نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔


 اعتراض نمبر 42:

 کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔

أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أحمد بن عبد الله الوراق، حدثنا أبو الحسن علي ابن إسحاق بن عيسى بن زاطيا المخرمي قال: سمعت إبراهيم بن سعيد الجوهري يقول: سمعت معاذ بن معاذ.

 وأخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا سهل بن أبي سهل الواسطي، حدثنا أبو حفص عمرو بن علي قال: سمعت معاذ بن معاذ يقول:

 سمعت سفيان الثوري يقول: استتبت أبا حنيفة من الكفر مرتين.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ مصری دونوں نسخوں میں " استنبت " کے الفاظ ہیں کہ سفیان ثوری نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی اور یہ الفاظ غلط ہیں اس لیے کہ بیشک ثوری تو قاضی تھے ہی نہیں یہاں تک کہ ان کو توبہ طلب کرنے کا اختیار ہوتا.

 اور واقعہ میں الفاظ وہی ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں اور یہی الفاظ پہلی روایت اور ہندی نسخہ اور اس کتاب کے علاوہ دیگر کتب میں مذکور واقعہ کے مطابق ہیں۔

 اور رہا معاملہ اس کی سند کا تو پہلی سند میں ابن رزق اور ابن زاطیا ہیں.

 اور دوسری سند میں عثمان بن احمد ہے جو ابو عمرو بن السماک کے نام سے مشہور ہے جس کی طرف بناوٹی اخبار روایت کرنے کا اشارہ کیا جاتا ہے. اور عمرو بن علی الفلاس تو اہل کوفہ سے انتہائی تعصب رکھنے والا اور بہت ہی زیادہ اعراض کرنے والا تھا۔

وأخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا يحيى بن سعيد ومعاذ بن معاذ قالا. 

وأخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا نعيم قال:

سمعت معاذ بن معاذ و يحيى بن سعيد يقولان: سمعنا سفيان يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين. وقال يعقوب مرارا. 

اور ان روایات کے بعد ایک اور روایت ہے جس کی پہلی سند میں ابن رزق، ابن سلم الابار اور نعیم بن حماد ہیں۔ 

اور دوسری سند میں ابن درستویہ  ہے اورر نعیم ہیں۔

أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن، حدثنا بشر بن موسى، حدثنا عبد الله بن الزبير الحميدي قال: سمعت مؤملا يقول:

استتيب أبو حنيفة من الدهر مرتين.

أخبرنا أبو سعيد الحسن بن محمد بن عبد الله بن حسنويه الكاتب - بأصبهان - أخبرنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن عيسى بن مزيد الخشاب، حدثنا أحمد بن مهدي، حدثنا عبد الله بن معمر، حدثنا مؤمل بن إسماعيل قال: سمعت سفيان الثوري يقول: إن أبا حنيفة استتيب من الزندقة مرتين.

 اور ان کے بعد اسی کے ہم معنی کچھ اور روایات ہیں جن کی اسناد میں نعیم بن حماد اور ابن درستویہ اور الحمیدی ہیں اور الحمیدی جس کی طرف محمد بن عبد الحکم نے لوگوں کے بارے میں باتوں سے متعلق کذب کی نسبت کی ہے اور بیشک ہم نے اس کو آزمایا بھی ہے اور ایک راوی مومل ہے ، اگر وہ ابن اہاب ہے تو اس کو ابن معین نے ضعیف کہا ہے جیسا کہ خطیب نے نقل کیا ہے اور اگر وہ ابن اسماعیل ہے جیسا کہ بعض طرق میں اس کی صراحت ہے تو وہ امام بخاری کے ہاں متروک الحدیث ہے اور اس طبقہ میں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور مومل نہیں ہے.

 اور عبد اللہ بن معمر متروک راوی ہے جیسا کہ المیزان میں ہے. اور دونوں مطبوعہ نسخوں میں مسلم بن عبد اللہ ہے اور ہندی نسخہ میں سلیمان بن عبد اللہ ہے تو ان میں سے کوئی نسخہ بھی درست ہو تو وہ اگر سلیم بن عبد اللہ الزاہد ہے تو وہ کمزور ہے ، اور اگر وہ سلیمان بن عبد الله الرقی ہے تو وہ لیس بشئ ہے اور اگر ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مجھول ہے۔

وقال أحمد بن مهدي: حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثني سلم بن عبد الله، حدثنا جرير عن ثعلبة قال: سمعت سفيان الثوري - وذكر أبا حنيفة - فقال: لقد استتابه أصحابه من الكفر مرارا.

 اور جریر بن عبد الحمید کے بارے میں یہ قول پایا جاتا ہے کہ وہ صرف بکریاں چرانے کے قابل ہی ہے اور ثعلبہ بن سہیل القاضی کو ابن الجوزی نے الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور یحیی بن معین نے کہا کہ وہ لیس بشئ ہے۔

 اور ابن عبد البر کی عبارت الانتقاء میں 《 استتيب ابو حنيفة مرتين 》 ہے اور اس میں 《 من الكفر 》 کے الفاظ نہیں ہیں۔ پھر ابن عبد البر نے اپنی سند کے ساتھ عبد اللہ بن داود الخريبي الحافظ سے نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کے واقعات بالکل جھوٹ ہیں تفصیل کے لیے الانتقاء دیکھیں۔ 

أخبرنا الحسن بن أبي بكر، أخبرنا عبد الله بن إسحاق البغوي، حدثنا الحسن بن عليل، حدثنا أحمد بن الحسين - صاحب القوهي - قال: سمعت يزيد بن زريع قال: استتيب أبو حنيفة مرتين.

اور یزید بن زریع کی عبارت کی سند میں البغوی ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔ 

أخبرنا ابن رزق والبرقاني قالا: أخبرنا محمد بن جعفر بن الهيثم الأنباري، حدثنا جعفر بن محمد بن شاكر. وأخبرنا الحسين بن الصوفي، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، حدثنا جعفر بن شاكر، حدثنا رجاء - وهو ابن السندي - قال: سمعت عبد الله بن إدريس يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. قال: وسمعت ابن إدريس يقول: كذاب من زعم أن الإيمان لا يزيد ولا ينقص.

أخبرنا القاضي أبو بكر الحيري، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى قال: استتيب أبو حنيفة مرتين.

اور عبد اللہ بن ادریس کی عبارت استنيب ابو حنيفة مرتین ہے

أخبرنا محمد بن عبد الله بن أبان الهيتي، حدثنا أحمد بن سلمان النجاد، حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: قلت لأبي: كان أبو حنيفة استتيب؟ قال: نعم.

 اور بعض طرق میں اسد بن موسیٰ ہے جو ابن حزم کے ہاں منکر الحدیث ہے اور وہ روایت جو عبد اللہ بن احمد عن ابیہ کی سند سے کی گئی ہے، اس میں احمد بن عبد اللہ بن ابنا الہیتی ہے جو علم حدیث میں بالکل کورا ہونے کے ساتھ ساتھ مغفل تھا جیسا کہ خطیب نے کہا ہے۔ اور احمد بن سلمان النجاد حنبلی ہے جس کے بارے میں دار قطنی نے کہا کہ وہ دوسروں کی کتابوں سے ایسی حدیثیں بھی بیان کرتا تھا جو اس کے اصول کے مطابق نہ ہوتی تھیں۔ اور یہ انتہا ہے ان خبروں کی جن کو خطیب نے اسناد کے ساتھ ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کے بارے میں نقل کیا ہے۔ اور ہر قسم کا گرد و غبار اکٹھا کر کے کثرت طرق لانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔ اور جو ہم نے ذکر کیا ہے، وہ یقینا ان اسانید کی کمزوریاں ظاہر کرنے میں کافی ہے۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ خلق قرآن کا نظریہ تو اس وقت ضلالت و گمراہی ہے جبکہ اس سے مراد قرآن کی وہ حیثیت لی جائے جو اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہے اور وہ کلام نفسی ہے۔ بہر حال حروف اور ان کی ادائیگی کے وقت ان کی آواز جو تلاوت کرنے والوں کی زبانوں سے نکلتی ہے اور حروف کو ملانا اور قطع کرنا اور ان کو لکھنے کی سیاہی اور مصاحف کے اوراق میں ان حروف کے جو نقوش ہیں اور وہ حروف جو حفظ کرنے والوں کے دماغوں میں مستحیل ہوتے ہیں تو وہ یقیناً مخلوق ہیں، حادث ہیں۔ اور اس کے بر عکس دعوی ضد بازی اور کھلی گمراہی ہوگی۔ نیز علم اور ذہانت میں امام ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ وہ یقینا کلام نفسی کے علاوہ دوسری حیثیت کو ہی مخلوق کہیں گے جیسا کہ ان کا مرتبہ بلند ہے اس سے کہ وہ پہلے یعنی کلام نفسی کو مخلوق کہیں۔ لیکن جاہل ناقلین کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافر قرار دینے میں لا پرواہی کرنے لگے ہیں اور آپ کو تعجب ہوگا جب آپ دیکھیں گے کہ ابن ابی حاتم جیسا آدمی کہتا ہے کہ بیشک قرآن کو مخلوق کہنے والا پکا کافر ہے، ملت سے نکل جاتا ہے۔ اس سے اس کی مراد قرآن کریم کے الفاظ ہیں کہ الفاظ کو مخلوق کہنے والا کافر ہے جیسا کہ اس کے کلام کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے اور آپ کا تعجب بڑھ جائے گا جب آپ دیکھیں گے کہ وہ امام بخاری کے بارے میں کہتا ہے کہ چونکہ وہ لفظ کو مخلوق کہتے ہیں اس لیے اس کو ابو زرعہ اور ابو حاتم نے ترک کر دیا۔ اور اللہ تعالی کی اپنی مخلوق میں مختلف خوبیاں ہیں اور کوئی تعجب نہیں کہ کسی کی بات کو جاہل ناقلین عیب کے طور پر ہی بیان کرنے لگ جائیں حالانکہ وہ بات اس کی منقبت کی ہوتی ہے۔

"امام ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کی روایت ثقہ راویوں سے"

اور یہاں ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کی ایک اور روایت ہے ، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ اس میں فوائد ہیں۔ اور یہ وہ روایت ہے جس کو ابن ابی العوام الحافظ نے الحسن بن حماد سجادہ کے واسطہ ہے ابو قطن عمرو بن الهيثم البصری سے روایت کیا ہے کہ

 ابو قطن نے کہا کہ میں نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو شعبہ رحمہ اللہ سے کہا کہ کیا آپ کوفہ میں کسی کی طرف رقعہ لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی طرف لکھنا چاہتا ہوں۔ تو میں نے کہا آپ مجھے ان دونوں کی طرف لکھ دیں تو انہوں نے لکھ دیا اور میں کوفہ چلا گیا اور میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ ابو حنیفہ اور سفیان میں زیادہ عمر والے کون ہیں تا کہ میں ان کو رقعہ پہلے پہنچاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ ابو حنیفہ عمر رسیدہ ہیں تو میں نے ان کو رقعہ دیا تو انہوں نے کہا کہ میرا بھائی ابو بسطام(امام شعبہ) کیسا تھا؟ تو میں نے کہا کہ وہ خیریت سے تھے۔ پس جب انہوں نے رقعہ پڑھا تو کہا کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تجھے بخش دی جائے گی اور جو ہمارے پاس نہیں بلکہ کسی دوسرے کے پاس ہے تو اس کے لیے ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور پھر میں سفیان ثوری کی جانب گیا تو اس کو وہ رقعہ پہنچایا تو انہوں نے بھی مجھے وہی کہا جو ابو حنیفہ نے کہا تھا۔

 پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی طرف سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ بیشک ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی تھی، کیا وہ ایسا کفر تھا جو ایمان کی ضد ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے یہ بیان کیا ہے، اس وقت سے لے کر اب تک اس مسئلے کے بارے میں تیرے سوا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا اور اپنا سر جھکا لیا پھر کہا کہ نہیں ایسا نہ تھا لیکن واصل الشاری کوفہ میں داخل ہوا تو اس کے پاس ایک جماعت آئی تو انہوں نے اس سے کہا بیشک یہاں ایک ایسا آدمی ہے جو گنہگاروں کو کافر نہیں کہتا اور ان کی مراد اس شخص سے ابو حنیفہ تھے۔ تو اس نے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے اور اس نے کہا اے شخص مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اہل معاصی (گنہگاروں) کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مذہب ہے تو اس نے کہا کہ یہ یقینا کفر ہے پس اگر تو نے توبہ کی تو ہم تیری توبہ قبول کر لیں گے اور اگر تو نے انکار کیا تو ہم تجھے قتل کر دیں گے ۔ تو انہوں نے کہا کہ میں کس بات سے توبہ کروں؟ تو اس نے کہا کہ اسی سے۔ تو انہوں نے کہا کہ میں کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر وہ چلے گئے تو منصور کے ساتھیوں کی جماعت آئی تو انہوں نے واصل کو کوفہ سے نکال دیا پھر کچھ مدت کے بعد منصور نے موقع پایا تو وہ کوفہ میں داخل ہوا تو وہی جماعت اس کے پاس آکر کہنے لگی بیشک وہ آدمی جس نے توبہ کی تھی، وہ اپنے اس سابقہ نظریے کا ہی پرچار کرتا ہے تو اس نے بلانے کے لیے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے تو اس نے کہا اے شیخ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک آپ اپنے اسی نظریہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو تمہارا پہلے تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ بیشک آپ گنہگاروں کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا وہ تو میرا مذہب ہے تو وہ کہنے لگا کہ بیشک یہ ہمارے نزدیک کفر ہے پس اگر آپ نے توبہ کر لی تو ہم تمہاری توبہ قبول کر لیں گے اور اگر آپ نے انکار کیا تو ہم تجھے قتل کر دیں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ چست و چالاک لوگ قتل نہیں کیے جاتے یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ توبہ طلب کی تو انہوں نے کہا کہ میں کس چیز سے توبہ کروں تو اس نے کہا کفر ہے۔ تو انہوں نے کہا بیشک میں کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ پس یہی وہ کفر ہے جس سے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی گئی تھی الخ۔ [1]

اور اسمیں اٹل بات ہے اس لیے کہ بیشک ابو القاسم بن ابی العوام الحافظ ہے، نسائی کا ساتھی ہے اور سجادہ اور ابو قطن سارے کے سارے ثقہ اور ثبت ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں سے حساب لے گا جو من گھڑت گمراہ کن افسانوں کے ساتھ اس امام فقیہ ملت کی شہرت کو داغدار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے سلامتی کی درخواست کرتے ہیں۔ [2]

سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔

سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی صفحہ 74،75

[2]۔ امام صاحب سے توبہ طلب کرنے کے مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے درج ذیل مضمون کافی مفید ہے۔

نوٹ : یہ مضمون "علی طحاوی الحنفی صاحب" کا تحریر کردہ ہے جو اہل حق علماء دیوبند کے مجلہ الاجماع میں بھی لکھتے رہتے ہیں۔

امام اعظم ؒ کے خلاف بہت سی روایات کذاب، حاسد اور کم فہم راویان کی مرہون منت ہیں ـ انہیں اعتراضات میں سے ایک اعتراض جسے فرقہ اہل حدیث کا صرف متعصب طبقہ پیش کرتا ہے معتدل اور اہل علم اس قسم کے اعتراضات سے دامن پاک تو رکھتے ہیں بلکہ ایسے الزامات پر اعتماد بھی نہیں کرتے؛ اس لیے یہاں مخاطب وہی طبقہ ہے جو تعصب میں انتہا کے درجے کو پہنچے ہوۓ ہیں ـ قارئین کرام کے سامنے اس مسئلے کی اصل حقیقت اور وضاحت دی جاۓ گی ـ لیکن اس سے پہلے یہ بات بھی ذھن نشین ہونی چاہیے کہ متقدمین میں اس روایت پر اعتبار یا تو لاعلمی یا پھر تعصب نظری کا نتیجہ ہے اس کے علاوہ کوئی وجہ باقی نہیں ـ شیخ محمد زاھد بن حسن کوثری ؒ نے اس مسئلے میں تاریخ بغداد کی روایات کے جواب دیے ہیں جو اہل علم کی نظر میں کافی ہیں چونکہ اُس جواب میں باقی روایات پر کلام موجود نہیں ہے اس لیے میں اس مسئلے کی تمام تر روایات کو سامنے رکھ کر اس شبھے کا جواب دینے کو ضروری سمجھتا ہوں ۔

ہم نے اس مسئلے کی تمام تر روایات کا احاطہ کیا اور ان میں سے سب سے صحیح اسناد کو ہی نقل کیا ہے جو مخالفین کے نزدیک صحیح ہوسکتی ہے اور ضعیف روایات جن کا ضعف عیاں ہے اس پر بحث نہیں کی جاۓ گی اگر ان روایات پر تحقیق درکار ہو تو شیخ کی کتاب تانیب الخطیب کی طرف مراجعت کیا جاۓ ـ

ان روایات کی تعداد تو اگرچہ زیادہ ہے اور اصحاب الحدیث سے جتنا ہوسکا انہوں نے ہر ہر سند کو محفوظ کر کے قلم بند کیا ہے تاکہ اس ضروری مسئلے کے متعلق کوئی بات باقی نا رہ جاۓ ـ چونکہ امام سفیان الثوری ؒ کی شان و جلالت اہل سنت علما میں مسلم تھی اس لیے انکا یہ واقعہ بیان کرنا ہی انکے مداحوں کے لیے سند بن گیا اور لوگوں نے اس پر ایسے ہی اعتبار کرلیا جیسے بیان ہوا اور اصحاب الحدیث میں ہی یہ بات مشہور رہی یا روایت کی جانے لگی ورنہ اصل میں اس بات کے رد کے لیے تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس قسم کی تہمت کے باوجود لوگ آپ سے فقہی مسائل بھی پوچھتے حدیث بھی سنتے اور فقہ بھی سیکھتے اس اعتبار سے امام کی مجلس میں کوئی فرق نا آیا اور نا ہی ایک بھی ایسی روایت اصحاب الحدیث لکھ سکے ہیں جس میں اتنا ہی مل جاۓ کہ کسی شاگرد ابو حنیفہ نے اٹھ کر سوال کیا ہو یا انکے کسی ساتھی نے اس واقعے کی تردید یا قبول کیا ہو یا اس حوالے سے خود امام کو کسی طرح کی بات سننی پڑی ہو الغرض یا تو یہ واقعہ عوام کے سامنے اس قدر واضح بات تھی کہ اس واقعے کی وضاحت کی ضرورت نا تھی یا پھر اس واقعے کو غلط انداز سے پیش کیا گیا جسے ان لوگوں نے قبول کیا جو اس دور میں موجود نا تھے یا جنکی تمام تر توجہ امام پر اعتراض کرنے پر تھی ـ

ہم اعتراض کی وہ روایات لکھ دیتےہیں جو معترض کے مطابق صحیح، حسن اور مقبول ہوسکتی ہیں اور وہ روایات جن میں کذاب, مجھول اور ضعیف راویان ہیں انہیں میں نے ترک کردیا ہے تاکہ مخالفین کا موقف انکے اصول کے مطابق قابل استدلال روایات سے پیش کیا جاۓـ

عبداللہ بن احمد نقل کرتے ہیں :

"حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا مُؤَمل قَالَ سَمِعت سُفْيَان الثَّوْريّ قَالَ استتيب أَبُو حنيفَة مرَّتَيْنِ"(العلل رقم ٣٥٨٧)

عبداللہ بن احمد نقل کرتے ہیں :

"حَدثنِي أبي قَالَ سَمِعت سُفْيَان بن عُيَيْنَة يَقُول استتيب أَبُو حنيفَة مرَّتَيْنِ فَقَالَ لَهُ أَبُو زيد يَعْنِي حَمَّاد بن دَلِيل رجل من أَصْحَاب سُفْيَان لِسُفْيَان فِي مَاذَا فَقَالَ سُفْيَان تكلم بِكَلَام فَرَأى أَصْحَابه أَن يستتيبوه فَتَابَ"

سفیان بن عیینہ کہتے ہیں" ابو حنیفہ سے دو مرتبہ توبہ کروائی گی ابوزید رح یعنی حماد بن دلیل جوکہ سفیان رح کے ساتھیوں میں سے تھا اس نے سفیان رح سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ دراصل انہوں نے ایک بات ایسی کی کہ جس پر اس کے ساتھیوں نے اس سے توبہ کی درخواست کی آپ توبہ کریں اس سے چنانچہ انہوں نے توبہ کی۔"(العلل برقم:٣٥٨٨)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بقول سفیان ثوری ؒ کے امام ابو حنیفہ کے ہی أصحاب نے ان سے توبہ طلب کی اور روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتراماً گزارش تھی ناکہ کسی قاضی کا حکم یہ الگ سوال ہے کہ سفیانؒ تک یہ بات کس سند سے پہنچی ہے ـ مزید امام سفیان سے سوال کرنے والے حماد بن دلیل تو خود أصحاب ابی حنیفہ میں سے تھے اور وہی اس واقعے سے بے خبر ہیں!! انکے متعلق خطیب بغدادی کہتے ہیں :

وَكَانَ قد أخذ الفقه عَنْ أَبِي حنيفة (تاریخ بغداد وزیلویه ط العلمية ج ٨ ص ١٤٦)

حماد بن دلیل جو کہ حنفی طبقات میں شمار کیے جاتے ہیں اور امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد بھی ہیں وہ بھی امام کے متعلق ایسے کلام کو نہیں جانتے جس کا تزکرہ سفیان ثوری سے ملتا ہےـ

عبداللہ بن احمد نقل کرتے ہیں :

"حدثني أبو الفضل الخراساني، نا سلمة بن شبيب، نا الفريابي، سمعت سفيان الثوري، يقول: استتيب أبو حنيفة من كلام الزنادقة مرارا"

زندقہ کے کلام سے ابو حنیفہ سے کئی دفعہ توبہ کرائی گئی(السنة رقم ٢٦٩)

یہاں سفیان سے بیان بدل گیا ہے پہلے کی روایتوں میں امام سفیان نے دو مرتبہ کا ذکر کیا ہے جب کہ یہاں کئی مرتبہ کا ذکر ہوا ہے ۔

"حدثني أبو عقيل يحيى بن حبيب بن إسماعيل بن عبد الله بن حبيب بن أبي ثابت، ثنا غالب بن فوائد ثنا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ :"رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يُطَافُ بِهِ عَلَى حِلَقِ الْمَسْجِدِ يُسْتَتَابُ أَوْ قَدِ اسْتُتِيبَ"

شریک بن عبداللہ کہتے ہیں :"میں نے ابو حنیفہ کو دیکھا اسے مسجد کے حلقوں پر گشت کرا کر توبہ کرائی جارہی تھی ـ"(السنة رقم ٣٢٧)

عبداللہ بن احمد کہتے ہیں:

حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن سعيد القطان حدثنا يحيى بن آدم حدثنا شريك وحسن بن صالح أنهما شهدا أبا حنيفة وقد استتيب من الزندقة مرتين

شریک اور حسن بن صالح نے بیان کیا کہ" ہم نے ابو حنیفہ کو دیکھا کہ ابو حنیفہ سے کفریہ بات سے توبہ کرائی گئی ـ"(السنة رقم ٣٣٧)

ان تمام روایات میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ آخر ایسی کونسی بات تھی جس سے توبہ کروائی گئی چنانچہ آگے کے اقوالات میں یہ بات واضح کردی جاۓ گی آخر کونسا ایسا مسئلہ تھا جس سے امام صاحب سے گزارش کی گئی انکے اصحاب کی طرف سے بقول سفیان ثوری کے ـ

امام ابن عبدالبر کہتے ہیں

وَذَكَرَ السَّاجِيُّ فِي كِتَابِ الْعِلَلِ لَهُ فى بَاب أَبى حنيفَة أَنه استتيب فى خَلْقِ الْقُرْآنِ فَتَابَ وَالسَّاجِيُّ مِمَّنْ كَانَ يُنَافِسُ أَصْحَابَ أَبِي حَنِيفَةَ" (الانتقاء ص١٥٠)

ساجی نے اپنی کتاب العلل میں باب ابی حنیفہ میں ذکر کیا ہے کہ ابو حنیفہ سے خلق قرآن کے مسئلے میں توبہ کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے توبہ کرلی اور ساجی ان لوگوں میں سے تھا جو ابو حنیفہ کے اصحاب کے ساتھ مقابلہ کرتے تھےـ

ساجی کے تحت وہ مسئلہ جس سے امام صاحب سے رجوع کرایا گیا وہ خلق قرآن کا ہے جسے سفیان اور شریک نے کفر کہا ہے ـ

اسی طرح امام احمد سے بھی انکے بیٹے نقل کرتے ہیں

"استتابوه أظن في هذه الآية: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} قال: هو مخلوق."

"ان کو توبہ کرائی گئ میرے خیال میں اس آیت کے متعلق تھی< سبحن ربک رب العزة عما یصفون >

اس پر انہوں نے کہا کہ یہ مخلوق ہےـ" (العلل ج٢ص٥٤٦)

ابن جوزي کہتے ہیں

"أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن علي الحافظ قَالَ:المشهور عَنْ أبي حنيفة أنه كَانَ يَقُول بخلق القرآن ثُمَّ استتيب منه. "

احمد بن علی الحافظ کہتے ہیں" ابو حنیفہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ خلق قرآن کے قائل تھے مگر ان سے رجوع کرایا گیاـ" (المنتظم ج ٨ ص١٣٣)

  أن تمام تر اقوالات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امام صاحب سے توبہ کرائی گئی خلق قرآن کے مسئلے میں اور امام سفیان کے بیان کے مطابق یہ توبہ انکے اصحاب نے دو مرتبہ طلب كی اور ایک روایت کے مطابق کئی دفعہ ـ

الجواب

⚪امام سفیان نے اپنا ماخذ ان تمام تر روایات میں بیان نہیں کیا انکا یہ دعوہ تھا جو سند کا محتاج ہے ایک روایت میں اسکا اگرچہ ذکر ہے

امام ابن شاھین نقل کرتے ہیں

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: نا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: نا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: نا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ كَثِيرٍ، يَقُولُ: " اسْتُتِيبَ أَبُو حَنِيفَةَ مَرَّتَيْنِ. "

عباد بن کثیر کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کرائی گئی(شرح أصول اعتقاد أھل السنة والجماعة رقم ١٨٣٠)

سفیانؒ نے یہ روایت عباد بن کثیر سے سنی تھی اور عباد بن کثیر مشہور ضعیف راوی ہیں ـ


⚪امام سفیان ثوری امام ابو حنیفہ سے سخت تعصب بھی رکھتے تھے اور انکے تعصب کی کیا انتہا تھی آئیے زرہ دیکھیے

عبداللہ بن احمد کہتے ہیں

"حدثني أبي ثنا شعيب بن حرب قال سمعت سفيان الثوري يقول: ما أحب أن أوافقهم على الحق... "

شعیب بن حرب کہتے ہیں کہ:" سفیان ثوری کو کہتے ہوے سنا کہ مجھے یہ بات بھی پسند نہیں کہ میں حق بات پر بھی ان سے موافقت کروں ـ"(السنةج١ص١٩٢)

یعنی امام سفیان حق بات میں بھی امام ابو حنیفہ کی موافقت کرنا پسند نہیں کرتے تھے استغفراللہ!! اگر یہ ثابت ہے تو تعصب کس شے کا نام ہے؟ یا اس قسم کی روایات آئمہ دین کی طرف منسوب کردی گئیں تو وہ اس سے پاک ہیں چونکہ اس کے برعکس ایسے بھی اقوالات بسند حسن و صحیح ملتے ہیں جن میں امام سفیانؒ نے امام ابو حنیفہ کی طرف فقہی مسائل میں رجوع کیا واللہ اعلم ۔

امام ابن عدی نقل کرتے ہیں:

" وحدثنا محمد بن القاسم سمعت الخليل بن خالد يعرف بأبي هند يقول: سمعت عبد الصمد بن حسان يقول كان بين سفيان الثوري وأبي حنيفة شيء فكان أبو حنيفة اكفهما لسانا."

عبدالصمد بن حسان کہتے ہیں" سفیان ثوری اور ابو حنیفہ کے درمیان ناراضگی تھی اور ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو کرنے والے تھےـ"

(الکامل ج ٨ ص ٢٣٦)

اس دلیل سے واضح ہوتا ہے کہ سفیان ثوری امام کے متعلق کس قدر متعصب تھے اور انکے متعلق ایسے ایسے الفاظ کہے جنکو اہل سنت نے قبول نہیں کیا ہے اور یکسر مسترد کردیا آپکے ایک سے زائد اعتدال سے گِرے اقوال ہیں جیسا کہ امام کو منحوس کہنا جو فرمان نبی اکرم ؐ کے بھی خلاف ہے اس کے علاوہ بھی اقوالات ہیں جنکا ذکر ضروری نہیں اس لیے آپکی روایت امام ابو حنیفہ کے متعلق معتبر نہیں ہے اور نا ہی قابل اعتبار جس میں ذم مروی ہو ـ امام سفیان کے مقابلے میں امام ابو حنیفہ ؒ سے ایک بھی ایسا کلمہ نہیں دکھایا جاسکتا جو توہین آمیز ہو بلکہ امام سے اس قدر اختلاف کے باوجود حق پر مبنی قول مروی ہے سفیان ثوری کے متعلق ـ

ابن عدی کہتے ہیں :

"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الحميد الحماني سمعت أبا سعد الصاغاني يقول جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال ما ترى في الأخذ عن الثوري فقال اكتب عنه ما خلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي وحديث جابر الجعفي."

ایک شخص ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا ثوری سے روایت لینے کے بارے میں آپکی کیا راۓ ہے ابو حنیفہ نے کہا :"کہ ان سے روایت لکھ سکتے ہو سوائے حدیث ابی اسحاق عن حارث عن علی اور جابر جعفی کی روایت سےـ" (الكامل ابن عدي ج٢ ص ٣٢٨)

علما میں آثار کے باعث اختلاف ہے کہ امام سفیان مدح کرنے والوں میں شمار ہیں یا نہیں لیکن میری تحقیق میں امام سفیان معترضین میں شمار ہیں اگر قوی دلائل اس طرف ہوں کہ ان سے توثیق ثابت ہے تو میں اپنی رائے سے بالضرور رجوع کروں گاـ

⚪سفیان ثوری کی روایت عقل اور شواہد کے بھی خلاف ہے اور امام خلق قرآن کے مسئلے میں اہل سنت کی ہی راۓ رکھتے ہیں ـ امام کے شاگردوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے یہ گواہی دی ہو کہ امام خلق قرآن کے قائل تھے، بلکہ امام کے ثقہ اصحاب سے تو اس بات کی نفی ملتی ہے تو پھر یہی اصحاب امام سے قرآن کے مسئلے میں کیسے توبہ لے سکتے ہیں؟

امام ابو بکر احمد بن حسین البیھقی کہتے ہیں :

"وقرأت في كتاب أبي عبد الله محمد بن محمد بن يوسف بن إبراهيم الدقاق بروايته عن القاسم بن أبي صالح الهمذاني , عن محمد بن أيوب الرازي , قال: سمعت محمد بن سابق , يقول: سألت أبا يوسف , فقلت: أكان أبو حنيفة يقول القرآن مخلوق؟ , قال: معاذ الله , ولا أنا أقوله , فقلت: أكان يرى رأي جهم؟ فقال: معاذ الله ولا أنا أقوله " رواته ثقات.

محمد بن سعید بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا :

" کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے تھے؟ انہوں نے کہا : اللہ کی پناہ! میں بھی ایسا نہیں کہتا ، کیا وہ جھم والے خیالات رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا اللہ کی پناہ! میں بھی ایسا نہیں کہتا ـ" (الأسماء والصفات ج ١ ص ٢١١ رقم ٥٥٠ اسناده صحيح)

اسی طرح امام کے دیگر اصحاب کی بھی یہی گواہی ہے،چنانچہ خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں :

" وقال النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء شانوا أصحاب أبي حنيفة."

" محمد بن شاذان جوہری کہتے ہیں میں نے ابو سلیمان الجوزجانی(ثقہ امام) اور معلی بن منصور رازی(ثقہ فقیہ) کو کہتے ہوۓ سنا کہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر نے قرآن کے بارے میں لب کشائی نہیں کی بشیر مریسی اور ابن ابی داؤد نے اس بارے میں لب کشائی(قرآن کو مخلوق کہنا) کی اور امام ابوحنیفہ اور انکے اصحاب کی شان کو مجروح کیاـ"(تاریخ بغداد الذیلویه ط العلمیة ج ١٣ ص ٣٧٤ وسندہ صحیح)

امام ابو سلیمان الجوزجانی الحنفی اور امام معلی بن منصور دونوں شاگرد امام ابو یوسفؒ و امام محمد بن الحسنؒ ہیں دونوں نے اس معاملے میں امام کی طرف نسبت کا انکار کیا ہے جو دلیل ہے کہ امام سے خلق قرآن کے مسئلے میں ایسا کچھ بھی مروی نہیں جو قابل گرفت ہو بلکہ امام ابو سلیمان الجوزجانی کے متعلق ابن ابی حاتم نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ خلق قرآن کے قائل کی تکفیر کرتے تھے ـ

امام سفیان کی طرف یہ روایت گھڑی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے اصحاب نے ان سے توبہ طلب کی تھی چونکہ امام کے اصحاب تو اس بات کی نفی کررہے ہیں تو وہ کیسے توبہ کرا سکتے ہیں؟ یا پھر یہ سبقت لسان کا نتیجہ ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راوی نے فھمًا بیان کردیا ہو چونکہ اس روایت کی متابعت نہیں ملتی کہ امام کے شاگردوں نے توبہ طلب کی اس اعتبار سے یہ روایت کا متن مضطرب ہے اور اب اس اضطراب کو دور کرنا متعصبین کے ذمے ہے ـ

⚪امام احمدؒ سے عبداللہ بن احمد نے نقل کیا ہے

"استتابوه أظن في هذه الآية: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} قال: هو مخلوق."

"ان کو توبہ کرائی گئ میرے خیال میں اس آیت کے متعلق تھی< سبحن ربک رب العزة عما یصفون >

اس پر انہوں نے کہا کہ یہ مخلوق ہےـ" (العلل ج٢ص٥٤٦)

یہ بات تو پہلے بیان کردی گئی ہے کہ امام خلق قرآن کے مسئلے میں اہل سنت کی راۓ رکھتے تھے اس پر تفصیلی کلام بھی کیا جاسکتا تھا لیکن ہم نے موضوع کی مناسبت سے دو روایات پر اکتفاء کیا ہے لیکن یہاں یہ اثر بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امام احمد کے اقوال میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے انکے بیٹے إرجاء کا قول نقل کرتے ہیں جب کہ امام احمد سے ارجاء کی قطعی نفی ذکر کی گئی ہے ـ چونکہ یہ روایت منقطع ہے اس لیے اس کا جواب دینا ضروری بھی نہیں ہے ـ

خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں :

"قال النخعي: حدثنا أبو بكر المروذي قال: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول القرآن مخلوق."( تاریخ بغداد وذيلوية ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤ واسنادہ صحیح)

اس روایت سے تین باتیں ممکن ہوسکتی ہیں: -

⏺️امام احمد کی طرف کسی ایک راوی نے غلط نسبت کی ہے ـ

⏺️امام احمد کا پہلے کا قول تحقیق پر مبنی نہیں تھا بعد میں آپ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ـ

⏺️اگر امام پر إرجاء کی تہمت ہی نہیں تھی تو پھر رجوع کس مسئلے سے کرایا گیا؟

یہ یاد رکھا جاۓ کہ بسند یہ بات ثابت نہیں ہے کہ امام سے توبہ إرجاء کے مسئلے میں کرائی گئی تھی یہ راۓ ان متقدمین و متاخرین (ساجی وغیرہ) سے ملتی ہے جو اس موقعہ پر موجود نہیں تھے ـ سنداً جو راۓ ملتی ہے وہ یہی ہے کہ خوارج نے امام کے مسئلے سے اختلاف کیا تھا جس کا تعلق خلق قرآن کے مسئلے سے نہیں ہےـ

⚪دوسرے راوی قاضی شریک بن عبداللہ النخعی ہیں جن سے یہاں تک روایات گھڑی گئی ہیں کہ توبہ انہوں نے ہی طلب کی تھی خیر شریک بھی امام ابو حنیفہ کے تعلق سے زبان قابو میں نہیں رکھتے تھے اس لیے انکی روایت بھی اس قابل نہیں کہ اس سے احتجاج کیا جاۓـ اور روایت کو ایسے ہی تسلیم کرلیا جاۓ تو اس کا جواب آگے آرہا ہےـ

⚪اسی روایت کی دوسری حقیقت بھی ہے جو قرین قیاس اور دلائل کے موافق ہے اور اصل واقعے کی صحیح تشریح ہے

محدث عبدالقادر القرشیؒ کہتے ہیں :

"وَقَالَ أَبُو الْفضل الْكرْمَانِي لما دخل الْخَوَارِج الْكُوفَة ورأيهم تَكْفِير كل من أذْنب وتكفير كل من لم يكفر قيل لَهُم هَذَا شيخ هَؤُلَاءِ فَأخذُوا الإِمَام وَقَالُوا تب من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَقيل لَهُم أَنه قَالَ أَنا تائب من كفركم فَأَخَذُوهُ فَقَالَ لَهُم أبعلم قُلْتُمْ أم بِظَنّ قَالُوا بِظَنّ قَالَ إِن بعض الظَّن إِثْم وَالْإِثْم ذَنْب فتوبوا من الْكفْر قَالُوا تب أَيْضا من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَهَذَا الذى قَالَه الْخُصُوم أَن الإِمَام استتيب من الْكفْر فى طَرِيق الْحجاز... "

ابو الفضل کرمانی نے کہا :" جب خوارج کوفہ میں داخل ہوئے تو تو انکی رائے تھی کہ ہر گناہ گار کو کافر قرار دینا اور اور ہر اس شخص کی تکفیر جو کسی اور جو کافر نہ کہے أن سے کہا گیا کہ یہ سب کا استاد ہے(ابو حنیفہ) تو انہوں نے امام کو پکڑ لیا اور کہا کفر سے توبہ کرو تو امام ابو حنیفہ نے کہا :کہ میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں تو پھر خوارج سے کسی نے کہا ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں تمہارے کفر سے توبہ کرتا تو خوارج نے امام کو پکڑ لیا تو امام نے کہا کہ ایسا تم نے کسی یقین کی بنیاد پر کہا ہے یا پھر ظن کی بنیاد پر تو وہ کہنے لگے کہ ظن کی بنیاد پر امام نے کہا کہ: ان بعض الظن إثم (بعض گمان گناہ ہیں) اور إثم گناہ ہے پس تم کفر سے توبہ کرو، پھر وہ خوارج أمام سے کہنے لگے کہ: کفر سے توبہ تم بھی توبہ کرو تو امام نے کہا کہ کہ میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں یہ وہ بات جس کو خصم یعنی مخالف ذکر کیا ہے کہ امام نے حجاز کے راستے میں توبہ کی... "(الجواھر المضیة في طبقات الحنفية ج ١ ص٤٨٧، ٤٨٨)

اس واقعے سے ملتی جلتی بات امام سفیان ثوری سے بھی مروی ہے جو ان تمام تر روایات کا اصل اور تسلی بخش جواب ہے ـ

امام ابن ابی العوامؒ نقل کرتے ہیں

"وجدت في كتابي من حديث الحسن بن حماد سجادة، وقد حدثت به عنه قال: ثنا أبو قطن عمرو بن الهيثم قال: أردت الخروج إلى الكوفة فقلت لشعبة: من تكاتب بالكوفة؟ قال: أبو حنيفة وسفيان الثوري، فقلت: أكتب لي إليهما، فكتب، وصرت إلى الكوفة، فسألت عن أسن الرجلين؟ فقيل: أبو حنيفة، فدفعت إليه الكتاب، فقال: كيف أخي أبو بسطام؟ قلت بخير، فلما قرأ الكتاب قال: ما عندنا فلك مبذول، وما عند غيرنا فاستعن بنا نعينك، ومضيت إلى الثوري فدفعت إليه كتابه، فقال لي مثل ما قال أبو حنيفة، فقلت له، شيء يروى عنك تقول: إن أبا حنيفة استتيب من الكفر مرتين، أهو الكفر الذي هو ضد الإيمان؟ فقال: ما سألني عن هذه المسألة أحد غيرك منذ كلمت بها، وطأطأ رأسه ثم قال: لا، ولكن دخل واصل الشاري إلى الكوفة فجاء إليه جماعة فقالوا له: إن هاهنا رجلاً لا يكفر أهل المعاصي يعنون أبا حنيفة، فبعث فأحضره وقال: يا شيخ بلغني أنك لا تكفر أهل المعاصي؟ قال: هو مذهبي، قال: إن هذا كفر، فإن تبت قبلناك وإن أبيت قتلناك، قال: مم أتوب؟ قال: من هذا، قال: أنا تائب من الكفر، ثم خرج، فجاءت جماعة من أصحاب المنصور فأخرجت واصلاً عن الكوفة، فلما كان بعد مدة وجد من المنصور خلوة فدخلها، فجاءت تلك الجماعة فقالت: إن الرجل الذي كان تاب قد راجع قوله، فبعث فأحضره فقال: يا شيخ بلغني أنك راجعت ما كنت تقول، فقال: وما هو؟ فقال: إنك لا تكفر أهل المعاصي، فقال: هو مذهبي، قال: فإن هذا عندنا كفر، فإن تبت منه قبلناك وإن أبيت قتلناك، قال: والشراة لا يقتلون حتى يستتاب ثلاث مرات، فقال: مم أتوب؟ قال: من الكفر، قال: فإني تائب من الكفر، قال: فهذا هو الكفر الذي استتيب منه."

ابو قطن نے کہا کہ "میں نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو شعبہ رح سے کہا آپ کوفہ میں کسی کی طرف رقعہ لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا ابوحنیفہ رح اور سفیان ثوریؒ کی طرف لکھنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا آپ مجھے ان دونوں کی طرف لکھ دیں، تو انہوں نے لکھ دیا اور میں کوفہ چلا گیا اور میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ سے زیادہ عمر والے کون ہیں تاکہ میں انکو رقعہ پہلے پہنچاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒ عمر رسیدہ ہیں تو میں اں کو رقعہ دیا انہوں نے کہا میرا بھائی ابو بسطام کیسا تھا؟ تو میں نے کہا :وہ خیریت سے تھے پس جب انہوں نے رقعہ پڑھا تو کہا: کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تجھے بخش دی اور جو ہمارے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہے تو اس کے لیے ہم مدد کریں گے۔ اور پھر میں سفیان ثوری رحمہ کی جانب گیا تو ان کو وہ رقعہ پہنچایا تو انہوں نے بھی مجھے وہی کہا جو ابوحنیفہ نے کہا تھا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی طرف سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں بیشک ابوحنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئ تھی؟ کیا وہ ایسا کفر تھا جو ایمان کی ضد ہے ؟ تو انہوں نے کہا :جب سے میں نے یہ بیان کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک اس مسلے کے بارے میں تمہارے سوا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا اور اپنا سر جھکا لیا پھر کہا: کہ نہین ایسا نہین تھا۔ لیکن واصل البخاری کوفہ میں داخل ہوا تو اس کے پاس ایک جماعت آئی تو انہوں نے اس سے کہا بیشک یہاں ایک ایسا آدمی جو گنہگاروں کو کافر نہیں کہتا اور ان کی مراد اس شخص سے ابو حنیفہ تھے ۔ تو اس نے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے اور اس کی کہا: اے شخص مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اہل معاصی(گناہ گار) کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مذہب ہے تو اس نے کہا یقیناً کفر ہے پس اگر تو نے توبہ کرلی تو ہم تیری توبہ قبول کرلیں گے۔ اور اگر تو نے انکار کیا توہم تجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا: کس بات سے توبہ کروں؟ تو اس نے کہا: اسی سے، تو انہوں نے کہا: میں کفر سے توبہ کرتا ہوں پھر وہ چلے گئے تو منصور کے ساتھیوں کی جماعت آئی تو انہوں نے واصل کو کوفہ سے نکال دیا پھر کچھ مدت کے بعد منصور نے موقع پایا تو وہ کوفہ میں داخل ہوا تو وہی جماعت اس کے پاس آکر کہنے لگی بیشک وہ آدمی جس نے توبہ کی تھی اپنے سابقہ نظریے کا پرچار کرتا ہے تو اس نے بلانے کے لیے پیغام بھیجا تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو اس نے کہا :اے شیخ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک آپ اپنے اسی نظریہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو پہلے تھا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا بے شک آپ گناہ گاروں کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا: وہ تو میرا مذہب ہے، تو انہوں نے کہا :بے ہمارے نزدیک کفر ہے پس اگر آپ نے توبہ کرلی تو ہم تمھاری قبول کرلیں گے اگر آپ آنے انکار کیا تو ہم تجھے قتل کردیں گے۔ تو انہوں نے کہا :چست و چالاک لوگ قتل نہیں کیے جاتے یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ توبہ طلب کی تو انہوں نے کہا: میں کس چیز سے توبہ کروں تو اس نے کہا: کفر سے تو انہوں نے کہا کہ بیشک کفر سے توبہ کرتا ہوں پس یہی وہ کفر ہے جس سے ابو حنیفہؒ سے توبہ طلب کی گئ تھی۔" (فضائل أبي حنيفة وأخبار ص ٧٤،٧٥ رقم ٨٤ اسناده صحيح)

اس سند کے تمام راہ ثقہ و صدوق ہیں ۔

اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام سے جس کفر کی توبہ کرائی گئی تھی دراصل وہ قابلِ اعتراض بات نا تھی جسے صرف تعصب کی بنا پر پھیلایا گیا ـ اور یہ ہی روایت ان تمام تر اعتراض کا شافی جواب ہے ـ اگر توبہ کی وجہ کوئی اور ہے تو اس دعوے پر صریح دلائل پیش کرنا ہوں گے نہیں تو یہ تمام تر روایات کسی کام کی نہیں جب تک کہ مدعی اپنے دلائل میں صراحت نا دکھا دے تاکہ مذکورہ قول کو رد کیا جاتا ہے ـ مزید اتنی بڑی تہمت کے لیے ثقہ رواہ کی ایک جماعت کی گواہی درکار ھے نا کہ مبھم باتیں کہ" ہم نے دیکھا " اور بات مکمل بیان نا ہوئی کہ کیا وجہ تھی اور کون کروارہا تھا یہ تمام باتوں کو خیال میں رکھ کر ہمارے مضمون کا رد لکھا جائے ۔



امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ

ائمہ کرام کے باہمی اختلافات اور جروحات کا موضوع ہمیشہ علمی دنیا میں دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ ان میں ایک مشہور معاملہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جانب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح ہے، جو اکثر اہلحدیث غیر مقلدین کے ہاں دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہاں ہم اس مسئلے کا علمی، تحقیقی اور منصفانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔

 حصہ اول

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات 

دونوں ائمہ کا علمی مقام و مرتبہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہم عصر تھے اور کوفہ کے رہنے والے تھے۔ دونوں علم حدیث اور فقہ میں امامت کے درجے پر فائز تھے۔ فقہ ثوری اور فقہ حنفی میں بھی کثیر مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ "امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" نامی رسالے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، دونوں فقہاء کے درمیان صرف چند فروعی مسائل میں اختلاف تھا۔ مثلاً، امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے صرف 15 مسائل میں اختلاف کیا تھا۔حوالہ: طبقات المحدثين بأصبهان 218/2، تمام رواة ثقہ ہیں۔

معاصرانہ چشمک یا علمی اختلاف؟

کتب تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی قول نہیں ملتا جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہو۔ یہ امام اعظم رحمہ اللہ کے تقویٰ کا مظہر ہے۔ البتہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جانب سے امام صاحب پر سخت جملے اور جرح کی گئی، جو اکثر غیر مفسر ہوتی تھی۔

1. ادھوری روایتِ توبہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان کیا گیا۔(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) یہ بالکل اس آدھی آیت کو بیان کرنے کی طرح ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ" (اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ)  اگر اس آیت کا بقیہ حصہ نہ بتایا جائے: "وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی..." (جب تم نشے میں ہو)، تو یہ گمراہی پھیلانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح امام ثوری رحمہ اللہ کا ادھورا بیان بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنا۔

2. مخالفت برائے مخالفت

 محدث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ما أحب أن أوافقهم على الحق - يعني أبا حنيفة" ترجمہ: ’’میں نہیں چاہتا کہ حق بات میں بھی ابو حنیفہ کی موافقت کروں۔‘‘ «العلل» رواية المروزي وغيره (ص١٧٢):

یہ جملہ تعصب کی شدت کی واضح دلیل ہے۔ ایسے شخص کی جرح کو غیر جانبدار تصور کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، اسی لئے ائمہ جرح و تعدیل جیسے امام ذہبی، ابن حجر، امام مزی وغیرہ نے اس جرح کو اہمیت نہیں دی۔

3. کوئی معقول اعتراض نہ پیش کرنا

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔ سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے اور یہ الفاظ کہے: "نسلم ما سمعنا، ونكل ما لا نعلم إلى عالمه، ونتهم رأينا لرأيهم" (ہم جو سنیں اسے قبول کرتے ہیں، جو نہ جانیں اسے عالم کے سپرد کرتے ہیں، اور اپنی رائے کو ان کی رائے کے مقابلے میں کمتر سمجھتے ہیں) حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

نتیجہ:

  • امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درمیان اختلافات معاصرانہ تھے، جن کی بنیاد بعض اوقات ذاتی رجحانات اور تعصبات پر مبنی تھی۔

  • امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی اصول واضح، مبنی بر دلیل اور کتاب و سنت کے مطابق تھے جنہیں امام سفیان بھی رد نہ کر سکے۔

  • امام ثوری کی بعض جروحات، بالخصوص وہ جو تعصب پر مبنی تھیں، اہل علم کے ہاں ناقابل اعتبار قرار پائیں۔

  • امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے محدثین اور فقہاء نے کیا ہے، ان پر تنقید کرنے والے آج بھی ادھوری باتوں کو بنیاد بناتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ہمیں ان جیسے علم و عمل والے بنائے، اور فتنہ انگیز لوگوں سے امت کو محفوظ رکھے۔ آمین۔




                                                                                    حصہ دوم 

امامِ اعظمؒ کا اخلاقی وقار: ایک معاصر ناقد کے تناظر میں

دونوں جلیل القدر فقہاء ایک ہی دور کے عظیم علماء تھے، اور ان کی فقہی آراء میں بھی بہت سی مماثلتیں موجود تھیں۔ چونکہ وہ ایک ہی زمانے میں تھے، اس لیے معاصرانہ اختلافات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ مگر اس اختلاف میں بھی ہمیں دونوں کے مزاج اور کردار کا فرق نمایاں نظر آتا ہے۔
 امام سفیان ثوریؒ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں:
1. امام سفیان ثوریؒ کا ایک قول نقل ہوا ہے:
 "مجھے حق بات میں بھی ابو حنیفہ کا ساتھ دینا پسند نہیں۔" 
(العلل، روایت مروزی  ص: 172)
2. جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ   (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہادامام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔ سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔  
(تاریخ بغداد 15/504، الانتقاء، ص 144، مترجم ص 347)
3. امام سفیانؒ کبھی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کفر سے توبہ کی ادھوری روایت سناتے تھے۔ جب ان سے تحقیق کی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعہ ادھورا تھا، اور وضاحت کی کہ امام ابو حنیفہؒ کی توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔
4. امام سفیان ثوریؒ، امام ابو حنیفہؒ سے حدیث روایت بھی کرتے تھے، ان ہی احادیث پر اپنے فقہی نظریات بھی قائم کرتے، اور کبھی انہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض بھی کرتے۔

یہ سب اقوال اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام سفیانؒ کا اعتراض بسا اوقات ذاتی یا معاصرانہ اثر کا نتیجہ تھا، کیونکہ وہ علمی بنیاد پر اعتراضات سے اکثر قاصر نظر آتے ہیں۔

امام ابو حنیفہؒ کا رویہ امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں:
1. امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
 "اگر سفیان ثوری، امام ابراہیم  نخعی کے زمانے میں بھی ہوتے، تو لوگ سفیان کی بیان کردہ احادیث کی ضرورت محسوس کرتے۔" 
(تاریخ بغداد 9/169)
2. آپؒ مزید فرماتے ہیں:
> "اگر سفیان ثوری کا انتقال امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں ہو جاتا تو لوگ ان کی وفات پر رنجیدہ ہوتے۔"  
(تاریخ بغداد 9/169)
یہ اقوال امام ابو حنیفہؒ کی عاجزی اور وسعتِ قلبی کی علامت ہیں۔ انہوں نے امام سفیان ثوریؒ کو عراق کے عظیم فقہاء میں شمار کیا، بلکہ ان کی علمی حیثیت کو ابراہیم نخعیؒ جیسے امام کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بلند قرار دیا۔
3. جب کسی نے امام ابو حنیفہؒ سے امام سفیانؒ سے روایت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
> "ان سے روایت لی جا سکتی ہے، سوائے ان احادیث کے جو ابو اسحاق عن حارث عن علی یا جابر جعفی کی سند سے ہوں۔"
(الکامل، ابن عدی، ج2، ص328)
4. عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:
> "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"  
(الکامل، ج8، ص236)

🌟 اختتامی نوٹ — امام ابو حنیفہؒ: علم و حلم کا آفتاب
ان روایات سے جو نکتہ چمکتا ہوا اُبھر کر سامنے آتا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ کی اخلاقی عظمت، علمی وقار اور قلبی وسعت ہے۔ جہاں امام سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر عالم، معاصرانہ رقابت یا جذباتی کیفیت میں امام ابو حنیفہؒ پر بلاوجہ کلام کر گئے، وہاں امام ابو حنیفہؒ نے خندہ پیشانی، بلند نظری، اور سچے اہلِ علم کی شان کے ساتھ ان کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھا۔
یہی وہ وصف ہے جو درختِ علم کو تناور اور سایہ دار بناتا ہے—کہ وہ صرف پھل دیتا ہے، کانٹے نہیں چبھوتا۔ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت ایک ایسے چاند کی مانند ہے، جس پر تیر برسے، تب بھی وہ اپنی روشنی دنیا کو دینا نہیں چھوڑتا۔
انہوں نے تنقید کا جواب تنقیص سے نہیں، بلکہ تعظیم و تحسین کے موتی نچھاور کر کے دیا۔ ایک ایسے امام کی یہ شان تھی، جو اگر چاہتا تو زبان سے طوفان برپا کر دیتا، مگر اُس نے صبر و حلم کی لہروں میں اپنے دل کی کشتی کو تھامے رکھا۔ امام سفیان ثوریؒ پر تنقید کے مواقع موجود تھے، مگر امام ابو حنیفہؒ نے اپنے لبوں کو محبت کی مہر سے بند رکھا—اور یہی بزرگی کی دلیل ہے۔
یہی وہ خوبی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کو "امامِ اعظم" بناتی ہے۔ وہ نہ صرف فقہ کے میدان کے شہسوار تھے، بلکہ اخلاق، بردباری، حسنِ نیت، اور حُسنِ ظن کے اعلیٰ ترین نمونہ بھی تھے۔
ان کی ذات ہمیں سکھاتی ہے کہ علم بغیر حلم، خالی ہتھیار ہے—مگر جب علم، حلم، تواضع، صبر، وسعتِ قلب اور اخلاق سے جُڑ جائے، تو وہ شخصیت "ابو حنیفہؒ" کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی امام ابو حنیفہؒ کی طرح نرم گفتار، عالی ظرف، اور اہلِ حق کی توقیر کرنے والا بنائے۔ آمین۔


حصہ سوم


امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت

اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ

تمہید

تاریخی روایات اور معتبر اسناد سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں عمومی رویہ بظاہر سخت اور معترضانہ تھا۔ مگر جب بھی ان سے کسی شاگرد نے براہِ راست سوال کیا — جیسے کہ عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن ضریس یا امام ابو قطن نے — تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ تو کسی علمی خطا یا شرعی غلطی کی طرف اشارہ کر سکے، اور نہ ہی امام ابو حنیفہ پر اپنے اعتراض کی کوئی معقول دلیل پیش کر سکے۔ بلکہ ہر موقع پر: وہ خاموش ہو جاتے، ندامت کا اظہار کرتے، سر جھکا لیتے، نظریں نیچی کر لیتے، اور آخرکار امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، تقویٰ، اور دیانت کا برملا اعتراف کرتے۔

1. عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری کا مکالمہ

عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.

(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ،  الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)


عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)


2. یحییٰ بن ضریس اور سفیان ثوری کا مکالمہ

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے 

حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

جب یحییٰ بن ضریس رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی وجہ دریافت کی، تو امام ثوری کوئی معقول جواب پیش نہ کر سکے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہ کے خلاف کوئی مضبوط علمی دلیل موجود نہ تھی۔


3. امام ابو قطن اور سفیان ثوری کا واقعہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان یعنی جب تک ان سے پوچھا نہ گیا تو وہ ادھوری روایت بیان کرتے تھے کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ کی جس کو بڑے بڑے محدثین جیسے ابن عیینہ ، احمد بن حنبل نے بھی جوں کا توں بیان کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ، بڑے بڑے محدثین نے پوری روایت جاننے کی کوشش تک نہ کی ، لیکن جب امام شعبہ کے شاگرد امام ابو قطن نے ہمت کر کے سفیان ثوری سے پورا واقعہ پوچھا تو سفیان ثوری پہلے نادم ہوئے ، جھوٹ تو بول نہ سکتے تھے اس لئے سچائی بتائی کہ وہ توبہ کفر سے تھی ہی نا۔ قارئین اگر امام ابو قطن یہ بات سفیان ثوری سے نہ پوچھتے تو شاید آج تک محدثین یہی ادھوری بات بتاتے اور لکھتے رہتے کہ ابو حنیفہ نے دو بار کفر سے توبہ کی ۔ الغرض محدثین نے ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں ان کےخلاف الزامات کی تحقیق نہیں کی ، جیسی ادھوری کچی پکی روایت سنی وہی آگے بیان کی ۔

 اللہ ان کی مغفرت فرمائے.

(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) 

خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تین مضبوط روایات اور واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:


اعتراضات کی کوئی مضبوط بنیاد نہ تھی: اگر امام ابو حنیفہ واقعی کسی علمی یا دینی خطا کے مرتکب ہوتے تو امام سفیان ثوری جیسے جلیل القدر محدث دلیل اور وضاحت کے ساتھ ان کی غلطی بیان کرتے۔ مگر خاموشی، سر جھکانا، اور استغفار کرنا  اس بات کی علامت ہے کہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کی گئی جروحات اور اعتراضات کی کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔

محض وقتی معاصرت اور دور کے اختلافات کا اثر تھا: امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ ایک ہی زمانے کے عظیم علماء تھے۔ علمی میدان میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاصرین کے درمیان سختی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات بھی زیادہ تر اسی وقتی معاصرت کا نتیجہ تھے، نہ کہ کسی اصولی نقص یا دینی خیانت پر مبنی۔

باطنی اعترافِ عظمت: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ظاہری طور پر کچھ سخت باتیں کہنے کے باوجود جب حقیقت سے سامنا ہوتا، تو امام ابو حنیفہ کی علم پرستی، دیانت، اور سنت کی پیروی کو تسلیم کرتے اور ان پر ہونے والے طعن پر اللہ سے استغفار کرتے۔

امام ابو حنیفہ کی حقانیت کا غیر شعوری اعتراف: انسان کا اصل کردار اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تنہائی یا غیر رسمی گفتگو میں دل کی بات کرتا ہے۔ امام سفیان ثوری کا شاگردوں کے سامنے بار بار امام ابو حنیفہ کی عظمت کا اعتراف اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں وہ امام ابو حنیفہ کو عظیم امام مانتے تھے۔




آخری نتیجہ:

 حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم و تقویٰ کا ایسا روشن مینار تھے کہ ان کے مخالفین بھی جب دیانت سے سوچتے، تو ان کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکتے۔


اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...