اعتراض نمبر 1- دوسری شادی کرنے والے کا کنواری/ بیوہ دلہن کے پاس قیام ۔
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : دوسری شادی کرنے والے کا کنواری بیوہ دلہن کے پاس قیام؟ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن ابي قلابة عن انس من السنة اذا تزوج الرجل البكر على الثيب. اقام عندها سبعا وقسم واذا تزوج الشيب اقام عندها ثلاثا ثم قسم قال ابو قلابة ولو شئت لقلت ان انسار فعه الى النبي صلی اللہ علیہ وسلم ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ دوسری شادی کرنے والا دلہن کے پاس ، اگر وہ کنواری ہو تو سات دن قیام کرے گا اور اگر وہ بیوہ ہے تو تین دن ۔ پھر دونوں کے لئے باری مقرر کرے گا۔
(صحيح البخاري كتاب النکاح باب اذا تروج الثيب علي البكر صفحه 785 رقم الحدیث (5214)
(صحیح مسلم ج 1 اكتاب الرضاء باب قدر ما نستحقه البكر والثيب من اقامة الزوج عقب الزفاف صفحه 476 رقم الحدیث (1461)
فقه حنفی
والقديمة والجديدة سواء
هدایه اولین 27 کتاب النکاح باب القسم صفحه 349) یعنی پہلی اور دوسری بیوی تقسیم کے اعتبار سے برابر ہیں۔ (فقہ وحدیث میں 40)
:جواب
اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کا مذہب قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب غیر مقلد نے ویسے ہی اس کو حدیث کے خلاف کہ دیا ہے انہوں نے ہدایہ کی پوری عبارت بھی نقل نہیں کی ہدایہ میں امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کے مذاہب کے دلائل بھی موجود تھے راشدی صاحب کو چاہئے تھا کہ اس مسئلہ کے متعلق پہلے قرآن پیش کرتے پھر دونوں قسم کی اختلافی احادیث نقل کرتے تا کہ عوام کو اس بات کا علم ہوتا کہ اس مسئلہ کے متعلق کتب احادیث میں دونوں قسم کی روایات موجود ہیں۔ پھر اپنے زور علم سے کسی پہلو کو راجح قرار دیتے ۔ مگر راشدی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔
قارئین کرام ہم یہاں پر حنفی مذہب کے دلائل نقل کرتے ہیں۔
حديث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی دو بیبیاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف جھکے یعنی ایک کا حق ادا کرے اور دوسری کا اس کے برابر ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ آدھا ادھر گرا ہوا ہوگا یعنی لنجا ہوگا۔
(ابو داود كتاب النکاح باب القسم بين النساء. ترمذی ابواب النكاح ما جاء في التسوية بين الضرائري
حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس کی تخریج امام ابو نعیم اصفہانی نے تاریخ اصبہان میں کی ہے دیکھئےنصب الرایہ فی تخریج احادیث بدایہ بحوالہ غایة السعایة ج 7 ص 304)
حديث: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ شب باشی میں تقسیم کرتے اپنی عورتوں کے درمیان میں اور عدل کرتے اور پھر کہتے یا اللہ یہ میری تقسیم ہے اس چیز میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں سو تو ملامت مت کر مجھے کو اس میں جس کا میں اختیار نہیں رکھتا بلکہ تو اختیار رکھتا ہے یعنی محبت وغیرہ ہیں۔ (ترمذی ابواب النکاح باب ماجاء في التسوية بين الضرائر ابو داؤدکتاب النکاح باب القسم بين النساء) ہم نے صرف وہ دو حدیثیں نقل کی ہیں جن کو صاحب ہدایہ نے پہلے مسئلہ میں ذکر کیا ہے یہ دونوں مطلق ہیں جن میں نئی اور پرانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ حنفی مذہب ان احادیث کے مطابق ہے اور یہ احادیث قرآن کے مطابق ہیں۔
:قرآنی دلائل .
پہلی آیت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً !
پھر اگر تم ڈرو اس بات سے کہ نہ انصاف کر سکو گے تو نکاح کرو ایک ہی ہے۔ (پارہ نمبر 4 سورۃ النساء آیت نمبر (3)
دوسری آیت: وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ المَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعلقة
(پارہ نمبر 5 سورۃ نساء آیت نمبر 129 )
اور تم عورتوں کے درمیان ( محبت میں ) ہرگز عدل نہ کر سکو گے خواہ تمہیں اس کی کتنی حرص ہو پھر ایسا تو نہ کرو کہ ایک کی طرف بالکل جھک جاؤ اور دوسری کو بیچ میں لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے درمیان نئی اور پرانی عورتوں کا فرق کئے بغیر عدل کو واجب کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تقسیم کے معاملہ میں اپنی ازواج میں عدل فرماتے تھے جیسا کہ
اوپر حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں گزرا۔
رہی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے حنیفہ اس کا انکار نہیں
کرتے۔ بلکہ اس کی ایسی توجیہ کرتے ہیں کہ یہ روایت قرآن اور ان احادیث کے مطابق ہو جائے جو ہم نے نقل کی ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک اس کا مطلب باری میں کمی زیادتی کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ باری کی ابتدانئی بیوی سے ہونی چاہئے۔ یعنی اگر کنواری سے شادی کی ہے تو اس کے پاس سات رات رہے تو اور بیویوں کے پاس بھی سات سات رات رہے اور اگر شادی شدہ (بیوہ یا طلاق شدہ عورت سے نکاح کرنے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ تو اور بیویوں کے پاس بھی تین تین رات رہے پس جدیدہ بیوی باکرہ یا ثیبہ کے بعد سات یا تین کا دور اسی سے شروع کرے پھر قدیمہ کے پاس بھی اسی طرح رہے ہماری اس توجیہ کی تائید حدیث حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی ہوتی ہے جس کو امام مسلم نور اللہ مرقدہ نے نقل کیا ہے۔
:ملاحظہ فرمائیں
:حديث
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کرنے کے بعد ان کے پاس تین دن رہے پھر فرمایا تم اپنے شوہر کی نظروں سے اتری نہیں ہو، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس ایک ہفتہ قیام کرلوں اور اگر میں تمہارے پاس ایک ہفتہ رہا تو میں اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا۔ (مسلم کتاب الرضاع باب قدر ما تستحقه البكر و الثیب مسلم کے علاوہ طحاوی مسند احمد. طبرانی مسند ابو یعلی بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ پھر اوروں کے پاس بھی اسی قدر رہنا ہوگا
اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ برابری ہونی چاہئے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں