اعتراض نمبر 32 : کہ امام حماد بن ابو حنیفہ نے کہا کہ میرے والد کے نزدیک قرآن مخلوق ہے اور میرے والد ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے ابن ابی لیلی کے سامنے تقیہ کیا ہے۔
اعتراض نمبر 32 : کہ امام حماد بن ابو حنیفہ نے کہا کہ میرے والد کے نزدیک قرآن مخلوق ہے اور میرے والد ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے ابن ابی لیلی کے سامنے تقیہ کیا ہے۔
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا دعلج بن أحمد، أخبرنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا سفيان بن وكيع قال: جاء عمر بن حماد بن أبي حنيفة، فجلس إلينا، فقال: سمعت أبي حمادا يقول: بعث ابن أبي ليلى إلى أبي حنيفة فسأله عن القرآن. فقال: مخلوق، فقال: تتوب وإلا أقدمت عليك؟ قال فتابعه، فقال القرآن كلام الله، قال فدار به في الخلق يخبرهم أنه قد تاب من قوله القرآن مخلوق. فقال أبي: فقلت لأبي حنيفة كيف صرت إلى هذا وتابعته؟ قال: يا بني خفت أن يقدم علي فأعطيته التقية.
الجواب ۔
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں دعلج اور الابار اور سفیان بن وکیع ہیں۔ پس دعلج مالدار تاجر تھا اس کے پاس سونے کی کئی ٹوکریاں بھری ہوئی تھیں۔ راویوں میں سے جو اس کے پاس رات گزارتے، ان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں اور ان کی عقلیں سلب ہو جاتیں۔ تو وہ تشبیہ میں اس کے ہم مذہب راویوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے اور روایت کو اس کی مرضی کے مطابق بنا دیتے اور اس کے ہاں تعصب اور لا پروائی تھی۔ اور مفاد پرست راوی اس کے ہاں رات گزارتے اور اس کی کتابوں میں کئی چیزوں کو شامل کر لیتے پھر وہ ان کو باطن کی سلامتی کے ساتھ روایت کرتا رہتا اور امام ذہبی نے ذکر کیا کہ ان وضاعوں میں سے جو اس کی کتابوں میں زائد چیزیں شامل کر دیتے تھے، دو آدمی تھے۔
ایک علی بن الحسین الرصافی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا اور اللہ پر افتراء باندھتا تھا۔ دار قطنی نے کہا کہ اس نے اپنے باقی شیوخ سے سنی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے جو باتیں داخل کی ہیں، پھر ان کے سامنے ان احادیث کو بیان کیا وہ اتنی نہیں ہیں جتنی کہ دعلج کی کتابوں میں اس نے داخل کی ہیں۔
اور اسی طرح ابو الحسین العطار الحرمی نے بھی دعلج کی کتابوں میں احادیث داخل کیں جیسا کہ اس کا ذکر ذہبی نے کیا ہے اور ان دونوں راویوں کو ابن حجر نے بنا دلیل ایک ہی بنا ڈالا۔
اور الآبار ان لوگوں میں سے تھا جن کے پاس دعلج آتا جاتا تھا تو اس نے اس کے مذہب کی تائید کی اور ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب پر اپنی تاریخ میں لمبے چوڑے اور بے شرمی سے طعن لگائے اور اللہ تعالی ہی اس سے حساب لینے والا ہے اور اس کی تعریف صرف وہی آدمی کر سکتا ہے جو اس کے دخائل (کسی کی بات میں زائد چیزیں شامل کر لینا) سے واقف نہ ہو۔ یا وہ شخص تعریف کرے گا جو اس کا ہم مذہب ہے۔
اور سفیان بن وکیع کا منشی کذاب تھا اس کی کتابوں میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتا، جھوٹ لکھ دیتا پھر وہ ان کو روایت کرتا تو لوگوں نے اس پر اس کو متنبہ کیا اور اس کو بتلایا کہ اس کے منشی نے تبدیلی کی ہے تو اس نے ان لوگوں کی باتوں پر عمل نہ کیا تو اہل نقد کے ہاں ایسا راوی احتجاج کے مرتبہ سے گر جاتا ہے[1]۔
اور ابو حنیفہ تو اللہ کی مخلوق میں کلمہ حق کو علانیہ بلند کرنے والے اور حق کا علی الاعلان پرچار کرنے والے تھے۔ پس اگر وہ ان لوگوں میں سے ہوتے جو تقیہ کرتے ہیں تو ابن بیره ان کو نہ مارتا اور نہ ہی کوفہ کا والی ان کو ایسی ظالمانہ سزا میں جتلا کرتا جس کا ذکر ابن عبد البر نے کیا ہے[2]۔ اور نہ ہی منصور ان کو مارتا حتی کہ ان کی وفات بھی اس حالت میں ہوئی کہ وہ قید میں تھے تو ابن ابی لیلیٰ کی کیا طاقت تھی کہ اس کے سامنے ابو حنیفہ تقیہ کرتے۔ پس کیا اس کی سزا کا ان ظالموں کی سزا سے بڑھ کر تصور کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ خبر کھلا جھوٹ ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ سفيان بن وكيع بن الجراح بن مليح بن عدي بن فرس بن جمجمة بن سفيان بن عمرو بن الحارث بن عمرو
الجرح والتعدیل:
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : يتكلمون فيه لأشياء لقنوه، إنما بلاؤه أنه كان يتلقن ما لقن، ويقال: كان له وراق يلقنه من حديث موقوف يرفعه، وحديث مرسل فيوصله أو يبدل في الإسناد قوما بدل قوم
أبو حاتم الرازي : لين
أبو حاتم بن حبان البستي : شيخ فاضل صدوق إلا أنه ابتلي بوراقه
أبو دواد السجستاني : ترك الحديث عنه
أبو زرعة الرازي : لا يشتغل به، كان يتهم بالكذب، ومن رواية بكر بن مقبل قال: ثلاثة ليست لهم محاباة عندنا فذكره منهم
أحمد بن حنبل : ما أعلم إلا خيرا
أحمد بن شعيب النسائي : ليس بثقة، ومرة: ليس بشيء، وقال مرة لإسحاق بن إبراهيم: لا تحدث عن سفيان بن وكيع
ابن حجر العسقلاني : صدوق ابتلي بوراقه فأدخل عليه ما ليس من حديثه فنصح فلم يقبل فسقط حديثه، وكان صدوقا في نفسه، وابتلي بوراقه
الدارقطني : لين تكلموا فيه
الذهبي : ضعيف
محمد بن إسماعيل البخاري : يتكلمون فيه لأشياء لقنوه
مصنفوا تحرير تقريب التهذيب : ضعيف
[2]۔ الانتقاء مترجم صفحہ 428 یا 432
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں