک قسم ہے، عربی زبان میں دوسری زبان سے داخل کیا گیا ہے اور اس کی جمع جوامیس ہے، فارسی زبان سے لیا گیا ہے، فارسی میں اس کو کوامیش کہتے ہیں۔
2:- ابوالحسن علی بن اسماعیل بن صیادہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الجاموس نوع من البقر، دخيل وهو بالعجميعه كواميش (المحکم والمحیط الاعظم لابن سیده 283/1)
یعنی: جاموس (بھینس) گائے کی ایک قسم ہے، جس کو غیر عربی زبان میں "کوامیش" کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ابو عبداللہ محمد بن عبدالرحمن مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الجواميس بقر سود ضخام (مواہب الجلیل فی مختصر الخلیل 263/2)
یعنی: بھینس کالے رنگ والی موٹے جسم والی گائے ہوتی ہے۔
بھینس کی قربانی کے جواز کے دلائل:
1:- اللہ فرماتا ہے: آٹھ جانور ہیں، دو بھیڑوں میں سے، دو بکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے۔ (سورہ انعام 143،144)
[فائدہ: قربانی کے جانوروں میں سے بھینس بھی داخل ہے، کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے، لہٰذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔]
2:- اجماع امت:
وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقره (الاجماع ص 43)
یعنی: اور اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گایوں کا ہے۔
3:- حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بھینس گائے کے درجے میں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
4:- حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔ (مصنف عبدالرزاق 24/4)
5:- حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بھینس گائے ہی ہے (یعنی گائے کے حکم میں ہی ہے)۔ (موطا مالک 294)
اس کے علاوہ علامہ زرقانی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں: یہی حال گائے کا ہے۔ اور جوامیس جاموس کی جمع ہے، جو گائے کی ایک قسم ہے۔
(شرح الزرقانی علی الموطا 171/2)
7:- امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والصواب ماقدمناه أن البقر جنس ونوعاه الجواميس والعراب (المجموع شرح المہذب 426/5)
یعنی: اور صحیح بات وہی ہے جس کو ہم نے پہلے ذکر کر دیا کہ گائے ایک جنس ہے، جوامیس (بھینس) اور عرب (عربی گھوڑا) اس کی دو قسمیں ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے فقہا و علما کیا فرماتے ہیں بھینس اور اس کی قربانی کے بارے میں وہ بھی جان لیتے ہیں۔
1:- ابو ولید ابراہیم بن محمد فرماتے ہیں: بھینس کی قربانی بھی صحیح ہے اور اس کو بطور ہدی حرم میں لے جانا بھی صحیح ہے۔ (لسان الحکام 386)
2:- علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اونٹ، گائے، اور بکری کی قربانی جائز ہے، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی جائز ہے کیونکہ وہ گائے کی ایک قسم ہے۔
(البحر الرائق 201/8)
3:- علامہ زیلعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قربانی گائے، اونٹ، اور بکری کی ہے اور بھینس کی قربانی بھی جائز ہے اس لیے کہ وہ گائے کی ایک قسم ہے۔
(تبیین الحقائق و حاشیہ الشبلی 7/6)
4:- اور وہ مذاہب کے درمیان متفقہ علیہ ہے کہ وہ چوپایوں میں سے ہے اور اونٹ ہے، چاہے وہ عربی ہو یا بختی اور پالتو گائے میں سے بھینس ہے۔
(الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 81/5)
5:- علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والجاموس نوع من البقر بدليل أنه يضم ذلك إلى الغنم والبقر فى باب الزكاة (بدائع الصنائع 69/5)
یعنی: بھینس گائے کی ایک قسم ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ بھینس کو بکری اور گائے کے ساتھ زکوٰۃ کے باب میں شامل کیا گیا ہے۔
ان سب دلائل کے بعد آئیں دیکھیں خود غیر مقلد عالم بھینس کی قربانی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ کیونکہ دوسروں کو اتحاد اور اتفاق کا سبق پڑھانے والے خود کتنے متحد اور متفق ہیں وہ بھی جان لیتے ہیں۔
1:- قاضی محمد عبداللہ فرماتے ہیں: تمام علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ سب "بہیمۃ الانعام" (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے۔ کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور ج:20 نمبر 42،43: ص 9)
2:- مفتی عبدالستار صاحب پوچھنے والے کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے اس لیے کہ بھینس اور گائے کا ایک ہی حکم ہے (اتنا ہی نہیں اسی فتاویٰ میں مفتی صاحب ایک قدم آگے جاتے ہوئے گھوڑے کی قربانی کو بھی جائز کہتے ہیں)۔
(فتاویٰ ستاریہ 5/2)
3:- حافظ محمد گوندلوی فرماتے ہیں: بھینس بھی بقر میں شامل ہے، اس کی قربانی جائز ہے۔
(الاعتصام ج: 20، نمبر 1009: ص29)
لیکن اس کے برخلاف فتاویٰ اہل حدیث 90/2 میں ہے کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں۔
دیکھا حضرات آپ نے ان لوگوں کا حال۔ دوسرے کئی مسائل کی طرح اس مسئلے میں ان لوگوں کے بیچ کیسا تضاد (ایک دوسرے کی مخالفت) پایا جاتا ہے۔ دوسروں کو اتحاد کا سبق دینے والوں میں خود ہی مسائل میں اتحاد اور اتفاق نہیں ہے۔
ان باتوں کو بنیاد بنا کر آج کل کے کچھ غیر مقلدین بھینس کی قربانی کو صحیح نہیں مانتے اور جو قربانی کے قائل ہیں ان کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا ان غیر مقلدین کو مشورہ ہے کہ دوسروں کو کچھ کہنے سے پہلے آپ بتائیں کہ آپ کا اپنے ان علما کے بارے میں کیا کہنا ہے جو بھینس کی قربانی کے قائل ہیں۔ کیا وہ لوگ بھی قرآن حدیث کے خلاف عمل کرتے اور فتویٰ دیتے ہیں؟؟؟
اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے اور قرآن اور سنت پر سلف صالحین کی طرح عمل کی توفیق عطا کرے۔ آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں