نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 50: کہ ابو اسحاق الفزاری نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی تو اس نے کہا کہ اس کو چھوڑ دے ، پھر ایک دن اور حدیث بیان کی تو اس نے کہا اس کو خنزیر کی دم کے ساتھ کھرچ دے۔


 اعتراض نمبر 50: 

کہ ابو اسحاق الفزاری نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی تو اس نے کہا کہ اس کو چھوڑ دے ، پھر ایک دن اور حدیث بیان کی تو اس نے کہا اس کو خنزیر کی دم کے ساتھ کھرچ دے۔


أخبرنا أبو سعيد الحسن بن محمد بن عبد الله بن حسنويه الأصبهاني، أخبرنا عبد الله بن محمد بن عيسى الخشاب، حدثنا أحمد بن مهدي، حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا عبد السلام بن عبد الرحمن، حدثني إسماعيل بن عيسى بن علي الهاشمي قال: حدثني أبو إسحاق الفزاري قال: كنت آتي أبا حنيفة أسأله عن الشئ من أمر الغزو. فسألته عن مسألة، فأجاب فيها، فقلت له: إنه يروي فيها عن النبي صلى الله عليه وسلم كذا وكذا؟ قال: دعنا من هذا؟

قال: وسألته يوما آخر عن مسألة قال فأجاب فيها، قال فقلت له: إن هذا يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه كذا وكذا، فقال: حك هذا بذنب خنزير.


الجواب : میں کہتا ہوں کہ الفزاری نے اس چیز کا کیوں ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے کم عقلی فقیہ ملت کی طرف لوٹتی ہے اور وہ کونسی خبر تھی جس سے ابو حنیفہ نے اعراض کیا؟

 اور وہ کونسی خبر تھی جس کو کھرچ دینے کا اس نے حکم دیا ؟

 تا کہ جماعت کو معلوم ہو جاتا کہ کیا وہ اعراض اور کھرچ دینے کے قابل تھی۔ 

اور راویوں کے پاس کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کو اہل علم رد کرتے ہیں ان کمزوریوں کی وجہ سے جن کو ماہر فن ہی جانتے ہیں۔ 

مگر راوی ان پر اعتماد کرتے ہیں اور ابراہیم بن محمد الفراری کا مرتبہ السیر اور المغازی میں تو ہے مگر ابن سعد اس کو اس میں پسند نہ کرتے تھے۔ اور ذکر کرتے تھے کہ وہ بہت غلطیاں کرنے والا ہے[1]۔

 اور ابن سعد تو السیر اور المغازی میں بہت بڑے امام ہیں[2]۔ اور باوجودیکہ الفرازی اپنے علم میں بہت غلطیاں کرتا تھا جیسا کہ اس کی صراحت ابن سعد نے اپنی طبقات میں اور ابن قتیبہ نے المعارف ص 175 میں کی ہے[3]۔ پھر بھی ہم اس کی کلام کی طرف تب توجہ کرتے جبکہ وہ ان دونوں حدیثوں کو ذکر کر دیتا۔ بے شک روایت میں اس کی اکثر اغلاط ہیں اور مفہوم سمجھنے میں اس کی طبیعت جامد ہے۔ لیکن اس نے جب ان دونوں حدیثوں کو ذکر ہی نہیں کیا تو

اس کی کلام خود بخود ساقط ہو گئی۔

اور اہل علم کے ہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغازی اور سیر کے باب میں بہت سی روایات مقطوع اور مرسل ہیں۔ 

اور ان میں سے جو مسند ہیں تو ان کے راویوں پر کلام بھی بکثرت ہے اور اسی لیے امام احمد نے فرمایا، تین قسم کے علوم ایسے ہیں کہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں اور ان میں المغازی کا بھی ذکر کیا[4]۔ 

تو ابو حنیفہ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ انہوں نے المغازی سے متعلق الفزاری کی ایک یا دو خبروں کو رد کر دیا ہے؟ 

اور اس الفزاری کا اپنے علم میں جو حال ہے وہ آپ نے معلوم کر لیا۔

 اور جو لوگ اپنے مخالف کو دوسروں کی زبانی گالی کو پسند کرتے ہیں ان کے ہاں اس کی زبان درازی خوشی کا مقام ہے۔ 

تو انہوں نے اس کو اس مرتبہ تک بڑھا دیا جو اس کا مرتبہ نہ تھا۔ اور وہ اصل میں کوفہ کا تھا پھر شام میں رہائش اختیار کرلی۔ اور وہ المصیصہ میں مرابط چوکیدار) تھا۔ عبادت گزار بہادر تھا۔ زبان دراز تھا۔ سوائے سیر کے علم کے کسی اور موضوع کی طرف توجہ کرنے والا نہ تھا۔ اپنے زہد اور بکثرت غزوات میں شرکت اور اپنی زبان درازی کی وجہ سے ناقلین کے ہاں بلند مرتبہ تھا۔

 اور ابو حنیفہ اپنی دانش اور اپنی بحث کے دوران زبان کی پرہیز گاری کے اس مقام پر فائز تھے کہ ہم بعید سمجھتے ہیں کہ ان سے یہ الفاظ نکلے ہوں کہ اس کو خنزیر کی دم کے ساتھ کھرچ دے۔ 

اور الوابصی والی خبر کی سند میں عبد السلام بن عبد الرحمن ہے جس کو یحیی بن اکثم نے معزول کر دیا تھا۔ لازمی بات ہے کہ اس کا سبب فقہ میں کمزوری نہیں بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور ہی تھا۔

 پھر حشویہ مذہب والوں

کا جب بازار گرم ہوا تو انہوں نے اس کو دوبارہ قضاء پر بحال کر دیا۔ اور اس (عبد السلام) کا شیخ اسماعیل بن عیسی مجہول راویوں میں سے ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا

[1]۔ وقال ابن سعد: كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه

 (تهذيب التهذيب 1/ 80)

وقال ابن سعد: كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه 

(إكمال تهذيب الكمال 1/ 269)

[2]۔ ایک متعصب غیر مقلد معلمی یمانی غیر مقلد کہتا ہیکہ اگر امام ابن سعد نے ابو اسحاق الفزاری پر جرح کی ہے تو اسی ابن سعد نے امام ابو حنیفہ کو بھی ضعیف کہا ہے۔

جواب : امام ابن سعد رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہا یہ جرح غیر مفسر ہے ، صرف ضعیف کہنے سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہو جاتا ۔

معلمی یمانی کو سر آنکھوں پر بٹھانے والے انگریز دور میں رجسٹرڈ ہونے والے اہلِ حدیث کے محقق زبیر علی زئی لکھتا ہے :

صرف ضعیف یا متروک یا منکر کہنے سے جرح مفسر نہیں ہے۔

(رکعتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص65)۔


جبکہ احادیث میں غلطیاں کرنا یہ جرح مفسر ہے ، اور خود غیر مقلدین اس بارے میں کیا کہتے ہیں پڑھ لیجئے۔

"جو کثیر الغلط، کثیر الاوھام، کثیر الخطا اور سیء الحفظ وغیرہ ہواس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔" 

(نور العینین ص 63 علی زئی )

(جرح وتعدیل ص 29 محمد ابراہیم الحسنوی)


 لہذا ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ پر کثیر الخطا کی جرح مفسر ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح غیر مفسر ہے اور ترجیح "جرح مفسر" کو دی جاتی ہے ۔

[3].ويقول ابن قتيبة في (المعارف) أنه كان كثير الغلط في حديثه

[4]۔ سَمِعْتُ مُحَمد بْنَ سَعِيد الْحَرَّانِيُّ يَقُولُ: سَمعتُ عَبد الْمَلِكِ الْمَيْمُونِيَّ يَقُولُ: سَمعتُ أحمد بن حنبل يقول: ثلاث كُتُبٍ لَيْسَ لَهَا أُصُولٌ: الْمَغَازِي وَالْمَلاحِمُ وَالتَّفْسِيرُ.


( الکامل لابن عدی 1/212)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...