اعتراض نمبر 26 : کہ جب جہم کی لونڈی خراسان سے کوفہ آئی تو ابو حنیفہ اس کے اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔
اعتراض نمبر 26 :
کہ جب جہم کی لونڈی خراسان سے کوفہ آئی تو ابو حنیفہ اس کے اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔
أخبرنا حسن بن الحسين بن العباس بن دوما النعالی أخبرنا أحمد بن جعفر بن سلم الختلي، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثني أبو الأخنس الكناني قال: رأيت أبا حنيفة - أو حدثني الثقة أنه رأى أبا حنيفة - آخذا بزمام بعير مولاة للجهم، قدمت خراسان، يقود جملها بظهر الكوفة يمشي.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس حکایت میں امام ابو حنیفہ سے روایت کرنے والا کتنا غفلت کا شکار آدمی ہے۔ جو جانتا ہی نہیں کہ اس نے ابو حنیفہ کو خود دیکھا تھا یا اس واقعہ کو دیکھنے والے سے سنا تھا ؟ اور اس خبر کی سند میں ابن دوما المزور[1] ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے [اعتراض نمبر 22 : کہ امام ابو حنیفہ دوسروں کو مرجئہ بننے کی دعوت دیتے تھے۔[اعتراض نمبر 22 : کہ امام ابو حنیفہ دوسروں کو مرجئہ بننے کی دعوت دیتے تھے۔ ] اور اس کا سند میں ہونا ہی اس کے باقی راویوں کے بارے میں بحث سے بے پرواہ کر دیتا ہے۔ پس کس قدر بے شرمی ہے کہ ایسی خبر کو پیش کیا جاتا ہے جس کا من گھڑت ہونا ظاہر ہے اور اس کا جھوٹا ہونا بیان بھی نہیں کیا جاتا. اور یہ ان کے بہتانوں کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے جو بہتان فقیہ ملت پر باندھے گئے. اور اللہ تعالیٰ ہی ان سے حساب لینے والا ہے۔ اور تینوں مطبوعہ نسخوں میں قدمت من خراسان کے جملہ میں من کو ذکر نہیں کیا گیا اور صحیحبات یہ ہے کہ عبارت کو درست کرنے کے لیے اس کو ذکر کرنا چاہئے۔
" ابو حنیفہ رحمہ اللہ جہم بن صفوان کو کافر کہتے تھے خود خطیب کا اقرار. "
أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن علي بن محمد النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن الحسن بن مكرم، حدثنا بشر بن الوليد قال: سمعت أبا يوسف يقول: قال أبو حنيفة: صنفان من شر الناس بخراسان، الجهمية والمشبهة، وربما قال: والمقاتلية. [2]
خطیب نے الخلال الحریری ، علی بن محمد النخعی، محمد بن الحسن بن مکرم ، بشر بن الولید کی سند نقل کر کے کہا ہے کہ " بشر بن الولید کہتے ہیں کہ میں نے ابو یوسف سے سنا وہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ خراسان میں دو طبقے ایسے ہیں جو انسانوں میں بد ترین ہیں، ایک جہمیہ اور دوسرے المشبهه اور بعض دفعہ (المشبهة کی جگہ المقاتلیہ کہتے تھے)
وقال النخعي: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا يحيى بن عبد الحميد ابن عبد الرحمن الحماني عن أبيه، سمعت أبا حنيفة يقول: جهم بن صفوان كافر[3]
اور النخعی نے محمد بن علی بن عفان ، یحی بن عبد الحمید بن عبد الرحمن الحمانی عن ابیہ کی سند نقل کر کے کہا کہ عبد الحمید نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جہم بن صفوان کافر ہے۔
میں (علامہ کوثری) کہتا ہوں کہ عبد اللہ بن احمد کی کتاب السنہ میں یہ عبارت یوں ہے کہ میرے سامنے ابو جعفر محمد بن الحسین بن ابراہیم بن اشکاب نے بیان کیا کہ میں نے اپنے باپ اور الہیثم بن خارجہ سے سنا وہ دونوں کہتے تھے کہ ہم نے ابو یوسف القاضی سے سنا وہ کہتے تھے کہ خراسان میں دو طبقے ایسے ہیں کہ روئے زمین پر ان دونوں سے بد تر اور کوئی نہیں ہے، ایک الجہمیہ اور دوسرے المقاتلیہ الخ۔ [4]
پس اس کلام سے ظاہر ہو گیا کہ بیشک ان دونوں طبقوں کے بارے میں ابو یوسف کا کلام انتہائی سخت ہے اور دونوں خبروں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بیشک ابو حنیفہ اور ابو یوسف دونوں جہمیہ اور مشبہ سے لا تعلق تھے، بیشک سارے افسانے گھڑنے والے کذاب سیخ پا ہوتے رہیں۔
اور ابن ابی العوام کی عبارت محمد بن احمد بن حماد احمد بن القاسم البرتی، ابو حفص المروزی، بشر بن یحیی نضر بن محمد کی سند کے ساتھ ہے کہ نضر بن محمد نے کہا کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جہم اور مقاتل دونوں فاسق ہیں۔ ایک نے تشبیہ ( اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا) میں افراط کیا اور دوسرے نے نفی میں افراط سے کام لیا۔[5]
اور ابو حنیفہ سے اس طرح کی اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں انہوں نے جہمیہ اور مقاتلیہ پر رد کیا ہے۔ کیا ایسے شخص کو جہمیہ فرقہ کی طرف منسوب کرنا آدمی کے نظریہ کے خلاف نسبت کے مترادف نہیں ہے؟
"خطیب کا اقرار کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ معتزلہ کے خلاف تھے۔"
وليس عندنا شك في أن أبا حنيفة يخالف المعتزلة في الوعيد، لأنه مرجئي. وفي خلق الأفعال، لأنه كان يثبت القدر. [6]
خطیب نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیشک ابو حنیفہ وعید کے مسئلہ میں معتزلہ کے خلاف ہیں اس لیے کہ بیشک وہ مرجئہ میں سے ہیں اور خلق افعال کے مسئلے میں بھی ان کے خلاف ہیں اس لیے کہ بیشک وہ تقدیر کو مانتے ہیں۔
- أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، أخبرنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا أبو يحيى بن المقرئ قال: سمعت أبي يقول: رأيت رجلا - أحمر كأنه من رجال الشام - سأل أبا حنيفة فقال: رجل لزم غريما له، فحلف له بالطلاق أن يعطيه حقه غدا، إلا أن يحول بينه وبين قضاء الله عز وجل. فلما كان من الغد جلس على الزنا وشرب الخمر؟ قال: لم يحنث، ولم تطلق منه امرأته.
اور آگے ابن رزق، ابن سلم، احمد بن علی الابار ، ابو یحیی بن المقری کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے ایک سرخ رنگ کے آدمی کو دیکھا گویا کہ وہ اہل شام میں سے تھا۔ اس نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ ایک آدمی اپنے قرض خواہ کے پیچھے پڑ گیا تو اس نے اس کو قسم دی کہ اگر میرے اور تیرے درمیان قضاء حائل نہ ہوئی تو کل تیرا حق دوں گا اور اگر نہ دوں تو میری بیوی کو طلاق۔ تو اگلے دن وہ زنا کی مجلس میں بیٹھا اور شراب پینے لگا تو امام ابو حنیفہ نے اس کو جواب دیا کہ وہ آدمی نہ تو اپنی قسم میں حانث ہوا اور نہ ہی اس کی بیوی کو طلاق ہوئی۔
میں (علامہ کوثری) کہتا ہوں کہ بیشک ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں ہیں کہ ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا کہ ان کو مرجئہ میں شمار کیا جائے اور پہلے ابو الولید الباجی کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ ابو حنیفہ کا عبادت میں انتہا درجہ کو پہنچا ہوا ہونا تواتر سے ثابت ہے [7]، تو خطیب کیلئے کیسے گنجائش نکلتی ہے کہ وہ اپنے کلام کی ابتدا میں یقین کے ساتھ کہے کہ بیشک مرجی تھے ۔ شاید کہ خطیب کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو یہ کہتے ہیں که بیشک عمل ایمان کا رکن اصلی ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو اس وقت اس پر کیا حکم لگے گا جبکہ وہ دمشق میں اس گناہ کا مرتکب تھا ( کیا وہ اس وقت ایمان سے نکل چکا تھا ؟) یا جس وقت وہ ابو حنیفہ کے خلاف ان من گھڑت افسانوں کا الزام لگا رہا تھا اور ابو حنیفہ جب عمل کو ایمان کا رکن اصلی شمار نہیں کرتے تو انہوں نے ان لوگوں کی تردید کا ارادہ کیا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ بیشک جو آدمی کسی عمل میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا کیونکہ وہ ایمان سے خارج ہو گیا ہے۔ اور ابو حنیفہ گنہگار مومن کے بارے میں اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں کہ اگر چاہے گا تو اس کو عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو بخش دے گا۔ اور اس وجہ سے خوارج اور ان کے پیروکار ان کی طرف ارجاء کی نسبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی ہی ان سے حساب لے گا۔
اور بہر حال خطیب نے اپنے دعوی میں جو یہ ذکر کیا ہے کہ بیشک ابو حنیفہ تقدیر کو ثابت کرتے (مانتے) تھے تو ابو حنیفہ اس جیسی بے مزہ خبروں سے بے نیاز ہیں ، جو وہم ڈالتی ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک گنہگار معذور ہے ، اس لیے کہ وہ گناہ تو اس پر مقدر کیا گیا تھا تا کہ اس پر وہ اعتراض کیا جاسکے جو قدریہ پر وارد ہوتا ہے۔ اور خطیب کی خواہش ہر وقت اس چیز کو بگاڑنے کی ہوتی ہے جس کا تعلق ابو حنیفہ کے ساتھ ہے۔ خواہ وہ بظاہر ان کی طرف سے دفاع ہی کرنے والا ہو۔ اور الانتقاء میں ابن عبد البر نے اپنی سند کے ساتھ جو ذکر کیا ہے اس میں ابو حنیفہ کے بدعت سے پاک عقیدہ کا ذکر ہے [8]۔ بلکہ عبد القاہر البغدادی المتوفی 429ھ اپنی کتاب اصول الدین ص 308 میں لکھتے ہیں جہاں انہوں نے علم الکلام میں دین کے ائمہ کا ذکر کیا ہے " اور فقہاء میں اور ارباب مذاہب میں سے پہلے متکلم ابو حنیفہ ہیں پس بیشک ابو حنیفہ کی قدریہ کے رد میں ایک کتاب ہے جس کا نام الفقہ الاکبر ہے اور ان کا ایک رسالہ ہے جو انہوں نے اہل السنت کے اس نظریہ کی تائید میں لکھوایا تھا کہ استطاعت وہ معتبر ہے جو فعل کے ساتھ پائی جاتی ہے" [9]۔ اور اہل علم میں مشہور ہے کہ بیشک ابو حنیفہ فقہ کی جانب مصروف ہونے سے پہلے بیس سے بھی زیادہ مرتبہ بصرہ کی طرف قدریہ وغیرہ گمراہ فرقوں سے مناظرہ کرنے کے لیے گئے تھے۔ اور گویا کہ خطیب کو کوئی ایسی خبر نہیں ملی جو یہ ثابت کرتی ہو کہ بیشک ابو حنیفہ قدریہ کی تردید کیا کرتے تھے ، سوائے اس بد مزہ حکایت کے جس کی سند میں ابن رزق اور ابن سلیم اور الابار جیسے راوی ہیں (یعنی خطیب نے اس بارے میں صحیح روایات کو نظر انداز کر کے قابل اعتراض سند سے یہ حکایت نقل کی تا کہ لوگوں میں وہم ڈالے) ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی مانگتے ہیں۔[10]
" تاریخ بغداد کے نسخوں میں فرق "
اور خطیب نے طبع اول کے ص 377 اور طبع ثانی کے ص 383 میں کہا 《اخبرنا القاضي ابو جعفر السمنانی 》 .. میں (علامہ کوثری) کہتا ہوں کہ اس جلد کے اس صفحہ سے لے کر امام ابو حنیفہ کے آخر ترجمہ تک تقریبا بیس (20) اوراق صرف اس نسخہ میں پائے جاتے ہیں جو دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے جس کا اندراج نمبر 60 ہے۔ اور یہ نسخہ نہ مسموعہ ہے اور نہ مقروہ اور اس میں اس قدر تصحیفات (تغیرات) ہیں کہ اللہ تعالٰی ہی ان کو جانتا ہے۔ اور قارئین کرام ہندی مطبوعہ نسخہ میں اس کی کئی مثالیں پائیں گے اس لیے کہ بیشک وہ اس اصل بگڑے ہوئے نسخے کے مطابق ہے۔
اور الکبریلی کا نسخہ جو فوٹو اسٹیٹ ہے جو دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے، وہ اس زیادتی سے خالی ہے (یعنی اس میں یہ اوراق نہیں ہیں) اور میں نے یہ کتاب طبع کرانے والے کو تلقین کی تھی کہ الکبریلی والے لے پر اکتفا کرے اور صفحہ اشارہ دے دے کہ ایک اور کمزور نسخہ ہے جس میں ایسے اضافے ہیں جو سب گالیوں اور طعن پر مشتمل ہیں جن سے اہل علم بری الذمہ ہیں۔ ہم چونکہ اس سے مطمئن نہ تھے اس لیے ہم نے اس کو طبع نہیں کیا لیکن طالع نے میری رائے کو نہ لیا کیونکہ اس پر سلفیوں کی ایک جماعت اور ان کے قائدین کا مسلسل دباؤ تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ تو اس کی طباعت اس ناموافق نسخے کے مطابق مکمل ہوئی تو (جامعہ ) الازہر میں ایک قیامت برپا ہو گئی یہاں تک کہ حکومت نے طالع کو اس طریقہ کے مطابق وہ جلد دوباره طبع کرانے کا پابند کیا جس میں ابو حنیفہ کا ترجمہ ہے جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے اور طالع میرے سامنے بہت شرمندہ تھا کہ اس نے میری رائے پر عمل نہ کیا اور خود غرض لوگوں کی متابعت کی۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ الأسم : حسن بن الحسين بن العباس بن الفضل بن المغيرة
الشهرة : الحسين بن دوما النعالي , الكنيه: أبو علي
الرتبة : ضعيف الحديث
الجرح والتعديل
الخطيب البغدادي : أفسد أمره بأن ألحق لنفسه السماع في أشياء لم تكن سماعه
[2] ۔ تاریخ بغداد ت بشار عواد جلد 15 صفحہ 514
[3]۔ تاریخ بغداد ت بشار عواد جلد 15 صفحہ 515
[4]۔ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِشْكَابَ سَمِعْتُ أَبِيَ وَالْهَيْثَمَ بْنَ خَارِجَةَ، يَقُولَانِ: سَمِعْنَا أَبَا يُوسُفَ الْقَاضِي، يَقُولُ بِخُرَاسَانَ: " صِنْفَانِ مَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَشَرُّ مِنْهُمَا: الْجَهْمِيَّةُ وَالْمُقَاتِلِيَّةُ"
(روایت 14 اسنادہ حسن : کتاب السنہ ، عبد الله بن إمام أهل السنة أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني ت محمد بن سعید بن سالم القحطانی جلد 1 صفحہ 108 )
یہی روایت " أخبار القضاة " میں ہے۔
وحدثنا محمد بن إشكاب قال: حدثني أبي والهيثم بن خارجة قالا: سمعنا أبا يوسف يقول: بخراسان صنفان ما على الأرض شر منهما المقاتلية والجهمية.
( أخبار القضاة - محمد بن خلف بن حيان - ج 3 - الصفحة 258)
یہی روایت الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ فضائل أبي حنيفة میں بھی ہے۔
قال حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: وحدثني محمد بن أحمد ابن حماد قال: ثنا أَبَا عبداللہ محمد بن شجاع الثلجي قال:سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ أَبِي مَالِكٍ، سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ، سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، يَقُولُ: " يَقْدِمُ عَلَيْنَا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ صِنْفَانِ کافران : الْجَهْمِيَّةُ، وَالْمُشَبِّهَةُ ، يَعْنِي مِنْ خُرَاسَانَ ۔
(فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام ، ت بہرائچی ، ص: 124)
[5]۔ حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن احمد بن حماد، قال : حدثني أحمد بن القاسم البرتي ، ثنا أبو حفص المروزي ، ثنا بشر بن يحيى ، عن النضر بن محمد ، قال : قال أبو حنيفة كَانَ جَهْمٌ وَمُقَاتِلٌ فَاسِقَيْنِ، أَفْرَطَ هَذَا فِي التَّشْبِيهِ وَهَذَا فِي النَّفْيِ
(فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام ، ت بہرائچی ، ص: 124)
یہی روایت امام ذہبی رحمہ اللہ بھی نقل کرتے ہیں
النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، أَنَّهُ
قَالَ: «جَهْمٌ وَمُقَاتِلٌ كَانَا فَاسِقَيْنِ، أَفْرَطَ هَذَا فِي التَّشْبِيهِ وَهَذَا فِي النَّفْيِ»
( مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ، صفحہ 35 ، الذهبي ،
عني بتحقيقه والتعليق عليه
محمد زاهد الكوثري، أبو الوفاء الأفغاني)
[6۔] تاریخ بغداد ت بشار عواد جلد 15 صفحہ 515
[7]۔ قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَعِنْدِي أَنَّ هَذِهِ الرِّوَايَةَ غَيْرُ صَحِيحَةٍ عَنْ مَالِكٍ؛ لِأَنَّ مَالِكًا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَلَى مَا يُعْرَفُ مِنْ عَقْلِهِ وَعِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَدِينِهِ وَإِمْسَاكِهِ عَنْ الْقَوْلِ فِي النَّاسِ إلَّا بِمَا يَصِحُّ عِنْدَهُ وَثَبَتَ لَمْ يَكُنْ لِيُطْلِقَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مَا لَمْ يَتَحَقَّقْهُ وَمِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَقَدْ شُهِرَ إكْرَامُ مَالِكٍ لَهُ وَتَفْضِيلُهُ إيَّاهُ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ مَالِكًا ذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِالْعِلْمِ بِالْمَسَائِلِ وَأَخَذَ أَبُو حَنِيفَةَ عَنْهُ أَحَادِيثَ وَأَخَذَ عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمُوَطَّأَ وَهُوَ مِمَّا أَرْوِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَبْدِ بْنِ أَحْمَدَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَقَدْ شُهِرَ تَنَاهِي أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْعِبَادَةِ وَزُهْدُهُ فِي الدُّنْيَا، وَقَدْ اُمْتُحِنَ وَضُرِبَ بِالسَّوْطِ عَلَى أَنْ يَلِيَ الْقَضَاءَ فَامْتَنَعَ، وَمَا كَانَ مَالِكٌ لِيَتَكَلَّمَ فِي مِثْلِهِ إلَّا بِمَا يَلِيقُ بِفَضْلِهِ وَلَا نَعْلَمُ أَنَّ مَالِكًا تَكَلَّمَ فِي أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الرَّأْيِ وَإِنَّمَا تَكَلَّمَ فِي قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ
(المنتقى شرح الموطإ ، أبو الوليد الباجي جلد 7 صفحہ 300 :
تانیب الخطیب صفحہ 18 ، 19 ، 20 )
[8] ۔ الانتقاء مترجم ص 413
[9] ۔ واوّل متكلميهم من الفقهاء وارباب المذاهب ابوحنيفة والشافعى فان أبا حنيفة له كتاب فى الرد على القدرية سمّاه كتاب 《الفقه الاكبر》 وله رسالة املاها فى نصرة قول اهل السنة ان الاستطاعة مع الفعل ولكنه قال: انها تصلح للضدين وعلى هذا قوم من اصحابنا
( أصول الدين صفحہ 308، عبد القاهر بن طاهر البغدادي التميمي الأسفراييني، المتوفى: 429 هـ ، مدرسة الإلهيات بدار الفنون التركية-تركيا اسطنبول
[10]۔ پہلی بات : شرابی آدمی نے قسم کھائی کہ " اگر میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی قضاء حائل نہ ہوئی تو میری بیوی کو طلاق ہے "۔چونکہ اس شرابی آدمی نے یہاں استثناء ذکر کیا ہے اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ ہر چیز میں اللہ کی ہی قضاء ہوتی ہے ، اسی کی مرضی اور فیصلہ ہوتا ہے ۔ نیز آدمی کا یہ کہنا کہ " اگر میرے اور تمہارے درمیان کوئی واقعہ پیش نہ آیا تو تب میری بیوی کو طلاق ہے " ، اور یقینی بات ہیکہ کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوا ہو گا ، کیونکہ واقعہ ہر اس چیز کا نام ہے جو اس کے ساتھ پیش آئے گا ، مثلا جیسے ہی وہ شخص اس محفل سے اٹھا ، اس کے ساتھ ایک نیا واقعہ پیش آ گیا ، یعنی اس کو ایک نئی قضاء پیش آ گئی ، تو اس وجہ سے طلاق واقع نہ ہوئی
دوسری بات : شرابی آدمی نے کہا کہ اگر قضاء پیش نہ آئی تو " کل " میری بیوی کو طلاق ۔۔
جبکہ ممکن ہے ابھی " کل " کا دن پورا مکمل نہ ہوا ہو ۔ اور اس شخص کی ملاقات امام صاحب سے دن کے کسی حصہ میں ہوئی ہو لہذا اس صورت میں طلاق کیسے واقع ہو ؟
تیسری بات : اپنی عادت کے مطابق خطیب نے یہاں امام صاحب پر طعن کی خاطر یہ روایت ذکر کی کیونکہ اس میں شرابی اور زانی آدمی کا تذکرہ تھا ، جس سے خطیب کا مقصد یہ تھا کہ امام صاحب کی برائی کی جائے ، کہ انکی اٹھک بیٹھک شرابی اور زانی لوگوں کے ساتھ تھی ، حالانکہ امام صاحب کا تقوی و زہد تواتر کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ امام ابو الولید باجی مالکی رحمہ اللہ نے المنتقی 7/30 میں لکھا ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں