اعتراض 41 کہ قاضی شریک نے کہا کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ طلب کی گئی تھی۔
أخبرنا الحسين بن محمد - أخو الخلال - أخبرنا جبريل بن محمد المعدل - بهمذان - حدثنا محمد بن حيويه النخاس حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم قال: سمعت شريكا يقول استتبت أبو حنيفة مرتين.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ شریک سے یہ تین روایات ہیں۔ تو پہلی سند میں محمد بن جبویہ الہمدانی النحاس ہے اور تاریخ بغداد کے مطبوعہ تینوں نسخوں میں جبویہ کے بجائے حیویہ ہے اور یہ تصحیف ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ راوی متہم بالکذب ہے یہاں تک کہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں میناء کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے کہا جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ سلم نے فرمایا " انا الشجرة" میں درخت ہوں "وفاطمة فرعها" اور فاطمہ اس کی شاخ ہے۔ "وعلی لقاحها" اور علی اس کا لقاح (وہ نر خوشہ جو کجھور کے مادہ خوشے پر ڈالا جاتا ہے تا کہ پھل حاصل ہو) ہے۔ "والحسن والحسين ثمرتها" اور حسن اور حسین اس درخت کے پھل ہیں۔ "وشيعتنا ورقها" اور ہمارے شیعہ اس درخت کے پتے ہیں "واصلها في جنة عدن" اور اس درخت کی جڑ جنت عدن میں ہے[1]۔ ذہبی نے اس پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ روایت محمد بن جیویہ الہمدانی کی سند سے مروی ہے اور ابن جبویہ متهم باالکذب ہے کیا پس مولف یعنی حاکم کو شرم نہیں آئی کہ اس من گھڑت افسانے کو ایسی سندوں سے ان اقوال کو ثابت کرنے کے زمرہ میں لاتا ہے جو شیخین سے ان کی شرائط کے مطابق ہونے کے باوجود چھوٹ گئے تھے الخ۔[2]
اور اسی طرح ذہبی نے 《مشتبه اللسبة》 میں بھی کہا ہے "و محمد بن جبویه الهمداني عن محمود بن غیلان" الخ لیکن اس کا ابن غیلان کو پانا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جبکہ اس کی وفات 249ھ میں ہو جیسا کہ ابو رجاء المروزی کا قول ہے جو "تاریخ المراوزۃ" میں غریب روایت میں سے ہے اور اہل نقد نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ بخاری نے کہا کہ وہ 239ھ میں فوت ہوا.
اور یہ واقعہ واضح جھوٹ ہے اور خاص کر ان الفاظ کے ساتھ کہ شریک نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی تھی اس لیے کہ بیشک شریک تو ابو حنیفہ کی وفات کے پانچ سال بعد قاضی بنے تھے تو اس کی طرف توبہ طلب کرنے کی نسبت کرتا تو ابو حنیفہ کی زندگی میں نہیں ہو سکتی.
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثني الوليد ابن عتبة الدمشقي - وكان ممن يهمه نفسه - حدثنا أبو مسهر، حدثنا يحيى بن حمزة - وسعيد بن عبد العزيز جالس - قال: حدثني شريك بن عبد الله - قاضي الكوفة - أن أبا حنيفة استتيب من الزندقة مرتين.
اور بہر حال دوسری خبر تو اس کی سند میں ابن درستویہ ہے اور اس سے نحو کے علاوہ جو چیز بھی لی جائے گی، اس میں اہل کوفہ کے خلاف اہل بصرہ کی حمایت میں انتہائی تعصب پایا جاتا ہے حتی کہ نحو میں بھی اس کا یہی حال ہے اور اللالکائی اور البرقانی کا قول اس کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے[3]. اور وہ چند دراہم کی خاطر نہ سنی ہوئی روایات بھی روایت کر دیتا تھا اور یحیی بن حمزہ تو قدری ہے[4] اور اہل نقد کے پختہ قواعد میں سے ہے کہ بدعتی کی روایت اس شخص کے خلاف قابل قبول نہیں جو اس کی بدعت کی مخالفت کرتا ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ شریک ان میں سے ہو جن کو پتہ ہی نہیں کہ زندقہ کیا ہوتا ہے؟
أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله المعدل، أخبرنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف، أخبرنا عبد الله بن أحمد بن حنبل - إجازة - حدثني أبو معمر قال:قيل لشريك: مم استتبتم أبو حنيفة؟ قال: من الكفر.
اور تیسری خبر کی روایت میں الصواف روایت کر رہا ہے عبد اللہ بن احمد سے اور یہ روایت اجازہ ہے اور یہ اہل نقد کے ہاں منقطع کے حکم میں ہے اور عبد اللہ کا تعصب اور اس کا عمدہ راستہ سے انحراف ایسی واضح بات ہے کہ اس پر اس کی " کتاب السنہ" کے سوا کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں اور اس کا راوی " ابو معمر" جو عبد اللہ کا شیخ ہے، پس اگر وہ "عبد الله بن عمرو المنقری البصری" ہے تو وہ قدری ہے [5]۔ اس کی روایت اس کے مذہب کے مخالف کے بارے میں قبول نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ الہروی ہے تو اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے[6] اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ابو معمر نے آگے اپنی سند شریک تک بیان ہی نہیں کی تو اس کا کلام منقطع ہے۔[7]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ 4755 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ حَيَوَيْهِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبَّادٍ، أَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مِينَاءَ بْنِ أَبِي مِينَاءَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: خُذُوا عَنِّي قَبْلَ أَنْ تُشَابَ الْأَحَادِيثُ بِالْأَبَاطِيلِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَنَا الشَّجَرَةُ وَفَاطِمَةُ فَرْعُهَا، وَعَلِيٌّ لِقَاحُهَا، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمَرَتُهَا، وَشِيعَتُنَا وَرَقُهَا، وَأَصْلُ الشَّجَرَةِ فِي جُنَّةِ عَدْنٍ، وَسَائِرُ ذَلِكَ فِي سَائِرِ الْجَنَّةِ»
(المستدرك على الصحيحين ، جلد : 3 صفحہ : 174)
[2]۔ تعقَّبه الذهبي في التلخيص بقوله: ما قال هذا بشر سوى الحاكِم، وإنما هذا تابعي ساقط، قال أبو حاتم: كان يكذب. وقال ابن معين: ليس بثقة. ولكن أظن أن هذا وُضِع على الدَّبري، فإن ابن حيُّويه متهم بالكذب، أفما استحييت أيها المؤلِّف أن تورد هذه الأخلوقات من أقوال الطرقية فيما يستدرك على الشيخين؟
[4]۔ يحيى بن حمزة بن واقد
[5]۔ عبد الله بن عمرو بن ميسرة
الشهرة : عبد الله بن عمر التميمي , الكنيه: أبو معمر
الجرح والتعدیل:
أحمد بن صالح الجيلي : ثقة، وكان يرى القدر
ابن حجر العسقلاني : ثقة ثبت رمي بالقدر
عبد الرحمن بن يوسف بن خراش : صدوق قدري
يعقوب بن شيبة السدوسي : ثقة ثبت صحيح الكتاب، كان يقول بالقدر
[6]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 40: قیس بن ربیع کہتے ہیں کہ یوسف بن عثمان نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی کہ کفر سے توبہ کرے
[7] قاضی شریک رحمہ اللہ پر خود خراب حافظہ کی جرح ہے تو ان کی بات امام صاحب کے خلاف حجت کیسے ؟
شريك بن عبد الله بن الحارث بن شريك بن عبد الله
أبو عيسى الترمذي : كثير الغلط والوهم
أحمد بن شعيب النسائي : ليس به بأس، ومرة: ليس بالقوي
إبراهيم بن سعيد الجوهري : أخطأ شريك في أربع مائة حديث
يحيى بن معين : ثقة، ومرة: ثقة ثقة، ومرة: ثقة إلا أنه كان لا يتقن، ويغلط ويذهب بنفسه على سفيان وشعبة، ومرة: صدوق ثقة إذا لم يخالف
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني : سيئ الحفظ مضطرب الحديث مائل
ابن أبي حاتم الرازي : صدوق له أغاليط
ابن حجر العسقلاني : صدوق يخطىء كثيرا، تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة، وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا على أهل البدع، سمع من أبيه ولكن شيئا يسيرا، مرة: مختلف فيه وما له سوى موضع في الصحيح
الدارقطني : ليس بالقوي
الذهبي : أحد الأعلام
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں