اعتراض نمبر 21:کہ ابو مسہر نے کہا کہ ابو حنیفہؒ مرجٸہ کے سردار ہیں۔
أخبرنا أبو القاسم إبراهيم بن محمد بن سليمان المؤدب - بأصبهان - أخبرنا أبو بكر بن المقرئ قال: حدثنا سلامة بن محمود القيسي - بعسقلان - حدثنا عبد الله بن محمد بن عمرو قال: سمعت أبا مسهر يقول: كان أبو حنيفة رأس المرجئة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ کوئی بعید نہیں کہ یہ کلام ابو مسہر سے ثابت ہو اور وہ ان ناقلین کے زمرہ میں ہے کہ مسئلہ میں ان کی بات کی کوئی اہمیت ظاہر نہیں ہوتی. اور ہم نے ذکر کر دیا کہ ارجاء کے کس معنی کی وجہ سے ابو حنیفہؒ کی طرف یہ نسبت کی جاتی ہے اور وہ کس معنی میں ارجاء کا نظریہ رکھتے ہیں۔ اور یہ ان کے حق میں عیب نہیں بلکہ مدح ہے اگرچہ قائل اس سے عیب کا ارادہ کرے۔
اور اس کی سند میں ابوبکر ابن المقری وہ ہے جو الحافظ الثقہ محمد بن ابراہیم الاصبہانی ہے جس نے المعجم الکبیر لکھی ہے۔ اور اس میں اس نے وہ چیزیں لکھی ہیں جو اس نے اپنے مشائخ سے شہروں میں یا اپنے لمبے سفروں میں سنی تھیں۔ لیکن اس نے ان روایات کی صحت کا الزام نہیں کیا جیسا کہ اکثر المعاجم لکھنے والوں کا طریق کار ہے۔ اور یہی مسند ابی حنیفہ کا مولف ہے اور اس میں اس نے وہ روایات لکھی ہیں جو اس نے اپنے ثقہ مشائخ سے سنی تھیں اور امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے عمدہ ان کی مسند ہے۔ اس نے اس میں مسند احادیث پر ہی اکتفاء کیا ہے۔
اور اس کے حاشیہ میں حاشیہ لکھنے والے کو یہ وہم ہوا کہ یہ "محمد بن الحسن النقاش" ہے جو کہ کذاب مشہور ہے اور یہ بہت برا وہم ہے۔ اور اس کا شیخ سلامة بن محمود القيسی صوفیاء میں سے ہے جو ہر چیز میں " الا فى مثل هذا" کی استثناء کرنے والے ہیں۔ اور یہ الفریابی کے پیروکار میں سے ہے جو عسقلان میں مشہور ہے۔
اور ہم نے ارجاء کے بارہ میں کافی لمبی بحث کر دی ہے۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ اس مسئلہ میں تفصیلی طور پر وہ نظریہ معلوم کرے جس پر ابو حنیفہ تھے تو وہ 《رسالة ابي حنيفة الى عثمان البتی》 اور 《کتاب العالم والمتعلم》 جو کہ ابو مقاتل کی ابو حنیفہ سے روایت ہے۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرے۔ ان دونوں کتابوں میں اس مسئلہ میں خود ابو حنیفہ کی زبانی انتہائی تفصیل مذکور ہے اور یہ دونوں کتابیں دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہیں۔
![]() |
اعتراض نمبر 21: کہ ابو مسہر نے کہا کہ ابو حنیفہؒ مرجٸہ کے سردار ہیں۔ |
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں