نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 12: جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا وہ مومن ہے


 اعتراض نمبر 12:

 کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ جو آدمی کعبہ کو حق مانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مدینہ میں مدفون ہیں یا نہیں تو وہ مومن ہے اور امام حمیدی نے کہا کہ ایسا قول کرنے والا کافر ہے

أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله المعدل، أخبرنا محمد بن عمرو بن البختري الرزاز، حدثنا حنبل بن إسحاق، حدثنا الحميدي، حدثنا حمزة بن الحارث ابن عمير عن أبيه قال: سمعت رجلا يسأل أبا حنيفة في المسجد الحرام عن رجل قال: أشهد أن الكعبة حق، ولكن لا أدري: هي هذه التي بمكة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. وسأله عن رجل. قال: أشهد أن محمد بن عبد الله نبي ولكن لا أدري: هو الذي قبره بالمدينة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. قال الحميدي: ومن قال هذا فقد كفر.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں راوی "حنبل بن اسحاق" ایسا ہے جس پر اس کے ہم مذہب لوگوں نے بھی جرح کی ہے۔ اور ابن شاقلہ نے اپنی روایت میں اس کو غلط بیانی کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ اس کا ذکر ابن تیمیہ نے سورۃ القلم کی تفسیر میں کیا ہے لیکن ہم اس کے بارہ میں ان کی کلام کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس کو ثقہ اور مامون شمار کرتے ہیں جیسا کہ ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیید میں کہا ہے۔ 

تو اس خبر کی سند " الحمیدی" تک جا پہنچتی ہے اور الحمیدی کو "محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم" نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ ایسے معاملہ میں جبکہ وہ لوگوں کے بارہ میں بات کرے . طبقات السبکی جلد 1 صفحہ 224

 اور وہ انتہائی متعصب ، غیبت کرنے والا اور اضطراب کا شکار تھا۔ وہ کبھی "حمزہ بن الحارث" سے روایت کرتا اور کبھی براہ راست "الحارث" سے اور پھر "الحارث بن عمیر" بھی مختلف فیہ راوی ہے اور جرح مقدم ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی روایت ایسے معاملہ میں معتبر نہ ہوئی۔ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا کہ میں نہیں دیکھتا اس کو مگر واضح کمزور ہے۔

 پس بے شک ابن حبان نے الضعفاء میں کہا ہے کہ وہ ثقہ راویوں سے موضوع چیزیں روایت کرتا تھا۔ اور حاکم نے کہا کہ اس نے حمید اور جعفر الصادق سے موضوع احادیث روایت کی ہیں۔ اور تہذیب التہذیب میں ہے کہ الازدی نے کہا کہ وہ ضعیف منکر الحدیث ہے۔ اور ابن الجوزی نے ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ الحارث بن عمیر کذاب ہے۔ الخ

 راویوں کے لحاظ سے اس روایت کی پوزیشن یہ ہے۔ مگر خطیب کے ہاں اس جیسی روایت محفوظ ہوتی ہے۔ اور حالات بھی اس خبر کے جھوٹا ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اس جیسا صریح کفر مسجد حرام میں بیٹھ کر زبان سے نکالیں بغیر اس کے کہ کوئی کذاب راوی ہی اس سے یہ روایت کرے۔ اور بغیر اس کے جو اس جیسے قبیح کفر کے زبان سے نکالنے میں آخرت سے بے خوف ہو اور یہ کھلا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔

 اور بے شک ابن ابی العوام رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ الحسن بن ابی مالک عن ابی يوسف من ابی حنیفہ روایت کی ہے کہ بے شک انہوں نے کہا کہ

  اگر کوئی آدمی کعبہ کے علاوہ کسی دوسری طرف منہ کر کے جان بوجھ کر نماز پڑھتا ہے مگر اتفاق سے اس کا منہ کعبہ کی جانب ہی ہو گیا تو وہ شخص کافر ہو گیا۔

( اس لیے کہ اس نے کعبہ کے علاوہ دوسری طرف کر کے نماز پڑھنے کا اعتقاد کیا اور اس کو کوئی عذر بھی نہیں اور کرتا بھی جان بوجھ کر ہے تو وہ کافر ہو گیا ) اور میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کا انکار کرتا ہو۔ الخ۔ 

اس کی تفصیل آگئے آرہی ہے۔ اور بعض اوقات امام صاحب ایسی بات کہتے تھے جس سے یہ پتہ چلتا کہ ابتداء میں ایمان اجمالی کافی ہے۔ پھر مومن ، ایمان تفصیلی درجہ بدرجہ سیکھتا ہے۔ تو امام صاحب کی اس بات کو روایت بالمعنی کا ہم دے کر راوی نے اپنی مرضی کے مطابق روایت تبدیل کرنے کو اپنے لیے مباح کر لیا۔

ابن حزم نے اپنی کتاب الفصل ص 239 ج 3 میں کہا 

پس اگر کوئی شخص پوچھے کہ تم اس شخص کے بارہ میں کیا کہتے ہو جو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں مگر میں یہ نہیں جانتا کہ وہ قریشی ہیں یا تمیمی یا فارسی ؟ اور نہ یہ جانتا ہوں کہ وہ حجاز میں تھے یا خراسان میں ؟ اور نہ یہ جانتا ہوں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں ؟ اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ میرے سامنے موجود آدمی ہی ہیں یا کوئی اور ہیں ؟ 

تو اس کو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر وہ آدمی اس قدر بے علم ہے کہ حضور علیہ السلام اور آپ کی سیرت کے بارہ میں اس کو کوئی خبر نہیں پہنچی تو یہ کہنا اس کو کوئی نقصان میں دیتا۔ مگر اس کے لیے ان چیزوں کی تعلیم ضروری ہے۔ پس اگر وہ شخص جانتا ہے اور حق بات اس تک پہنچ چکی ہے تو بے شک ایسا شخص ضدی ہے تو وہ شخص( ایسا قول کرنے کی وجہ سے) کافر ہے اس کا خون اور مال حلال ہے اس پر مرتد ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ بہت سے وہ لوگ جو اللہ تعالٰی کے دین میں فتوی دینے کے منصب پر فائز ہیں۔ جی ہاں اور بہت سے نیک لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس تاریخ کو ہوئی تھی اور نہ یہ جانتے ہیں کہ آپ وفات کے وقت کہاں تھے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کون سے شہر میں تھے اور اس بے علم آدمی کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے دل اور زبان سے اس کا اقرار کرے کہ بے شک ایک آدمی جس کا نام محمد تھا ان کو اللہ تعالٰی نے ہماری طرف اس دین کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔ الخ

 اور خطیب اکثر ان آراء میں ابن حزم کی پیروی کرتا ہے جن کی اطلاع اس کو اس حمیدی نے دی جو الجمع بین الصحیحین والا ہے۔ پس شاید کہ ابن حزم کی اس رائے سے خطیب کو آگاہی نہیں ہوئی۔ واللہ سبحانه هو الهادی - "اور اللہ تعالی ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔"

امام زاہد کوثری صاحب کا کلام یہاں ختم ہوا۔

 اعتراض نمبر 12: جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا  وہ مومن ہے

اسی اعتراض کی باقی ضعیف اسناد جن میں ضعیف راوی حمزہ بن حارث ہے اور مومل بن اسماعیل یا متروک عباد بن کثیر۔

2۔أخبرني الحسن بن محمد الخلال، حدثنا محمد بن العباس الخزاز.وأخبرنا محمد بن أحمد بن محمد بن حسنون النرسي، أخبرنا موسى بن عيسى بن عبد الله السراج قالا: حدثنا محمد بن محمد الباغندي، حدثنا أبي قال: كنت عند عبد الله بن الزبير، فأتاه كتاب أحمد بن حنبل: اكتب إلى بأشنع مسألة عن أبي حنيفة. فكتب إليه: حدثني الحارث بن عمير قال: سمعت أبا حنيفة يقول: لو أن رجلا: قال أعرف لله بيتا ولا أدري أهو الذي بمكة أو غيره، أمؤمن هو؟ قال نعم!

ولو أن رجلا قال: أعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم قد مات ولا أدري أدفن بالمدينة أو غيرها، أمؤمن هو؟ قال: نعم!


3۔أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق وأبو بكر البرقاني قالا: أخبرنا محمد بن جعفر بن الهيثم الأنباري قال: حدثنا جعفر بن محمد بن شاكر - زاد ابن رزق الزاهد. ثم اتفقا - قال: حدثنا رجاء بن السندي الخراساني قال: سمعت حمزة بن الحارث بن عمير ذكره عن أبيه قال: قلت لأبي حنيفة - أو قيل له وهو يسمع - رجل قال: أشهد أن الكعبة حق، غير أني لا أدري أهو هذا البيت الذي يحج الناس إليه، ويطوفون حوله، أو بيت بخراسان أمؤمن هذا؟ - وقال البرقاني، أمؤمن هو؟ قال:

نعم.

4۔أخبرنا ابن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخلدي، حدثنا أبو جعفر محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي - في صفر سنة سبع وتسعين ومائتين - حدثنا عامر بن إسماعيل، حدثنا مؤمل عن سفيان الثوري قال: حدثنا عباد بن كثير قال: قلت لأبي حنيفة: رجل قال أنا أعلم أن الكعبة حق، وأنها بيت الله، ولكن لا أدري هي التي بمكة، أو هي بخراسان، أمؤمن هو؟ قال: نعم مؤمن. قلت له:

فما تقول في رجل قال: أنا أعلم أن محمدا رسول الله، ولكن لا أدري هو الذي كان بالمدينة من قريش أو محمد آخر، أمؤمن هو؟ قال: نعم. قال مؤمل:

قال سفيان: وأنا أقول: من شك في هذا فهو كافر.

اس سند میں راوی عباد بن کثیر متروک ہے ، مومل بن اسماعیل کا حافظہ خراب تھا ، لہذا یہ تمام سندیں جھوٹ کا پلندہ ہیں۔

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...