اعتراض نمبر 19: کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر کوئی اپنے باپ کو قتل کر دے اور اپنی ماں سے نکاح کرلے اور باپ کے سر کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے تو وہ شخص بھی مومن ہے۔ یہ بات سننے کے بعد ابن ابی لیلی نے کہا کہ میں تمہاری گواہی کبھی قبول نہ کروں گا۔ سفیان ثوری نے کہا کہ آپ سے کبھی کلام نہ کروں گا اور شریک نے کہا کہ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا اور حسن بن صالح نے کہا کہ تمہارا چہرہ دیکھنا بھی مجھ پر حرام ہے
اعتراض نمبر 19:کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر کوئی اپنے باپ کو قتل کر دے اور اپنی ماں سے نکاح کرلے اور باپ کے سر کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے تو وہ شخص بھی مومن ہے۔ یہ بات سننے کے بعد ابن ابی لیلی نے کہا کہ میں تمہاری گواہی کبھی قبول نہ کروں گا۔ سفیان ثوری نے کہا کہ آپ سے کبھی کلام نہ کروں گا اور شریک نے کہا کہ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا اور حسن بن صالح نے کہا کہ تمہارا چہرہ دیکھنا بھی مجھ پر حرام ہے
أخبرني الخلال، حدثنا علي بن عمر بن محمد المشتري، حدثنا محمد بن جعفر الأدمي حدثنا أحمد بن عبيد، حدثنا الطاهر بن محمد، حدثنا وكيع قال:اجتمع سفيان الثوري، وشريك، والحسن بن صالح، وابن أبي ليلى، فبعثوا إلى أبي حنيفة. قال: فأتاهم. فقالوا له: ما تقول في رجل قتل أباه، ونكح أمه، وشرب الخمر في رأس أبيه، فقال: مؤمن، فقال له ابن أبي ليلى: لا قبلت لك شهادة أبدا، وقال له سفيان الثوري: لا كلمتك أبدا، وقال له شريك: لو كان لي من الأمر شئ لضربت عنقك، وقال له الحسن بن صالح: وجهي من وجهك حرام، أن أنظر إلى وجهك أبدا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کا راوی علی بن عمر بن محمد المشتری ایسا ہے کہ ، میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس کی توثیق کی ہو۔
اور محمد بن جعفر الادمی جو ہے وہ ابوبکر ہے جس کی کتاب الالحان ہے تو بیشک اس کے بارے میں محمد بن ابی الفوارس نے کہا کہ وہ حدیث بیان کرتے وقت خلط ملط کرتا تھا .
اور رہا احمد بن عبید بن ناصح جو اس کا استاد ہے تو وہ بھی قابل اعتماد نہیں ہے جیسا کہ اس کا ذکر امام ذہبی نے میزان میں عبد الملک الاصمعی کے ترجمہ میں کیا ہے اور خطیب نے ج 2 میں کہا ہے کہ ابن عدی نے کہا کہ یہ منکر احادیث بیان کرتا تھا اور ابو احمد الحاکم الکبیر نے کہا کہ اس کی اکثر روایتوں کا کوئی متابع نہیں ملتا.
اور اس واقعہ کا راوی طاہر بن محمد مجہول ہے .
اور وکیع تو ابو حنیفہ کے احسان مند اصحاب میں سے ہیں. اور ان سے ابو حنیفہ کے بارے میں بری بات ثابت نہیں ہو سکتی۔ اور یہ بات کم عقل لوگوں میں سے کسی نے ان کی جانب منسوب کر دی ہے جو انہوں نے نہیں کی۔ اور ابن معین کی تاریخ جو الدوری کی روایت سے ہے اور وہ کتاب کتب خانہ ظاہر یہ دمشق میں محفوظ ہے اس میں ہے کہ وہ (وکیع ) امام ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق فتوی دیا
کرتے تھے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے اور اسی کے مثل امام ذہبی کی طبقات الحفاظ میں ہے اور یہ بات حقیقت ہے.
بیشک تحفۃ الاحوذی کے مقدمہ میں (اس کا مصنف محمد بن عبد الرحمن مبارکپوری) جھوٹ تھوپنے والا ، حنفیت سے چڑنے والا ،جتنا چاہے سیخ پا ہوتا رہے۔[1]۔
اور ان اکابر علماء کے بارے میں تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں سے کوئی اپنے باپ کا قاتل اور اپنے باپ کی کھوپڑی میں شراب پینے والا اور اپنی ماں سے نکاح کرنے والا ہو. اور ان حضرات کی سیرت مشہور ہے کہ وہ ایسے کسی مسئلے میں کلام ہی نہ کیا کرتے تھے جو واقع نہ ہوا ہو۔ نیز وہ کلام میں اس قسم کی بے ہودگی کا مظاہرہ نہ کیا کرتے تھے۔ اگرچہ ان حضرات میں سے بعض کی ابو حنیفہ کے ساتھ کچھ چپقلش بھی رہی ، جس سے شاید ہی کوئی ہم عصر بچا ہو مگر اس جیسے جھوٹ کو گھڑنا متعصبوں میں سے وہی جائز سمجھے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ سے محروم رکھا ہو۔
اور روایت کی حالت تو یہ ہے مگر یہ بھی خطیب کے ہاں محفوظ روایات کے زمرہ میں ہے۔
پھر اہل حق کے نزدیک بیشک مومن خواہ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے وہ اس عمل کی وجہ سے ایمان سے خارج نہیں ہوتا جبکہ اس کے عقیدے میں خلل نہ پڑے۔ پس یہ من گھڑت حکایت تو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان ائمہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کا مرتکب ایمان سے خارج ہو جاتا ہے تو (اگر اس واقعہ کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ برائی ان ائمہ کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ امام ابو حنیفہ کی طرف یعنی اس واقعہ کو تسلیم کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ائمہ کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے خارج ہو جاتا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے)
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا
![]() |
اعتراض نمبر 19: کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر کوئی اپنے باپ کو قتل کر دے اور اپنی ماں سے نکاح کرلے اور باپ کے سر کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے تو وہ شخص بھی مومن ہے۔ یہ بات سننے کے بعد ابن ابی لیلی نے کہا کہ میں تمہاری گواہی کبھی قبول نہ کروں گا۔ سفیان ثوری نے کہا کہ آپ سے کبھی کلام نہ کروں گا اور شریک نے کہا کہ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا اور حسن بن صالح نے کہا کہ تمہارا چہرہ دیکھنا بھی مجھ پر حرام ہے |
[1۔] غیر مقلدوں نے نیا شوشہ چھوڑا کہ امام وکیع رحمہ اللہ حنفی نہ تھے ، جبکہ سلف صالحیں نے امام الجرح والتعدیل وکیع بن جراح کوفی رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں شمار کیا اور بیان کیا ہے کہ وہ فتوی امام صاحب کے قول پر دیتے تھے۔ مختصرا دلائل ملاحظہ ہوں
1. نَا حَكَمُ بْنُ مُنْذِرِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ نَا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ بِمَكَّةَ قَالَ نَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ الأَعْرَابِيِّ قَالَ نَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ مِثْلَ وَكِيعٍ وَكَانَ يُفْتى برأى ابى حنيفَة
(كتاب الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء،
ابن عبد البر مالکی ، ص 136)
امام عباس دورى رح کہتے ہیں کہ انہوں نے امام یحیی بن معین رح سے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور وہ ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے ۔
2۔شيخ الإسلام ابن عبدالبر المالکی لکھتے ہیں کہ
يحيى بن معين يقول ما رأيت مثل وكيع و كان یفتی برأي ابي حنيفة رحمه الله
يحيى بن معین رح فرماتے ہیں کہ میں نے وکیع کی مثل کوئی اور نہیں دیکھا اور وہ ابو حنیفہ رح کی رائے پر فتوے دیتے تھے
( الانتقاء ص ١٣٦ طبع مصر)
3۔قال يحيى بن معين ما رأيت احدا اقدمه على وكيع و كان وكيع يفتي برأی ابی حنيفة
يحيى بن معین رح نے فرمایا کہ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جسکو میں وکیع پر مقدم کروں اور وکیع امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔
(جامع بیان العلم ج٢ ص١٤٩ )
4۔أجاز لنا إبراهيم ابن مخلد، قَالَ: أَخْبَرَنَا مكرم بن أَحْمَد الْقَاضِي، ثم قَالَ: أَخْبَرَنَا الصيمري، قراءة قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَر بن إبراهيم المقرئ، قَالَ: حَدَّثَنَا مكرم، قَالَ: أَخْبَرَنَا علي بن الحسين بن حبان، عن أبيه، قال: سمعت يحيى بن معين، قال: ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح، قيل له: ولا ابن المبارك؟ قال: قد كان لابن المبارك فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة، ويحفظ حديثه، ويقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا، قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقوله أيضا.
(تاريخ بغداد ت بشار ج 15 ص 647)
" حسین بن حبان کہتے ہیں میں نے سنا امام یحیی بن معین رح سے انہوں نے کہا میں نے وکع بن جراح سے افضل کوئی نہیں دیکھا ہے کہا گیا کہ ابن مبارک سے بھی نہیں ؟ ابن معین رح نے فرمایا کہ ابن مبارک بھی اہل فضل ہیں لیکن میں نے امام وکیع بن جراح سے افضل نہیں دیکھا جو راتوں کو قیام کرتے مستقل قبلہ جانب ہو کر ، احادیث کو یاد کرتے
روزے بھی رکھتے تھے اور امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے اور وکیع نے ان سے بہت زیادہ سنا ہے اور پھر امام ابن معین نے فرمایا کہ امام یحییٰ بن سعید القطان بھی ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے"
5.وكيع بن الجراح بن مليح أخذ العلم عن أبي حنيفة، وكان يفتي بقوله
" وکیع نے امام ابوحنیفہ سے علم حاصل کیا اور ان کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے۔"
(طبقات القاري الأثمار الجنية في أسماء الحنفية ج 2 ص 677۔678الملا على القاري)
6.ويفتي بقول أبي حنيفة
" وکیع امام ابوحنیفہ کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے۔"
(الجواهر المضية في طبقات الحنفية ۲/۲۰۹- عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي محيي الدين الحنفي)
7۔ ويفتي بقول ابى حنيفة رح
( تذكره الحفاظ از ذہبی رحمہ اللہ ، ج۱ ص۲۸٢ )
8.ويفتي بقول ابى حنيفة رح
(تهذيب التهذيب ج١١ ص١٢٧)
وکیع رحمہ اللہ کی حنفیت پر تفصیلی بحث انشاءاللہ جلد ہی النعمان سوشل میڈیا سروسز پر اپلوڈ ہو گی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں