اعتراض نمبر 51: کہ علی بن عاصم نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کے سامنے حدیث پیش کی تو اس نے کہا میں اس کو نہیں لیتا۔ اور ابو اسحاق نے کہا کہ میں نے حدیث پیش کی تو اس نے کہا کہ یہ حدیث خرافہ ہے۔
اعتراض نمبر 51:
کہ علی بن عاصم نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کے سامنے حدیث پیش کی تو اس نے کہا میں اس کو نہیں لیتا۔
اور ابو اسحاق نے کہا کہ میں نے حدیث پیش کی تو اس نے کہا کہ یہ حدیث خرافہ ہے۔
أخبرنا ابن دوما أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا أبو صالح - يعني الفراء - حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: حدثت أبا حنيفة حديثا في رد السيف. فقال هذا حديث خرافة.
وقال الأبار: حدثنا محمد بن حسان الأزرق قال: سمعت علي بن عاصم يقول: حدثنا أبا حنيفة بحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لا آخذ به، فقلت: عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: لا آخذ به
الجواب : میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ابن دوما ، ابن سلمہ الآبار ، الحلوانی اور ابو صالح الفراء ہیں اور اگر اس کی سند میں صرف ابن دوما ہوتا تو اس خبر کو رد کرنے کے لیے اتنی بات ہی کافی تھی[1]۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اہل شام کے ہاں بہت سی ایسی من گھڑت احادیث تھیں جن کو وضع کرنے والوں نے بنی امیہ کے حق میں وضع کیا تھا اور ان میں ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت تھی اور ان کے موضوع ہونے کی اطلاع صرف ماہر فن ہی رکھتے ہیں۔
ابن سعد نے الفزاری کے بارہ میں کہا کہ وہ ثقہ، فاضل اور صاحب سنت اور غزوات میں شرکت کرنے والا تھا اور اپنی حدیث میں اکثر خطا کرتا تھا۔
اور پہلے ابن قتیبہ کا قول اس کے بارہ میں گزر چکا ہے کہ یہ اپنی بات میں بکثرت غلطیاں کرنے والا تھا[2]۔
اور جو شخص حدیث میں اکثر خطا کرنے والا ہو تو وہ بکثرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث کی نسبت کرنے والا ہوگا جو اس کے بیان کردہ طریقہ پر نہیں تو اس کو رد کر دیا جائے گا تو باطل حدیث حدیث خرافہ ہی ہوتی ہے۔
اور پہلے اس کی وضاحت ہو چکی کہ یہ ابو حنیفہ کے بارہ میں لمبی زبان کیوں رکھتا تھا اور اس میں بہت غالی تھا۔ اللہ تعالی اس سے چشم پوشی کا معاملہ فرمائے۔
الحافظ ابن ابی العوام نے ابوبکر محمد بن جعفر بن اعین۔ یعقوب بن شیبہ - محمد بن صالح نے اسماعیل بن داود کو یہ کہتے ہوۓ سنا کہ عبد الله بن المبارک ابو حنیفہ کی روایت سے واقعات و احادیث ذکر کرتے تھے۔ تو جب وہ ثغر (سرحد) میں یعنی المصیصہ میں ہوتے تھے تو ابن المبارک ابو حنیفہ کی روایت سے کوئی چیز بیان نہ کرتے تھے اور جب تک ابن المبارک چلے نہ جاتے اس وقت تک ابو اسحاق الفزاری ابو حنیفہ کے بارہ میں کوئی بری بات ذکر نہ کرتا تھا[3]۔
اور اس میں عبرت ہے۔ اور ابو اسحاق کی کلام صرف اسی چیز پر دلالت کرتی ہے جو اس کے دل میں فقیہ الملہ کے بارہ میں دلی غصہ ہے اور جرح میں اس کی کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے مگر اس صورت میں کہ وہ اس حدیث کو ذکر کرتا جس کا رد ابو حنیفہ نے کیا تھا اور جس کے بارہ میں کہا تھا کہ یہ حدیث خرافہ ہے۔ یا جس کے بارہ میں حکم دیا تھا کہ اس کو کھرچ دے۔ اور جب اس نے یہ نہیں کیا تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس حدیث کے بارہ میں پر اعتماد نہیں تھا۔ تو اس کی اس کارروائی نے کوئی فائدہ نہ دیا سوائے اس کے کہ اس نے اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا۔
اور رہی دوسری خبر تو اس میں بھی ابن دوما اور اس کے بعد والے سارے کے سارے متکلم فیہ راوی ہیں۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر ابو حنیفہ سے ثابت ہے تو کوئی مانع نہیں کہ وہ علی بن عاصم کی بیان کردہ (غیر معیاری) حدیث کے بارہ میں کہیں کہ میں اس کو نہیں لیتا اور ابو حنیفہ دیگر اہل علم کی طرح حق رکھتے ہیں کہ وہ علی بن عاصم کی حدیث کو نہ لیں جس کے لیے منشی حدیثیں لکھتے تھے اور وہ سماع کے اور بغیر صحیح مسودہ کے ساتھ تقابل کرنے کے بغیر ہی ان کو بیان کر دیتا تھا اور کلام اس کے بارہ میں بہت طویل ہے[4]۔
ان کتابوں میں جو ضعیف راویوں کے متعلق لکھی گئی ہیں۔ پس ہلاکت ہے اس کے لیے جو اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام ٹھہراتا ہے اور اپنے رد کو مصطفی ﷺ کا رد قرار دیتا ہے۔
اور ابو حنیفہ تو وہ ہیں جو کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالی کی اس شخص پر لعنت ہو جو رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتا ہے۔
ان ہی کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی اور ان ہی کی
وجہ سے ہم نے نجات پائی ہے۔ جیسا کہ ان کا یہ قول الانتقاء لابن عبد البر ص 141 میں ہے تو
وہ کیسے ایسی حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت ہو۔
اور جو شخص ایسا خیال کرتا ہے تو وہ بہتان تراشی میں بہت دور نکلا ہوا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے حفاظت چاہتے ہیں۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ الحسن بن الحسين بن العباس بن دوما أبو علي النعالي.
بغدادي ضعيف۔۔۔۔قال الخطيب: كتبنا عنه، وكان قد ألحق لنفسه السماع في أشياء
(تاريخ الإسلام)
مزید دیکھیں اعتراض نمبر 22۔
[2]۔ وقال ابن سعد: كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه
(تهذيب التهذيب 1/ 80)
وقال ابن سعد: كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه
(إكمال تهذيب الكمال 1/ 269)
أنه كان كثير الغلط في حديثه
(المعارف 1/514)
[3]. یہی مضمون الانتقاء ت ابو غدہ ص 206 پر موجود ہے۔
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَأنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ إِجَازَةً قَالَ نَا جَدِّي قَالَ نَا مُحَمَّد بن مُسلم قَالَ سَمِعت اسماعيل ابْن دَاوُد يَقُول كَانَ ابْن الْمُبَارك يذكر عَن أَبى حنيفَة كل خير ويزكيه ويقرضه ويثنى عَلَيْهِ وَكَانَ أَبُو الْحسن الفزازى يَكْرَهُ أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانُوا إِذَا اجْتَمَعُوا لَمْ يجترىء ابو اسحق أَنْ يَذْكُرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَضْرَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بشئ
[4]۔ علي بن عاصم بن صهيب الواسطي
الكنية أبو الحسن
النسب التيمي, القرشي, الواسطي
الرتبة متروك الحديث
قال عنه أبو أحمد بن عدي الجرجاني :
الضعف بين على حديثه
قال عنه أبو حاتم الرازي :
لين الحديث يكتب حديثه ولا يحتج به
قال عنه أبو حاتم بن حبان البستي :
كان ممن يخطىء ويقيم على خطئه فإذا بين له لم يرجع
قال عنه أبو حفص عمر بن شاهين :
يجب التوقف فيه
قال عنه أبو زرعة الرازي :
ضعفه، ومرة: إنه تكلم بكلام سوء
قال عنه أبو عبد الله الحاكم النيسابوري :
صدوق
قال عنه أحمد بن حنبل :
يغلط ويخطئ، لم يكن متهما بالكذب، ومرة: أما أنا فأحدث عنه، ومرة: يكتب حديثه، ومرة: هو والله عندي ثقة وأنا أحدث عنہ
قال عنه أحمد بن شعيب النسائي :
ضعيف، ومرة: متروك الحديث
قال عنه أحمد بن صالح الجيلي :
كان ثقة، معروفا بالحديث، والناس يظلمونه في أحاديث يسألون أن يدعها، فلم يفعل
قال عنه ابن حجر العسقلاني :
صدوق يخطئ ويصر ورمي بالتشيع
قال عنه الدارقطني :
في سؤالات أبي عبد الرحمن السلمي، قال: كان يغلط ويثبت على غلطه
قال عنه الذهبي :
ضعفوه، ومرة: متكلم فيه
قال عنه علي بن المديني :
معروف في الحديث، وكان يغلط في الحديث، وروى أحاديث منكرة
قال عنه عمرو بن علي الفلاس :
فيه ضعف، وكان من أهل الصدق
قال عنه محمد بن إسماعيل البخاري :
ليس بالقوي عندهم، وقال مرة: يتكلمون فيه
قال عنه مصنفوا تحرير تقريب التهذيب :
ضعيف يعتبر به
قال عنه يعقوب بن شيبة السدوسي :
ضعيف متروك الحديث
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں